Complete Text of Kalam-e-Tahir
Content sourced fromAlislam.org
Page 1
کلامِ طاہر
KALAM-E-TAHIR
Page 2
Kalaam-e-Tahir-
A collection of Urdu poems of:
Hadhrat Mirza Tahir Ahmad-
Imam and the Head of the Ahmadiyya Muslim Jama'at-
Khalifatul Masih IV
First Published by:
Second (revised) edition in 1997
Third (updated) edition [Germany] in 1998
Fourth (revised and updated) edition Published in UK in 2001
Present Edition in India 2004
Islam International Publications Limited
Present edition published by:
Nazarat Nashro Ishaat
Sadr Anjuman Ahmadiyya
Qadian 143516
Distt.Gurdaspur (Punjab) India
Printed in India by:
Printwell,
146-Industrial Focal Point,
Amritsar (Punjab) India.ISBN 185372 7180 (UK)
ISBN 81-7912-060-0 (India)
Page 3
عرض ناشر
امام جماعت احمد یہ حضرت مرزا طاہر احمد خلیفۃ المسح الرابع حمہ اللہ تعالیٰ کے منظوم مجموعة
کلام ” کلامِ طاہر کی اس سے قبل لجنہ اماءاللہ کراچی نے بہت محنت اور لگن کے ساتھ خوبصورت
اور دیدہ زیب طباعت کروائی تھی.پھر اسکا جدید ایڈیشن سابقہ ایڈیشن میں کی جانے والی بعض
تصحیحات اور ترامیم کے علاوہ نی نظموں کے اضافہ کے ساتھ اسلام انٹرنیشنل پبلیکیشنز لمیٹڈ لندن
نے شائع کیا تھا.اب نظارت نشر و اشاعت قادیان اسلام انٹر نیشنل پبلیکیشنز لمیٹڈ کے نسخہ کو ہی فور کلر میں
مدید جاز بیت پیدا کرنے کی غرض سے شائع کرنے کی سعادت حاصل کر رہی ہے.لیکن " کلامِ
طاہر کے متعلق محترمہ امتہ الباری ناصر صاحبہ کا ایک مضمون بعنوان الہام کلام اس کا کوسیدنا
حضرت اقدس خلیفہ اسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد کے مطابق کہ آئندہ جب بھی ” کلام
طاہر چھپے اس مضمون کو بھی ضرور شامل اشاعت کیا جائے.لہذا حضور انور رحمہ اللہ کی اس
خواہش کو پورا کرتے ہوئے اس ایڈیشن میں مذکورہ مضمون
کو بھی شامل اشاعت کیا گیا ہے.اللہ کرے یہ کلام بہتوں کیلئے راحت و ہدایت کا موجب ہو آمین.ناظر نشر واشاعت، قادیان
Page 4
پیش لفظ
لجنہ اماء الہ ضلع کراچی صد سالہ جشن بنش کر کے موقع پر کتب شائع کرنے کی توفیق پرہی ہے.لیکن
اتنے بڑے شہر میں لگے کبھی سوچا بھی نہ تھا.اللہ تعالی کے احسانات پر قربان جانے کو جی چاہتا ہے.امام جماعت احمدیہ حضرت خلیفة اسمع الرابع رحمہ اللہ تعالی کا منظوم کلام کلام طاہر کی
صورت میں جو آپ کے ہاتھ میں ہے.حضور نے لجنہ کے شعبہ اشاعت کی درخواست پر شائع کرنے کی بجازت
اور سعادت مرحمت فرمائی ہے.اور ساتھ ساتھ پوری رہنمائی بھی کی ہے.دعا کی خاطر عرض کرتی ہوں کہ اس کتاب کی تیاری میں لجنہ اماء اللہ کراچی کی سیکرٹری اشاعت
محترمہ امتہ الباری ناصر کی انتہائی کا دش شامل ہے.انہوں نے کتاب کو مرتب کرنے کے ساتھ ساتھ مشکل
الفاظ کے صحیح تلفظ اور پھر ان کے معانی لکھ کر مطلب سمجھنے میں آسانی پیدا کر دی ہے.اشاعت کے مختلف
مراحل میں جن لوگوں نے تعاون فرمایا ہے.اللہ تعالے سب کو جزا ہائے خیر عطا کرے.اور اس خدمت
کو صدقہ جاریہ بنا دے.قارئین کرام ضرور اپنے محبوب امام کے کلام میں پیار کی جھلک دیکھ کر اُن کی صحت و سلامتی کی دعا
انگیں گے.اللہ تعالٰی اس نام
کو رہتی دنیا تک زندہ و تابندہ رکھے.آمین
Page 5
عرض حال
خدا تعالیٰ کا احسان ہے کہ لجنہ اماءاللہ ضلع کراچی کو نظر ثانی شدہ کلام طا ہر حتی المقد در حسن صورت کے
ساتھ شائع کرنے کی سعادت نصیب ہو رہی ہے.قبل ازیں شائع شدہ کلام ولا سر دیکھ کر خیال آتا یہ مئے عرفان اور
یہ جام کچھ توشایان شان ہونا چاہیے.اپنی بضاعتی کے اس پر کچھ قابو پاک حضور حمد اللہ کی خدمت میں شاعت
کی اجازت مرحمت فرمانے کی درخواست کر دی.اب فقط اتنا یاد ہے کہ کھل جاسم سم، میں نے کہا تھا پر چکا چوند
خزانوں کی بھیڑ یں ایسا کھوئی کہ اب واپس آنے کا ہوش ہے نہ ارادہ.حضور پر نور نے نظر ثانی کی ضرورت کا ذکر
فرمایا اور پھر فاکسر کی درخواستوں پر وقت نکال کر از داو شفقت نظرثانی فرمائی.خاکسار کی خوش قسمتی کہ اس سلسلے میں
آپ جیسے بلند پایہ منی شناس سے کچھ قلمی گفتگو رہی تنقید کی نیم کتب پر بھاری ایک ایک جملہ.الفاظ کی تراش
اور انتخاب کے اسلوب سمجھاتا ہوا.مفاہیم کا سمندر سموئے ایک ایک شعر آپ
کی نکتہ پروری، فن پر گرفت اور عارفانہ
نظر کی ما در ایر بہت قائید نہی ہے.خیرات ہو مجھ کو بھی اک جلوہ عام اس کا
پھر یوں ہو کہ ہو دل پر الہام کلام اس کا
آپ کے کلام کی تہ تک اترنا، وسعتوں کو پانا اور رفعتوں تک نگاہ کر ناصرف اسی صورت میں ممکن ہے کہ
کوئی وہ تمام سفر آپ کے دل و نظر کے ساتھ طے کرے جو آپ نے اللہ پاک
کی انگلی پکڑ کر کیا ہے.اس لئے تحسین
کا حق ادا کرنا متبادکان سے باہر ہے.اس سے آگے قلم کے قدم نہیں اُٹھتے.اس بابرکت کام میں تعاون کرنے والوں کے لئے نہ دل سے ممنونیت کے ساتھ دعا کی درخواست کرتی ہوں.فجزاهم الله تعالى احسن الجزاء في الدارين خيراً
Page 6
تیرا ہی فیض ہے کوئی میری عطا نہیں
این چشمیر روان که خلق خدا دیم
Page 7
نمبر شمار نظم کا پہلا مصرع
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
ترتیب
اک رات مفاسد کی وہ تیرہ و تار آئی
اے شاہ مکی و مدنی، سید الوری
حضرت سید ولد آدم صلی اللہ علیہ وسلم
ذکر سے بھر گئی ربوہ کی زمیں آج کی رات
ہیں بادہ مست بادہ آشام احمدیت
دو گھڑی صبر سے کام لو سا تھیو! آفت ظلمت وجور مل جائے گی
پیغام آرہے ہیں کہ مسکن اُداس ہے
اے مجھے اپنا پر ستار بنانے والے
کیا موج تھی جب دل نے جسے نام خدا کے
دیار مغرب سے جانے والو!دیار مشرق کے باسیوں کو
11 آئے وہ دن کہ ہم جن کی چاہت میں گنتے تھے دن اپنی تسکین جاں کے لئے
12 دیکھو اک شاطر دشمن نے کیسا ظالم کام کیا
13 پورب سے چلی پر نم پرنم با روح و ریحان وطن
تو مرے دل کی شش جہات بنے
14
15 ہر طرف آپ کی یادوں پہ لگا کر پہرے
16 ہم آن ملیں گے متوالو، بس دیر ہے کل یا پرسوں کی
17 گلشن میں پھول، باغوں میں پھل آپ کے لیے
18
19
تری راہوں میں کیا کیا ابتلاروزانہ آتا ہے
دشت طلب میں جابجا، بادلوں کے ہیں دل پڑے
صفحہ نمبر
1
4
7
11
13
15
17
لت میں تق الله الله
19
23
26
28
31
2 5 3 7 ♡
34
41
43
44
46
49
49
53
Page 8
55
58
60
62
64
66
68
71
77
لا لا لا له چای من
74
79
81
85
87
93
94
97
22 55 83
89
99
101
103
20 یہ دل نے کس کو یاد کیا، سپنوں میں یہ کون آیا ہے
21 ان کو شکوہ ہے کہ ہجر میں کیوں تڑپایا ساری رات
جائیں جائیں ہم روٹھ گئے ، اب آکر پیار جتائے ہیں
23 وقت کم ہے.بہت ہیں کام.چلو
24
جو درد سسکتے ہوئے حرفوں میں ڈھلا ہے
25 گھٹا کرم کی، ہجوم بلا سے اُٹھی ہے
26 اپنے دیس میں اپنی بستی میں اک اپنا بھی تو گھر تھا
27 کبھی اذن ہو تو عاشق دریار تک تو پہنچے
نہ وہ تم بدلے نہ ہم، طور ہمارے ہیں وہی
29
تری بقا کا سفر تھا قدم قدم اعجاز
30 ہے حسن میں ضو غم کے شراروں کے سہارے
31 یہ پُر اسرار دھندلکوں میں سمویا ہوا غم
32
33
34
35
بہار آئی ہے ، دل و قف یار کر دیکھو
ہیں آسمان کے تارے گواہ، سورج چاند
تو خوں میں نہائے ہوئے ٹیلوں کا وطن ہے
جب اپنی راہ اُس کے فرشتے کریں گے صاف
36 آؤ سجنو مل ہی.تے گل اوس یار دی چلتے
37 مرے درد کی جو دوا کرے، کوئی ایسا شخص ہوا کرے
38 اک برگد کی چھاؤں کے نیچے
39
خدا کرے کہ مرے اک بھی ہم وطن کے لیے
اذانیں دے کے دُکھاؤ نہ دل خدا کے لئے
Page 9
104
106
107
109
111
112
113
116
120
123
126
129
132
134
41 سوچا بھی کبھی تم نے کہ کیا بھید ہے مُلاں
43
44
Have you ever pondered over the secret - O Mullah
جھو ٹو تم نے ٹھیک الزام دھرا ہو گا
توحید کے پر چارک.مرے مرشد کا نام محمد ہے
45 دن آج کب ڈھلے گا.کب ہو گا ظہورِ شب
46 جاتی ہو میری جان خدا حافظ و ناصر
47 روٹھ کے پانی ساگر سے جب بادل بن اُڑ جائے
تم نے بھی مجھ سے تعلق کوئی رکھا ہوتا
شه ن ج چ حه به همه ما ل میں لا اله الا ان الان
42
48
49
50
اذن نغمہ مجھے تو دے تو میں کیوں نہ گاؤں
منصورہ لے کر آئی ہے
51 ہارٹلے پول میں کل ایک کنول ڈوب گیا
اے عظیم.انڈونیشیا
52
53 دور از آتا ہے گھر پر ہمارے ٹی وی پر
54 باپ کی ایک غم زدہ بیٹی
Page 10
نمبر شمار
ابتدائی کلام کے چند نمونے
نظم کا پہلا مصرع
55 تیرے لئے ہے آنکھ کوئی اشکبار دیکھ
56
57
لوح جہاں پہ حرف نمایاں نہ بن سکے
بہیں اشک کیوں تمہارے انہیں روک لو خدارا
58 کبھی اپنا بھی اک شناسا تھا
59 میرے بھائی آپ کی ہیں سخت چنچل سالیاں
60 گو جدائی ہے کٹھن دور بہت ہے منزل
61
62
63
64
65
2
بذل حق محمود سے میری کہانی کھو گئی
منتظر میں ترے آنے کا رہا ہوں برسوں
اک پیسہ پیسہ جوڑ کر بھائیوں نے شوق سے
یہ دو آنکھیں ہیں شعلہ زا.یا جلتے ہیں پروانے دو
ہیں لوگ وہ بھی چاہتے ہیں دولتِ جہاں ملے
66 اُف یہ تنہائی تری الفت کے مٹ جانے کے بعد
صفحہ نمبر
138
140
141
142
144
145
146
147
149
151
152
154
Page 11
الله
ظہورِ خیر الانبياء علي
اک رات مفاسد کی وہ تیرہ و تار آئی جو نور کی ہر مشکل ظلمات پہ وار آئی
تاریکی په تاریکی ، گمراہی پر گمراہی ابلیس نے کی اپنے لشکر کی صف آرائی
طُوفانِ مفاسد میں غرق ہو گئے بحر و بر ایرانی و فارانی - رومی و بخارائی
بن بیٹھے خدا بندے.دیکھا نہ مقام اُس کا
طاغوت کے چیلوں نے ہتھیا لیا نام اُس کا
تب عرش معلی سے اک نور کا تخت اُترا اک فوج فرشتوں کی ہمراہ سوار آئی
اک ساعت نورانی ، خورشید سے روشن تر پہلو میں لئے جلوے بے حد وشمار آئی
کافور ہوا باطل ، سب ظلم ہوئے زائل اُس شمس نے دیکھلائی جب شانِ خود آرائی
ابلیس ہوا غارت ، چوپٹ ہوا کام اُس کا
توحید کی یورش نے در چھوڑا نہ بام اُس کا
Page 12
وہ پاک محمد ہے ہم سب کا حبیب آقا انوار رسالت ہیں جس کی چمن آرائی
محبوبی و رعنائی کرتی ہیں طواف اُس کا قدموں پہ نثار اُس کے جمشیدی و دارائی
نبیوں نے بھائی تھی جو بزم مہ و انجم واللہ اُسی کی تھی سب انجمن آرائی
دن رات درُود اُس پر ہر ادنی غلام اُس کا
پڑھتا ہے بصد منت جیتے ہوئے نام اُس کا
آیا وہ غنی جس کو جو اپنی دعا پہنچی ہم ڈر کے فقیروں کے بھی تخت سنوار آئی
ظاہر ہو وہ جلوہ جب اُس سے نگہ پلٹی خود حُسنِ نظر اپنا سو چند نکھار آئی
اے پشم جواں دیدہ کھل گھل کہ سماں بدلا اے فطرت خوابیدہ اُٹھ اُٹھ کہ بہار آئی
، اللہ امام اُس کا
نبیوں کا امام آیا
سب تختوں سے اونچا ہے تخت عالی مقام اُس کا
اللہ کے آئینہ خانے سے شریعت کی نکلی وہ دُلہن کر کے جو سولہ سنگار آئی
اُترا وہ خدا کو و فارانِ محمد پر موسیٰ کو نہ تھی جس کے دیدار کی یا رائی
سب یادوں میں بہتر ہے وہ یاد کہ کچھ لمحے جو اُس کے تصور کے قدموں میں گزار آئی
وہ ماہِ تمام اُس کا ، مہدی تھا غلام اُس کا
روتے ہوئے کرتا تھا وہ ذکر مدام اُس کا
2
Page 13
:
☐
مرزائے غلام احمد تھی جو بھی متاع جاں کر بیٹھا نثار اُس پر.ہو بیٹھا تمام اُس کا
دل اُس کی محبت میں ہر لحظہ تھا رام اُس کا اخلاص میں کامل تھا وہ عاشق تام اُس کا
اس دور کا یہ ساقی ، گھر سے تو نہ کچھ لایا نے خانہ اس کا تھارئے اُس کی تھی، جام اُس کا
سازندہ تھا یہ، اس کے.سب ساجھی تھے میت اُس کے
و ھن اس
کی تھی ، گیت اُس کے لب اس کے، پیام اُس کا
اک میں بھی تو ہوں یا رب ، صیدہ دام اُس کا دل گا تا ہے گن اس کے ملب چہیتے ہیں نام اُس کا
آنکھوں کو بھی دکھلا دے، آنالپ بام اُس کا کانوں میں بھی رس گھولے، ہر گام خرام اُس کا
خیرات ہو مجھ کو بھی.اک جلوہ عام اُس کا پھر یوں ہو کہ ہو دل پر ، الہام کلام اُس کا
اُس بام سے نور اُترے نغمات میں ڈھل ڈھل کر
نغموں سے اُٹھے خوشبو ، ہو جائے سُرود عنبر
28 28 28
یہ نعت (192ء میں لکھی تھی.بعد میں اس میں بعض اضافوں
اور تبدیلیوں کے ساتھ پہلے ۱۹۹۳ء کے جلسہ سالانہ انگلستان
یں اور پھر جلسہ سالانہ جرمنی میں پڑھی گئی.
Page 14
اے شاہ مکی و مدنی سید الوری
بزبان حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام)
اس کی شان نزول یہ ہے کہ رویا میں ایک شخص کو دیکھا کہ انتہائی درد میں ڈوبی ہوئی نے کے ساتھ حضرت اقدس
مسیح موعود علیہ السلام کی ایک نعت اس انداز سے پڑھ رہا ہے گویا آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم سامنے ہوں اور حضرت مسیح موعود
علیہ السلام کی طرف سے آپ کے حضور حال دل پیش کیا جارہا ہو.آپ کا وہ کلام تو اٹھنے پر لفظاً لفظا میرے ذہن میں نہیں
تھا مگر اس کے ٹیپ کا مصرعہ
ع اے میرے والے مصطفیٰ
خوب ذہن پر نقش ہو گیا کیونکہ وہ اسے بار بار ایک خاص کیفیت میں ڈوب کر د ہرا تا تھا.پس اسی روز گویا حضرت
مسیح موعود علیہ السلام کی نمائندگی میں اس اثر کو اپنے لفظوں میں ڈھالنے کی کوشش کی جو
اس نعت کو سنتے ہوئے دل پر نقش ہو گیا.اگر چہ معین الفاظ کی صورت میں نہیں ڈھلا.اور کوشش یہی تھی کہ حضرت
مسیح موعود
علیہ السلام کی نعتوں میں سے ہی کچھ مضمون اخذ کر کے پیش کیا جائے اور جہاں ممکن ہو آپ ہی کے اشعار زینت کے طور پر
جود یے جائیں.اے شاہِ مکی و مدنی ، سید الوری تجھ سا مجھے عزیز نہیں کوئی دوسرا
تیرا غلام در ہوں ، ترا ہی اسیر عشق تو میرا بھی حبیب ہے ، محبوب کبریا
Page 15
!
تیرے جلو میں ہی میرا اٹھتا ہے ہر قدم چلتا ہوں خاک پا کو تیری چومتا ہوا
تو میرے دل کا نور ہے، اے جانِ آرزو روشن تجھی سے آنکھ ہے، اے نیر بدی
ہیں جان و جسم ، سو تری گلیوں پر ہیں نثار اولاد ہے، سو وہ ترے قدموں پہ ہے فِدا
تو وہ کہ میرے دل سے جگر تک اتر گیا میں وہ کہ میرا کوئی نہیں ہے تیرے سوا
اے میرے والے مصطفیٰ، اے سید الوری
اے کاش ہمیں سمجھتے نہ ظالم جدا جدا
رب جلیل کی ترا دل جلوہ گاہ سینہ ترا جمال الہی کا مستقر
ہے
قبلہ بھی تو ہے، قبلہ نما بھی تیرا وجود شانِ خدا ہے تیری اداؤں میں جلوہ گر
نور و بشر کا فرق مٹاتی ہے تیری ذات " بعد از خدا بزرگ توئی قصہ مختصر
تیرے حضورتہ ہے مرا زانوئے ادب میں جانتا نہیں ہوں کوئی پیشوا دگر
تیرے وجود کی ہوں میں وہ شارخ با شمر جس پر ہر آن رکھتا ہے ربُّ الوری نظر
ہر لحظہ میرے در پئے آزار ہیں وہ لوگ جو تجھ سے میرے قرب کی رکھتے نہیں خبر
مُجھ سے عناد و بغض و عداوت ہے اُن کا دیں اُن سے مجھے کلام نہیں لیکن اس قدر
اے وہ کہ مُجھ سے رکھتا ہے پر خاش کا خیال ” اے آں کہ سوئے من پر ویدی بصد تمر
Page 16
از باغباں پترس که من شارخ متمرم
خدا بعشق محمد محترم
بعد
از
گر کفر این بود بخدا سخت کارفرم
آزاد تیرا فیض زمانے کی قید سے بر سے ہے شرق و غرب پر یکساں تر اگرم
تو مشرقی نہ مغربی اے نور شش جہات تیرا وطن عرب ہے، نہ تیرا وطن عجم
تو نے مجھے خرید لیا اک نگہ کے ساتھ اب تو ہی تو ہے تیرے سوا میں ہوں کالعدم
ہر لحظہ بڑھ رہا ہے میرا تجھ سے پیار دیکھ سانسوں میں بس رہا ہے ترا عشق دم بدم
میری ہر ایک راہ تری سمت ہے رواں تیرے سوا کسی طرف اٹھتا نہیں قدم
اے کاش مجھ میں قوت پرواز ہو تو میں اُڑتا ہوا بڑھوں ، تری جانب سُوئے حرم
تیرا ہی فیض ہے کوئی میری عطا نہیں " این چشمہ رواں کہ خلق خدا دہم
یک قطره زبحر کمال محمد است
جان و دلم فدائے جمال محمد است
خاگم نثار کوچه آل محمد است
Page 17
صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّم
سید ولد آدم
،
صلى الله علیه وسلم
سب نبیوں میں افضل و اکرم ، صلى الله علیه وسلم
محمد ، کام مكرم
صلی اللہ علیہ وسلّم
ہادی کامل ، زبیر اعظم ، صلى الله علیه وسلم
آپ کے جلوہ حُسن کے آگے ، شرم سے نوروں والے بھاگے
مہر و ماہ نے توڑ دیا دم ، صلى اللہ علیہ وسلّم
اک جلوے میں آنا فانا بھر دیا عالم ، کردیے روشن
اثر دکھن پورب پچھتم صلی اللہ علیہ وسلم
،
اول و آخر شارع و خاتم
صلی
الله
6
7
Page 18
ختم ہوئے جب گل نبیوں کے دور نبوت کے افسانے
بند ہوئے عرفان کے چشمے ، فیض کے ٹوٹ گئے پیمانے
تب آئے وہ ساقی کوثر ، مست مئے عرفان ، پیمبر
مُغانِ بادۂ اطہر ، کے نوشوں کی عید بنانے
گھر آئیں گھنگھور گھٹائیں ، جھوم اُٹھیں مخمور ہوائیں
جھک گیا ابر رحمت باری ، آب حیات کو برسانے
کی سیراب بلندی پستی ، زندہ ہوگئی بستی بستی
بادہ گشوں پر چھا گئی مستی ، اک اک ظرف بھرا برکھا نے
برسات کرم کی
صلی
الله
چارہ گروں کے غم کا چارہ ، دُکھیوں کا امدادی آیا
*
☆
راہنما بے راہرووں کا راہبروں کا ہادی آیا
$
عارف کو عرفان سکھانے ، متقیوں کو راہ دکھانے
جس کے گیت زبور نے گائے ، وہ سردار مُنادی آیا
انہیں الف کی مد کے ساتھ راہ نما اور ر آہ بروں پڑھنا ہے.8
Page 19
وہ جس کی رحمت کے سائے یکساں ہر عالم پر چھائے
وہ جس کو اللہ نے خود اپنی رحمت کی ردا دی ، آیا
صدیوں کے مُردوں کا گی ، صَلَّ عَلَيهِ كَيفَ يُحْـي
موت کے چنگل انسان کو دلوانے آزادی آیا
جس کی دعا ہر زخم کا مرہم
صلی
الله
علیہ
شیریں بول ، انفاس مطهر ، نیک خصائل ، پاک شمائل
حامل فرقاں ، عالم و عامل ، علم و عمل دونوں میں کامل
جو اُس کی سرکار میں پہنچا ، اُس کی یوں پکٹا دی کایا
کبھی بھی خام نہیں تھا ، ماں نے جنا تھا گویا کامل
اُس کے فیضِ نگاہ سے وحشی ، بن گئے حلم سکھانے والے
مُعطى
بن گئے شہرہ عالم ، اُس عالی دربار کے سائل
نبیوں کا سرتاج
، ابنائے آدم کا معراج محمد
ایک ہی جست میں طے کر ڈالے ، وصل خدا کے ہفت مراحل
صلی
الله
تاریخی
کا
بنده
Page 20
وہ احسان کا افسوں پھونکا ، موہ لیا دل اپنے عدو کا
کب دیکھا تھا پہلے کسی نے ، حُسن کا پیکر اس خُوبو کا
نخوت کو ایشیار میں بدلا ، ہر نفرت کو پیار میں بدلا
عاشق جان نثار میں بدلا ،
پیاسا تھا جو خار لہو کا
اُس کا ظہور ، ظہور خدا کا ، دکھلایا یوں نور خدا کا
طاری کردیا عالم بہو کا
بتکدہ ہائے لات و منات
ظلمات کا گھیرا ، دُور کیا ایک ایک اندھیرا
توڑ دیا
جَاءَ الحَقُّ وَزَهَقَ الْبَاطِل - إِنَّ البَاطِلَ كَانَ زَهُوقًا
گاڑ
دیا
توحید کا
پرچم
صلی
الله
وسلم
شعر میں یہاں وقف کرنا ہے اس لئے باطل کی بجائے باطل پڑھا جائے
10
Page 21
آج کی رات
ربوہ میں ۲۷ رمضان المبارک کی رات کے روح آفریں مناظر سے متاثر ہوکر
ذکر سے بھر گئی ربوہ کی زمیں آج کی رات اُتر آیا ہے خداوند یہیں آج کی رات
شہر.جنت کے ملا کرتے تھے طعنے جس کو بن گیا واقعہ خُلدِ بریں آج کی رات
وا در گرید، کشا دیده و دل ، لب آزاد کس مزے میں ہیں جرے خاک نشیں آج کی بات
کوچے کوچے میں بپاشور" متى نصر الله لا جرم نصرت باری ہے قریں، آج کی رات
جانے کس فکر میں للکاں ہے میرا کافر گر
"
ادھر اک بار جو آ نکلے کہیں آج کی رات
غیر مسلم“ کسے کہتے ہیں.اُسے دکھلائے ایک اک ساکن ربوہ کی جبیں ، آج کی رات
کافر و ملحد و دجال بلا سے ہوں مگر تیرے عشاق کوئی ہیں تو ہمیں.آج کی رات
Page 22
آنکھ اپنی ہی تیرے عشق میں ٹپکاتی ہے وہ لہو جس کا کوئی مول نہیں.آج کی رات
دیکھ اس درجہ غم ہجر میں روتے روتے مر نہ جائیں ترے دیوانے کہیں.آج کی رات
جن پہ گزری ہے وہی جانتے ہیں.غیروں کو
کیسے بتلائیں کہ تھی کتنی حسیں آج کی رات
کاش اُتر آئیں یہ اُڑتے ہوئے سیمیں لمحات
کاش یوں ہو کہ ٹھہر جائے یہیں آج کی رات
12
لهند
:
Page 23
خُدام احمدیت
ہیں بادہ مست بادہ آشام احمدیت چلتا ہے دور مینا و جام احمدیت
تشنہ لبوں کی خاطر ہر سمت گھومتے ہیں تھامے ہوئے سبوئے گلفام احمدیت
خدام احمدیت ، خدام احمدیت
جب دہریت کے دم سے مسموم تھیں فضائیں پھوٹی تھیں جا بجا جب الحاد کی وبائیں
تب آیا اک مُنادی.اور ہر طرف صدادی آؤ کہ ان کی زد سے اسلام کو بچائیں
زور دعا دکھائیں ، خُدام احمدیت
پھر باغ مصطفے کا روحیان آیا دوالمین کو سینچا پھر آنسوؤں سے احمد نے اس چمن کو
آہوں کا تھا بلاوا پھولوں کی انجمن کو اور کھینچ لائے نالے مُرغان خوش سخن کو
لوٹ آئے پھر وطن کو ، خذام احمدیت
13
Page 24
چمکا پھر آسمان مشرق پہ نام احمد مغرب میں جگمگایا ماہِ تمام احمد
وہم و گماں سے بالا عالی مقام احمد ہم ہیں غلام خاک پائے غلام احمد
مُرغانِ دَامِ احمد ، خُدامِ احمدیت
ربوہ میں آجکل ہے جاری نظام اپنا پر قادیاں رہے گا مرکز مدام اپنا
تبلیغ احمدیت دنیا میں کام اپنا دارالعمل ہے گویا عالم تمام اپنا
پوچھو جو نام اپنا ، خُدام احمدیت
اُٹھو کہ ساعت آئی اور وقت جارہا ہے پیر مسیح دیکھو کب سے جگا رہا ہے
دیر بعد آیا از راه دور لیکن وہ تیز گام آگے بڑھتا ہی جارہا ہے
گو
تم کو بلا رہا ہے ، خدام احمدیت !
X X X
ی ظلم ربوہ کی تعمیر کے دوران ۱۹۴۸ء میں کہی گئی تھی.بعض اضافوں اور تبدیلیوں کے ساتھ ۱۹۸۹ء میں صد سالہ جشن تشکر کے موقع پر پڑھی گئی.14
Page 25
مرد حق کی دُعا
دو گھڑی صبر سے کام لو ساتھیو! آفتِ ظلمت و کور ٹل جائے گی
آو مومن سے ٹکرا کے طوفان کا ، رُخ پلٹ جائے گا ، رُت بدل جائے گی
دعائیں کرو یہ دُعا ہی تو تھی ، جس نے توڑا تھا سر کبر نمرود کا
ہے ازل سے یہ تقدیر نمرودیت ، آپ ہی آگ میں اپنی جل جائے گی
یہ دُعا ہی کا تھا معجزہ کہ عصا ، ساحروں کے مقابل بنا اثر دھا
آج بھی دیکھنا مُردِ حق کی دُعا ، سحر کی ناگنوں کو نگل جائے گی
خوں شہیدانِ اُمت کا اے کم نظر ، رائیگاں کب گیا تھا کہ اب جائے گا
ہر شہادت ترے دیکھتے دیکھتے ، پھول پھل لائے گی ، پھول پھل جائے گی
ہے تیرے پاس کیا گالیوں کے ہوا ، ساتھ میرے ہے تائید رب الوریٰ
نکل چلی تھی جو لیکھو یہ تیل دعا ، آج بھی ، اذان ہوگا تو چل جائے گی
15
Page 26
دیر اگر ہو تو اندھیر ہرگز نہیں ، قولِ اُملِي لَهُم إِنَّ كَيْدِى مَتِين
سنت الله ہے لاجرم بالیقیں ، بات ایسی نہیں جو بدل جائے گی
یہ صدائے فقیرانہ حق آشنا ، پھیلتی جائے گی شش جہت میں سدا
تیری آواز اے دُشمن بد نوا دو قدم دور دو تین پل جائے گی
عصر بیمار کا
مرض لا دوا ، کوئی
ہے
6
چاره
نہیں اب دُعا کے سوا
اے غلام مسیح اتر ماں ہاتھ اُٹھا ، موت بھی آگئی ہو تو مل جائے گی
16
(جلسه سالانه ربوه ۱۹۸۳ء)
Page 27
موسیٰ پکٹ کہ وادی ایمن اُداس ہے
پیغام آرہے ہیں کہ مسکن اُداس ہے طائر کے بعد اس کا نشیمن اداس ہے
اک باغباں کی یاد میں سرو و سمن اُداس اہل چمن فسردہ ہیں گلشن اُداس ہے
مرگیس کی آنکھ نم ہے تو لالے کا داغ اُداس غنچے کا دل خیز میں ہے تو سوسن اُداس ہے
ہر موج خون گل کا گریباں ہے چاک چاک ہر گل بدن کا پیرہن تن اُداس ہے
آزرده گل بہت ہیں کہ کانٹے ہیں شاد کام برق تپاں نہال، کہ خرمن اُداس ہے
سینے پہ غم کا طور لئے پھر رہا ہے کیا موسیٰ پکٹ کہ وادی ایمن اُداس ہے
ئس نامہ بر ، اب اتنا تو جی نہ دُکھا کہ آج پہلے ہی دل کی ایک اک دھڑکن اُداس ہے
بن باسیوں کی یاد میں کیا ہوں گے گھر اُداس جتنا کہ بن کے باسیوں کا من اُداس ہے
مجنوں کا دشت اُداس ہے صحنِ چمن اُداس صحرا کی گود ، لیلیٰ کا آنگن اُداس ہے
چشم بریں میں آ تو ہے ہو مرے حبیب کیوں پھر بھی میری دید کا مسکن اُداس ہے
17
Page 28
گھبرا کے درد ہجر سے اے مہمانِ عشق جس من میں آکے اترے ہو وہ من اُداس ہے
آنکھوں سے جو لگی ہے جھڑی تھم نہیں رہی آکر ٹھہر گیا ہے جو ساون اُداس ہے
کس یار دوست اور نہ کر فرش دل پہ رقص سن اکستنی تیرے پاؤں کی جھانجن اور اس ہے
تو نغمہ ہائے درد نہاں تم بھی کچھ سنو دیکھونا ، میرے دل کی بھی راگن اُداس ہے
(جلسہ سالانہ یو کے ۱۹۸۴ء)
18
Page 29
}
آ رہے ہیں مری بگڑی کے بنانے والے
اے
مجھے
اپنا
پرستار
بنانے
والے
جوت اک پریت کی ہر دے میں جگانے والے
سرمدی پریم کی آشاؤں کو دھیرے
دھیرے
مدھ بھرے سر میں مدھر گیت سُنانے والے
اے
محبت
کے امر
ریپ
جلانے
والے
پیار کرنے
کرنے کی مجھے
ریت
سکھانے والے
فرقت
میں
کبھی
اتنا
رُلانے
والے
کبھی دلداری کے جُھولوں میں چھلانے والے
کر دل کو نکلتا
ہوا ہاتھوں
کبھی
رس بھری لوریاں دے
دے
کے سُلانے والے
19
Page 30
کیا ادا ہے میرے خالق ، میرے مالک ، میرے گھر
چھپ کے چوروں کی طرح رات کو آنے والے
راہ گیروں کے بسیروں میں ٹھکانا کر کے
ہے
ٹھکانوں کو
بنا ڈالا
ٹھکانے
والے
مجھ سے بڑھ کر میری بخشش کے بہانوں کی تلاش
کس نے دیکھے تھے کبھی ایسے بہانے والے
تو تو ایسا نہیں محبوب کوئی اور ہوں گے
تو تو
وہ
جو کہلاتے ہیں دل توڑ کے جانے والے
ہر بار سر ره
سے پکٹ آتا
ہے
دل میں ہر سمت پل پل میرے آنے والے
مجھ سے بھی تو کبھی کہہ رَاضِيــة مـــــرضــــــه
بیتاب ہے رُوحوں کو بلانے
اس طرف بھی ہو کبھی ، کاشف اسرار ، نگاه
می
روح
ہم بھی
والے
ہیں ایک تمنا کے چھپانے والے
درد کو سینے میں بسانے والے
اپنی پلکوں
مے
اشک سجانے والے
20
Page 31
خاک آلوده
،
پراگنده زبوں حالوں کو
کھینچ کر قدموں
ނ
زانو
بٹھانے والے
شکایت
آقا!
میں کہاں اور کہاں حرف
ہاں یونہی ہوں اُٹھتے
ہیں ستانے والے
ہو اجازت تو تیرے پاؤں پہ سر رکھ کے کہوں
کیا ہوئے دن تیری غیرت کے دکھانے والے
ہو روتے ہی رہ جائیں ترے در کے فقیر
اور ہنس ہنس کے روانہ ہوں رُلانے والے
ہم نہ ہوں گے تو ہمیں کیا ؟ کوئی کل کیا
وقت
آج دکھلا
دیکھے
جو دکھانا
ہے
دکھانے
والے
ہے وقت مسیحا کسی اور کا وقت
کون
ہیں
تیری تحریر
مٹانے
والے
چھین لے ان سے زمانے کی عناں مالک وقت
6
بنے پھرتے ہیں کم اوقات - زمانے والے
چشم گردُوں نے کبھی پھر نہیں دیکھے وہ لوگ
آئے پہلے بھی تو تھے آکے
بھی تو تھے آکے نہ جانے والے
21
Page 32
سُن رہا ہوں قدم مالک تقدیر کی چاپ
آرہے ہیں مری بگڑی کے بنانے
کرو تیاری ! بس اب آئی تمہاری باری
یوں ہی ایام پھرا کرتے ہیں باری باری
و توکل گزاری باری
ہم نے تو صبر و
ہاں مگر
مگر تم
بہت
ہوگی
بھاری باری
22
والے
(جلسہ سالانہ یو کے ۱۹۸۴ء)
Page 33
دل سے زباں تک
کیا موج تھی جب
دل نے جیسے نام خدا کے
اک ذکر کی دھونی میرے سینے میں رہا
آہیں تھیں کہ تھیں ذکر کی
کے
گھنگھور
گھٹائیں
نالے تھے کہ تھے سیل رواں حمد ثنا کے
Люби
دیئے اُسلوب
بہت صبر
رضا
کے
اب
اور نہ لمبے کریں دن کرب
,
بلا کے
اُکسانے کی خاطر تیری غیرت تیرے
کیا مجھ
بندے
دعا مانگیں ستم گر کو سُنا کے
رکھ لاج کچھ ان کی میرے ستار کہ
زخم
جو دل میں پُچھیا رکھے ہیں پتلے ہیں کیا کے
23
Page 34
لاکھوں
میرے
پیارے تیری را ہوں
کے مسافر
پھرتے ہیں تیرے پیار کو سینوں میں بسا کے
کتنے
६
ہی
پابند
سلاسل
وہ
گنہگار
نکلے
جو
سینوں
ترا
نام
سجا
کے
میں اُن جدا ہوں مجھے کیوں آئے کہیں چین
سے
دل منتظر اُس دن کا کہ ناچے انہیں
کے
عشاق
ترے
چین
کا قدم تھا قدم
صدق
جال
دے
دی نبھاتے ہوئے
اڑ گئی سایہ
چھت اُڑ گئی
ارمانوں کے دن جاتے
اتنا تو کریں اُن کو بھی کر کبھی دیکھیں
وفا
پیمان
کے
رہا
کتنے سروں پر
رہے
پیٹھ دکھا کے
ایک ایک
کہیں
ނ
لگا کے
آداب محبت
کے
غلاموں کو
سیکھا
کے
کیا چھوڑ
دیا کرتے
ہیں
دیوانه
بنا
کے؟
مُجھ کو اجازت کہ کبھی میں بھی تو رُوٹھوں
دیں
لطف آپ بھی لیں رُوٹھے غلاموں کو منا کے
24
Page 35
عين
دیوانه
ہوں دیوانه
زیبا
نہیں شکوے میرے
مالک
ہوگئی
اوقات بھلا
کے
برا
مان
جانا
صدقے میری جاں ، آپ کی ہر ایک ادا کے
سنیئے تو سہی پگلا
ناراض بھی ہوتا
ہے دل پگلے کی باتیں
کوئی دل کو لگا کے
ہے
ٹھہریں تو ذرا دیکھیں خفا ہی تو نہ ہو
تو کچھ
جانا ہے
6
جائیں
درس تو دیں صبر و رضا کے
جو چاہیں کریں صرف نگہ ہم نہ پھیریں
جو کرنا
ہے
کر گزریں
مگر
اپنا
فطرت
میں نہیں تیری غلامی
کے
سوا
نوکر ہیں ازل سے تیرے چاکر ہیں سدا کے
آئیں تو پھر
اس بار جب آپ آئیں
کر گزروں گا
25
کے
کے تو دیکھیں
جا
کے ذرا دیکھیں تو جا کے
(جلسہ سالانہ یو کے ۱۹۸۶ء)
Page 36
اے میرے سانسوں میں بسنے والو
دیار مغرب سے جانے والو! دیارِ مشرق کے
جانے والو! دیارِ مشرق کے باسیوں کو
لمحہ
کسی غریب الوطن مُسافر کی چاہتوں کا سلام کہنا
ہمارے شام و سحر کا کیا حال پوچھتے
حال پوچھتے ہو کہ لمحہ
نصيب ان کا بنا رہے ہیں تمہارے ہی صُبح و شام کہنا
تمہاری خوشیاں جھلک رہی ہیں مرے مُقدر کے زائچے میں
تمہارے خونِ جگر کی کے سے ہی میرا بھرتا ہے جام کہنا
،
الگ نہیں کوئی ذات میری تمہی تو ہو کائنات میری
تمہاری یادوں سے سے ہی معنون ہے زیست کا انصرام کہنا
اے میرے سانسوں میں بسنے والو ! بھلا جُدا کب ہوئے تھے مجھ سے
خدا نے باندھا ہے
جو تَعلُّق رہے
گا قائم مدام کہنا
26
Page 37
تمہاری
خاطر ہیں میرے نغمے ، مری دعائیں تمہاری دولت
تمہارے درد و
الم
سے تر ہیں مرے سجود و قیام کہنا
تمہیں مٹانے کا زعم لے کر اُٹھے ہیں جو خاک کے بگولے
خدا اُڑا دے گا خاک اُن کی ، کرے گا رُسوائے عام کہنا
خدا کے شیرو! تمہیں نہیں زیب خوف جنگل کے باسیوں کا
گرجتے
آگے بڑھو کہ زیر نگیں کرو
بساط دنیا اُلٹ رہی
رہی ہے
فتح
جهان
ہر مقام
کہنا
حسین اور پائیدار نقشے
بدل رہا ہے نظام.کہنا
کہنا
کو کے اُبھر رہے ہیں
و ظفر تھائی تمہیں خدا نے اب آسماں پر
فتح
نشان
ظفر
ہے
لکھا گیا تمہارے ہی نام
بڑھے چلو شاہراہ دین متیں درانا
سائیاں ہے
تمہارے سر پر خدا کی رحمت قدم قدم
گام گام کہنا
(جلسہ سالانہ یو کے ۱۹۸۶ء)
27
Page 38
پھول تم پر فرشتے نچھاور کریں
آئے وہ دن کہ ہم جن کی چاہت میں گنتے تھے دن اپنی تسکین جاں کے لئے
پھر وہ چہرے ہویدا ہوئے جن کی یادیں قیامت تھیں قلب تپاں کے لئے
جن کے اخلاص اور پیار کی ہر ادا ، بے غرض ، بے ریا ، دلنشیں ، دلربا
بے صدا جن کی آنکھوں کا کرب و بلا ، کربلا ہے دل عاشقاں کے لئے
پیار کے پھول دل میں سجائے ہوئے ، نور ایماں کی شمعیں اُٹھائے ہوئے
قافلے دور دیسوں سے آئے ہوئے ، غمزدہ اک بدلیں آشیاں کے لئے
ویر
کے بعد اے ڈور کی راہ سے آنے والو ! تمہارے قدم کیوں نہ لیں
میری ترسی نگاہیں کہ تھیں منتظر ، اک زمانے سے اس کارواں کے سئے
پھول تم پر فرشتے نچھاور کریں ، اور کشادہ ترقی کی راہیں کریں
آرزوئیں مری جو دُعائیں کریں ، رنگ لائیں میرے مہماں کے لئے
28
Page 39
میرے آنسو تمہیں دیں زم زندگی ، دُور تم سے کریں ہر غم زندگی
میہماں کو ملے جو دم زندگی
قوم
، وہی امرت بنے میزباں کے لئے
نور کی شاہراہوں پہ آگے بڑھو ، سال کے فاصلے لمحوں میں طے کرو
خوں بڑھے میرا تم جو ترقی کرو ، قرة العین
ہو سارباں کے لئے
تم چلے آئے میں نے جو آواز دی ، تم کو مولیٰ نے توفیق پرواز دی
پر کریں ، پر شکستہ وہ کیا جو پڑے رہ گئے پشمک دُشمناں کے لئے
میری ایسی بھی ہے ایک رُودادِ غم ، دل کے پردے پر ہے خون سے جو رقم
دل میں وہ بھی ہے اک گوشہ محترم ، وقف ہے جو غم دوستاں کے لئے
یاد آئی جب اُن کی گھٹا کی طرح ، ذکر اُن کا چلا ئم ہوا کی طرح
بجلیاں دل پہ کڑکیں بلا کی طرح ، رُت بنی خُوب آہ و فغاں کے لئے
پھر افق تا افق ایک قوس قزح ، اُن کے پیکر کا آئینہ بن کر بھی
اک حسیں یاد لے جیسے انگڑائیاں عالم خواب میں خُفتگاں کے لئے
ہر تصور سے تصویر ابھرنے لگی ، نام بن کر زُباں پر اُترنے لگی
ذکر اتنا حسیں تھا کہ ہر لفظ نے فرط الفت سے بوسے زباں کے لئے
اُن کی چاہت میرا مدعا بن گیا ، میرا پیار اُن کی خاطر دُعا بن گیا
بالیقیں اُن کا ساتھی خدا بن گیا وہ بنائے گئے آسماں کے لئے
،
Seats
29
Page 40
حبس کیسا ہے میرے وطن میں جہاں ، پا بہ زنجیر ہیں ساری آزادیاں
ہے فقط ایک رستہ جو آزاد ہے ، یورشِ سیل اشک رواں کے لئے
ایسے طائر بھی ہیں جو کہ خُود اپنے ہی آشیانے کے بینکوں میں محصور ہیں
اُن کی بگڑی بنا میرے مُشکل گشا ، چارہ کر کچھ غم بیکساں کے لئے
بن کے تسکین خود اُن کے پہلو میں آ ، لاڈ کر ، دے اُنھیں لوریاں ، دل بڑھا
بکہ بلا ، یا بتا کتنے دن اور ہیں صبر کے امتحاں کے لئے ؟
دور کر
30
(جلسہ سالانہ یو کے ۱۹۸۷ء)
Page 41
جَاءَ الحَقُّ وَزَهَقَ البَاطِل
دیکھو اک شاطر دشمن نے کیسا ظالم کام کیا
پھینکا مکر کا جال اور طائر حق زیر الزام کیا
ناحق ہم مجبوروں کو اک تہمت دی جلادی کی
قتل کے آپ ارادے باندھے ہم کو عبث بدنام کیا
دیکھو پھر تقدیر خدا نے ، کیسا اُسے ناکام کیا
مکر کی ہر بازی اُلٹا دی ، دجل کو طشت از بام کیا
اُلٹی
کیا
پڑ گئیں سب تدبیریں کچھ نہ دعا نے کام
دیکھا اس بیماری دل نے ، آخر کام تمام کیا
زنده باد غلام احمد ، پڑ گیا جس کا دشمن جھوٹا
جَاءَ الحَقُّ وَزَهَقَ البَاطِل ، أَنَّ البَاطِلَ كَانَ زَهُوقًا
31
Page 42
جب سے خُدا نے ان عاجز کندھوں پر بار امانت ڈالا
راہ میں دیکھو کتنے کٹھن اور کتنے مہیب مراحل آئے
بھیڑوں کی کھالوں میں لیٹے ، کتنے گرگ ملے رستے میں
مقتولوں کے بھیس میں دیکھو ، کیسے کیسے قاتل آئے
آخر شیر خدا نے پھر کر ، ہر بن باسی کو للکارا
کوئی مبارز ہو تو نکلے ، سامنے کوئی مسائل آئے
ہمت کس کو تھی کہ اُٹھتا ، کس کا دل گردہ تھا نکلتا
کس کا پتا تھا کہ اُٹھ کر ، مردِ حق کے مقابل آئے
آخر طاہر سچا نکلا ، آخر ملاں نکلا جھوٹا
جَاءَ الحَقُّ وَزَهَقَ البَاطِل ، انَّ البَاطِلَ كَانَ زَهُوقًا
ملاں کیا روپوش ہوا اک ، پلتی بھاگوں چھینکا ٹوٹا
اپنے مُریدوں کی آنکھوں میں بجھونکی دُھول اور پیسہ لوٹا
قریہ قریہ فساد ہوئے تب ، فتنہ گر آزاد ہوئے سب
احمدیوں کو بستی بستی پکڑا دھکڑا مارا کوتا
کر ڈالیں مسمار مساجد کوٹ لئے کتنے ہی معاہد
جن کو پلید کہا کرتے تھے، لے بھاگے سب اُن کا جوٹھا
32
Page 43
کاٹھ کی ہنڈیا کب تک چڑھتی ، وہ دن آنا تھا کہ پھٹتی
وہ دن آیا اور فریب کا ، چوراہے میں بھانڈا پھوٹا
کہتے ہیں پولیس نے آخر ، کھود پہاڑ نکالا چوہا
جَاءَ الحَقُّ وَزَهَقَ البَاطِل ، أَنَّ البَاطِلَ كَانَ زَهُوقًا
جاؤں ہر دم تیرے وارے ، میرے جانی میرے پیارے
تو نے اپنے کرم سے میرے ، خود ہی کام بنائے سارے
پھر اک بار گڑھے میں تو نے ، سب دُشمن بچن چن کے اُتارے
کر دیئے پھر اک بار ہمارے آقا کے اُونچے مینارے
اے آڑے وقتوں کے سہارے ، سُبحان اللہ یہ نظارے
اک دشمن کو زندہ کر کے مار دیئے ہیں دشمن سارے
دیکھا کچھ.مغرب کے اُفق سے کیسا سچ کا سُورج نکلا
مجھ گئے ویب طلسم نظر کے بیٹ گئے جھوٹ کے چاند ستارے
اپنا منہ ہی کر لیا گندا ، پاگل نے جب چاند پر تھوکا
جَاءَ الحَقُّ وَزَهَقَ الْبَاطِل ، انَّ البَاطِلَ كَانَ زَهُوقًا
33
جلسہ سالانہ یو کے ۱۹۸۸ء)
Page 44
کس حال میں ہیں یارانِ وطن
پورب
برکھا برکھا
سے
چلی پرنم پرنم باد روح و ریحان وطن
اُٹھے
اُڑتے اڑتے پہنچے پچھم سُندر سُندر مُرغانِ وطن
یادیں اُٹھیں ، طوفاں طوفاں جذبے
بلائیں برسانے ، لیکے باد
باد و باران وطن
سینے
آبیٹھ مُسافر پاس ذرا
،
مجھے قصہ اہل درد سُنا
اُن اہل وفا کی بات بتا ، ہیں جن سے خفا سگان وطن
اور اُن کی جان کے دشمن ہیں جو دیوانے ہیں جانِ وطن
اے دیس سے آنے والے بتا.کس حال میں ہیں یارانِ وطن
34
Page 45
بسم اللہ جو گوئے دار سے چل کر سُوئے یار آئے
آنکھوں
پر ہر راہ خدا کا مُسافر ، سو سو بار آئے
یہ سب کے نصیب کہاں ، ہر ایک میں کب یہ طاقت ہے
کہ پیار کی پیاس بجھانے کو وہ سات سمندر پار آئے
میں اب سمجھا ہوں وہ کیفیت کیا ہوتی ہے جب دل کو
ہر دُور اُفتاده اولیس
سے بڑھ کر پیار آئے
لخت جگر
ان مجبوروں کا حال بھلا کیا جانیں تن آسان وطن
اے دیس سے آنے والے بتا کس حال میں ہیں یارانِ وطن
ہے تجھ
تو جور و جفا کی نگری ، صبر و وفا کے دیس سے آیا ہے
عیاں میرے پیاروں پر غیروں نے ستم جو ڈھایا ہے
آنکھوں میں رقم شکووں کی کتھا ، آہوں میں بجھے نالوں کی صدا
میرے محبوبوں
کیا میرے نام یہی ہیں بتا جو تو سندیسے لایا ہے؟
صبح و مسا ، پڑتی ہے کیسی کیسی بکلا
برسوں گئے ان اندیشوں کا سایہ ہے
میری روح
پر
35
1
Page 46
|
کیا ظلم و ستم رہ جائیں گے اب دُنیا میں پہچان وطن
اے دیس سے آنے والے بتا کس حال میں ہیں یارانِ وطن
ظالم بد بخت کا نام نہ لے ، بس مظلوموں کی باتیں کر
آزرده محکوموں کی باتیں کر
حاکم کا ذکر نہ چھیڑ
وہ جن سے لله
لِله بَیر ہوئے ، جو اپنے وطن میں غیر ہوئے
ان تختہ مشق ستم مجبوروں محروموں کی باتیں کر
جیلوں میں رضائے باری کے جو گہنے پہنے بیٹھے ہیں
ان راه خدا کے اسیروں کی ، اُن معصوموں کی باتیں کر
جن کی جبینوں کے انوار سے روشن ہیں زندان وطن
اے دیس سے آنے والے بتا کس حال میں ہیں یاران وطن
وہ
کیا اب بھی عوام وہاں ، جب بگڑیں بھاگ ، اذانیں دیتے ہیں
سیلاب تھیڑے ماریں تو سب جاگ اذانیں دیتے ہیں
36
Page 47
ہے
کیا اب بھی سفید مناروں سے نفرت کی منادی ہوتی
دھرتی کے نصیب اُجڑتے ہیں جب ناگ اذانیں دیتے ہیں
سے یارانے
بلبل کو دیس نکالا ہے اور زاغ و زغن
ہر سمت چمن کی منڈیروں پر کاگ اذانیں دیتے ہیں
محرومِ اذاں گر ہیں تو فقط مُرغان خوش الحان وطن
اے دیس سے آنے والے بتا کس حال میں ہیں یارانِ وطن
اک ہم ہی نہیں چھنتے چھلتے چن کے سب حق معدوم ہوئے
رفته رفته آزادی سے سب اہل وطن محروم ہوئے
چلتا ہے وہاں اب کاروبار سکہ نوکر شاہی کا
اور کالے دھن کی فراوانی سے سب دھندے مخدوم ہوئے
ملا
آزاد کہاں وہ ملک جہاں قابض ہو سیاست پر
جو شاہ بنے بے تاج بنے ، جو حاکم تھے محکوم ہوئے
اور گھر کے مالک ہی بن بیٹھے باوردی دربانِ وطن
اے دیس سے آنے والے بتا کس حال میں ہیں یارانِ وطن
37
Page 48
بخیر
سُورج ہی نہیں ڈوبا اک شب سب چاند ستارے ڈوب گئے
ظلمات کی طغیانی میں نور کے دھارے ڈوب گئے
نفرت کا طوفان اُٹھا ، ہر شہر سے امن و امان اُٹھا
جلب زَر کا شیطان اُٹھا ، مفلس کے سہارے ڈوب گئے
وہ
اے قوم تیرا حافظ ہو خدا ، ٹالے سر
ٹالے سر سے ہر ایک بلا
تا حد نظر سیل عصیاں ، ہر سمت کنارے ڈوب گئے
بے کس بے بس کیا دیکھ رہی ہے اب چشم حیران وطن
اے دیس سے آنے والے بتا کس حال میں ہیں یارانِ وطن
اُس رحمت عالم ابر کرم کے
وہ
وہ
آگ بجھانے آیا تھا
کیسے متوالے ہیں
آگ لگانے والے ہیں
والی تھا مسکینوں کا بیواؤں اور یتیموں کا
"
یہ ماؤں بہنوں کے سر کی چادر کو جلانے والے ہیں
سخا کا شہزادہ تھا بُھوک مٹانے آیا تھا
وہ
و
یہ ٹھوکوں کے ہاتھوں کی روٹی چھین کے کھانے والے ہیں
38
Page 49
یہ زر کے پجاری بیچنے والے ہیں دین و ایمان وطن
اے دیس سے آنے والے بتا کس حال میں ہیں یارانِ وطن
ظالم مت بھولیں بالآخر مظلوم کی باری آئے گی
مکاروں پر
پتھر کی لکیر
یا
ہر
فکر کی
ہر
تقدير
بازی اُلٹائی جائے گی
، مٹا دیکھو گر ہمت ہے
ظلم مٹے گا دھرتی سے یا دھرتی خود مٹ جائے گی
مگر انہی پر الٹے گا
کا
ہر بات مخالف جائے گی
بالآخر میرے مولا کی تقدیر ہی غالب آئے گی
جیتیں گے ملائک ، خائب و خاسر ہوگا ہر شیطان وطن
اے دیس سے آنے والے بتا کس حال میں ہیں یارانِ وطن
اک روز تمہارے سینوں بھی وقت چلائے گا آرا
ٹوٹیں گے مان تکبر کے بکھریں گے بدن پارہ پارہ
39
Page 50
مظلوموں کی آہوں کا دھواں ظالم کے اُفق گجلا دے گا
نظاره
نمرود جلائے جائیں گے دیکھے گا فلک
کیا حال تمہارا ہوگا جب شداد ملائک آئیں گے
سب ٹھاٹھ دھرے رہ جائیں گے جب لاد چلے گا بنجارا
ظالم ہوں گے رُسوائے جہاں ، مظلوم بنیں گے آنِ وطن
اے دیس سے آنے والے بتا کس حال میں ہیں یاران وطن
(جلسہ سالانہ یو کے ۱۹۸۹ء)
40
Page 51
آ مرے چاند میری رات بنے
تو مرے دل کی شش جہات بنے اک نئی میری کائنات بنے
تو جو میرا بنے تو بات بنے
جو تیرا ہے لاکھ ہو میرا
نچ ہے مجھ سے منقطع ہر ذات جس کا تو ہو اُسی کی ذات بنے
عالم رنگ و بُو کے گل بوٹے! خواب ٹھہرے ، توہمات بنے
سادہ باتوں کا بھی ملا نہ جواب سب سوالات مظلمات بنے
یہ شب و روز و ماه و سال تمام کیسے پیمانہ صفات بنے!
ہوئی میزان ہفتہ کب آغاز؟ کیسے دن رات سات سات بنے؟
عالم حیرتی کے مندر میں کبھی بُت مظہر صفات بنے
کبھی مخلوق ہو گئی ہمہ اوست آتش و آب ، عین ذات بنے
کتنے منصور چڑھ گئے سر دار کتنے نعرے تعلیات بنے
41
Page 52
جو
کتنے غزلی بنے ؟ مٹے گے بار ؟ کتنے لات اُجڑے کتنے لات بنے
کتنے محمود آئے ، کتنی بار سومنات اُجڑے ، سومنات بنے
کھنڈر تھے محل بنائے گئے کتنے محلوں کے کھنڈرات بنے
عالم بے ثبات میں شب و روز آج کی جیت کل کی مات بنے
تیرے مُنہ کے سنگ نہانے بول دل کے بھاری معاملات بنے
دن بہت بے قرار گزرا ہے آ مرے چاند ، میری رات بنے
المحمر اب صد ساله جشن تشکر نمبر - مرتبه لجنہ کراچی ۱۹۸۹ء)
1
42
Page 53
برطرفا وباؤن لگا کریم
جی کڑا کر کے میں بیٹھاتھا کہ ایسے
کر
ناگہاں
43
مهم
Page 54
ہم آن ملیں گے متوالو!
ہم آن ملیں گے متوالو ، بس دیر ہے گل یا پرسوں کی
تم دیکھو گے تو آنکھیں ٹھنڈی ہوں گی ، دید کے ترسوں کی
،
ہم آمنے سامنے بیٹھیں گے تو فرط طرب دونوں کی
آنکھیں ساون برسائیں گی اور پیاس بجھے گی برسوں کی
ثم
دُور دُور کے دیسوں سے جب قافلہ قافلہ آؤ گے
تو میرے دل کے کھیتوں میں ، پھولیں گی فصلیں سرسوں کی
یہ عشق و وفا کے کھیت رضا کے خوشوں سے لد جائیں گے
موسم بدلیں گے ، رُت آئے گی سائن ! پیار کے درسوں کی
میرے بھولے بھالے حبیب
مجھے لکھ لکھ کر کیا سمجھاتے ہیں
کیا ایک اُنہی کو دُکھ دیتی ہے ، جدائی لمبے عرصوں لی؟
44
Page 55
یہ بات نہیں وعدوں کے لمبے لیکھوں کی ، تم دیکھو گے
ہم آئیں گے ، جھوٹی نکلے گی ، لاف خدا نائرسوں کی
ڈور ہوگی گلفت عرصوں کی
اور پیاس بجھے گی برسوں کی
ہم گیت مکن کے گائیں گے
پھولیں گی فصلیں سرسوں کی
45
الفضل ربوه - صد سالہ جشن تشکر نمبر ۱۹۸۹ء)
Page 56
غزل آپ کے لئے
گلشن میں پھول ، باغوں
باغوں میں پھل آپ
جھیلوں
میری بھی آرزو
اشکوں
مژگاں بنیں
کھل
کے
رہے ہیں کنوں آپ کے لئے
اجازت ملے تو میں
اک پروؤں غزل آپ کے لئے
حکایت دل کے
لئے حکم
ہو روشنائی ، آنکھوں کا جل آپ کے لئے
ان آنسوؤں کو چرنوں گرنے کا اذن
دل آپ کا
ہو
آنکھوں میں جو رہے ہیں مچل آپ کے لئے
ہے
6
آپ کی جان ، آپ کا بدن
غم بھی لگا
ہے جان گئل آپ کے لئے
46
Page 57
میں آر ہی کا ہوں وہ میری زندگی نہیں
جس
گو آرہی ہے
ماہر
،
زندگی کے آج نہ کل آپ کے لئے
ہی گیتوں کی بازگشت
ہے میرے
نغمه
سرا ہیں دشت
فراق
گزرا
آ جائیے کہ سکھیاں
موسم
گئے
ہم جیسوں کے بھی
ظاہر
ہوا
یہ
ہے
غمر
چین
و
جیک آپ کے لئے
دراز
غم
کوئی پل آپ کے لئے
میل مل کے گائیں گیت
ہیں کتنے بدل آپ کے لئے
دید
کے سامان ہو گئے
تھا حُسنِ ازل آپ کے لئے
صلی اللہ علیہ وسلم
یہ تین شعر اصل نعتیہ کلام کا حصہ نہیں اور غزل کی روایت کے مطابق قافیوں کی رعایت سے الگ
مضمون میں الجھ گئے ہیں، اس لئے ان
کو نعتیہ کلام کا حصہ نہ سمجھا جائے.اب
حسرتیں کسی ہیں وہاں آرزوؤں نے
خوابوں میں
جو
بنائے محل آپ کے
لئے
47
Page 58
گیر ہیں تمام گھل گئیں
جو آرزوئے
وصل
رکھ چھوڑا ہے اس عقدے کا حل آپ کے لئے
گل آنے کا جو وعده تھا آکر تو دیکھتے
،
طرح گل آپ کے لئے
کس طرح
تڑپا تھا کوئی کس
48
(جلسہ سالانہ یو کے ۱۹۸۹ء)
Page 59
وفا کا امتحان
انہی
تیری راہوں میں
میں کیا کیا ابتلا
روزانہ آتا ہے
وفا کا امتحاں لینا مجھے کیا کیا نہ
اُحد اور مکہ اور طائف انہی راہوں
شعب
پر
تشنہ لبوں کی
کی آزمائش کو
آتا
ملتے ہیں
و دانہ آتا
جو طالب بے آب و
ہے
کہیں گرب و بکا کا اک کڑا
ویرانہ آتا ہے
پشاور
مرا شہزادہ نے کر جان کا نذرانہ آتا
اے عشق و وفا کے جرم میں سنگسار کرتے ہیں
انہی راہوں
سنگستان کابل کو
ہے
تو ہر پتھر
دم
تیج
دانه
دانہ آتا
ہے
49
49
Page 60
جہاں اہلِ جفا اہل وفا پر وار کرتے ہیں
سیر وار اُن کو
ہر
منصور
کو لٹکانا آتا
ہے
جہاں شیطان مومن پر
رمی کرتے ہیں
وہ
راہیں
جہاں پتھر
ہے
مرد حق کو سر ٹکرانا آتا
جہاں پسران باطل عورتوں وار کرتے ہیں
تر مردان کو
پر
"
شيوة
مردانه آتا
ہے
کبھی سکھر ، کبھی سکرنڈ جاتی ہیں
یہی راہیں
انہی
،
پر
پنوں عاقل واره اور لڑکا نہ آتا
ہے
کبھی ذکر
قتها حیدر آباد ان
ملتا
ہے
کہیں تو ابشاہ کا
وکھ گھرا
افسانہ آتا
ليل
کوئٹہ کی
ہے
داستان
ظلم
و
سقا کی
ہے
کہیں اوکاڑہ اور لاہور اور بچیانہ آتا
کہیں
ہے
ماجرائے گجرانوالہ کی لہو
کہیں اک سانحہ ٹوپی کا
سفاکانہ آتا
پاشی
ہے
خوشاب
اور ساہیوال اور فیصل آباد اور
سرگودھا
بلائے ناگہاں اک نت
نیا
مولانا
آتا
ہے
50
Page 61
معايد
شریروں
سے مٹا کر کلمه توحید
کو عباد اللہ کا
آئے
دن
دل بر مانا
آتا
ہے
کیا انداز ہیں کیسے چکن ہیں کیسی رسمیں ہیں
انہیں تو
ہر
طریق نامسلمانانہ
آتا
ہے
بگولے بن
اڑ جانا روش غول بیاباں کی
بن کے اُڑ
ہمیں آپ بقا پی کر امر ہو
جانا آتا
ہماری خاک پا کو بھی عدو کیا خاک پائے گا
ہمیں رکنا نہیں آتا اسے
چلنا
نہ آتا
ہے
ہے
اسے رُک رُک کے بھی تسکین جسم و جاں نہیں ملتی
ہمیں مثل
صبا چلتے ہوئے
ستانا
آتا
ہے
تصور ان دنوں جس ره بھی ربوہ پہنچتا ہے
ہے
کبھی
ہر
اُس راه ننکانہ آتا
ہے
پر
یادوں کی اک بارات یوں دل میں اُترتی ہے
که گویا رند تشنہ لب کے گھر کے خانہ آتا ہے
عجب مستی ہے یاد یار کے بن کر برستی ہے
سرائے دل میں ہر محبوب دل رندانہ آتا
ہے
51
Page 62
وہیں
رونا
بجر یار میں بس فرق
ہے اتنا
کے آتا تھا اب آزادانہ آتا ہے
(جلسه سالانه امریکہ ۱۹۸۹ء)
52
Page 63
دَشتِ طلب میں
طلب میں جا بجا
6
بادلوں کے ہیں دل پڑے
کاش کسی کے دل سے تو چشمہ فیض اُبل
بے آسراؤں کے
لئے کوئی تو اشکبار
ہو
پیاس بجھے غریب کی تشنہ کیوں کو گل
دردوں دُکھوں سے لد گیا
سموم
چمن
آه فقیر
ނ
مرے
اشک اُبل اُبل پڑے
چشم خویں کے پار اُدھر درد نہاں کی جھیل پر
رکھلتے ہیں کیوں کسے خبر ، حسرتوں کے گنول پڑے
شود و زیاں سُرور و غم ، روشنیوں کے زیر و بم
آس مجھے تو پاس کے ریپ کی کو اُچھل پڑے
53
}
Page 64
چاند نے پی ہوئی تھی رات ڈول رہی تھی کائنات
،
نور کی کے اُتر رہی تھی ، عرش
گئی
بزم شش جہات
ور
و
میکده
ނ
، جیسے کل پڑ.پڑے
تجليات
چھوڑ کر بند نکل نکل
حرم کو چھوڑ کر
حال دل سُنا
پڑے
مبر کا درس ہو چکا اب ذرا حال
کہتے ہیں تجھ کو ناصحا چین نہ ایک پل پڑے
آنکھ میں پھانس کی طرح ہجر کی شب اٹک گئی
اے میرے آفتاب آ رات ملے تو گل پڑے
کون ره فراق
سے
کوٹ کے پھر نہ آ سکا
کس کے نقوش منتظر
راه
خدا میں
منزل مرگ
ره
گئے
ہے
محل پڑے
مچل گئے
ہم بھی رُکے رُکے سے تھے ، اذن ہوا تو چل پڑے
(61990)
54
Page 65
یہ دل نے کس کو یا د کیا
یہ دل نے کس کو یاد کیا ، سپنوں میں یہ کون آیا ہے
جس سے سپنے جاگ اٹھے
سینے جاگ اٹھے ہیں خوابوں نے نور کمایا ہے
گل بوٹوں ، کلیوں ، پتوں سے ، کانوں سے خوشبو آنے لگی
اک عنبر بار تصور نے یادوں کا چمن مہکایا ہے
گل رنگ شفق کے پیراہن میں قوس قزح کی پینگوں
اک یاد کو جھولے
کو جھولے دے د.دے دے کر پگلے نے دل بہلایا ہے
دیکھیں تو سہی دن کیسے کیسے حُسن کے رُوپ میں ڈھلتا ہے
بدلی نے شفق کے چہرے پر
جس رُخ دیکھیں ہر من موہن تیرا مکھڑا ہی تکتا
کالا گیئو
ہے
لہرایا ہے
ہر اک محسن نے تیرے حسن کا ہی احسان اُٹھایا ہے
55
Page 66
میرے دل کے افق پر لاکھوں چاند ستارے روشن ہیں لیکن
جو ڈوب چکے ہیں اُن کی یادوں نے منظر دھندلایا ہے
جب مالی دارغ جدائی دے مُرجھا جاتے ہیں گل بوٹے
فُرقت نے کیسے پھول سے چہروں
سے چہروں کو گملا یا
دیکھیں
ہے
یہ کون ستارہ ٹوٹا جس سے سب تارے بے نور ہوئے
کس پندرما نے ڈوب کے اتنے چاندوں کو گہنایا ہے
کیا جلتا ہے کہ چمنیوں سے اُٹھتا ہے دُھواں آہوں کی طرح
اک درد به داماں سرمئی رت نے سارا افق گجلایا ہے
کوئی احمدیوں کے امام سے بڑھ کر کیا دنیا میں غنی ہوگا
ہیں سچے دل اس کی دولت اخلاص اس کا سرمایا ہے
اے دشمنِ دیں! ترا رزق فقط تکذیب کے تھوہر کا پھل ہے
شیطاں نے تجھے صحراؤں میں اک باغ سبز دکھایا ہے
ہے
میں ہفت افلاک کا پنچھی ہوں ، مرا نور نظر آکاشی
تو اوندھے چلنے والا اک
والا اک بے مُر
بے مُرشد چوپایہ ہے
بانٹ کے دُکھ مرا تن من دھن اپنا بیٹھے
سکھ کے ساتھی تھے ہی پرائے کون گیا ، کون آیا ہے
ساتھی
56
Page 67
غفلت میں عمر کی رات کئی ، دل میلا بال سفید ہوئے
اٹھ چلنے کی تیاری کر ، سورج سر پر چڑھ آیا ہے
(جلسہ سالانہ یو کے ۱۹۹۰ ء )
57
i
Page 68
1
کون پیا تھا؟ کون پر یمی؟
اُن کو شکوہ ہے کہ ہجر میں کیوں تڑپایا ساری رات
چن کی خاطر رات کٹا دی ، چین نہ پایا ساری رات
اُن کے اندیشوں میں دل نے کیسے کیسے گھبرا کر
سجی
سینے کے دیوار و در ، سر ٹکرایا ساری رات
یادوں کی محفل ، مہمانوں نے تاپے ہاتھ
نے اپنا کوئلہ کوئلہ
أن
ت
دل دہکایا ساری رات
شکوہ کیا جن کی یاد نے بیٹھ کے پہلو میں
ساری رات آنکھوں میں کائی
<
ورد بٹایا ساری رات
اُن سے شکایت کس منہ سے ہو جن کے ہوں احسان بہت
جن کی گومل یاد نے دُکھتا دل سہلایا ساری رات
58
Page 69
!
گرد آلود تھا پتہ پتہ
ٹوٹ کے یادیں برسیں ،
کلی کلی کھلائی ہوئی
ہر بوٹا نہلایا ساری رات
روتے روتے سینے پر سر رکھ کر سو گئی اُن کی یاد
کون پیا تھا ؟ کون پریمی ؟ بھید نہ پایا ساری رات
وہ یاد آئے جن کے آنسو تھے غم کی خاموش گتھا
میرے سامنے بیٹھ کے روئے ، دکھ نہ بتایا ساری رات
رات
وہ یاد آئے جن کے آنسو پونچھنے والا کوئی نہ تھا
سوجے نین دکھائے اپنے اور رُلایا ساری
بچے بھوکے گریاں ترساں ، دیپک کی کو لرزاں لرزاں
کٹیا میں افلاس کے بھوت کا نا چا سایا ساری رات
مجھ
ہے
ڈولا
اوروں کے دُکھ درد میں تو کیوں ناحق جان گنواتا
کو کیا کوئی بے شک تڑپے ، ماں کا جایا ساری رات
صُبح صادق
صادق پر صدیقوں کا
صدیقوں کا ایمان نہیں
اندھی رات کے گھور اندھیروں نے بہکایا ساری رات
راتوں کو خُدا سے پیار کی کو اور صبح جُوں سے یارانے
نادان گنوا بیٹھے دن کو جو یار کمایا ساری رات
(جلسہ سالانہ یو کے ۱۹۹۰ء)
59
Page 70
ہم نے تو آپ کو اپنا اپنا، کہہ کر لا کھ بلا بھیجا
ی نظم استاذی المکرم حضرت ملک سیف الرحمن صاحب کی یاد میں ۱۹۹۰ء میں کہی گئی
اور ان ہی کی زبانی اپنے آپ کو مخاطب کر کے کہی تھی
جائیں جائیں ہم رُوٹھ گئے ، اب آکر پیار جتائے ہیں
جب ہم خوابوں کی باتیں ہیں ، جب ہم یادوں کے سائے ہیں
ت
اب کس کو بھیج بلائیں گے ، کیسے سینے لگائیں گے
مر کر بھی کوئی کوٹا ہے ، سائے بھی کبھی ہاتھ آئے ہیں
کیا قبروں پر رو رو کر ہی ، مکینوں کی پیاس بجھا لیں گے
کیا یوں بھی کسی نے رُوٹھے یار منا کر بھاگ جگائے ہیں
جو آنکھیں مُند گئیں رو رو کر.اور گھل گھل کے جو چراغ بجھے
اب اُن کی پچھلی یادوں میں ، کیا بیٹھے نیر بہائے ہیں
60
Page 71
جو
صبح کا رستہ تکتے تکتے ، اندھیاروں میں خواب ہوئے
اُن کے بعد آپ اُن کے لئے ، کیا خاک سویرے لائے ہیں
ہم نے تو آپ کو اپنا اپنا
کہہ کر لاکھ بلا بھیجا
اس پر بھی آپ نہیں آئے ، آپ اپنے ہیں کہ پرائے ہیں
اب آپ کی باری ہے تڑپیں ، اب آپ ہمیں آوازیں دیں
سوتے میں نہیں روتے جاگیں کہ خواب ملن کے آئے ہیں
ہم جن راہوں پر مارے گئے سچ کی روشن راہیں تھیں
ظالم نے اپنے ظلم سے خود ، اپنے ہی افق دھندلائے ہیں
وہ
ہم ابھی بسے ہیں اپنے خوابوں کی سرمد تعبیروں میں
آپ اب
ہر خوشبو اور ہر رنگ کے لاکھوں پھول کھلے ہیں آنگن میں
پھر چند گلوں کی یادیں کیوں ، کانٹوں کی طرح تڑپائے ہیں
تک فانی دنیا میں ، سپنوں سے دل بہلائے ہیں
ہم سر افراز ہوئے رُخصت ، ہے آپ سے بھی امید بہت
یہ یاد رہے کس باپ کے بیٹے ہیں ، کس ماں کے جائے ہیں
(جلسہ سالانہ جرمنی ۱۹۹۰ء)
61
Page 72
ہو تمہی کل کے قافلہ سالار
وقت کم ہے.بہت ہیں کام.چلو ملگجی
سجی
ہو رہی ہے شام.چلو
زندگی اس طرح تمام نہ ہو کام رہ جائیں ناتمام - چلو
کہہ رہا ہے خرامِ بادِ صبا
منزلیں
جب تلک دم چلے مُدام چلو
شام چلو
دے رہی ہیں آوازیں صُبح محو سفر ہو ،.چلو
ساتھیو! میرے ساتھ ساتھ رہو قُربتوں کا لئے پیام
تم اُٹھے ہو تو لاکھ اُجالے اُٹھے تم چلے ہو تو برق گام چلو
کبھی ٹھہرو تو مثلِ ابرِ بہار جب برس جائے فیض عام.چلو
رات جاگو مہ و نجوم کے ساتھ دن کو سورج سے ہم خرام چلو
ہو تمہی کل کے قافلہ سالار آج بھی ہو تمہی امام.چلو
تم
سے وابستہ ہے جہانِ نو تمہیں سونپی گئی
آگے بڑھ کر قدم تو لو
زمام
-
چلو.دیکھو ہے تمہارے نام.چلو
عبد
62
Page 73
پیشوائی کرو.تمہاری طرف
آرہا ہے نیا نظام
اے خُوشا.دل بیار.دَست بکار بہر در پہر شاد کام چلو
میرے پیارو! خدا کے پیاروں پر
دائماً
بھیجتے
سلام
زیر و بم میں دلوں کی دھڑکن کے موجزن ہو خدا کا نام
چلو
دل
اُٹھے جو نعرہ تکبیر
ہو ریا
غم دُنیا کی دوا غم عشق
ہے
سے ہمکلام
چلو
عیسی
نہیں
6
ہوا قوم
عشق
عالم میں اک بپا کر
پیار کا
غلغلم
63
رو
تلاطم
عشق
(جلسہ سالانہ یو کے ۱۹۹۱ء)
Page 74
0
کشکول میں بھر دے جو مِرے دل میں گھر ا ہے.جو درد سکتے ہوئے حرفوں میں ڈھلا ہے شاید کہ یہ آغوشِ جُدائی میں پلا ہے
غم دے کے کے فکر مریض شب غم ہے یہ کون ہے جو درد میں رس گھول رہا ہے
یہ کس نے میرے درد کو جینے کی طلب دی دل کس کے لئے عمر خطر مانگ رہا ہے
ہر روز نئے فکر ہیں ، ہر شب ہیں نئے غم یا رب یہ مرا دل ہے کہ مہمان سرا ہے
ہیں کس کے بدن دیس میں پابند سلاسل پردیس میں اک رُوح گرفتار بلا ہے
کیا تم کو خبر ہے کہ مولا کے اسیرو! تم سے مجھے اک رشتہ جہاں سب سے سوا ہے
آ جاتے ہو کرتے ہو ملا قات شب و روز یہ سلسلہ ربط بہم صبح و مسا ہے
اے تنگی زنداں کے ستائے ہوئے مہمان کا حکم ہے ، دل باز ، درسینہ گھلا
تم نے مری جلوت میں نئے رنگ بھرے ہیں تم نے مری تنہائیوں میں ساتھ دیا ہے
تم چاندنی راتوں میں مرے پاس رہے ہو تم سے ہی میری نظر کی ٹیموں میں ضیا ہے
وا
ہے
64
Page 75
کس دن مجھے تم یاد نہیں آئے مگر آج کیا روز قیامت ہے! کہ اک حشر کیا ہے
یادوں کے مُسافِر ہو تمناؤں کے پیکر بھر دیتے ہو دل، پھر بھی وہی ایک خلا ہے
سینے سے لگا لینے کی حسرت نہیں مٹتی پہلو میں بٹھانے کی تڑپ حد سے سوا ہے
یا رب یہ گدا تیرے ہی ڈر کا ہے سوالی جو دان ملا تیری ہی چوکھٹ سے ملا ہے
گشته اسیرانِ رَهِ مولا کی خاطر مُدَّت سے فقیر ایک دُعا مانگ رہا ہے
جس کہ میں وہ کھوئے گئے اُس راہ پر گدا ایک کشکول لئے چلتا ہے لب پر یہ صدا ہے
مخیرات کر اب ان کی رہائی میرے آقا! کشکول میں بھر دے جو مرے دل میں بھرا ہے
میں تُجھ سے نہ مانگوں تو نہ مانگوں گا کسی سے
میں تیرا ہوں ، تو میرا خدا میرا خدا ہے
(جلسہ سالانہ یو کے ۱۹۹۱ء)
65
Page 76
گھٹا گرام کی ہجوم بلا سے اٹھی ہے
گھٹا کرم کی ، نجوم بلا سے اٹھی ہے کرامت اک دل درد آشنا سے اٹھی ہے
جو آہ ، سجدۂ صبر و رضا سے اُٹھی ہے زمین بوس تھی ، اس کی عطا سے اٹھی ہے
رسائی دیکھو! کہ باتیں خدا سے کرتی ہے دعا.جو قلب کے تحت العرسی سے اٹھی ہے
یہ کائنات آڈل سے نہ جانے کتنی بار خلا میں ڈوب چکی ہے خلا سے اٹھی ہے
سدا کی رسم ہے، اہلبیسٹیٹ کی بانگ زبوں آنا کی گود میں پل کر اباء سے اٹھی ہے
ہے
کیا سے عاری ، سیہ بخت، نیش زن ، مردُود یہ واہ واہ کسی کربلا سے اٹھی
خموشیوں میں کھنکنے لگی کسک دل کی اک ایسی ہوک دلِ بے نوا سے اُٹھی ہے
مسیح بن کے ، وہی آسماں سے اتری ہے جو التجا ، دل ناکتخدا سے اٹھی ہے
وہ آنکھ اٹھی تو مُردے جگا گئی لاکھوں قیامت ہوگی ، کہ جو اس ادا سے اٹھی ہے
66
i
Page 77
آمر ہوئی ہے وہ مجھ سے محمد عربی ندائے عشق ، جو قول ملی سے اٹھی ہے
ہزار خاک سے آدم اُٹھے ، مگر بخدا شبیہ وہ ! جو تری خاک پا سے اٹھی ہے
بنا ہے مبط انوار قادیاں.دیکھو وہی صدا ہے، سنو ! جو سدا سے اٹھی ہے
کنارے گونج اُٹھے ہیں زمیں کے ، جاگ اُٹھو کہ اک کروڑ صدا، اک صدا سے اٹھی ہے
،
جو دل میں بیٹھ چکی تھی ، ہوائے عیش و طرب بڑے جشن سے ، ہزار انتجا سے اُٹھی ہے
حیات کو کی تمنا.ہوئی تو ہے بیدار مگر یہ نیند کی ماتی ، دُعا سے اُٹھی ہے
المحراب سوواں جلسہ سالانہ نمبر بند کراچی.جلسہ سالانہ جرمنی ۱۹۹۱ء)
67
Page 78
اپنے دیس میں اپنی بستی میں اک اپنا بھی تو گھر تھا
نظم 1991ء میں قادیان کے سفر کے دوران کہی گئی اور جلسہ سالانہ قادیان کے موقع پر پڑھی گئی.اپنے دیس میں اپنی بستی میں اک اپنا بھی تو گھر تھا
جیسی سُندر تھی
09
گھر بھی سُندر تھا
بستی ویسا وہ
دلیس بدلیں لئے پھرتا ہوں اپنے دل میں اُس کی گتھا ئیں
میرے من میں آن بسی ہے تن من دھن جس کے اندر تھا
سادہ اور غریب تھی جنتا.لیکن نیک نصیب تھی جنتا
فیض رسان عجیب تھی جنتا ہر بندہ ، بندہ پرور تھا
کچے لوگ تھے ، کچی بستی.کرموں والی اُچی بستی
-
جو اُونچا تھا ، نیچا بھی تھا ، عرش نشیں تھا ، خاک بسر تھا
اُس کی دھرتی تھی آکاشی ، اُس کی پر جا تھی پر کاشی
جس کی صدیاں تھیں متلاشی ، گلی گلی کا
کا وہ منظر تھا
68
Page 79
کرتے تھے آ آ کے بیرے ، پنکھ پکھیرو شام سویرے
پھولوں اور پھلوں سے بوجھل ، بستاں کا ایک ایک شجر تھا
اُس کے سُروں کا چرچا جا جا ، دیس بدیس
جا ، دیس بدیس میں ڈنکا باجا
اُس بستی کا پیتم را جا ، کرشن گٹھیا مرلی دھر تھا
چاروں اور بجی شہنائی بھیجنوں نے اک دُھوم مچائی
رت بھگوان مکن کی آئی ، پیتم کا درشن گھر گھر تھا
گوتم بدھا بندھی لایا ، سب رشیوں نے درس دکھایا
عیسی اُترا مہدی آیا جو سب نبیوں کا مظہر تھا
مہدی کا دلدار محمد
نور نگه سرکار محمد
نبیوں کا
سردار
جس کا
وہ
منظور نظر تھا
6
آشاؤں کی اُس بستی میں ، میں نے بھی فیض اُس کا
مجھ پر بھی تھا اُس کا چھایا ، جس کا میں ادنی چاکر تھا
اتنے پیار سے کس نے دی تھی ، میرے دل کے کواڑ یہ دستک
رات گئے میرے گھر کون آیا ، اُٹھ کر دیکھا تو ایشر تھا
عرش سے فرش پہ مایا اُتری ، روپا ہو
روپا ہو گئی ساری دھرتی
ٹ گئی گلفت چھا گئی مستی.وہ تھا میں تھا من مندر تھا
69
Page 80
پر میری جان نچھاور ، اتنی کرپا اک پاپی پر
جس کے گھر نارائن آیا ہ کیڑی بھی کمتر تھا
-
وہ
رب نے آخر کام سنوارے ، گھر آئے پرہا کے مارے
آ دیکھے اُونچے مینارے ، نُورِ خدا تا حد نظر تھا
مولا نے وہ دن دکھلائے ، پریمی رُوپ نگر کو آئے
ساتھ فرشتے پر پھیلائے
"
، سایہ رحمت ہر سر پر
تھا
عشق خدا مونہوں پر دستے “ پھوٹ رہا تھا نور.نظر سے
اکھین سے کے پیت کی برسے ، قابل دید ، ہر دیدہ ور تھا
لیکن آہ جو رستہ تکتے جان سے گزرے تجھ کو ترستے
کاش وہ زندہ ہوتے جن پر ، ہجر کا اک اک پل دُوبھر تھا
کو پکارا ، آس نہ ٹوٹی ، دل نہ ہارا
آخر دم تک تجھ
سدا سہاگن
مصلح عالم باپ ہمارا
،
پیکر صبر و رضا
بستی ، جس میں پیدا ہوئی وہ ہستی
رہے یہ
رہبر تھا
جس سے نور کے سوتے پھوٹے ، جو نوروں کا اک ساگر تھا
ہیں سب نام خدا کے سُندر واہے گرو ، الله اكبر
سب
6
فانی ، اک وہی ہے باقی ، آج بھی ہے جو کل ایشر تھا
70
(جلسه سالانه قادیان (۱۹۹۱ء)
Page 81
مِیرا نالہ اُس کے قدموں کے غبار تک تو پہنچے
کبھی اذن ہو تو عاشق درِ یار تک تو پہنچے
وہ
ذرا سی اک نگارش ہے نگار تک تو پہنچے
نکل چکا ہے
،
یا رب
دِلِ بے قرار قابو
نگاہ رکھ کہ پاگل سرِ دار تک تو پہنچے
جو گلاب کے کٹوروں میں شراب ناب بھر دے
نسیم آه ، پھولوں کے نکھار تک تو پہنچے
کچھ عجب نہیں کہ کانٹوں کو بھی پھول پھل عطا ہوں
میری چاہ کی حلاوت رگِ خار تک تو پہنچے
محبتوں کا لشکر جو کرے گا فتح خیبر
ڈرا تیرے بغض و نفرت کے حصار تک تو پہنچے
71
Page 82
تیری ہی قم کہ دوبارہ جی اٹھوں گا
ہے
ترا نفخ رُوح میرے
دل زار تک تو پہنچے
جو نہیں شُمار اُن میں تو غُراب
میں تو غُراب پر شکستہ
تیرے پاک صاف بگلوں کی قطار تک تو پہنچے
تیری بے حِساب بخشش کی گلی گلی ندا
چا کر گنہگار
دول
نوید
تیرے
گنہگار تک
تو
پہنچے
شجر خزاں رسیده
ہے
مجھے
عزیز یا رب
اک اور وصل تازہ کی بہار تک تو پہنچے
میلا
سُراغ تیرا
جنہیں اپنی حبلِ جاں میں نہ
خود اپنی ہی انا کے بُہت نار تک تو پہنچے
وہ
کے فکر عاقبت ہے
انہیں بس یہی بہت ہے
کہ رہین
مرگ داتا کے مزار تک تو پہنچے
ہے عوام کے گناہوں کا بھی بوجھ اس
خبر کسی طریقے
بھاری
حمار تک تو پہنچے
72
Page 83
خبر
ہے
گرم یا رب کہ سوار خواهد آمد
کروں نقدِ جاں نچھاور ، میرے دار تک تو پہنچے
وہ
جوان برق یا ہے
وہ
جمیل
دلربا ہے
پہنچے
میرا نالہ اُس کے قدموں کے غبار تک تو
(جلسہ سالانہ یو کے ۱۹۹۲ء)
-
الله
73
Page 84
وہ
فاصلے بڑھ گئے
جو خدا کو ہوئے پیارے
یہ نظم اپنی بیوی آصفہ مرحومہ کی یاد میں ۱۹۹۲ء میں کہی تھی.تم بدلے نہ ہم ، طور ہمارے ہیں وہی
قرب تو سارے ہیں وہی
پر
آکے دیکھو تو سہی بزم جہاں میں ، کل تک
جو تمہارے ہوا کرتے تھے تمہارے ہیں وہی
سے وہی کھیلیں گے کھیل
جھٹپٹوں میں اُنہی یادوں
وہی گلیاں ہیں وہی صحن ، چو بارے ہیں وہی
،
وہی جلسے وہی رونق وہی بزم آرائی
ایک تم ہی نہیں مہمان تو سارے ہیں وہی
<
شام غم ، دل شفق رنگ دکھی زخموں کے
تم نے جو پھول کھلائے مجھے پیارے ہیں وہی
74
Page 85
am
چاند راتیں ہیں وہی
گلشن میں وہی
وہی پھول کھلا کرتے
ہیں
،
چاند ستارے ہیں وہی
وہی جھرنوں کے مدھر گیت ہیں مدہوش شجر
نیلگوں رُود کے گل پوش
پوش کنارے
کنارے ہیں
ہیں وہی
ئے برستی
ہے
بلا بھیجو
-
کہاں ہے
ساقی
ي
بھری برسات میں موسم کے اشارے ہیں وہی
بے بسی ہائے تماشا کہ تیری موت
نجشیں مٹ
گئیں
پر رنج کے مارے ہیں وہی
تم وہی تو کرو کچھ تو مداوا غم کا
ہو
جن کے تم چارہ تھے
میرے آنگن
09
ورد تو سارے ہیں وہی
سے قضا لے گئی چن چن کے جو پھول
جو خدا کو ہوئے پیارے مرے پیارے ہیں وہی
،
تم نے جاتے ہوئے پلکوں
سجا رکھے تھے
جو گہر اب بھی میری آنکھوں کے تارے ہیں وہی
منتظر کوئی نہیں
ہے
ساحل
درنه
وہی طوفاں ہیں ، وہی ناؤ کنارے ہیں وہی
75
Page 86
然
تیرے کام ہیں مولا ، مجھے دے صبر و ثبات
ہے وہی راہ کٹھن
، بوجھ بھی بھارے ہیں وہی
(جلسہ سالانہ یو کے - ۱۹۹۲ء)
76
الله
罪
翼
Page 87
خدا کے سپرد
اس نظم کا پہلا مصرعہ آصفہ بیگم کی زندگی ہی میں ایک معمولی فرق کے ساتھ رویا میں زبان پر جاری ہوا
تھا.اس پر نظم شروع کی تو ان کی زندگی میں صرف دو شعر ہو سکے تھے.باقی نظم ان کی وفات کے بعد مکمل کی ہے.اس مناسبت سے پہلے مصرعہ کو کچھ تبدیل کرنا پڑا یعنی پہلے یہ مصرعہ یوں تھا.ع
تری شفا کا سفر ہے قدم قدم اعجاز
تیری بقا کا سفر تھا قدم قدم اعجاز بدن سے سانس کا ہر رشتہ دم بہ دم اعجاز
ترا فنا کے اُفق سے پلٹ پلٹ آنا دُعا کے دوش پہ نبضوں کا زیروبم اعجاز
تھا اک کرشمہ پیہم ترا دل بیمار دکھایا ہوگا کسی دل نے ایسا کم اعجاز
نحیف جان ، بہت بوجھ اُٹھا کے چلتی رہی ہر ایک نقشِ قدم پر تھا مقسم اعجاز
77
Page 88
اس کا فیض تھا ورنہ میری دُعا کیا تھی کہے سے اُس کے دکھاتا تھا میراعلم انجانہ
اُسی
دیکھا
جب اُس کا اذن نہ آیا ، خطا گئی فریاد رہی نہ آہ کرشمند ، نه پشم تم اعجاز
غنا نے اُس کی جو عرفانِ بندگی بخشا نہیں تھا وہ کسی جُود و عطا سے کم اعجاز
پیشم تم تمہیں سمجھایا ، بس خدا کے لئے دکھاؤ نا ، سر تسلیم کر کے کم اعجاز
یونہی ثمنت اعدا سے مت ڈرو بي بي! ہمارے حق میں دکھائیں گے یہ بشم اعجاز
بی
ہوموت اُس کی رضا پر ، یہی کرامت ہے خوشی سے اُس کے کہے میں جو کھا ئیں سم ، اعجاز
وہیں تمہاری انا کا سفر تمام ہوا حیات و موت وہیں بن گئے بہم اعجاز
لحیف ہونٹوں سے اٹھی برائے استغفار ٹوائے تو یہ تھی اللہ کی قسم انجاز
مجھے کبھی بھی تم اتنی نہیں لگیں پیاری وہ محسن تھا ملکوتی ، وہ شیط کم اعجاز
اُس کی ہوگئیں تم ، اُس کے آمر ہی سے تمہیں
امر بنانے کا دکھلا گئی عدم اعجاز
کبھی تو آ کے ملیں گے ، چلو ، خدا کے سپرد
کبھی تو دیکھیں گے احیائے ٹو کا ہم اعجاز
همه
78
(۱۹۹۲ء)
Page 89
جو گل کبھی زندہ تھے
آج سے تقریباً چالیس برس پہلے یادرفتگاں کے طور پر کچھ اشعار کہے تھے لیکن غزل نامکمل رہی.اب آصفہ بیگم کی یاد میں
ربط مضمون قائم رکھتے ہوئے اُسی غزل میں چند اشعار کا اضافہ کر کے اسے اُن کی طرف منسوب کر دیا گیا ہے.ہے حُسن میں خو غم کے شراروں کے سہارے اک چاند معلق ہے ستاروں کے سہارے
اک شعلہ سا لرزاں ہے سر گور تمنا اک غم چئے جاتا ہے مزاروں کے سہارے
تو رُوٹھ کے اُمیدوں کا دل توڑ گیا ہے اے میری اُمنگوں کے سہاروں کے سہارے
ناداری میں ناداروں کے رکھوالے تھے کچھ لوگ بخشش کے بھکاری، گنہگاروں کے سہارے
سکھ بانٹتے پھرتے تھے مگر کتنے دکھی تھے بے چارگی غم میں بچاروں کے سہارے
مرتے ہیں جب اللہ کے بندوں کے نگہبان رہتے نہیں کیا اُن کے دُلاروں کے سہارے؟
وہ ناؤ ، خدا بنتا ہے خود جس کا رکھویا پاگل ہے کہ ڈھونڈے وہ کناروں کے سہارے
کانٹوں نے بہت یاد کیا اُن کو خزاں میں جو گل کبھی زندہ تھے بہاروں کے سہارے
79
Page 90
( ۹۹۲)
کیا اُن کا بھروسہ ہے جو دیتے تھے بھر سے لو.مرگئے، جیتے تھے جو پیاروں کے سہارے
تم جن کا وسیلہ تھیں وہ روتی ہیں کہ تم نے دم تو ڑ کے توڑے ہیں ہزاروں کے سہارے
وہ آخری ایام ، وہ بہتے ہوئے خاموش حرفوں کے بدن، اشکوں کے دھاروں کے سہارے
بھیگی ہوئی بجھتی ہوئی ، مٹتی ہوئی آواز اظہار تمنا وہ اشاروں کے سہارے
وہ ہاتھ جھٹکتے ہوئے کہنا دَمِ رخصت میں نے نہیں جینا نگہداروں کے سہارے
وہ جن کو نہ راس آئے طبیبوں کے دلا سے شاید کہ بہل جائیں ، نگاروں کے سہارے
آبیٹھ مرے پاس مرا دست تھی تھام مت چھوڑ کے جا درد کے ماروں کے سہارے
80
Page 91
اجنبی غم
یہ نظم کالج کے زمانہ میں مری میں کہی تھی لیکن اس وقت نامکمل چھوڑ دی گئی تھی.اس کے بعد ۱۹۹۳ء میں بعض اور بند شامل کر کے اسے مکمل کیا گیا.پر اسرار دھندلکوں میں سمویا ہوا غم
اک جذبہ مہم بن کر
چھا
گیا رُوح
فضاؤں
میں
يسكتنا
ہوا
إحساس الم
ديدة
ڈھلکے
لگا
تنبر
بن
جانے
وکھ
ہے تمہارا کہ زمانے کا ستم
أجنبي
ہے
کوئی مہمان
چلا
آیا
ہے
يني
چہرے کو
جان ہے اس
نہ پہچان
کو چھپائے نی نقاب
چلا آیا ہے
شب
6
81
Page 92
ہے یا ہے کوئی مہمان سرائے غم
آنکھ
دل
ہے میری کہ اشکوں کی ہے اک را بگذار
و
خون
ہے
سینہ کہ جواں مرگ
اُمنگوں کا مزار
اک زیارت کہ صد قافلہ ہائے غم
یا تیرے دھیان کی جوگن
خون
ہمہ
رنج
آزار
خود چلی آئی پہلو میں بجائے غم و حزن
ہے
رات بھر چھیڑے گی احساس کے دُکھتے ہوئے تار
ایک اک تار
سے اُٹھے گی نوائے غم
و
مخزن
ہے جیسے کسی راہب کا چراغ
دل جلے
جاتا ہے
ٹمٹماتا
ہو
کہیں
دور بیابانوں
میں
قافلے درد کے پا جاتے ہیں منزل کا سُراغ
اک کرزتی ہوئی کو دیکھ کے ویرانوں میں
82
الله
Page 93
بھی
شاید
کوئی بھٹکا ہوا
رو
گھڑی
ہے
قلب کے غم خانے میں ستائے گا
راہی
اوٹ
تیرگی
پاس کی جب
وقت سحر
کرن امید
اُمید کی پھوٹے گی
چلا جائے گا
خانہ دل میں اتر کر
فقیروں کے
غم
ناله
شب
نصیب
اپنا جگا لیتے ہیں
دل کو اک شرف عطا کرکے چلے جاتے ہیں
أجنبي
غم محسن
مرے
مرا کیا لیتے ہیں
کوئی مذہب ہے سسکتی ہوئی رُوحوں کا نہ رنگ
ہر ستم دیده
کو
انسان ہی
پایا ہم
نے
بن کے اپنا ہی لیٹ
ہی لیٹ جاتا ہے
جاتا ہے روتے روتے
غیر کا دُکھ بھی جو
83
سے لگایا
لگایا ہم نے
Page 94
کوئی قشقہ دکھوں کا
ہے
نه
عمامه
کوئی ہندو
ہے
ہر
ستم گر کو
گر کو ہو
ہو
نہ مسلم ہے
اے کاش
نہ عیسائی
ہے
یہ عرفان نصیب
بھی ہر دین کی رُسوائی ہے
بادة
عشق
ہے
درمان
اگر
ہے
کوئی
مت ہمیں چھوڑ کے جا ساقی کہ غم باقی ہیں
ہم نہ ہوں گے تو اُجڑ جائے گا کے خانہ غم
درو
کے
جام
لنڈھا
ساقی کہ ہم باقی ہیں
جہانوں کے لئے بن کے جو رحمت آیا
ہر زمانے کے دکھوں کا ہے
مد اوا
وہی ایک
اُس کے دامن سے ہے وابستہ گل عالم کی نجات
بے سہاروں کا
ہے اب ملیا
ماوی وہی ایک
84
( صلى الله عليه و على آله و سلّم)
(جلسہ سالانہ یو کے ۱۹۹۳ء)
1
Page 95
جاء المسيح جاء المسيح
( کچھ اہل وطن سے )
بہار آئی ہے ، دل وقف یار کر دیکھو خرد کو نذر جنونِ بہار کر دیکھو
غضب کیا ہے جو کانٹوں سے پیار کر دیکھا اب آؤ پھولوں کو بھی ہمکنار کر دیکھو
جو کر سکے تھے کیا ، غیر ہمیں بنا نہ سکے ہم اب بھی اپنے ہیں ، اپنا شمار کر دیکھو
بس اب نہ دُور رکھو اپنے دل سے اہل وطن ہے تم سے پیار ہمیں ، اعتبار کر دیکھو
ہمیں کبھی تو تم اپنی نگاہ سے دیکھو تعصبات کی عینک اتار کر دیکھو
لگا رکھی ہیں جو چہروں پہ مولوی آنکھیں نظر کی یہ مچھی ان آنکھوں سے پار کر دیکھو
نحوستوں کا قلندر ہے پیر تسمہ پا کسی دن اس کو گلے سے اُتار کر دیکھو
نقاب اوڑھ رکھا ہے جو مولویت کا اُتار پھینکو اسے تار تار کر دیکھو
تمہارا چہرہ بُرا تو نہیں ، نہا دھو کر کبھی تو حُسنِ شرافت نکھار کر دیکھو
85
}
Page 96
مسیح اُترا ہے عِندَ المَنَارَةِ البيضاء اُٹھو.کہ جائے ادب ہے.سنوار کر دیکھو
لگاؤ سیڑھی اُتارد ، دلوں کے آنگن میں نثار جاؤ ، نظر وار وار کر دیکھو
جو اُس کے ساتھ ، اُس کی دُعا سے اُترا ہے یہ مائدہ ہے ، ڈشوں میں اُتار کر دیکھو
بلا رہی ہیں تمہیں پیار کی کھلی بانہیں چلے بھی آؤ نا ، اللہ پیار کر دیکھو
محبتوں کے سمندر سے دُوریاں کیسی لپٹ کے موجوں سے بوس و کنار کر دیکھو
(جلسہ سالانہ یو کے ۱۹۹۴ء)
86
Page 97
آمد امام کامگار
(منکرین سے خطاب)
ہیں آسمان کے تارے گواہ ، سُورج چاند پڑے ہیں مائد ، ذرا کچھ بچار کر دیکھو
ضرور مهدي دوراں کا ہوچکا ہے ظہور ذرا سا نُور فراست نکھار کر دیکھو
کڑانے تم پہ لٹائے گا لا جرم لیکن بس ایک نذرِ عقیدت گزار کر دیکھو
لر ہے ضد کہ نہ مانو گے ، پر نہ مانو گے تو ہو سکے جو کرو ، بار بار کر دیکھو
بدل سکو تو بدل دو ، نظامِ شمس و قمر خلاف گردشِ لیل و نہار کر دیکھو
پکٹ سکو تو پکٹ دو ، شرامِ شام و سحر حساب چرخ کو بے اعتبار کر دیکھو
جو ہو سکے تو بستاروں کے راستے کاٹو کوئی تو چارہ کرو ، کچھ تو کار کر دیکھو
سوار لاؤ ، پیارے بڑھاؤ ، چڑھ دوڑو جو بن سکے
جو بن سکے وہ بیٹے کار زار کر دیکھو
خُدا کی بات ملے گی نہیں ، تم ہو کیا چیز اٹل پٹان ہے ، سر مار مار کر دیکھو
اُتر رہی ہیں فلک سے گواہیاں.روکو وہ غل غپاڑہ کرو ، حال زار کر دیکھو
-
87
---.+
Page 98
}
گواہ دو ہیں ، دو ہاتھوں سے چھائیاں پیلو تخوف شمس و قمر ، بار بار کر دیکھو
جلن بہت ہے تو ہوتی پھرے نہ نکلے گی بھڑاس سینے کی ، بک بک ہزار کر دیکھو
قفس کے شیروں سے کرتے ہو روز دو دو ہاتھ دو آنکھیں بن کے بیر سے بھی چار کر دیکھو
مری سُنو تو پہاڑوں سے سر نہ ٹکراؤ جو میری مانو تو عجز اختیار کر دیکھو
(جلسہ سالانہ یو کے ۳۱ / جولائی ۱۹۹۴ء)
88
Page 99
*
اے بوسنیا بوسنیا!
بوسنیا ، زنده باد!
ہے
تو خُوں میں نہائے ہوئے ٹیلوں کا وطن
گل رنگ شفق - قرمزی چھیلوں کا وطن ہے
خُوں بار بلکتے ہوئے جھرنوں کی زمیں ہے
نو خیز جواں سال قبیلوں کا وطن
اک دن تیرے مقتل میں بہے گا
الشام
ہے
جلاد
اے
بوسنیا
بوسنیا
!
6
بوسنیا
زنده
باد
89
Page 100
وائے
سر ، چن کی اُتاری گئی چادر
وہ سر
پا بسته پدر
اور پتر
جن کے
برابر
ہوتی
رہی رسوا
دیکھے ہیں تیری آنکھ نے
پتھر بھی
وہ
، زبانیں ہوں تو ، کرنے لگیں فریاد
کہیں دختر کہیں
مادر
ظلم کہ جن پر
بوسنياً
بوسنیا
بوسنیا
!
زنده
باد
قبروں میں پڑے عرش نشینوں کی
رولے ہوئے مٹی میں نگینوں کی قسم
بہنوں کی اُمنگوں کے دفینوں کی قسم
کے سلگتے ہوئے
ماؤں کے
ہے
ہے
؟
سینوں کی قسم ہے
ہو جائیں گے آنگن ترے اُجڑے ہوئے آباد
اے
بوسنیا
بوسنياً
!
90
بوسنیا
زنده
باد
Page 101
چھٹ جائیں گے اک روز مظالم کے اندھیرے
لہرائیں گے
ہر
آنکھ میں
گلرنگ
سویرے
صبحوں کے اُجالوں
ނ
لکھیں گے تیرے نغمے
سر پر ترے باندھیں گے فتوحات کے سہرے
اللہ کی رحمت
اے
بوسنیا
بوسنياً
!
جائیں گے دلشاد
بوسنیا
زنده
باد
سینوں
زبانیں تری سطوت
رقم ہیں تری عظمت کے فسانے
گاتی ہیں زبانیں تری
کے ترانے
اُترے گا
خدا
جب
تیری تقدیر
بنانے
مٹ جائیں
جائیں گے
نکلے جو
تیرا نام مٹانے
جس جس نے اُجاڑا مجھے
ہو
اے
بوسنیا
بوسنیا
جائے گا برباد
بوسنياً
!
زنده
باد
91
Page 102
اپنے
حسیں خوابوں کی
خوابوں کی تعبیر بھی
تازہ نئی صبح کی
بھی
دیکھے
سینه شمشیر کو بھی چیر
کے رکھ
دنیا ترے ہاتھوں میں
وہ
شمشیر بھی
دیکھے
پیدا
بوسنیا
اے
ہوں نئے حامی دیں
دشمن
الحاد
بوسنیا
بوسنياً
!
زنده
باد
92
جلسه سالانہ جرمنی - ۲۸ / اگست ۱۹۹۴ء)
Page 103
کلام ط
ہوں گواہی کا اشارہ تر آئیں گے
93
Page 104
شاوا سوہنے یار
مبشر
ينظم جماعت جرمنی کے ایک نہایت مخلص اور فدائی خادم مبشر احمد صاحب باجوہ کے متعلق ہے
جو ایک حادثہ کے نتیجہ میں ۱۹۹۵ء میں وفات پاگئے.آؤ سجنو مل لیتے تے گل اوس یار دی چلے
کردے جیدے دانے ملک گئے کل پرسوں دی گل اے
آؤ سجنو مل لیتے
تے گل
اوس یار دی
اتلے یار نے جد صد ماری پین سٹی دُنیا دی یاری
مار
لقاء
عرشاں تائیں لائی تاری اُڈاری گلے
آؤ سجنو مل لیتے تے گل اوس یار دی چلے
رہ کے عمر ہنڈائی دا سیوک
ذات اُچی سی ، کم وڈے پر نت بیندا سی تھلے
نیچا
پائی
آؤ سجنو مل لیتے تے گل اوس یار "
دی
94
Page 105
شور خود همه این همه
جو کم آکھیا
حاضر سائیں ، کہہ کے چھاتی ڈائی
بس دیاں سارے پاپڑ ویلے سارے جھمیلے جھتے
آؤ سجنو مل لیتے تے گل اوس یار دی چلے
ایم ٹی اے دی خاطر گبھرو
کونیا
چار چفیرے کو نیا
مخلص منڈے گڑیاں لبھ کے چونویں چونویں ونے
آؤ سجنو مل لیئے تے گل اوس یار دی
وڈیاں سوچاں نیک عمل تے عالی شان ارادے
پائی پھر دا سادے ماڑے موٹے ٹلے
گل وچ
ि
آؤ سجنو مل لیئے تے گل اوس یار دی چلے
نیچا
کے
اندر
ره
اندر احيا
یار
کمایا
جیویں
لکھ
ہووے
پلے
باروں دڑ وٹ رکھی
میرا
آؤ سجنو مل لیتے تے گل اوس یار
ساتھ نبھاون تائیں کوئی راہ
جیڑے رستیاں توں میں لنگیا اوہی
نہ چھڑی
رتے ملے
دی
آؤ سجنو مل لیتے تے گل اوس یار دی چلے
95
Page 106
|
اونوں کیویں دستاں کہ میں تیتھوں آج
سکھ
پائیا
شادا
سوہنے
یار مبشر
واه واه
بگلے لگے
آؤ سجنو مل لیتے تے گل اوس یار دی چلے
گوڑے چار دناں دے میلے اگو گل ای
اگو گل ای سچ اے
لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّه
لَّهُمَّ صَلَّ
آؤ سجنو مل لیتے تے گل اوس یار دی چلے
جلسہ سالانہ جرمنی ۱۹۹۵ء)
96
Page 107
محبتوں کے نصیب
میرے درد کی جو دوا کرے ، کوئی ایسا شخص ہوا کرے
وہ جو بے پناہ اُداس ہو ، مگر ہجر کا نہ گلہ کرے
مری چاہتیں میری قربتیں جسے یاد آئیں قدم قدم
تو وہ سب سے چُھپ کے لباس شب میں لپٹ کے آہ و بکا کرے
بڑھے اُس کا غم تو قرار کھو دے ، وہ میرے غم کے خیال
ނ
اُٹھیں ہاتھ اپنے لئے تو پھر بھی میرے لئے ہی دُعا کرے
قصص عجیب و غریب ہیں یہ محبتوں کے نصیب ہیں
مجھے کیسے خود سے جُدا کرے ، اُسے کچھ بتاؤ کہ کیا کرے
کبھی طے کرے یونہی سوچ سوچ میں وہ فراق کے فاصلے
میرے پیچھے آکے دبے دبے ، میری آنکھیں موند ہنسا کرے
97
Page 108
کو جنون ہے
بڑا شور ہے میرے شہر میں کسی اجنبی کے نزول کا
وہ میری ہی جان نہ ہو کہیں ، کوئی کچھ تو جا
جا کے پتہ کرے
تو میرے دِل ہی کا عکس ہے ، میں نہیں ہوں پر مری آرزو
مجھے
بنا دے تو پھر جو چاہے قضا کرے
بھلا کیسے اپنے ہی عکس کو میں رفیق جان بنا سکوں
کوئی اور ہو تو بتا تو دے ، کوئی ہے کہیں تو صدا کرے
اُسے ڈھونڈتی ہیں گلی گلی میری خلوتوں کی اُداسیاں
وہ ملے تو بس یہ کہوں کہ آ ، میرا مولیٰ تیرا بھلا کرے
98
Page 109
{
رَبِّ إِنِّي لِمَا أَنزَلْتَ إِلَيَّ مِن خَيْرٍ فَقِير
حضرت موسیٰ علیہ السلام کی مشہور دعا رَبِّ إِنِّي لِمَا أَنزَلْتَ إِلَيَّ مِن خَيْرٍ فَقِير
کس شان سے اور کتنے رنگوں میں پوری ہوئی، اس کے متعلق یہ نظم ہے.اک برگد کی چھاؤں کے نیچے
اک مسافر پڑا تھا غم
چور
کیسے کچھ عرض مدعا کرتا
اپنی حاجات کا بھی تھا نہ
شعور
دل سے بس ایک ہی دعا اٹھی
میں اسی کا
اسی کا فقیر ہوں آقا
جو میرے لئے بھلا سمجھے
مجھے اے کاش ہر کوئی تیرا
فقط تیرا ہی گدا سمجھے
اور
یہی
99
اٹھی
Page 110
میری جھولی میں کچھ نہیں مولا
پیٹ خالی ہے ہاتھ خالی
ہے
زندگی کا سفر نبھانے کو
میں اکیلا ہوں.ساتھ خالی ہے
دل تنہا سے صدا اٹھی
بے ٹھکانہ ہوں گھر نہیں اپنا
سر پہ چھت ہے، نہ بام و در اپنا
ہے
گاؤں کی چمنیوں سے اٹھتا
گو دھواں، وہ مگر نہیں اپنا
مصر جانے کو جی مچلتا ہے
دل سے یہ شعلہ سا نوا اٹھی
اکیلا ہوں خوف کھاؤں گا
پر
دست و بازو کوئی عطا کردے
کوٹ کر تب وطن کو جاؤں گا
100
دل سے یہ مضطرب دعا اٹھی
Page 111
1
مرے وطن مجھے تیرے افق سے شکوہ ہے
احمد ندیم قاسمی ایک بزرگ شاعر اور بہت بڑے ادیب ہیں.مگر اپنے وطن کے لئے دعا کے
وقت کبھی انہیں یہ خیال نہیں آیا کہ وہاں رسول اللہ مے کے غلاموں پر جو ظلم ہو رہے ہیں ان کے
خلاف بھی آواز اٹھائیں.اس لئے میں نے اُن کی ایک نظم کی تضمین کہی ہے.اگر ان کو اس سے
اختلاف ہو تو میں مجبور ہوں.خدا کرے کہ مرے اک بھی ہم وطن کے لئے
حیات جرم نہ ہو، زندگی وبال نہ ہو
سوائے اس کے کہ وہ شخص احمدی کہلائے
تو سانس لینے کی بھی اس کو یاں مجال نہ ہو
وہ سبزہ زاروں میں ہو سب سے سبز تر پھر بھی
رگیدا جائے اگرچہ
101
وہ
پائمال نہ ہو
Page 112
چمن میں وہ گل رعنا جو خاک سے اٹھے
اکھاڑنے میں اسے تم کو کچھ ملال نہ ہو
وہ پھول ہو کے بھی آنکھوں میں خار سا کھٹکے
ہو
تو ایسا زخم لگاؤ کہ اند مال نہ
لاکھ علم و عمل کا ہو ایک اوجِ کمال
فقط وہ غازی گفتار و قیل و قال نہ ہو
مگر سب اہل وطن یہ بھی سوچ لیں کہ کہیں
لباس تقوی میں لیٹی یہ کوئی چال نہ ہو
میرے وطن مجھے تیرے افق شکوه
ނ
کہ اس
وہ ہے
ثبت ہے عبدالسلام نام کا چاند
اسے ڈبو کے کوئی اور اچھال کام کا چاند
تو یہ کرے تو کبھی تجھ پہ پھر زوال نہ ہو
ہر ایک شہری ہو آسودہ ہر کوئی ہو نہال
کوئی ملول نہ ہو کوئی خستہ حال نہ ہو
102
Page 113
بزبان مولویانِ پاکستان
گویادہ احمدیوں سے مخاطب ہو کر کہہ رہے ہیں)
اذانیں دے کے دُکھاؤ نہ دل خدا کے لئے
درود پڑھ کے ستاؤ نہ.مصطفی کے لئے
سلام کر کے دعائیں نہ دو ہمیں.ہم لوگ
وہ لوگ ہیں کہ ترستے ہیں بددعا کے لئے
103
Page 114
ملال
سوچا بھی کبھی تم نے کہ کیا بھید ہے
کیوں تم.گھن آتی
ملاں
ہے
اچھے نہیں لگتے
ہر بات تمہاری ہے فقط جھوٹ کا پتلا
بھولے
سے
بھی سچ بولو تو بچے نہیں لگتے
ویسے تو ہو آدم ہی کی اولاد بلا ریب
سر پر ہے عمامہ بڑا.بجھتے میں بڑی جیب
پر سوچو کہ تم میں سے ہے بعضوں میں وہ کیا عیب
وہ جو بھی ہوں، انسان کے بچے نہیں لگتے
104
Page 115
عیاری
و
جلادی و سفاکی میں پکتے
تم قلب و ذہن دونوں کی ناپاکی میں پکتے
گو قول کے کچے ہو ہمیشہ مگر ان
اوصاف حمیدہ میں تو کچے نہیں لگتے
105
}
Page 116
MULLAH the lies personified
---
Have you ever pondered over the secret - O Mullah,
Of why you are so nauseating and do not please the eyes?
Even if forgetfully you bray the truth you are never right,
Everything you say is merely a package of lies.You are certainly the children of Adam - no doubt,
There is a large turban on your head and in the gown a large
gaping pocket,
But try to discover what fault lies with some among you,
Whatever you are, you never appear to be the sons of man.Hard in cunning, and butchery, and mercilessness;
As for the filth of heart and mouth, in both you are pig-headed,
Of word, forever unrealiable, but in these,
praiseworthy qualities you are never undependable.106
Page 117
5
تم پر بھی تو ایک عدالت بیٹھے گی
جھوٹو تم نے ٹھیک الزام دھرا ہوگا
اللہ والوں ہی نے کفر بکا ہوگا
احمدیوں نے جب بھی درود پڑھا ہوگا
دل میں اور کسی کا نام لیا ہوگا
تم سچے تو جنگ میں کون رہا جھوٹا
ہم جھوٹے تو سچا کون رہا ہوگا
تنگ آئے ہیں روز کی بک بک جھک جھک سے
کر گزرو جو کچھ تم نے کرنا ہوگا
107
1
$
Page 118
لیکن شاید
کبھی سوچا ہوگا
روز قیامت تم جیسوں سے کیا ہوگا
تم پر بھی تو ایک عدالت بیٹھے گی
جیسا کیا ہے، ویسا ہی بھرنا ہوگا
ہم تو رضائے باری پر ہی جیتے ہیں
اس کی رضا پر ہی اک دن مرنا ہوگا
روئیں گے تو اُس کے حضور مگر تم سے
ہنس ہنس کر ہم نے ہر دکھ سہنا ہوگا
تم میں اگر ہے اچھا، ایک.ہزار بُرے
ہم میں ایک بُرا تو ہزار اچھا ہوگا
1
108
Page 119
شه خواهان هر
نذر الاسلام کی ایک نظم کا منظوم ترجمہ
توحید کے پر چارک.مرے مُرشد کا نام
ہے بات یہی بر حق.مرے مُرشد کا
محمد
ہے
نام
محمد
ہے
اُس نام کے جینے سے قرآن.کا ہوتا ہے ادراک مجھے
سندر نام ہونٹوں سے دل تک.کر دیتا ہے پاک مجھے
اللہ کے بہت پیارے
-
مرے مُرشد کا نام محمد ہے
وہ
اک
مولی سے ملواتا ہے جب نام اُس کا میں لیتا ہوں
بحر نور کی موجوں پر.اک نور کی کشتی کھیتا ہوں
اے جگ والو سن لو
مرے مُرشد کا
نام
محمد
ہے
109
Page 120
اُس نام کے دیپ جلاتا ہوں تو چاند ستارے دیکھتا ہوں
سینے سے عرش تک اٹھتے ہوئے نوروں کے دھارے دیکھتا ہوں
مرے نورِ مجسم - صلی اللہ.مُرشد کا نام محمد ہے
اُس نام کا پلو پکڑے پکڑے اُس دنیا تک جاؤں گا
اُس کے قدموں کی خاک تلے میں اپنی جنت پاؤں گا
ہر دم
-
نذر الاسلام - مرے مُرشد کا نام
محمد
ہے
110
(نذر الاسلام)
Page 121
دن آج کب ڈھلے گا.کب ہوگا ظہو رشب
دن آج کب ڈھلے گا.کب ہو گا ظہورِ شب ہم کب کریں گے چاک گریباں.حضور شب
آہ و بکا پہ پہرے ہیں.دل میں فغاں ہے بند اے رات! آ بھی جا کہ رہا ہوں طیورِ شب
ہوش و حواس گم تھے.کے تاب دید تھی جب جگمگا رہا تھا برقی تجلی سے طور شب
امشب نہ تو نے چہرہ دکھایا تو کیا عجب صبح کا منہ نہ دیکھے دل ناصبور شب
لیلائے شب کی گود میں سویا ہوا تھا چاند سیماب زیب تن کئے بیٹھی تھی حُورِ شب
ئے سی اُتر رہی تھی کواکب سے نور کی ہر سمت بٹ رہی تھی شراب طهور شب
ناگاہ تیری یاد نے یوں دل کو بھر دیا گویا سمٹ گیا اُسی کوزہ میں نور شب
اس لمحہ تیرے رشک سے شبنم تھی آپ آب میگی میں میل رہا تھا پکھل کر غرور شب
سب جاگ اٹھے تھے پیار کے ارماں نہ تمام پھونکا تھا کس نے گوش محبت میں مصور شب
لمحات وصل جن یہ ازل کا گمان تھا چنگی میں اُڑ گئے وہ طیور سرور شب
الفضل انٹر نیشنل لندن.۱۲ر جون ۱۹۹۸ء)
111
Page 122
جاتی
حافظ
عزیزہ طوبی کی شادی پر
ہو میری جان خدا حافظ و ناصر
رہے
سلطان خدا حافظ و ناصر
امی کی پہنچتی رہیں طوبی کو دعائیں
ا با کی رہو جان خدا حافظ و ناصر
سلطان کی ملکہ بنو، سلطان تمہارا
سرتاج ہو، ہر آن خدا حافظ و ناصر
جاتی
ہو میری جان خدا حافظ و ناصر
مولا ہو نگہبان، خدا حافظ و ناصر
112
Page 123
آمیری موجوں سے لپٹ جا
حضرت شیخ محمد احمد صاحب مظہر کے صاحبزادے ناصر ظفر کو خدا تعالیٰ نے بڑی سریلی اور دل میں اتر
جانے والی آواز سے نوازا ہے.کالج کے زمانہ میں وہ ہمیں ایک ہندی گانا سنایا کرتے تھے جس میں دنیا کی بے ثباتی کا
ذکر تھا اور یہ مثال بھی دی گئی تھی کہ
پھول سے رنگت باغی ہو کر تتلی بن اڑ جائے
باس کلی کا سینہ چیرے اور دنیا پر چھائے
اسی طرح بادلوں کے پہاڑوں کی طرف اُڑ جانے کا ذکر تھا.اس پر میں نے صرف سمندر سے بادلوں کے اٹھنے،
پہاڑوں پر برسنے اور پھر واپس سمندر میں آملنے کا ذکر کیا ہے کہ کس طرح خدا تعالیٰ کھاری پانی سے شفاف بخارات
اٹھاتا ہے اور کل عالم پر محیط ایک نظام کے تابع نہیں اونچے پہاڑوں پر برساتا اور پھر واپس سمندر میں لے آتا
ہے.اس نظم میں ملی جلی ہندی اور اردو زبان میں اظہار مطلب کی کوشش کی گئی ہے.رُوٹھ کے پانی ساگر سے جب بادل بن اُڑ جائے
ساگر پاگل سا ہوکر ، سر ساحل
سے ٹکرائے
113
Page 124
روٹھا روٹھا ، غم کا مارا ، وہ بادل آواره
دیس سے ہو کے بدیس کسی انجانے دیس کو جائے
ہردے پر جبر کرے لیکن جب صبر نہ آئے
چھم چھم نیر بہائے
би
بے چارہ دکھیا نکینوں سے
پھر بھی چین نہ آئے ، گھر کی یاد بہت ترسائے
جیسے زخمی مچھلی تڑپے، تڑپے اور بل کھائے
یادوں کا طوفان اٹھ کر مَن میں کہرام مچائے
برہا کی اگنی بجلیاں بن کر آگ کا مینہ برسائے
دکھ کا ایک جوالا مکھی سینے میں پھٹ جائے
پھوٹ کے بادل برسے ، گرجے ، کڑکے ، شور مچائے
پچھتائے اور اپنے من پر آپ ہی دوش لگائے
بلک بلک کر اک سنیاسن کا
یہ دوہا گائے
جاؤ سدھارو تم بھی سدھارو ، روکے تم کو کوئے
اس سنسار کی ریت یہی ہے جو پائے
ہے جو پائے سو کھوئے
راہ میں پر بت پاؤں پڑے بہلائے اور پھیلائے
یار کسی کا اپنانے کو حیلے لاکھ بنائے
114
Page 125
پربت کا کٹنا یا اس کے جی پر آفت ڈھائے
اولوں کا پتھراؤ کرے اس پر اور شرم دلائے
نالے تین کریں اور ندیاں منہ جھاگ اڑائے
اپنا
پتھروں پھیلیں
کو بھرائے
سینے کو
آخر سما کھلے تو دیکھے پھٹ بھی گئے ، اندھیارے
من
جلائے
مندر میں سورج بیٹھا اُس کا دیپ
سوندھی سوندھی باس وطن کی مٹی میں سے اٹھے
تب سب نوحے بھول کے وہ بس راگ ملن کے گائے
پیتیم یاد میں ڈوبا ڈوبا پریم نگر کو جائے
ایک ہی دھن میں گم ہو ، من میں ایک ہی یار بسائے
اس کے پاؤں دھو کے پئیں ساگر کی موجیں جب وہ
جھینپا جھینپا اس میں اترے شرمائے شرمائے.میری موجوں سے لپٹ جا ساگر تان اڑائے
یہ بھی تو سنسار کی ریت ہے جو کھوئے سو پائے
115
Page 126
دل شوریدہ کا خواب
تم نے بھی مجھ سے تعلق کوئی رکھا ہوتا
کاش یوں ہوتا تو میں اتنا نہ تنہا ہوتا
لب پر آجاتا کبھی دل سے اچھل کر مرا نام
تو میں اس جبش لب کی طرح یکتا ہوتا
دل میں ہر لحظہ دھڑکتا یہ تمہارا احسان
اُس کی ہر ضرب سے سینے میں اُجالا ہوتا
ظلمتیں دل کی اُسی نور سے ہوتیں کافور
نور
کتنا مدھر
جب تصور کے نہاں خانہ میں ھنگامہ عشق
کتنا رو پہلا ہوتا
ہم کیا کرتے تو کچھ اُس کا نہ چرچا ہوتا
116
Page 127
جانتا کون ہمارے دل شوریدہ کا خواب
دیکھتا کون جو ہم دونوں نے دیکھا ہوتا
یوں ہی چھپ چھپ کے میلا کرتے پس پردہ دل
دل ہی دل میں کیسے معلوم !
یوں ہی بڑھتی چلی جاتی رہ و رسم الفت
کیا کیا ہوتا
ہم نے جی کھول کے اک دوجے کو چاہا ہوتا
دل دھڑکتے جو کبھی راہ میں ملتے سر عام
مجھ سے
تم
بے دھڑک پیار کے اظہار کا دھڑکا ہوتا
ثم نظریں چرا لیتے بدن لیا کر
پھر مجھے دیکھتے ایسے کہ نہ دیکھا ہوتا
ادار دل کو لبھاتی تو ستاتی بھی بہت
سوچتا تم نہ مرے ہوتے تو پھر کیا ہوتا
میرے سب خواب بکھر جاتے سرابوں میں.بس ایک
ہر طرف پھیلا ہوا
اس تصور سے کہ تم چھوڑ کے جاتے تو سدا
عالم صحرا ہوتا
دل محبت کی اک اک بوند کو ترسا ہوتا
Page 128
آنکھ
سے
میری برستا وہ لہو کہ پہلے
شاید ہی اور کسی آنکھ سے برسا ہوتا
ڈوب جاتا اُسی خونابہ میں افسانہ عشق
بہت
آنکھ کھلتی تو بس اک خواب سا دیکھا ہوتا
ہوتا مری آنکھ سے سیلاب بلا
نہ وہ موجیں کہیں ہوتیں نہ وہ دریا ہوتا
چھا چکی ہوتی جدائی کی سسکتی ہوئی رات
مجھے بانہوں میں شب غم نے لپیٹا ہوتا
چار سُو تم نہ دکھائی کہیں دیتے.اک میں
اپنے ہی اشکوں میں بھیگا ہوا لیٹا ہوتا
دُور اک عارض گیتی
ڈھلکتا ہوا اشک
دیده شب
افق
چھلکتا ہوتا
عکس
اُس میں ہر لحظہ لرزتا ہوا بجھتا ہوا
اک حسیں چاند سے چہرے کا جھلکتا ہوتا
کس نے کوٹا ہوا ہوتا مرے چندا کا قرار
کروٹیں کس کی جدائی میں بدلتا ہوتا
118
Page 129
یاد میں کس کی وہ آفاق
بہتا ہوا
ہوا حُسن
نت نئی دنیا نئے دیس میں ڈھلتا ہوتا
-
عمر بھر میں بھی تمہیں ڈھونڈتا بے سود اگر
عالم خواب میرا ملجاً
اب علاج غم تنہائی کہاں
ماوی ہوتا
تے
لاؤں
تم کہیں ہوتے تو اس غم کا مداوا ہوتا
اب - ڈھونڈوں تصور میں بسانے کے لئے
چاند کوئی نہ رہا اپنا بنانے کے لئے
میرے اس دنیا میں لاکھوں ہیں مگر کوئی نہیں
میرا تنہائیوں میں ساتھ نبھانے کے لئے
119
Page 130
2
اذنِ نغمہ مجھے تو دے تو میں کیوں نہ گاؤں
( ٹیگور کی ایک نظم کا آزاد ترجمہ)
اِذنِ نغمہ مجھے تو دے تو میں کیوں نہ گاؤں
تیرے اس لطف و کرم سے تو مرے کون و مکان
ذلک اٹھے ہیں
مری دھرتی چمک اُٹھی ہے
میر اسورج بھی ہے تو
چاند ستارے بھی تو
اپنے جیون پہ مر افخر ترے دم سے ہے.دیکھتا ہوں میں ترالحسن تو چشم نم سے
میرے بہتے ہوئے اشکوں میں جھلکتا ہے تو
120
Page 131
تیرا احسان ہے
کہ تو نے مجھے گیتوں کے لئے
کچن لیا ہے کہ میں بنتا رہوں ،
گاتا رہوں.گیت
زندگی میں نہ کثافت رہی کوئی نہ جمود
ساری بے ربطگی.موسیقی میں تحلیل ہوئی
ایسی موسیقی.جو اک آبی پرندے کی طرح
اپنے پر وسعتِ افلاک میں پھیلائے ہوئے
نیلگوں بحر محبت یہ تھی
محو پرواز
اپنی ہی موچ طرب میں.تھی فضا پر رقصاں
اُسکے پر چھونے لگے
پر
تیرے قدم کی محراب
کوئی باقی نہ رہی پھر کسی معبد کی تلاش
اتنا نشہ ہے ترے پیار کے گیتوں میں کہ میں
دوست کہہ دیتا ہوں تجھ کو
121
Page 132
:
i
122
اسی مد ہوشی میں
تو تو مالک ہے
خداوند ہے
خالق ہے مرا
مجھ سے ناراض نہ ہونا
میں ترا چا کر ہوں
Page 133
آخر وہ دن آیا آج
یہ نظم عزیزه منصورہ منیب کی بچی کی پیدائش پر کہی تھی جس کے متعلق پہلے ہی عزیزہ ارم کو رویا میں
دکھایا گیا تھا کہ بیٹی ہو گی.منصورہ مکرمہ صادقہ حیدر صاحبہ مرحومہ اور سید مقصود حیدر صاحب کی بیٹی ہیں اور
ان کے میاں عزیزم منیب احمد ، میجر منیر احمد شہید کے صاحبزادہ ہیں.منصورہ لے کر آئی ہے
اپنی بھولی بھالی بچی
معجزہ ہے جو اک اللہ کا
اونچی قسمت والی بچی
حمد
گل
ثنا کے نغمے گاؤ
برساؤ اُردو کلاس
123
'
I
1
Page 134
ڈاکٹرز نے تو تھا
ڈرایا
منصورہ اور نیب کا بچہ
ہوا بھی تو معذور ہی ہوگا
پر
ہول نہ
نکلا
سچا
بات ہوئی پوری تو وہی جو
نے بتلائی تھی
الله
خواب میں اک خوشخبری بھاری
منصورہ کو دکھلائی تھی
حمد
و ثنا کے نغمے گاؤ
گل
برساؤ اُردو کلاس
و ثنا کے نغمے گاؤ
گل
برساؤ اُردو کلاس
ارم نے بھی تو دیکھی تھی
خواب میں منصورہ کی لال
پیاری، لمبی اور لم ڈھینگی
کرتی تھی جو دل کو نہال
حمد
گل
ثنا کے نغمے گاؤ
برساؤ اُردو کلاس
124
Page 135
ماں اور باپ ہیں دونوں خوش
خوش ہیں منصورہ کی ساس
تہنیت کرتی ہے
پیش
جھک کر سب کو اُردو کلاس
گل
و ثنا کے نغمے گاؤ
برساؤ اُردو کلاس
125
Page 136
ہار ٹلے پول کا وہ پھول ، وہ محبوب گیا
مکرم ڈاکٹر حمید احمد خان صاحب آف ہارٹلے پول (Hartlepool) کی وفات پر.ہارٹلے پول میں کل ایک کنول ڈوب گیا
ہارٹلے پول کا وہ پھول،
پھول وہ محبوب گیا
مسکراتا تھا ہمیشہ
وہ نجیب ابن
نجیب
اس کے اخلاق نرالے تھے ،ادا ئیں تھیں عجیب
پیکر ضبط تھا وہ
-
صبر کا شہزادہ تھا
اس کے گرویدہ تھے سب.ہر کوئی دلدادہ تھا
اس کے ہی غم سے تو آج آنکھیں ہوئی ہیں پُر آب
ذکر سے جس کے کھیل اٹھتے تھے کبھی دل کے گلاب
126
Page 137
یاد رکھے گی وہ اک پھول سدا اردو کلاس
دل سے اٹھلاتی ہوئی اٹھے گی اُس کی بُو باس
وہ سمندر کے کنارے ہمیں لے جاتا تھا
دیر تک وہ لب ساحل ہمیں ٹہلاتا تھا
راگ موجوں کا بڑوں چھوٹوں کو بہلاتا تھا
ب خیال آتا ہے وہ اس کے ہی گن گاتا تھا
کبھی ہم اُس کو لطیفوں سے ہنساتے تھے بہت
کبھی گاتے تھے تو وہ پیار سے سمجھاتا تھا
آؤ اب بنچوں
ساگر کے کنارے بیٹھیں
تھک چکے ہو گے تمہیں کل بھی تو جگراتا تھا
تمہیں مچھلی کھلاؤں گا تروتازہ چلو
میں
ابھی تک کھلا فش
فش شاپ کا دروازه چلو
ہے
اس کی مہمان نوازی ہمیں یاد آئے گی
بے غرض اس کی محبت ہمیں تڑپائے گی
وہ
کئے رکھتا تھا پہلے
سے ہی
کئی کھانوں کی لگا رکھتا تھا میزوں
تیار
قطار
127
Page 138
ہمیں بٹھلا کے بڑی تیزی سے پھر جاتا تھا
اپنے بچوں کو لئے ساتھ وہ سوئے بازار
جلد بازار سے لے آتا تھا تازہ مچھلی
گرم بھاپ
اٹھتی تھی مچھلی
سے نہایت مزیدار
اب اسے ڈھونڈنے جائے تو کہاں اردو کلاس
اسے اب دیکھے گی دل ہی میں نہاں اردو کلاس
صبر
جس کی خاطر وہ ہمیں کرتا تھا پیار اے وائے
وہ بھی غمگین ہے اُس کے لئے بے حد، ہائے
کی کرتا تلقین
وہ اوروں کو مگر
ہے
کاش اُس کو بھی تو اس غم سے قرار آجائے
دفن ہو جائے گا کل ساجدہ کی قبر کے ساتھ
اے خدا قرب دونوں کو بہت بہلائے
فاتحہ کے لئے ہم جائیں تو
ہم
نہ ہو
کہیں
شکوہ کریں وہ قبریں کہ اب کیوں آئے
کبھی ہم سے ملو گے بھی تو بس خوابوں میں
کنول اب نہ کھلیں گے کہیں تالابوں میں
128
Page 139
اندونيشيا
ابے عظیم - انڈونیشیا
جايا له - انڈونیشیا
تجھ میں تھیں جو چشم ہائے تر رحمت علی
بہرہ ور
آج بھی ہیں اُن میں سے
کئی
نرگسی خصال
دیده
ور
جن کو نور کر
نور کر گیا عطا
وہ
خدا کا بے ریا بشر
وہ
فقیر جس کی آنکھ میں نور مصطفی تھا
ابے عظیم - انڈونیشیا
جايا له - انڈونیشیا
جلوه گر
129
Page 140
ابراهیم
وقت
کا
سفیر
تھا
جسے تسلط آگ
پر
وہ
بے شمار گھر جلا کے
غلام اُس کے در کا تھا جس کی آگ تھی غلام در
جب
پہنچی شعلہ زن وہ اُس کے گھر
سرد پڑ گئی اور
ہو
گئی
ڈھیر آپ
اپنی راکھ
پر
بے عظیم - انڈونیشیا
جايا له - انڈونیشیا
تیری سرزمیں کی خاک
مثل
آدم
لياء
Par
پھر انہی کی خاک پاک
ہے
شمار
باخدا
اُٹھے
اُن کی سرمدی قبور
آج بھی
یہی ندا
اُٹھے
کاش تیری مٹی
ނ
مدام
جو اُٹھے
وہ
ابے عظیم - انڈونیشیا
جايا له - انڈونیشیا
کتنا خوش نصیب ہوں کہ میں تجھ
سے ہو رہا ہوں ہم کلام
اک
غلام
خیر الانبياء
کا غلام
در غلام در
غلام
بھیجتا ہوا
سلام
تحفہ
خلوص
لایا
ہوں
نفرتوں کا میں نہیں نقیب صلح و آشتی کا ہوں پیام
130
Page 141
تیرا
ہر
سر ہے تاجدار
حسین کوهسار
عظیم - انڈونیشیا
جايا له - انڈونیشیا
دن
ہے
خاک پا ہے سبزہ زار
پھوٹتی ہے آبشار محسن
جس سے وادیوں میں ہر طرف بہ
رہی ہے رُود بار
محسن
ہر گھڑی ہوں تجھ یہ گل ثار سبز پوش اے نگار حُسن
اے عظیم - انڈونیشیا
جايا له - انڈونیشیا
انڈونیشیا کے تاریخی سفر کے دوران جلسہ سالانہ انڈو نیشیا۲۰۰۰ء کے موقع پر پڑھی گئی.131
Page 142
وہ روز آتا ہے گھر پر ہمارے ٹی وی پر
اس بحر اور قافیہ ، ردیف میں احمد فراز صاحب کی ایک بہت ہی اعلیٰ پایہ کی نظم ہے.اس پر کسی نے مزاحیہ
تضمین کہی ہے.پس یہ اسی کی تضمین پر تضمین ہے اور اس کا رنگ اختیار کرتے ہوئے پنجابی، سندھی، سرائیکی
الفاظ کا استعمال کیا گیا ہے.ہے
وہ روز آتا ہے گھر پر ہمارے ٹی وی پر تو ہم بھی اب اسے انگلینڈ چل کے دیکھتے ہیں
وہ جس کی بچے بھی کرتے ہیں پیشوائی روز وہ اس کو شوق سے سنتے ہیں بلکہ دیکھتے ہیں
عجب مزا ہے جب اُردو کلاس ہوتی تو چھوٹے لڑکے بھی بلیوں اچھل کے دیکھتے ہیں
سنا ہے پیار وہ کرتا ہے غم کے ماروں سے تو ہم بھی درد کے قالب میں ڈھل کے دیکھتے ہیں
ہے ایم ٹی
اے بڑا مقبول اس کو پنجابی لگا کے اپنے گھروں پر ذیل کے دیکھتے ہیں
جو غیر احمدی سندھی ہیں ملاں کے ڈر سے وہ چھپ کے احمدی گوٹھوں میں چل کے دیکھتے ہیں
پٹھان مثلا کو ہیں اپنے گھر ہی لے جاتے اور اس کا چٹکیوں میں دل مسل کے دیکھتے ہیں
132
Page 143
غریب نقل کے دوکانوں میں ٹیلی ویژن کی بڑی لگن ، بڑی چاہت سے کھل کے دیکھتے ہیں
خدا کے فضلوں پر ہوتا ہے اپنا دل ٹھنڈا تو مولوی ہمیں کیوں اتنا جل کے دیکھتے ہیں
عروج اپنا مقدر ہے اور ان کا زوال یہ وہ اُبال ہے جس میں اُبل کے دیکھتے ہیں
ہمارے حال کے جب آئینے میں جھانکتے ہیں تو اس میں اپنے زبوں حال ، کل کے دیکھتے ہیں
جلسہ سالانہ یو کے.جولائی ۲۰۰۰ء)
133
1
Page 144
باپ کی ایک غم زدو بیٹی
باپ کی ایک غم زدہ بیٹی
کے بعد
دی
مسکرائی ہے
مگر پھر بھی
مسکراہٹ لیوں آئی ہے
پر
آنکھ نمناک
ہے
کہنے لگی کہ کیوں ابا آپ اتنے اداس بیٹھے ہیں
سب کو غمگین کر دیا ہے جو آپ کے آس پاس بیٹھے ہیں
اپنے دل میں بسا کے میرا غم کب تلک میرا درد پالیں گے
میرے دکھ کو لگا کے سینے سے کیا میرا ہر ستم اٹھا لیں گے
پ کی بیٹیاں ہیں اور بھی جو اپنوں ، غیروں کے ظلم سہتی ہیں
اپنے ماں باپ سے بھی چھپ چھپ کر راز دل آپ ہی سے کہتی ہیں
سب احمد کی بچیاں
134
Page 145
رات سجدوں میں اپنے رب کے حضور اُن کے غم میں بھی آپ روتے ہیں
جن کے ماں باپ اور کوئی نہ ہوں اُن کے ماں باپ آپ ہوتے ہیں
آپ نے زندگی گزارنی ہے ساری دنیا کے بوجھ اٹھائے ہوئے
آپ سے مانتے ہیں مرہم دل سب کے ہاتھوں سے زخم کھائے ہوئے
اُن کو سمجھائیں ان سے بھی زیادہ ہیں ستم دیدہ لوگ دنیا میں
اپنوں کے ہاتھ مرنے والوں پر روز ہوتے ہیں سوگ دنیا میں
135
Page 146
میں مجھ سے نہ مانگوں تو نہ مانگوں گا کسی سے
میں تیرا ہوں تو میرا خدا میرا خدا ہے
Beats
136
}
Page 147
ابتدائی کلام
کے
چند نمونے
137
Page 148
تیرے لئے ہے آنکھ کوئی اشکبار دیکھ
آنکھ کوئی اشکبار
تیرے
لئے
ہے
نظریں اُٹھا
خدا
کے
لئے ایک
بار
او
دل کشتی گل نظر اُٹھا
من
میں
حال
زار
نزار
ہزار
اٹھی بس
ان
ایک نوائے جگر خراش
ٹوٹے
پڑے ہیں بربط ہستی
ہستی کے
تار
مجھ
آج
وعدة ضبط الم
لے
ان
آنسوؤں
کا کوئی نہیں
اعتبار دیکھ
138
Page 149
کانٹوں
توڑ
کر
آنسو
برس
اپنوں
بھی نہیں
میں ہائے کیوں میری ہستی اُلجھ گئی
ہے
مجھے اختیار
وہ
کھیل کھیلا
اٹھا
ہے
لاله زار دیکھ
نوٹ : کالج کے ابتدائی زمانہ کی ایک غزل جس کا پہلا شعر والدہ مرحومہ کی ایک تصویر کا مرہون منت ہے.139
Page 150
لوح جہاں پہ حرف نمایاں نہ بن سکے
لوح جہاں پہ حرف نمایاں نہ بن سکے ہم جس جگہ بھی جا کے رہے بے نشاں رہے
اتنا تو یاد ہے کہ جہاں تھے اُداس تھے یہ کس کو ہوش ہے کہ کہاں تھے کہاں رہے
حال دل خراب تو کوئی نہ پا سکا چین جبیں سے اہلِ جہاں بدگماں رہے
آنکھوں نے راز سوز دروں کہہ دیا مگر بزم طرب میں ہونٹ تجسم کناں رہے
یاروں نے ، اپنے اپنے مقاصد کو جالیا یاں عقل و دل بشکش این و آں رہے
یا جوش و ذوق و شوق یا کم ہمتی سے شعف سب کچھ ہوا کیا پہ جہاں کے تہاں رہے
مجھ کو جو دُ کھ دیے ہیں نہیں مجھ سے کچھ گلہ میری دُعا یہی ہے کہ تو شادماں رہے
اپنی تو عمر روتے کئی ہے پر اس سے کیا جا ، میری جان ، تیرا خدا پاسباں رہے
إحساس نامرادی دل شعلہ سا اٹھا ہم جاں بلب پڑے رہے آتش بجاں رہے
ور ستمبر ۹۴۸ء)
140
Page 151
بہیں اشک کیوں تمہارے انہیں روک لو خدارا
ہیں اشک کیوں تمہارے انہیں روک لو خدا را مجھے دُکھ قبول سارے یہ ستم نہیں گوارا
لوخدا
ہو کسی کے تم سراپا مگر آہ کیا کروں میں میری روح بھی تمہاری میرا جسم بھی تمہارا
میں غم والم کی موجوں سے اُلجھ رہا ہوں تنہا مجھے آکے دو سہارا مجھے تھام لو خدارا
میری دل شکستگی پر مجھے غرق غم سمجھ کر وہ جو ایک آرزو تھی وہی کر گئی کنارا
مجھے اذنِ مرگ دے کر وہ افق پہ چاند ڈوبا دو میرا نصیب لے کر کوئی بجھ گیا ستارا
لوڈھلک گیا وہ آنسو کہ جھلک رہا تھا جس میں تری شمع رُخ کا پر تو تیر ا عکس پیارا پیارا
ہے مجھے تلاش اُس کی جو کبھی کا کھو چکا ہے مجھے جستجو کا کر کے کہیں دُور سے اشارا
مجھے چھوڑ کر گئے ہو میرا صبر آزمانے تو سنو کہ اب نہیں ہے مجھے ضبط غم کا
یارا
141
Page 152
عشق نارسا
کبھی اپنا بھی اک شناسا تھا کوئی میرا بھی آسرا سا تھا
کبھی میں بھی کسی کا تھا مطلوب یا مجھے بس یونہی لگا سا تھا
حُسن صنعت کا معجزہ سا تھا
09
نرگسی
سراپا جمال
چشم نیم باز اُس کی چمن دل کھلا کھلا سا تھا
خم لب.برگ گل کی انگڑائی ذہن غنچہ.نیم وا سا تھا
حُسن کی چاندنی سے تابندہ پھول چہرہ کھلا کھلا سا تھا
خوش تکلم سا خوش ادا سا تھا بے تکلف سا بے ریا سا تھا
پہلی بار جیسے صدیوں سے آشنا سا تھا
یوں لگا
جب ملا وہ
بھر دیا اُس نے وہ جو برسوں سے میرے سینے میں اک خلا سا تھا
اک گرشمه فسوں کا پُر اسرار حیرتوں کا مجسمہ سا تھا
142
Page 153
خامشی میں سرودِ بے آواز گفتگو میں غزل سرا سا تھا
دھوپ میں سائے دار اُس کا پیار اور اندھیروں میں اک دیا سا تھا
آشنا ہو کے اجنبی تھا وہ شخص ساتھ رہ کر جُدا جُدا سا تھا
دل میں گھر کر گیا وہ دل کا چور دل نشیں کتنا دلربا سا تھا
بن سکا نہ مرا کبھی لیکن
وہ ہمیشہ میرا میرا سا تھا
اُس کے دائم فراق میں شب و روز وصل کا سرمدی مزا سا تھا
جب بھی وہ آیا ساتھ نغمہ سرا آرزوؤں کا طائفہ سا تھا
ب گیا حسرتوں کا اُس کے ساتھ ایک غمناک
ایک غمناک جمگھٹا سا تھا
مجھے کنگال کر گیا وہ شخص میرا تو بس وہی اثاثہ تھا
میں نہیں جانتا وہ تھا کیا چیز تھی حقیقت کہ واہمہ سا تھا
تھا وہ تعبیر میرے خوابوں کی یا ہیولی سا خواب کا سا تھا
پیار میں جس کے عُمر بیت گئی
گئی کیا فقط ایک دم دلاسہ تھا؟
ہوش جب گھلا.دیکھا ہر طرف پھر وہی خلا سا تھا
دیده
وہی میں تھا وہی طلب دل کی وہی اک عشق نارسا سا تھا
پیاس بجھ نہ سکی کسی کے سے جانے دل کس بلا کا پیاسا تھا
143
Page 154
داڑھی کا برگد
میرے بھائی آپ کی ہیں سخت چنچل سالیاں
شعله
جواله ہیں آفت کی ہیں پر کالیاں
کی داڑھی کا برگر دیکھ پاتیں وہ اگر
پینگیں ڈالتیں ، گائیں ، بجائیں تالیاں
اس
توڑ دیتیں ڈالیاں ، آتا نہ کچھ ان کو خیال
آپ تو داڑھی منڈا کر بچ گئے ہیں بال بال
یہ بہت پرانے شعر ہیں جو میاں وسیم احمد صاحب کی اجازت سے ہم شائع کر رہے ہیں.144
Page 155
۱۹۴۴ء کی نظم کے دوشعر
رض
بروفات حضرت امی جان
گو جُدائی ہے
کٹھن ڈور بہت ہے منزل
پر میرا آقا بُلا لے گا مجھے بھی اے ماں
اور پھر تم سے میں مل جاؤں گا جلدی یا بدیر
اُس جگہ.مِل کے جُدا پھر نہیں ہوتے ہیں جہاں
145
Page 156
نذرِ ” راوی غرق راوی
بذل حق محمود
66
سے میری کہانی کھو گئی
وہ
بذل حق سے روٹھ کر واصل حق ہوگئی
نذر "راوٹی کی تھی میں نے کتنے ارمانوں کے ساتھ
66
ناؤ لیکن کاغذی تھی غرق " راوی ہوگئی
(1)
ایڈیٹر راوی
(۲) گورنمنٹ کالج لاہور کا میگزین
الله)
پنجاب کا مشہور دریا
146
Page 157
بدلا ہوا محبوب
ایک بہت پرانی نظم.معمولی تبدیلیوں کے ساتھ
منتظر میں ترے آنے کا رہا ہوں برسوں
لگن تھی تجھے دیکھوں تجھے چاہوں برسوں
رات کے پردے میں چھپ چھپ کے تجھے یاد کیا
دن نکل آیا تو دن تجھے سے ہی آباد کیا
لیکن افسوس که فرقت کے زبوں حال کے بعد
دل میں روندی ہوئی اک حسرت پامال کے بعد
آہ جب وصل کی امید کی کو جاگ اٹھی
کلفت هجر شب و روز و مہ و سال کے بعد
147
}
Page 158
آج آیا بھی تو بدلا ہوا محبوب آیا
غیر کے بھیس میں لپٹا ہوا کیا خوب آیا
اس طرح آیا کہ اے کاش
کاش نہ آیا ہوتا
مجھ سے چھینیا ہوا.سو پردوں میں محبوب آیا
جسم اس کا ہے سب انداز مگر غیر کے ہیں
آنکھ اس کی ہے پر اطوار نظر غیر کے ہیں
چاند تھا میری نگاہوں کا مگر دیکھو تو
بام و در جن کے اجالے ہیں وہ گھر غیر کے ہیں
اے مجھے ہجر میں دیوانہ بنانے والے
غم فرقت میں شب و روز ستانے والے
اے کہ تو تحفہ درد
و
غم لایا ہے
دیر کے بعد بڑی دُور سے آنے والے
جا کہ اب قرب سے تیرے مجھے دُکھ ہوتا ہے
اے شب غم کے سویرے مجھے دُکھ ہوتا ہے
(غالبا ۱۹۴۵ء)
148
Page 159
میاں چھیمی کا حلوہ
یہ نظم بچپن میں ضلع کانگڑہ کے ایک پر فضا پہاڑی مقام دھر مسالہ میں کہی تھی جہاں ہم آٹھ
بھائی اپنے ابا جان کے ساتھ گئے ہوئے تھے.وہاں بھائیوں نے آپس میں پیسے ڈال کر حلوہ بنانے کا
پروگرام
بنایا تھا.جب حلوہ پک چکا تو میاں وسیم جنہیں ہم اُن دنوں تھیمی کہا کرتے تھے ، حلوہ اٹھائے
ہوئے تیزی سے ہماری طرف آرہے تھے کہ رستے میں فکر لگی اور ان کے ہاتھ سے دیگچھ چھوٹ کر سارا
حلوہ مٹی میں مل گیا.ہم نے انہیں چھیڑ نے کی خاطر یہ قصہ بنایا اور میں نے اسے نظمایا لیکن یہ نظم محض
بچپن کی اک چھیڑ چھاڑ تھی ورنہ میاں ، سیم کی نیت ہر گز حلوہ اکیلے کھانے کی نہیں تھی.قیض میری
بڑی بہن، بیگم مرزا مظفر احمد صاحب کا ایک ملازم تھا جو اُن دنوں اُن دونوں کے ساتھ ہی وہاں ٹھہرا ہوا
تھا اور چھوٹا ہونے کی وجہ سے بے تکلف اس کا گھر میں آنا جانا تھا.امی سے مراد میری امی مرحومہ ہیں
جن سے میاں و سیم بلاوجہ بچپن میں بہت ذرا کرتے تھے.یہ نظم میاں وسیم احمد صاحب کی اجازت سے
شامل اشاعت کی جار ہی ہے.اک پیسہ پیسہ جوڑ کر بھائیوں نے شوق سے
سوچا تھا یہ کہ سوجی کا حلوہ بنائیں گے
149
Page 160
پھر بیٹھ کر مزے سے کسی بند کمرے میں
اک دوسرے کو حلوے پہ حلوہ کھلائیں گے
چھیمی نے سوچا کیوں نہ اکیلا ہی کھاؤں میں
باورچی خانہ چوری چھپے کیوں نہ جاؤں میں
ہوشیار بننے والوں کو بدھو بناؤں میں
جب مجھ کو کھانے دوڑیں، کہیں بھاگ جاؤں میں
یہ سوچ کے چلا گیا باورچی خانے میں
باورچی تھا مگن وہاں حلوہ پکانے میں
اُس سے کہا میں تھک گیا ہوں آنے جانے میں
بھائی ہیں میرے منتظر اندر زنانے میں
جب
پھر دیگچی اٹھا کے وہ تیزی سے چل پڑا
حلوہ کی طرح منہ سے بھی پانی اُبل پڑا
کیا علم تھا کہ راہ میں دیکھے گا قیص کو
دیکھا تو ڈر سے سینہ میں دل ہی اچھل
قیص نے کہا تمہیں امی بلاتی ہیں
امی کا نام سنتے ہی بس
سنتے ہی بس وہ ٹھیٹھر گیا
دیکھئے کہ کہاں ٹوٹی جا کمند
طوه
قریب دہن ہی آیا تھا ، گر گیا
پڑا
150
Page 161
یہ دو آنکھیں ہیں شعلہ زا
دو آنکھیں
ھیں ہیں شعلہ زا.یا جلتے ہیں پروانے دو
اشک ندامت پھوٹ پڑے.یا ٹوٹ گئے پیمانے دو
تو مری موجودگی میں تم اکتائے سے سے رہتے تھے
اب میرے بعد تمہارا دل گھبرائے گا گھبرانے دو
دکھ اتنے دیئے میں سہہ نہ سکا یوں زیست کا رشتہ ٹوٹ گیا
اب اپنے کئے پر ظالم دل پچھتاتا ہے پچھتانے دو
خوش ہو کے کرو رخصت دیکھو.تم ناحق اپنی پلکوں پر
جو اشک سجائے بیٹھے ہو.ان اشکوں کو ڈھل جانے دو
ر کر بھی مرا ، یہ بھیگی آنکھیں ، چین اڑادیں گی.تو
یہ مجھے چراغ سجاؤ گے میرے مرقد کے سرہانے دو
نیند آئی ہے تھک ہار چکا ہوں چھوڑو بھی پچھلی باتیں
میں رات بہت جاگا ہوں ، اب تو ، صبح تلک سستانے دو
(۱۹۴۴)
151
Page 162
ہم کو قادیاں ملے
ہیں لوگ
لوگ
وہ
بھی چاہتے ہیں دولت
جہاں ملے
زمین ملے مکاں ملے.سکون قلب و جاں ملے
پر احمدی وہ ہیں کہ جن کے
دعا
ہاتھ اُٹھیں
تڑپ تڑپ کے یوں کہیں کہ ہم کو قادیاں ملے
ہوا کہ مشرکوں نے بت کدے بنا دیئے
خُدا کے گھر
که درس وحدت
خدا جہاں ملے
تمہاری
راه
دیکھتی
ہیں مسجدیں
وہ
ہیں
خانه
خدا
بڑھے
براه
دیں
نصیب کہ تمہیں
خوش نصیب
پھر اذاں
یار
-
خليفة
ނ
امیر
کارواں
152
1
Page 163
کامران جیو
شہید ہو تو اس طرح
جاوداں ملے
دین کو تمہارے بعد عمر
ہے زندہ قوم نہ جس میں ضعف کا نشاں ملے
طفل طفل
وہ
طفل ، پیر پیر ، جس کا تو جواں ملے
(جلسہ سالانہ لاہور ۱۹۴۹ء)
153
Page 164
رنج تنہائی
اُف یہ تنہائی تری اُلفت کے مٹ جانے کے بعد
تیری فرقت میں تو اتنا رنج تنہائی نہ تھا
اب پتا کر عمر ہوش آئی تو یہ عقدہ کھلا
عشق ہی پاگل تھا ورنہ میں تو سودائی نہ تھا
کیسی کیسی شرم تھی ، کیا کیا حیا تھی پردہ دار
پیار جب معصوم
تھا اور
وجه
رسوائی نہ تھا
وائے پیری کی پشیمانی ، جوانی کے جنون
خود سے میں شرمندہ تھا، مجھ سے مرا آئینہ تھا
154
Page 165
الھام کلام اس کا
مصنفہ
امہ الباری ناصر
Page 166
نام کتاب:
الہام کلام اُس کا
مصنفہ :
امتہ الباری ناصر
طبع اول:
۲۰۰۳
کاپی رائٹس :
اسلام انٹر نیشنل پبلیکیشنز لمیایند
پبلشر:
islamabad
Sheephatch Lane
Islam International Publications Ltd.Tilford, Farnham, Surrey, GU10 2 AQ
2
رقیم پر لیں.اسلام آباد
ISBN:1853727474
مط
Page 167
صفحہ نمبر
۲۱
۲۱
۱۸
19
۱۲
۱۳
۱۴
۱۶
IA
= > > N
کام کا آغاز
عناوین
انڈیکس
شوکت مضمون اور کیفیات کی لطافت کی چند مثالیں
فلسفہ اصلاح
لفظوں کے حکیمانہ انتخاب میں جانکا ہی کی چند مثالیں
نظم نمبر.ظہور خیر الانبیا ملے
i تار یکی پر تاریکی اندھیروں پر اندھیرے
ii.آیا وہ فنی جس کو جو اپنی دعا پہنچی
iii.اشعار میں اضافہ
نظم نمبر ۲.اے شاہ مکی و مدنی سید الوری میں
ا.اے میرے والے مصطفی و اے میرے رہنما
ii.اڑتے ہوئے بڑھوں ، ترکی جانب سوئے حرم
نظم نمبر ۳.حضرت سید ولد آدم صلی اللہ علیہ وسلم
ام نبیوں کا سرتاج ابنائے آدم کا معراج محمد ا ہے
ii.مہر و ماہ نے توڑ دیا دم
ili.تنا ا طم عرفان کا قلزم
نظم نمبر ۴.آج کی رات
ا.آنکھ اپنی ہی ترے ہجر میں ٹپکاتی ہے
ii.کاش اتر آئیں یہ اُڑتے ہوئے سیمیں لمحات
نظم نمبرے.موسیٰ پلٹ کر وادی ایمن اداس ہے
3
Page 168
۲۱
۲۲
۲۳
۲۸
۲۹
۲۹
۳۰
۳۲
سم
۳۲
هم لم
ا.برق تپاں ہے خندہ کہ خرمن اُداس ہے
نظم نمبر ۸.اے مجھے اپنا پرستار بنانے والے
ا غم فرقت میں کبھی اتناز لانے والے
نظم نمبر ۹.کیا موج تھی جب دل نے جے نام خدا کے
ا.اک ذکر کی دھونی مرے سینے میں رما کے
ii.میں ان سے جدا ہوں مجھے چین آئے تو کیوں آئے
نظم نمبر ۱۰.دیار مغرب سے جانے والو دیار مشرق کے باسیوں کو
ا.اے میرے سانسوں میں بسنے والو
نظم نمبر ۱۳.پورب سے چلی پر نم پر نم باد روح و ریحان وطن
ا.کیا حال تمہارا ہو گا جب شداد ملائک آئیں گے
ii.آزاد کہاں وہ ملک جہاں قابض ہو سیاست پر ملاں
نظم نمبر ۱۴.تو مرے دل کی شش جہات بنے
ا.تیرے منہ کی سبک سبک باتیں
ii.کتنے دل کھنڈر بنائے گئے
نظم نمبر ۱۸ تری راہوں میں کیا کیا ابتلاء روزانہ آتا ہے
ا.بلائے ناگہاں اک نت نیا مولا آتا ہے
نظم نمبر ۲.ان کو شکوہ ہے کہ ہجر میں کیوں تڑپایا ساری رات
ا.کچھ لوگ گنوا بیٹھے دن کو جو یار کما یا ساری رات
نظم نمبر ۱۳ جائیں جائیں ہم روٹھ گئے اب آکر پیار جتائے ہیں
ا.جو آنکھیں مند گئیں رو رو کر اور گھل گھل کر جو چراغ بجھے
ا.ظالم نے اپنے ظلم سے خود اپنے ہی افق دھندلائے ہیں
نظیم نمبر ۱۳.وقت کم ہے بہت ہیں کام چلو
i.کہہ رہا ہے خرام بادصبا
4
Page 169
۳۵
۳۵
سم
۳۸
۳۸
سهام بهم
۴۵
iiبحر عالم میں اک بپا کر دو
نظم نمبر ۳۹.اپنے دیس میں اپنی بستی میں اک اپنا بھی تو گھر تھا
ا.آخر دم تک تجھ کو پکا را آس نہ ٹوٹی دل نہ ہارا
ا.سب فانی اک وہی ہے باقی آج بھی ہے جو کل ایشر تھا
نظم نمبر ۱۹ تری بق کا سفر تھا قدم قدم اعجاز
نظم نمبر ۳۰.ہے حسن میں ضو غم کے شراروں کے سہارے
اشعار میں اضافہ
اعراب اور تلفظ کے بارہ میں رہنمائی
فرهنگ GLOSSARY
کلام طاہر کی طباعت پر اظہار خوشنودی اور دعائیں
کلام طاھر میں اضافے اور لندن سے طباعت
اپنی جھولی کے چند لعل و جواہر
5
Page 170
بسم الله الرحمن الرحيم
نحمده و نصلی علی رسوله الكريم وعلى عبده المسيح الموعود
آج جو شاہ کار آپ کی خدمت میں پیش کر رہی ہوں وہ کچھ ٹکڑوں کو جوڑ کر بنا ہے.ہرنکڑ اسیدی؛
آقائی حضرت خلیفہ امسیح الرابع رحمہ اللہ تعالی کی تخلیق ہے.میں نے صرف انہیں ترتیب دے کر فریم
کیا ہے.یہ میرے پاس ایک امانت تھی جو اس کے حقداروں یعنی ساری جماعت کو ادا کر رہی ہوں.پس منظر یہ ہے کہ 1991ء میں کلام طاہر دیکھ کر خیال آیا کہ طباعت شایان شان نہیں ہے
چھوٹی سے پتلی سی کتاب ، کتابت کی غلطیاں نظمیں نامکمل سرورق پر دھندلی تصویر.یہ کتاب تو اس
سے بہت بہتر طریق پر شائع ہونی چاہئے ، کیوں نہ لجنہ کراچی یہ کام کرلے.اپنی رفیقہ کار مسز برکت
ناصر سے مشورہ کیا تو وہ اچھل پڑیں.ہم نے دعا کی اور حضور پُر نور سے اجازت حاصل کرنے کے لئے
خط لکھ دیا.۱۲ مارچ ۱۹۹۲ء کا تحریر کردہ مکتوب موصول ہوا:
' آپ نے جو کلام طاہر کے متعلق لکھا ہے اس پر آپ کا شکریہ.اس میں کئی جگہیں ایسی ہیں جن
میں ابھی تک پوری تسلی نہیں.شاید کسی وقت اصلاح کا موقع مل جائے.لیکن آپ کے نزدیک کوئی خطی
رہ گئی ہے تو اس کی طرف بھی متوجہ کریں اس کو بھی ٹھیک کر لیں گے اور پھر انشاء اللہ چھپوانے کی
اجازت بھی دی جاسکتی ہے.کچھ پرانی نظموں میں سے بھی ایک آدھ شامل کی جا سکتی ہے.خاکسار نے سرخوشی میں چند کتابت کی غلطیاں لکھیں اور کچھ اشعار پر نظر ثانی کی
درخواست کی.مقصد صرف یہ تھا کہ بات آگے بڑھے اور حضور اپنے کلام پر نظر ثانی کا کام
شروع فرما دیں.حضور پر نور کا پذیرائی کا مکتوب ملا :
" آپ کا خط ملا.نثر میں ایسے لطیف اور اعلیٰ پائے کے شعر بہت کم پڑھنے میں آتے ہیں جیسے
آپ کا یہ خط ہے.بعض چھوٹے چھوٹے لطیف اشاروں کے ساتھ بعض مضامین پر ایسے عمدہ
تبصرے آپ نے کئے ہیں جیسے کسی خوبصورت سیرگاہ میں جاتے ہوئے انسان کبھی دائیں
کبھی بائیں
6
Page 171
قابل دید مقامات کی طرف اشارہ کرتا ہے.ماشاء اللہ آپ کو یہ خوب فن عطا ہوا ہے.اللہ آپ کی
ذہنی قلبی صلاحیتوں کو اور بھی چمکائے اور روشن تر فرمائے.خلاصہ آخری بات کا یہی ہے کہ اگر آپ
متوجہ نہ کراتیں تو شاید اپنے کلام پر نظر ثانی کی توفیق ہی نہ ملتی.اور ملتی بھی تو بہت محنت کرنی پڑتی.آپ
نے تو ایک ایک جگہ جہاں ضرورت تھی کہ توجہ کی جائے ہاتھ لگا لگا کر دکھا دی.امید ہے جب باقی مسودہ آئے گا تو پھر باقی کام بھی انشاء اللہ اسی طرح آسان ہو جائے گا.اب تو اس کی شدت سے انتظار ہے.ابھی تک تو آپ نے بھیجا ہی نہیں حالانکہ اب تک دیر کرنے کا
دوش مجھ پر رہا..امید ہے جب آپ کلام شائع کرائیں گی تو وہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے مستند ہوگا
اور وہ لوگ جو اپنی طرف سے نئے نئے نمونے شائع کراتے رہتے ہیں وہ سلسلہ اب ختم ہو جائے گا.اللہ
آپ کے ساتھ ہو.(مكتوب ۲۸ فروری ۱۹۹۳)
شوکت مضمون اور کیفیات کی لطافت کی چند مثالیں
جو مشورے حضور پُر نور کو بھجوائے تھے ان میں محترم محمد سلیم صاحب شاہجہانپوری کی آراء بھی شامل
تھیں.حضور نے ہمیں فن شعر اور فن اصلاح، خاص طور پر اشعار میں مضامین کے بیان کی اہمیت
سمجھائی.یہ اس لائق ہے کہ اعلیٰ پائے کی تنقیدی کتب میں جگہ پائے.آپ نے تحریر فرمایا:
وو
شعر کی دنیا اس سے زیادہ وسیع ہے کہ زبان درست ہو اور غلطیوں سے پاک ہو
اور محاورہ ٹکسالی کا ہو اور اوزان کے لحاظ سے اور لفظوں کے استعمال کے لحاظ سے کلام نوک زبان پر
بھاری نہ ہو.بعض اوقات صحت زبان اور صحت محاورہ کے تقاضے جذبات کی شدت کے اظہار
اور اظہار حق سے متصادم ہو جاتے ہیں یعنی اظہار حق جس زبان میں ممکن ہو اس سے بہتر مرصع زبان
میں مگر حق سے کچھ ہٹ کر ایک بات کی جاسکتی ہے.بعض دفعہ ممکن نہیں رہتا کہ بیک وقت کوئی اپنے
متموج جذبات اور سچائی اور گہرے درد کے تقاضے پورے کرتے ہوئے زبان کی صحت اور قاعدے
قانون کی پابندی کا بھی حق ادا کر سکے.ایسی صورت میں کبھی کبھی کچھ نہ کچھ مروج قاعدوں کوتوڑنا
7
Page 172
بھی پڑتا ہے اور استثناء کی نئی کھڑکیاں کھولی جاتی ہیں.دنیا کے تمام چوٹی کے شعراء نے کیفیات کے
اعلی تقاضوں پر بار ہازبان دانی کی قیود کو قربان کیا ہے.شیکسپیر میں بھی یہ بات ملتی ہے اور غالب میں بھی.اور دیگر شعراء میں بھی اپنے اپنے مرتبہ اور اسلوب کے اعتبار سے کچھ نہ کچھ ایسی مثالیں دکھائی
دیتی ہیں.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے اردو اور عربی کلام میں بھی یہی بالا اصول کارفرما ہے
که شوکت مضمون اور کیفیات کی لطافت پر زبان دانی کے نسبتا ادنی تقاضوں کو قربان کیا جائے.66
(مكتوب ١٦ جنوری ۱۹۹۳ء صفحه ۱)
آئین سخن اور آئین حق
اس ٹھوس تحریر کے ساتھ اسی مکتوب سے ایک ہلکا پھلکا ٹکڑا بھی پیش کرتی ہوں.انداز لطیف لیکن
سبق بہت ثقیل تحریر فرماتے ہیں:
مکرم محترم سلیم صاحب شاہجہانپوری نے خوب لکھا ہے کہ آئین سخن میں اصلاح تجویز کرنا
گستاخی شمار نہیں ہوتا ، یہ بالکل درست ہے.اسی سے حوصلہ پاکر میں ان کی خدمت میں یہ بھی
گزارش کرنا چاہتا ہوں کہ آئین سخن میں اصلاح قبول نہ کرنا بھی غالبا گستاخی شمار نہیں ہوگا.خصوصاً جبکہ پاسِ ادب رکھتے ہوئے احترام اور معذرت کے ساتھ ایسا کیا جائے.دوسری بات یہ ہے کہ آئین سخن ہی کی بات نہیں، آئین حق یعنی سچائی کے آئین میں بھی تو ازل
سے یہی دستور چلا آ رہا ہے کہ صحیح گستاخی شمار نہیں ہوتی.نماز با جماعت میں بھی اللہ تعالیٰ نے یہی
سبق ہمیں دیا ہے.سبحان اللہ ! کیا پاکیزہ طریق اصلاح کا سکھایا.سبحان صرف اللہ ہی کی ذات
ہے.(مکتوب ۱۶ جنوری ۱۹۹۳ء صفحه ۲)
فلسفہ اصلاح
Page 173
اصلاح کے مشورے اور اصلاح قبول کرنے کے اختیار کے ساتھ آپ نے فلسفہ اصلاح
بھی سمجھایا.فرماتے ہیں:
رہا فلسفہ اصلاح تو میرے نزدیک ہر قادر الکلام استاد کا یہ حق تو ہے کہ کسی دوسرے کے شعر کی
اصلاح کرے لیکن اصلاح کا حق صرف اتنا ہی ہے کہ اس مضمون کو تبدیل کئے بغیر جو شاعر بیان کرنا
چاہتا ہے.بہتر الفاظ میں (زبان کے سقم کو دور کر کے ) بیان کرنے میں اس کی مدد کرے یا اگر
طرز بیان بے جان ہے تو الفاظ کے تغیر و تبدل سے اسی مضمون میں جان ڈال دے مگر نیا مضمون داخل
کرنے کو میں اصلاح نہیں سمجھتا ، نہ ہی زبان کی اصلاح کرتے کرتے مضمون کا حلیہ بگاڑ دینا میرے
نزدیک اصلاح میں داخل ہے.(مکتوب ۱۶ جنوری ۱۹۹۳ء صفحه ۳)
خاکسار تسلیم کرتی ہے کہ اپنی کم فہمی کی وجہ سے ذوقِ سلیم کی بلندیوں پر متمکن پیارے حضور کی
کوفت کا سامان کیا.مگر یہ تو دیکھئے کہ اس معدن علم پر ہلکی سی دستک سے کیا کیا خزائن ابل پڑے، کیسے
کیسے ٹھنڈے میٹھے پانیوں کے چشمے جاری ہو گئے.ایک کوہ وقار کے نہاں خانہ دل کی کچھ کھڑکیاں کھل
گئیں.پس میری کوتاہیوں سے صرف نظر کر کے اس سدا بہار گلستان کی سیر کیجئے.فرماتے ہیں:
جو کام سالہا سال سے کرنے کو پڑا تھا مگر نہ وقت ملتا تھا نہ دماغ میسر آتا تھا وہ آپ
نے آسان کر دیا.نشان لگا کر بھیج دئے اور پیچھے پڑ کر مجبور کر دیا کہ اب اس کام کو نہ ٹالو حسنِ اتفاق
سے مسودہ ملنے کا وقت بھی نہایت موزوں ثابت ہوا.چنانچہ کینیڈا سے واپسی پر ہالینڈ میں قیام کے
دوران کچھ فرصت میسر آگئی اور اللہ کے فضل سے دو دن کے اندر ہی ان مقامات کی تصحیح کی توفیق مل گئی
جن کے متعلق دیرینہ خلش تو تھی مگر وقت کے ہاتھوں مجبور تھا.یہی روک تھی کہ کبھی کسی کو کلام شائع کرنے
کی اجازت نہیں دی اور جنہوں نے بلا اجازت شائع کیا انہوں نے نہ صرف اس حصے کو اسی طرح غلط
شائع کر دیا جس پر میں نظر ثانی کرنا چاہتا تھا بلکہ ہو کتابت کی وجہ سے سو نہم کی بناء پر کلام میں
مزید بہت سے سقم پیدا کر دئے.مثلاً اضافت کا غلط استعمال، الفاظ کی بے جا تکرار وغیرہ.جس نے
9
Page 174
مضمون بھی بگاڑا اور وزن بھی تو ڑا.علاوہ ازیں بعض الفاظ کا چھٹ جانا وغیرہ وغیرہ.اب ان سب
جگہوں پر میں نے درستی کر دی ہے مگر یہ غلطیاں نہیں تھیں بلکہ کتابت یا ناشر کے فہم کا قصور تھا.لیکن اس
قبیل کے قابل اصلاح شعروں کے علاوہ بھی متعدد ایسے اشعار تھے جو کئی طرح کے ستم رکھتے تھے
جن کے لئے دماغ اور وقت کا میسر آنا ایک مسئلہ بنا ہوا تھا.مدت سے ذہن یہی بات سوچتا اور
ٹالتا رہا کہ کسی وقت تسلی سے ٹھیک کر کے زبان کے تقاضے قربان کئے بغیر مضمون کا حق ادا کرنے
کی کوشش کروں گا.اور اگر آپ اس طرح مستقل مزاجی اور صبر کے ساتھ مجھے بار بار تنگ نہ کرتیں تو
شاید یہ کام کبھی بھی نہ ہوتا.کا کا
☆......✰
(مكتوب ١٦ جنوری ۱۹۹۳، صفحه (۳)
لفظوں کے حکیمانہ انتخاب میں جانکاہی کی چند مثالیں
پیارے حضور نے نظموں کی اصلاح کرتے ہوئے جو حکمتیں سمجھائی ہیں وہ علوم کا ایک خزانہ
ہیں.جن کے مطالعہ سے اندازہ ہوتا ہے کہ آپ کسی چیز کو سرسری نظر سے نہیں دیکھتے بلکہ حرف
حرف اور لفظ لفظ کے مزاج کی تہ میں اترتے ہوئے مناسب جگہ پر استعمال فرماتے ہیں.اور اس کے
ساتھ ایک مربوط فکری پس منظر ہوتا ہے.آپ فرماتے ہیں:
آپ کو اندازہ نہیں ہے کہ میں جو شعر کہتا ہوں وہ صرف اکیلا ہی نہیں بلکہ بعض دفعہ اس کی دس
دس اور پندرہ پندرہ متبادل صورتیں ذہن میں آئی ہوتی ہیں اور پھر ان میں سے ایک کو کسی وجہ سے
چتا ہوں.تو اب میں آپ کو اپنے ساتھ وہ سارا سفر کس طرح کرواؤں کہ کیوں بالآخر متعدد امکانی
صورتوں میں سے ایک کو اختیار کیا.(مکتوب محرره ۲۲/اکتوبر ۱۹۹۳ء صفحه ۱۳)
☆
اب حضور پر نور کے مکاتیب سے لفظوں کے چناؤ میں جانکاہی کی کچھ مثالیں پیش کرتی ہوں.نظم نمبر ا
10
Page 175
تاریکی یہ تاریکی اندھیروں پر اندھیرے
په
حضور انور نے تحریر فرمایا:
آپ کا خط ملا.اندھیروں پر اندھیرے کے متعلق آپ نے لکھا ہے کہ اسے
ان دھیرا پڑھنا پڑتا ہے.اس سے میں آپ کا جو مطلب سمجھا ہوں وہ یہ ہے کہ نون غنہ غائب سا
پڑھا جائے جو وزن میں اضافہ نہ کر سکے.آپ کے نزدیک اگر نون غنہ پڑھا جائے تو سویروں پر
سویرے کی طرز اور وزن پر اندھیروں پر اندھیرے پڑھا جائے گا.ورنہ ان اور دھیرا دو حصے پڑھنے
پڑیں گے.آپ کی دلیل بڑی واضح ہے اور خلاصہ اس کا یہی نکلتا ہے کہ نون غنہ اس طرح ادا ہو کہ
گویا زائد لفظ موجود ہی نہیں.اس طرح ادھیرے اور اندھیرے کا ایک ہی وزن ہوگا.اسی اصول کو
مندرجہ ذیل مثالوں پر بھی چسپاں کر کے دکھا ئیں.انگاروں پر انگارے اس میں آپ اُن گارہ پڑھیں گی یا نون غنہ کے ساتھ ان گارہ کر کے
پڑھیں گی.اور اگر نون غنہ پڑھیں گی تو کیا نون کا لعدم سمجھا جائے گا اور اگارے اور انگارے کو ایک ہی
وزن پر پڑھا جائے گا ؟ صاف ظاہر ہے کہ جب نون غنہ آئے تو بعض دفعہ بہت خفیف پڑھا
جاتا ہے.اور بعض دفعہ وہ بعد والے حرف میں مدغم ہو کر اس میں ایک قسم کی تشدید ( شد ) پیدا کر
دیتا ہے.پس باوجود اس کے کہ انگارے کو ان گارے نہیں پڑھتے.پھر بھی نون کے گاف میں ادغام کی
وجہ سے گاف میں ایک قسم کی تشدید آجاتی ہے.لیکن واضح تشدید نہیں ہوتی.پس اس کو اپنے ذہن میں
دہرائیں تو میری بات سمجھ میں آجائے گی کہ انگارے اور اگارے دونوں کا ایک وزن نہیں جبکہ آپ کے
بتائے ہوئے طریق سے دونوں کا ایک ہی وزن بنتا ہے جو سویرے کے وزن پر ہے.اسی طرح
انگیخت لفظ ہے پھر انبار ہے انجام ہے نیز انگشت نہیں پڑھا جاتا.اور نہ ہی ان گشت پڑھا
جاتا ہے انگشت پڑھا جاتا ہے.میں آپ کو مصرع بتا تا ہوں :
انگشت نمائی سے کچھ بات نہیں بنتی
اس کو چاہئے ان گشت پڑھیں یا انگشت.وزن پر کوئی فرق نہیں پڑتا.اسی طرح دندان ہے اس کو
11
Page 176
نہ دن دان اور دں داں پڑھا جاتا ہے.آپ کے اصرار نے تو مجھے انگشت بدنداں کر دیا ہے کہ آپ
اندھیروں پر اندھیرے کو سویروں پر سویرے کے وزن پر پڑھنا چاہتی ہیں جبکہ میں اسے قندیلوں پر
قندیلیں اور زنجیروں پر زنجیروں کے وزن پر پڑھتا ہوں نہ زن جیریں“.بعد میں آپ نے اس مصرع کو تبدیل فرما دیا:
تاریکی په تاریکی گمراہی پر گمراہ
آیاد فنی جس کو جو اپنی دعا پہنچی
(مكتوب ۵/ دسمبر ۱۹۹۳ء)
چوتھے بند کے پہلے شعر آیا وہ غنی جس کو جو اپنی دعا پہنچی، میں آپ نے جو کو جب سے بدل
دیا ہے.سمجھ نہیں آئی کہ کیوں جب سے بدلا گیا ہے اصل میں جو اور جب میں ایک بہت لطیف فرق
ہے جس کو وہی جان سکتا ہے جس نے جان کا ہی سے معنوں کی تہ میں اتر کر الفاظ کا چناؤ کیا ہو.جب اپنی دعا پہنچی کا تو مطلب یہ ہے کہ بس ہماری دعا کی دیر تھی جیسے ہی پہنچی لگ گئی.حالانکہ کلمہ طیبہ کے لئے یرفعه العمل الصالح بھی ہونا چاہئے.یہ تو نہیں کہ جس کسی نے درود
شریف پڑھاوہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کو جا پہنچا.خاص کیفیات میں اٹھتی ہوئی دعا ہی ہے
جو رفعتوں کو پاتی ہے اور وہی ہے جو مقدر سنوارا کرتی ہے.اس لئے جو ہی رہنے دیں.وہی دعا
بخت سنوار سکتی ہے جو اس تک پہنچنے کی سعادت پا جائے.جو میں جو انکسار ہے اس کا لطف جب میں
نہیں.☆
(مکتوب ۱۶ جنوری ۱۹۹۳ء صفحه ۶)
نظم ” ظہور خیر الانبیاء سے خاکسار کو بے حد پیار تھا.نظم حضور کی ہے اضافے بھی آپ نے خود
12
Page 177
فرمائے لیکن بہت دُور کھڑی میں اس بات سے لطف لیتی رہتی ہوں کہ ہو سکتا ہے اس تبدیلی میں
خاکسار کی تحریک کا کوئی دخل ہو.جب یہ نظم جلسہ سالانہ جرمنی ۱۹۹۳ ء میں پڑھی گئی تو میں نے فون پر
سنی اور نوٹ کی.آپ نے درج ذیل اشعار کا اضافہ فرمایا تھا.مکتوب میں تحریر ہے:
" کہیں کہیں مضمون کو مزید اجاگر کرنے کے لئے بعض اشعار کا اضافہ بھی کرنا پڑا ہے مثلاً ظہور
خیر الانبیاء کے آخری بند کو تبدیل کرنے کے علاوہ ایک بند بڑھا بھی دیا ہے.اب اس کی شکل یوں
بن جائے گی:
دل اس کی محبت میں ہر لحظہ تھا رام اس کا
اخلاص میں کامل تھا
مرزائے غلام احمد
-.وہ
تھی
عاشق نام اس کا
جو بھی متاع جاں
کر بیٹھا نثار اس پر.ہو بیٹھا تمام اس کا
اس دور کا ساقی - گھر سے تو نہ کچھ لایا
ئے خانہ اس کا تھا.کے اُس کی تھی جام اُس کا
سازندہ تھا یہ اس کے.سب ساجھی تھے میت اس کے
دُھن اُس کی تھی گیت اُس کے لب اس کے پیام اُس کا
اک میں بھی تو ہوں یارب.صید نه دام اُس کا
دل گاتا ہے گن اس کے لب جیتے ہیں نام اُس کا
آنکھوں کو بھی دکھلا دے.آنا لب بام اُس کا
کانوں میں بھی رس گھولے.ہر گام.خرام اس کا
خیرات ہو مجھ کو بھی.اک جلوہ - عام اُس کا
سته
13
Page 178
پھریوں ہو کہ ہو دل پر
-
الہام کلام اُس کا
اُس بام سے نور اترے نغمات میں ڈھل ڈھل کر
نغموں
سے اٹھے خوشبو.ہو جائے سرود عنبر
(مکتوب ۱۲ جنوری ۱۹۹۳ء صفحه ۵.۴)
شاعری جزویست از پیغمبری اس سے زیادہ کہیں اور صادق نہیں آتا.کچھ ترامیم و اضافے کے بعد اس کا حسن دوبالا ہو گیا تھا.میں نے حضور انور کی خدمت
میں نظم سن کر اپنے تاثرات لکھے.میں نے تو کیا لکھا ہوگا ٹوٹے پھوٹے الفاظ میں مگر آپ کا مکتوب آ
پ کے حسن و احسان کا مرقع ہے.آپ کی طرف سے لجنہ امریکہ سے خطاب کا اردو ترجمہ اور میرے کلام کا کتابت شدہ مسودہ
موصول ہوا.جزاکم اللہ احسن الجزاء.اپنے خط میں آپ نے نعت ظہور خیر الانبیاء صلی اللہ علیہ وعلی آلہ
وسلم کے حوالے سے جو تبصرہ کیا ہے اس میں دو باتیں قابل غور ہیں.ایک تو یہ کہ ماشاء اللہ بہت ہی خوبصورت زبان میں تبصرہ کیا ہے اور جن جذبات کا اظہار کیا ہے
وہ بھی بہت لطیف ہیں.اور یہ بھی بالکل درست ہے کہ اس نظم پر محض آپ کی یاد ہی نہیں آئی بلکہ جذبہ
احسان کے ساتھ یاد آتی رہی.کیونکہ اس کے بہت سے شعر ایسے تھے جن کے متعلق مجھے خیال تھا کہ
اصلاح کے محتاج ہیں لیکن وقت نہیں ملتا تھا.آپ نے درست طور پر ان کی نشان دہی کی اور اصلاح
کروا کے چھوڑی اور نہ میں کئی سال سے اسے ٹال رہا تھا اس لئے یہ نعت اور اس کے علاوہ کئی اور نظموں
پر آپ
کی توجہ کے نتیجہ میں جو وقت نکالا ہے یہ مواقع ہمیشہ جذ بہ احسان کے ساتھ آپ کی یاد دلاتے
ہیں.جزاکم اللہ احسن الجزاء فی الدنیا والاخرة “.نظم نمبر ۲
(مکتوب ٢٢ أكتوبر ١٩٩٣ء)
14
Page 179
نظم اے شاہ مکی و مدنی سید الوری کے ایک مصرع -
اے میرے والے مصطفیٰ اے میرے مجتبی
کے متعلق پیارے آقا نے خاکسار کو اچھی طرح سمجھانے کے لئے وضاحت سے،
دلائل سے علمی وزن کے ساتھ ایک اچھوتا نقطہ بیان فرمایا ہے.آپ تحریر فرماتے ہیں:
”آپ نے میرے والے مصطفی میں لفظ والے کو قتم سمجھتے ہوئے تو ہی تو مصطفیٰ ہے مرا تجویز
کیا ہے.یہ دو وجوہات سے مجھے قبول نہیں.ایک یہ کہ اس نظم کی شان نزول تو ایک رویا میں ہے جس
میں ایک شخص کو دیکھا جو بڑی پُر درد آواز میں حضرت اقدس محمد رسول اللہ ﷺ کو مخاطب
کرتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا کوئی کلام پڑھ رہا ہے.ان شعروں کا عمومی
مضمون تو مجھے یا در ہا مگر الفاظ یاد نہیں رہے البتہ ایک مصرع جو غیر معمولی طور پر دل پر اثر کرنے والا تھا وہ
ان الفاظ پر
مشتمل تھا:
اے میرے والے مصطفی
خواب میں اس کا جو مفہوم سمجھ میں آیا وہ یہ تھا کہ لفظ والے نے بجائے اس کے کہ نقم پیدا کیا ہو اس میں
)
غیر معمولی اپنائیت بھر دی اور قرآن کریم کی بعض آیات کی بھی تشریح کر دی جن کی طرف پہلے میری
توجہ نہیں تھی.عموما یہ تاثر ہے کہ صرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم ہی مصطفیٰ ہیں حالانکہ قرآن
کریم میں حضرت آدم ، حضرت نوح ، حضرت ابراہیم اور آل ابراہیم (اسحق ، یعقوب ، اسمعیل )
حضرت موسیٰ اور حضرت مریم حتی کہ بنی آدم کے لئے بھی لفظ اصطفی استعمال ہوا ہے.تو مصطفیٰ ایک
نہیں، کئی ہیں.پس اگر یہ کہنا ہو کہ باقی بھی مصطفیٰ ہونگے مگر میرے والا مصطفیٰ یہ ہے تو اس کا اظہاران
الفاظ کے علاوہ دوسرے الفاظ میں ممکن نہیں.یہ بات ایسی ہی ہوگی جیسے کوئی بچہ ضد کرے کہ مجھے
میرے والی چیز دو.میرے والی کہنے سے مراد یہ ہوتی ہے کہ مجھے محض یہ چیز نہیں چاہئے بلکہ وہی چیز
15
Page 180
چاہئے جو میری تھی.اس طرز بیان میں اظہار عشق بھی محض میرے مصطفیٰ، کہنے کے مقابل پر بہت
زیادہ زور مارتا ہے.پس رویا میں ہی میں یہ نہیں سمجھ رہا کہ اس میں کوئی نقص ہے بلکہ اس ظاہری نقص
میں مجھے فصاحت و بلاغت کی جولائی دکھائی دی اور مضمون میں مقابلہ بہت زیادہ گہرائی نظر آنے
لگی.علاوہ ازیں چونکہ یہ طرز بیان محض ریڑھی والوں کی نہیں ہوا کرتی جو کہ ایک عامیانہ طرز ہے بلکہ
بچوں کی سی ادا بھی ہوا کرتی ہے جس میں معصومانہ پیار اور اپنائیت جوش مارتے ہیں.پس اس پہلو سے
میں نے نہ صرف خواب میں ظاہر کردہ الفاظ کے ساتھ وفا کی بلکہ اسے ہر دوسری طرز بیان سے
بہتر بھی پایا.ہاں اے میرے والے مجتبی اے میرے مصطفیٰ کے بعد پورا ستجتا نہیں.ویسے بھی مصطفی
مجتبی ، مرتضی و غیرہ خدا کی طرف منسوب ہوتے ہیں اس کی جگہ میں سوچ رہا ہوں کہ یہ کردوں :
اے میرے والے مصطفیٰ ، اے میرے راہنما
یا پھر ”اے میرے والے مصطفیٰ میں ہو چکا ترا بھی کر سکتے ہیں.لیکن اس شعر کے دوسرے مصرع
میں جو الفاظ ہیں رویا میں قریباً یہی الفاظ تھے جیسا کہ مجھے یاد پڑتا ہے مگر سو فیصد یقین سے نہیں کہہ سکتا.اس میں لفظ ” تیری شامل ہوتا تو لفظ امت کی وضاحت تو ضرور ہو جاتی کہ کس کی امت مراد ہے مگر
ایسی اُمت کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی طرف منسوب کرنا جو مہدی کو ہادی سے جدا سمجھے
پسندیدہ بات نہیں ہے.چنانچہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے بھی عُلَمَاءُ هُمْ کہہ کر ان علماء کو
اُن لوگوں کی طرف منسوب کر دیا جن کا ذکر سَيَأْتِي عَلَى النَّاسِ زَمَانُ....کی حدیث میں مذکور
ہے.اور ان کے لئے عُلَمَاءُ امنی نہیں فرمایا ہاں جہاں ربانی علماء کا ذکر فرمایا وہاں یہ فرمایا
کہ عُلَمَاءُ أُمَّتِي كَانْبِيَاءِ بَنِي إِسْرَآئِیل.پس اگر چہ محض امت کا لفظ کچھ خلا کا سا احساس پیدا
کرتا ہے مگر اسے تیری امت کی بجائے کسی اور رنگ میں بدلا جا سکے تو بہتر ہو گا.مثلاً اس طرح کہ اہل
16
Page 181
دنیا
یا
علماء
سوء
ہمیں
جدا
جدا
نہ سمجھتے.مگر یہ اظہار اس چھوٹے سے مصرع میں سمانا مشکل ہے.بہر حال خواب میں جو کیفیات
تھیں میں اُن کے ساتھ وفاداری کرنا چاہتا ہوں.ان میں درد کا مضمون تھا بحث کا نہیں.آپ نے جو
یه تجویز دی امت تری سمجھتی نہیں کیوں یہ ماجرا.اس کیوں میں تو بحث کا رنگ ہے جبکہ جداجدا میں
اظہار درد اور بیکسی ہے.ایک متبادل یہ بھی زیر غور لایا جا سکتا ہے بلکہ یہی اختیار کرلیں.اے
میرے والے مصطفیٰ اے
سید الوری
اے کاش ہمیں سمجھتے نہ ظالم جدا.☆......☆
اُڑتے ہوئے بڑھوں ،ترکی جانب سوئے حرم“
جدا
اس مصرع میں آپ نے اُڑتا ہوا، تجویز کیا ہے.آپ کی یہ تجویز مجھے قبول تو ہے.لیکن میں نے
اگر چہ اردو گرائمر زیادہ نہیں پڑھی پھر بھی مجھے لگتا ہے کہ اُڑتے ہوئے بھی ٹھیک ہے.خصوصیت سے
یہ تخاطب کے وقت استعمال ہوتا ہے.غائب میں اُڑتا ہوا پڑھتے ہیں لیکن مخاطب میں اُڑتے
ہوئے پڑھنا جائز ہے.اس لئے میں تو اسے اُڑتے ہوئے پڑھوں تو مجھے زیادہ اچھا لگتا ہے.مگر آپ
کی یہ تجویز مان لیتا ہوں کیونکہ میرے مضمون پر اس کا اثر نہیں پڑے گا“.نظم نمبر ۳
حضرت سید ولد آدم الله
(مكتوب ۹۳.۱۱.۱ صفحه ۱۲)
پیارے حضور نے ایک شفیق ماں کی طرح جو اپنے نادان بچے کو قریب تر کر کے زیادہ تفصیل سے
آسان الفاظ میں سمجھاتی ہے ایک ایک تبدیلی کی حکمت سمجھائی.نبیوں کا سرتاج ابنائے آدم کا معراج محمد "
17
Page 182
مجھے ڈر تھا کہ آپ دونوں کا معراج کو کئی میں بدل دیں گے کیونکہ مکرم سلیم شاہجہانپوری
صاحب نے اپنے کلام میں معراج کو کئی یعنی تانیشی نسبت سے باندھا ہے اور اُردو کتب لغات بھی
اسے تانیث میں ہی پیش کرتی ہیں.مگر ہم نے قادیان میں ہمیشہ اس کو مذکر ہی سنا اور ذہنی طور پر
معراج کو تانیث کے ساتھ استعمال کرنے پر دل آمادہ نہیں ہوتا.اس لئے میں نے عمد ایا یوں سمجھ لیں کہ
ضد کر کے اس غلطی پر اصرار کیا ہے.نبیوں کا سرتاج کہنے کے بعد اگر یہ کہا جائے کہ ابنائے آدم
کی معراج تو گھٹیاسی ترکیب نظر آتی ہے جو معراج کی شان کے خلاف ہے.پس مجھے تو آنحضرت
ہمیشہ ہی ابنائے آدم کا معراج دکھائی دیتے ہیں نہ کہ ابنائے آدم کی معراج.پس بعض ایسے
مقامات بھی ہوتے ہیں کہ جہاں شاعر اپنا حق سمجھتا ہے کہ چاہے دنیا اس کے کسی استعمال کو غلط قرار
دے وہ اپنی مرضی سے عمدا کسی خاص مقصد کے پیش نظر اپنی غلطی پر مصر ہوں“.صلى الله
(مکتوب ۱۲ جنوری ۱۹۹۳ء صفحه ۱۷.۱۶
اس نظم میں بھی آپ نے نظر ثانی کے دوران کچھ تبدیلیاں فرمائیں اور ہر جگہ بات کو خوب کھول کر
بیان فرمایا مثلاً.آپ نے ایک مصرع 'مٹ گئے مہر و ماہ و انجم صلی اللہ علیہ وسلم کو تبدیل فرمایا.اور
مفہوم کو واضح کرتے ہوئے فرمایا: ” میں نے اس مصرع کو یوں کر دیا ہے.مہر و ماہ نے توڑ دیا دم - صلی اللہ علیہ وسلم
اور
بھاگنے کے ساتھ دم کا ٹوٹنا ایک اور لطیف مناسبت بھی رکھتا ہے.کسی پر شوکت جلوہ کے مقابل دم
تو ڑ دینا اور دوڑتے ہوئے دم تو ڑنا ہم آھنگ ہیں.(مکتوب ۹۳-۱-۱۲ صفحه ۱۳)
اب اس شعر کو پڑھ کر زیادہ لطف آئے گا.آپ کے جلوۂ حسن کے آگے.شرم سے نوروں والے بھاگے
صلی اللہ علیہ وسلم
ماہ نے توڑ دیا دم
و
18
Page 183
پہلے یہ مصرع یوں تھا :
متلاطم عرفان کا قلزم.بہ نکلا عرفان کا قلزم صلی اللہ علیہ وسلم ، حضور رحمہ اللہ نے اس کو درست فرمایا.سوچ کی گہرائی
کا اندازہ کیجئے.درست کرنے کی وجہ اور مضمون سے وفا کا اندازہ لگائیے.تحریر فرماتے ہیں:
یہ بھی ان جگہوں میں سے ایک ہے جس کو میں نے پہلے ہی نشان لگا رکھا تھا کہ وقت ملا تو ٹھیک
کرنا ہے.اس میں کوئی شک نہیں کہ آپ کی تجویز موج میں تھا عرفان کا قلزم بہ نکلا عرفان کا قلزم
سے بہت بہتر ہے.مگر پہلے جو مضمون بیان ہوا ہے اس کے ساتھ موج میں تھا...مطابقت نہیں
رکھتا.موج میں تھا' کا مضمون ایک ساکت جامد حالت کو پیش کر رہا ہے لیکن پہلی طرز بیان تقاضا
کرتی ہے کہ ایک چیز سے دوسری چیز ہو گئی کی طرز پر اس میں کچھ ہو جانے یا کسی تبدیلی کا ذکر پایا
جانا چاہئے جیسے عربی میں اصبح سات وغیرہ کلمات سے ادا کیا جاتا ہے.موج میں ہو گیا کا انداز ہونا
چاہئے تھا یا پھر فعل کا استعمال کلیۂ ختم کر کے اس مصرع کو صفت موصوف کی ترکیب میں پڑھا جائے تو
تب بھی کوئی حرج نہیں.اس مجبوری کی وجہ سے میں نے موج میں تھا کی بجائے بہہ نکلا کے الفاظ
میں مضمون بیان کرنے کی کوشش کی لیکن دل میں یہ کھٹک تھی کہ بہہ نکلا...قلزم کے متعلق کہنا جائز نہیں.کیوں نہ اس مصرع کا تعلق پہلے بند کے جاری مضمون سے توڑ کر رسول
اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی
ذات سے باندھ دیا جائے.اس صورت میں یہ مصرع یوں بنے گا:
لیتا ہے.متلاطم عرفان
کا قلزم صلی اللہ علیہ وسلم
اس طرح مصرع کا پہلا نصف دوسرے نصف کے ساتھ نسبت توصیفی یا نسبت بدل اختیار کر
(مکتوب ١٦ جنوری ۱۹۹۳ء صفحه (۱۵)
19
Page 184
نظم نمبر ۲
نظم آج کی رات میں ایک شعر ہے.آنکھ اپنی ہی ترے ہجر میں پکاتی ہے
وہ لہو جس کا کوئی مول نہیں ، آج کی رات
اس کے پہلے مصرع کے متعلق حضور فرماتے ہیں.اس کے متعلق تجویز ہے کہ اسے یوں بدل دیا جائے چشم عاشق ہی ترے ہجر میں ٹپکاتی
ہے.مجوزہ مصرع دیکھنے میں تو بہت چست لگتا ہے مگر مشکل یہ ہے کہ ، آنکھ اپنی ہی ترے ہجر میں ٹپکاتی
ہے.میں جو بات میں کہنی چاہتا ہوں وہ چشم عاشق میں آہی نہیں سکتی.میں تو طعنہ آمیز دشمن کے مقابلہ
پر اپنی ہی آنکھ کی محبت کو نمایاں کرنا چاہتا ہوں، چشم عاشق نے تو اس مضمون کا کچھ رہنے ہی نہیں دیا جو
میں بیان کرنا چاہتا ہوں.دوسرے میں نے عمداً ہجر کو چھوڑ کر عشق اختیار کیا تھا کیونکہ بحث یہ نہیں کہ ہم
آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے وصل سے محروم ہیں کہ نہیں.بحث یہ ہے کہ ہمارا دل آپ کے عشق سے
خالی ہے یا لبالب بھرا ہوا ہے.پس ہر چند کہ اس مصرع میں لفظ ہجر پڑھنا عشق پڑھنے کی نسبت زبان
پر ہلکا ہے.مضمون کی مناسبت سے عشق ہی موزوں ہے.پس یہ مصرع یوں ہی رہے گا ، آنکھ اپنی ہی
ترے عشق میں ٹپکاتی ہے.“
☆.....( مكتوب ۱۶.۱.۹۳ صفحه (۸)
و
کاش اُتر آئیں یہ اڑتے ہوئے سیمیں لمحات
کا متبادل آپ نے یہ تجویز کیا ہے.کاش رُک جائیں یہ اڑتے ہوئے سیمیں لمحات
یہ تو بڑا خطرناک مشورہ ہے کیونکہ اڑتے ہوئے رکیں گے تو مریں گے گر کر.میرا جو تصور ہے وہ
تو یہ ہے کہ جس طرح پرندے اترتے ہیں اسی طرح یہ روحانی لمحات نور کے پرندوں کی طرح اتر
20
Page 185
آئیں.آپ نے دو مضامین کو دو مصرعوں میں Repeat کیا ہے یعنی رُک جائے اور ٹھہر جائے.جبکہ میں نے پہلے مصرع میں اڑتے ہوئے لمحات پرندوں کی طرح اترنے کا مضمون باندھا ہے.پرواز
میں رک کر دھڑام سے گرنے کی بات نہیں کی.میرے تصور پر میرا زیادہ حق ہے.براہ کرم اس کے
پر نہ باندھیں.اس بیچارے کو تسلی سے اڑنے دیں“.نظم نمبرے
(مكتوب د ارمنی ١٩٩٣ء صفحه ۲)
” برق تپاں ہے خندہ کہ خرمن اداس ہے
معلوم ہوتا ہے کہ آپ نے یہ نظم پہلی اشاعت سے نقل کی ہے.میں نے تو پرائیویٹ سیکرٹری
صاحب کو ان کے یہ نظم بھجوانے کے بعد یہ ہدایت کی تھی کہ برق تپاں ہے خنده......مصرع کی فوری
اصلاح بھجوادیں اور غالباوہ الفضل میں چھپ بھی گئی ہوگی.لیکن اس کے باوجود آپ کو سہو کتابت والی
نظم ہی مل سکی بہر حال اس کی دوصورتیں میرے سامنے آتی ہیں.(۱) برق ، تپاں ہے خندہ زن.خرمن اداس ہے مگر اس میں یہ سقم ہے کہ وزن کی تال کے لحاظ سے خندہ زن تک کے مضمون کو پہلے
نصف مصرع میں ہی سما جانا چاہئے تھا.کیونکہ اس نظم کا ہر مصرع دو حصوں میں بٹا ہوا ہے.گویا ” برق
تپاں ہے خندہ پر ایک ضرب ختم ہوتی ہے اور " کہ خرمن اداس ہے‘ پر دوسری.مگر خندہ زن کر دیا جائے
تو زن کا قدم اپنے نصف مصرع کی حدود میں رہنے کی بجائے دوسرے نامحرم نصف پر جاپڑتا ہے.اسی خیال سے میں نے اسے یوں کر دیا تھا.برق تپاں نہال.کہ خرمن اداس ہے
غالباً یہی بہتر رہے گا.خنداں اس لئے جائز نہیں کہ یہاں خندہ صرف زبر کا متحمل ہے الف کا
متحمل نہیں.21
(مکتوب ۹۳ - ۱- ۱۶ صفحه ۱۸)
Page 186
نظم نمبر ۸
حضور ایدہ اللہ تحریر فرماتے ہیں:
دو غم فرقت میں کبھی انتشار لانے والے
اس میں اصلاح یہ تجویز ہوئی ہے.غم فرقت میں کبھی خوب رلانے والے.لفظ خوب بہت خوب
ہے.مگر لفظ اتنا میں جو اپنائیت اور شکوہ پایا جاتا ہے وہ خوب میں ہرگز نہیں.غالبا یہ اصلاح اس
لئے تجویز کی گئی ہے کہ اتنا کے بعد اس کا جواب آنا چاہیئے.حالانکہ یہ ضروری نہیں ہوا کرتا.بعض دفعہ
بغیر جواب کے ہی شرطیہ حصہ پر کلام ختم ہو جاتا ہے اور قرآن کریم میں اس کی بہت ہی پیاری مثالیں
موجود ہیں.ایک کہنے والا یہ بھی کہ دیتا ہے کہ آپ نے مجھے اتنا لایا ہے.ضروری نہیں کہ بعد میں وہ
یہ بھی کہے کہ آنسو پونچھ پونچھ کر میری آنکھیں سرخ ہو گئیں.اس کے مقابل پر آپ نے مجھے خوب رلا یہ
ہے میں لگتا ہے کہ بات ختم ہو گئی اور اپنی ذات میں یہ مضمون و ہیں مکمل ہو گیا.لیکن لفظ اتنا ایک تشنگی باقی
چھوڑ دیتا ہے.وہ خواہ شکوے کی ہو یا کسی اور چیز کی.پھر یہ تشنگی مضمون کو اور بھی رفعت عطا کرتی ہے.اس لئے میرے نزدیک یہاں بھی تبدیلی کی ضرورت نہیں.“ (مکتوب ۱.۹۳.۱۲ صفحه ۱۷)
نظم نمبر 1
اک ذکر کی دھونی مرے سینے میں رما کے
پہلے اس مصرع میں لفظ بھبا کے آتا تھا.جس پر نظر ثانی کی درخواست پر حضور انور نے تحریر فرمایا:
لفظ بھیا کے سے متعلق آپ کی بات درست ہے کیونکہ بھیک سے بھیا کا کسی ڈکشنری میں نہیں ملا.یہ دراصل ہماری بچپن کی Slang تھی.خوشبو کے لئے ہمارے ذہن میں قادیان میں جو تصور پیدا
ہوتا تھا وہ گویا اس طرح تھا کہ چھوٹا سا خوشبو کا جھونکا ہو تو اسے بھی کا' کہتے مگر خوشبو کا ایسا بھب کا کہ گویا
اس طرح تھا کہ چھوٹا سا خوشبو کا جھونکا ہو تو اسے اس کو ہم بچپن کی Slang میں 'بھیا کا' کہا کرتے تھے.22
Page 187
اسی طرح اگر شدید بد بو کا ذکر کرنا ہوتا تو اس کو ہم اس طرح بیان کیا کرتے تھے کہ فلاں شخص یا جگہ
سے تو بد بو کے بھبا کے اٹھ رہے ہیں.پس ایسی Slangs مختلف علاقوں میں رائج ہو جاتی ہیں جو
ڈکشنریوں میں راہ پانے کے لئے لمبا عرصہ لیتی ہیں.اس لئے میں آپ کی بات مانتا ہوں.یہ لفظ
ابھی تک عرف عام کی سند نہیں پاسکا لیکن ممکن ہے ہمارے گھر کی حد تک محدود رہا ہو.پس اس مصرع
کو اب اس طرح تبدیل کیا جا سکتا ہے....سینے میں مرے ذکر کی اک دھونی رما کے
بیٹھا رہا وہ ذکر کی اک دھونی رما کے
اک ذکر کی دھونی مرے سینے میں رہا کے
غالباً یہ آخری بہتر ہے.مگر تینوں میں سے جو آپ پسند کر لیں.اس معاملہ میں آپ کی پسند پر
اعتماد کرتا ہوں.اگر تینوں ہی دل کو نہ لگیں تو مجھے ایک اور موقع دیں.(مکتوب (مکتوب ۵/ دسمبر
" کیا مون تھی جب دل نے جسے نام خدا کے"
اس نظم کے ایک شعر سے
میں ان سے جدا ہوں مجھے چین آئے تو کیوں آئے
دل منتظر اس دن کا کہ ناچے انہیں پاکے
اس کے پہلے مصرع پر نظر ثانی کی درخواست کی تھی.پہلے تو ایسی جسارتوں پر بہت نادم ہوتی
تھی.مگر اب اس کے نتیجے میں خاکسار کو سمجھانے کے لئے جو شعر میں زبان و بیان کے متعلق علم کے
دریا بہائے ہیں مجھے نازاں کر رہے ہیں.جو بھی پڑھے گا اس کا عالم مجھ سے مختلف نہیں ہو گا.ایسا لگتا
ہے ساری عمر صرف ادب کا مطالعہ فرمایا ہے.تحریر ملاحظہ ہو:
میں ان سے جدا ہوں مجھے چین آئے تو کیوں آئے
23
Page 188
اس مصرع کے بارے میں آپ نے ترتیب بدلنے یا کیوں آئے کی جگہ کوئی دوسر الفظ لانے کی
تجویز پیش کی ہے.لیکن مجھے آپ کے اصرار کی سمجھ نہیں آئی کہ کیوں ترتیب بدلی جائے.اسے اہلِ
کلام جب پڑھتے ہیں تو آئے دو آوازیں نہیں نکلتیں بلکہ دونوں آپس میں مدغم ہو جاتی ہیں.جس
طرح غالب کے مرثیہ میں ہائے ہائے میں آخری ئے کی آواز نمایاں نہیں ہے.آئے اور ہائے کی
آواز کبھی Soft پڑھی جاتی ہے اور کبھی ئے کر کے الگ پڑھی جاتی ہے جب soft پڑھی جاتی ہے تو
عملاً یہ اتنی خفیف ہو جاتی ہے کہ زبان پر بوجھ نہیں پڑتا اور اہل کلام اس کو نا گوار خاطر نہیں سمجھتے.مکرم سلیم
صاحب کا غالبا یہ بھی اعتراض ہے کہ کیوں آ پر وزن کا دم ٹوٹ جاتا ہے.انکو بتا دیں کہ یہ آ اور ائے
نہیں ہے یعنی ائے پر الگ زور نہیں.معلوم ہوتا ہے کہ سلیم صاحب کو جسطرح آتش کے اس مصرع میں
آئے استعمال ہوا ہے صرف اسی طرح آئے کہنے کی عادت ہے اور وہ soft ' آئے پڑھ ہی نہیں سکتے
آتش
کا پورا شعر یوں ہے:
بجا کہتے آئے ہیں بیچ اس کو شاعر
کمر کا کوئی ہم
ނ
مضموں
نکلا
اب یہاں آ ئے پڑھنا پڑتا ہے اگر آئے Soft پڑھیں گے تو وزن ٹوٹ جائے گا.اس کے مقابل
پر غالب کی نظم میں Soft پڑھنے کی مثال موجود ہے.اسکی ہائے ہائے والی نظم میں آخری ہائے کو Soft
پڑھتے ہیں اور لمبا کر کے ہلائے نہیں پڑھتے بلکہ
ہا اے آؤ پر ہی بات ختم ہو جاتی ہے.غالب کہتا ہے:
داد سے میرے ہے تجھ کو بے قراری ہائے ہائے
کیا ہوئی ظالم تری غفلت شعاری ہائے ہائے
اگر دوسرے ہائے کو بھی با ائے پڑھیں تو اس میں ائے کی آواز زائد ہے.اصل میں ہائے ہا
24
24
Page 189
ہونا چاہیے تھا.اس کی یہ ساری نظم اسی طرح چلتی ہے.پھر غالب کہتا ہے.عمر بھر کا تو نے پیغام وفا باندھا تو کیا
ی بڑا چست مصرع ہے اس میں کچھ زائد نہیں ہے اس کے مطابق اگلا مصرع یوں ہونا چاہئے تھا
عمر کو بھی تو نہیں ہے پائداری ہائے ہا
اگر آپ پہلے کو کیائے کردیں تو جسطرح کیائے میں ائے زائد ہوتی ہے بالکل اسی طرح
آئے میں ئے زائد ہوئی ہے.اور نہائے ہائے، میں آخری 'ئے زائد ہے.صرف پڑھنے کے انداز کا
فرق ہے.پس میرے اس مصرع کی تقطیح کا جہاں تک تعلق ہے اس میں غالب کی 'ہائے ہائے والی نظم
کی طرح ہی آئے زائد ہے اور یہاں ائے کی اس طرز کی واضح آواز نہیں ہے کہ گویا آ' اور ائے دو
حرف ہیں.بلکہ آ' کے ساتھ ائے کی آواز کو نرمی کے ساتھ مدغم کیا گیا ہے.بہر حال یہ کوئی سقم
نہیں چوٹی کے شعراء کے کلام میں بھی اس کی مثالیں ملتی ہیں.آپ دونوں بھی ماشاء اللہ ما ہرفن اور قادر
الکلام شعراء ہیں.مجھے تو آپ کا کلام بھی اس سے خالی دکھائی نہیں دیتا اور پڑھتے وقت کئی مثالیں
سامنے آتی ہیں.لیکن چونکہ اردو ادب میں اس کی اجازت سمجھی جاتی ہے اور اہل فن بھی استعمال کرتے
ہیں.اس لئے میں اس میں کوئی حرج نہیں سمجھتا مثال کے طور پر مکرم سلیم صاحب کا یہ شعر ملاحظہ ہو.زیست کیا ہے سکینت اگر نصیب نہ ہو
جو موت وجہ سکوں ہوتو کیا ہے کم اعجاز
اس میں اگر زیست پڑھیں گے تو کیا کا' کاف اور دی دونوں زائد ہیں.کیونکہ فنی نکتہ نگاہ سے اس
کا وزن زیستا بنتا ہے.گویا کاف اوری دونوں زائد ہیں.لیکن اگر کیا پورا پڑھنا ہو تو پھر زیست کی ت
زائد بنتی ہے.اب یہ دیکھ لیں کہ ماشاء اللہ یہ شعر چوٹی کا ہے.لیکن پڑھنے کے انداز کے فرق سے وزن
25
Page 190
پر اثر پڑتا ہے اور ستم نظر آتا ہے.لیکن میرے نزدیک یہ ستم نہیں.پھر سلیم صاحب کا یہ شعر دیکھیں.ان بہتے آنسوؤں کا ہی تحفہ قبول
ہو
ہے اس کے پاس کیا جو یہ تیرا غلام ہے
اس کے پہلے مصرع میں ظاہر اوزن ٹوٹتا ہے.اور بہتے میں زیر پڑھنی پڑتی ہے.بڑی نے نہیں
پڑھی جاسکتی.یا ساکن یا زیر کے ساتھ الگ سے ت آ سکتی ہے؟ ئے کی گنجائش ہی نہیں.ان کی اس نظم
کا اس سے اگلا شعر.پہرے بٹھا دے میری سماعت پر یا خدا
ہی اس کی مثال ہے.حالانکہ بڑے قادر الکلام ہیں مگر یہ ستم ہے.اور وزن کے اعتبار سے پہرے میں
صرف زیر پڑھنی پڑتی ہے.اس پہلو سے اگر آپ اپنے کلام پر نظر ڈالیں تو اس میں بھی آپ کو اس کی کئی
مثالیں ملیں گی.صرف کلام کی مجبوریاں سمجھانے کی خاطر ایک آدھ مثال بیان کر دیتا ہوں.کیا خوب
مصرع ہے.خشک آنکھوں سے نیر بہاؤں چہرے پر مسکان سجاؤں
لیکن اس میں صرف سجا پڑھا جا سکتا ہے.'وں زائد ہے لیکن شعراء عملاً ایسا کرتے ہیں.اجازت ہوتی
ہے.ہرگز معیوب نہیں سمجھا جاتا.پھر یہ مصرع ملا حظہ فرمائیں.پھر کس گن پر اتر اؤں اور فخر و مباہات کروں
اب اس میں اگر پھر ہلکا پڑھیں تو پھر کسی گن پر اتراؤں میں، ہونا چاہئے یعنی ایک میں ڈالنا
پڑے گا.اور اگر پھر زور سے پڑھیں تو آپ والا مصرع موزوں ہو جائے گا.پس اس میں پڑھنے کے
انداز کے فرق کی وجہ سے دو صورتیں ممکن ہیں.ایک ہے.دپھر
کس گن
پر
اتراؤں
26
Page 191
پھر کس گن
پر
میں
اتراؤں
اس میں لفظ میں زائد کرنے کے باوجود وزن دونوں کا ایک ہے.بہر حال انداز قراءت نہ سمجھنے
کی وجہ سے بعض اوقات نقص کا گمان ہوتا ہے.پڑھنے والے کے انداز پر اس کی درستی یا سقم کا انحصار
ہے.عام بول چال میں بھی اس کی مثالیں بہت ملتی ہیں.چنانچہ بولنے والا حسب حالات' آ.ائے
کہتا ہے اور کبھی soft 'آئے کہتا ہے.جیسے کہتے ہیں.کب
آؤ
گے پیتیم
پیارے
یہاں.اؤ دو آوازیں ہیں اور آؤنا جب کہتے ہیں تو اس میں دو آواز میں نہیں نکلتیں اور
دوسری حرکت شدید نہیں پڑھی جاتی.زیر نظر مصرع میں آپ کو کیوں آئے پر اعتراض ہے.اگر آپ
اس کی ترتیب بدل لیں یا اس کی جگہ دوسر الفظ لانے پر مصر ہیں تو بے شک اس کو یوں کر لیں.میں اس سے جدا ہوں مجھے کیوں آئے کہیں چین
"
نظم نمبر ۱۰
(مکتوب ۹۳-۵-۱۵ صفحه ۷ تا ۹)
اے میرے سانسوں میں بسنے والو
آپ نے میری سانسوں تجویز کیا ہے.ہم نے تو سانس کا لفظ ہمیشہ مذکر ہی استعمال کیا ہے.اور بالعموم اس کا مذکر استعمال ہی سنا ہے.آپ کی اس تجویز پر میں نے لغت بھی چیک کی ہے اس میں
اس کا استعمال مذکر اور مؤنث دونوں طرح سے آیا ہے.جامع اللغات میں لکھا ہے سانس اندر کا اندر
باہر کا باہر.سانس پورے کرتا ہے.سانس کا روگ وغیرہ وغیرہ.بہر حال اگر چہ مؤنث استعمال
ہوسکتا ہے اور شاید لکھنوی زبان کی نزاکتوں اور لطافتوں کے تابع وہاں مونث کا استعمال رائج ہولیکن
میں نے گھر میں اسے کبھی مؤنث نہ استعمال کیا نہ سنا.لغت بھی اس کے استعمال سے مانع نہیں اس
27
22
Page 192
لئے اسی طرح رہنے دیں.☆..نظم نمبر.مكتوب ١٦ جنوری ۱۹۹۳ء صفحه ۲۱)
کیا حال
تمہارا ہو گا جب شد او ملائک آئیں گے
آپ نے مسودہ میں شداد کے معانی کی وضاحت کرتے ہوئے حاشیہ میں سورۃ تحریم کی آیت
لائِكَةٌ غَلَاظٌ شِداد کا جو حوالہ دیا ہے وہ اطلاق نہیں پاتا، یہ آیت نہ لکھیں کیونکہ هند او پر شداد کی
مثال صادق نہیں آتی.اگر اس کا حوالہ دینا ہے تو پھر لکھ دیں کہ اگر چہ آیت میں لفظ شداد ہے لیکن اُردو
میں یہی معنی لفظ شداد سے ادا ہوتا ہے.خد ادقوم عاد کے اس بادشاہ کا نام ہے جس نے خدائی کا
دعوی کیا تھا اور شعر کہتے وقت یہی میرے پیش نظر تھا.دوسرے لغوی لحاظ سے آیت میں جو لفظ شداد ہے
وہ شدید کی جمع ہے.شدید کی جمع کی دوسری مثال قرآن کریم میں اشراء بھی آئی ہے جبکہ میں نے
لفظ شد اداستعمال کیا ہے جو کہ شدید سے مبالغہ کا صیغہ ہے اس لئے اگر چہ معنوی طور پر یہاں بھی مراد
وہی ہے لیکن بہتر ہے کہ آپ قرآن کریم کا حوالہ دینے کی بجائے لغت کا حوالہ دیں کہ یہ شدید سے
مبالغہ کا صیغہ ہے جس کا مطلب ہے بہت زیادہ تختی کرنے والا یہ قوم عاد کے ایک بادشاہ کا نام بھی ہے
جس نے خدائی کا دعویٰ کیا تھا.لغت کے حوالے سے بس یہ نوٹ دے دیں.آزاد کہاں وہ ملک جہاں قابض ہو سیاست پر ملاں
خاکسار نے عرض کی کہ ملاں میں نون غنہ غیر ضروری ہے.آپ نے تحریر فرمایا:
" آپ کی یہ تجویز کہ لفظ ملاں کی بجائے مثلاً ہونا چاہئے ں کی ضرورت نہیں.آپ سے
اتفاق ہے.نون غنہ کٹوا دیں.آپ کی اس بہت عمدہ تجویز پر بے حد
جزاکم اللہ احسن الجزاء.(مکتوب ۲۲ اکتوبر ۱۹۹۳ء)
28
☆....
Page 193
نظم نمبر ۱۴
تو میرے دل کی شش جہات بنے.اس نظم میں تبدیلیاں اور ان کی حکمتیں ملاحظہ ہوں.پیارے آقا
فرماتے ہیں:
وو
تیرے کی سبک سبک باتیں
تحریر
ول
کے
بھاری معاملات
بنے
پر نظر ثانی کی آپ نے خواہش کی ہے.یہ مضمون در اصل حدیث كَلِمَتَانِ خَفِيفَتَانِ عَلَى
اللَّسَانِ ثَقِيْلَتَانِ فِی الْمِيزَانِ سے اخذ کیا گیا ہے اور مطلب یہ ہے کہ تیرے منہ کی ہلکی ہلکی
باتیں ہمارے دل کی بڑی وزنی باتیں بن جاتی ہیں.آپ کی بات درست ہے کہ بنے کی ضمیر باتیں کی طرف جاتی ہے جو مونث ہے لہذا بنے
نہیں بلکہ بہنیں چاہئے تھا.اس مصرع کو بدل کر میں نے یوں کر دیا ہے.تیرے هند کے سبک سہانے بول
دل
کے
بھاری معاملات
بنے
اگر سہانے کی بجائے آپ ریلے پسند کریں تو اسے سبک رسیلے بول کر دیا جائے لیکن سبک
سہانے زبان پر زیادہ ہلکا ہلکا لگتا ہے.“
کتنے کھنڈر محل بنائے گئے
( مكتوب ۱۰.۹۳-۲۲ صفحه ۳)
کتنے محلوں کے کھنڈرات بنے
اکثر و بیشتر تو خاکسار کے بچگانہ بلکہ بیوقوفانہ مشوروں پر تبصروں میں معرفت کے سکتے حاصل
29
Page 194
ہوئے.دو مقامات ایسے بھی ہیں جہاں ڈھنگ سے توجہ نہ دلا سکنے کی وجہ سے وضاحت موصول
ہوئی.مثلاً مندرجہ بالا شعر میں کھنڈر کے ان کی آواز نون غنہ ہوتی تو بہتر تھا.خوف اس قدر مسلط تھا
کہ نہ جانے کیا لکھ دیا.مناسب وضاحت نہ کی جواب موصول ہوا.وو
دوسرے خط میں جو آپ نے کھنڈر لفظ پر نظر ثانی کے لئے بڑی ہی ملائمت سے توجہ دلائی ہے
اس کے لئے معذرت کی تو کوئی ضرورت نہیں تھی لیکن آپ نے وضاحت نہیں کی کہ اس پر اعتراض
کیا ہے.مجھے ابھی سمجھ نہیں آئی کہ لفظ کھنڈر پر اعتراض کیا ہے.اگر یہ وہم ہے کہ کبھی کھنڈر محل نہیں
بنائے گئے تو یہ درست نہیں.تاریخ سے یہ ثابت ہے کہ بار ہا کئی شہر اجڑے اور پھر آباد کئے گئے اور
جومحل کبھی آباد تھے ان کے کھنڈروں کو آباد کیا گیا.موہنجودڑو کے متعلق یہی ذکر آتا ہے.ویسے بھی دنیا میں یہی ملتا ہے کہ بعض محل ویران ہوئے اور
پھر ان
کھنڈرات کو آباد کیا گیا.اگر کوئی اور بات ہے تو بے تکلفی سے لکھیں.قم کی طرف توجہ دلانا تو
قابل تحسین ہے.بے شک مجھے بتائیں کیا کمزوری نظر آ رہی ہے اور اگر اس کا کوئی اچھا حل نظر آئے او
وہ بھی تجویز کر دیں.غالباً دتی والے لفظ کھنڈر پڑھتے ہیں.اگر یہ بات ہے تو شعر یوں کر لیں.جو
کھنڈر
تھے
محل
بنائے
گئے
اور
محلوں
کے
کھنڈرات
بنے
مكتوب ١١ / دسمبر ۱۹۸۹ء)
☆..30
Page 195
نظم نمبر ۱۸
بلائے ناگہاں اک نت نیا مولا نا آتا ہے.ہر مولانا فی ذاتہ بلائے ناگہاں ہے.وہ کوئی خاص خاص مولا نا نہیں جو بلائے ناگہاں
ہوں.بلکہ ہر مولا نا جب آتا ہے بلائے ناگہاں کی طرح ہی آتا ہے.کبھی ایک ہی بار بار آتا ہے بھی نت
نیا.میرے ذہن میں نت نئے مولانا کے آنے کا تصور تھا.بن کر آنے کا محاورہ میرے دل کی بات ظاہر
نہیں کرتا.میں تو ہر مولوی کو ہی بلائے ناگہاں سمجھتا ہوں.اس لئے اسے اسی طرح رہنے دیا جائے 'نت
نیا “ کہہ کر تو ان کی روزانہ بڑھتی ہوئی تعداد کی طرف اشارہ مقصود ہے اور جتنے بھی آتے ہیں ہمیشہ
بلائے ناگہاں ہی ثابت ہوں گے.66
☆
(مکتوب ۹۳-۱-۱۶ صفحه ۲۷،۲۶)
کچھ لوگ گنوا بیٹھے دن کو جو یار کما یا ساری رات.آپ کی تجویز یہ ہے کہ 'لوگ گنوا بیٹھے سب دن کو جو بھی کمایا ساری رات.لیکن اس میں عمومیت کی آگئی ہے کہ جو اچھا برا کمایا وہ دن کو گنوادیا.جبکہ جو مضمون میرے پیش نظر ہے
اس میں خدا کمانے اور ساری رات اس کی عبادت میں گزارنے کا مضمون ہے.اور مطلب یہ ہے کہ اگر
انسان راتیں تو ذکر الہی میں گزارے اور دن بھر دنیا کے پیچھے بھاگتا پھرے تو یہ اچھا عمل نہیں.اگر
یار کمانے کے اظہار بیان پر اعتراض ہے.تو یہی محاورہ تو اس شعر میں میری جان ہے اور شعر کی بھی.یار یونہی نہیں مل جاتے ، کمانے پڑتے ہیں.“
جو آنکھیں مند گئیں رو رو کر.اور گھل گھل کر جو چراغ بجھے
مكتوب ۱۲.۱.۹۳ صفحه ۲۰)
اس مصرع کے بارہ میں آپ کا مشورہ درست ہے اور جو آنکھیں مندھ گئیں رو رو کر زیادہ بہتر
ہے لیکن پھر اس سے اگلے مصرع کا پہلا جزو آن پرختم ہو اور دوسرا حصہ اس طرح شروع
31
Page 196
ہو کھیں گھل گھل کر جو چراغ بجھے.تو پھر وزن درست رہتا ہے.اگر چہ یہ کم ہے.اس لئے اگر
اسے بدلنا ہے تو پھر اس سے اگلے حصہ مصرع کو بھی وزن کی درستی کے لئے بدلنا پڑے گا اور اس میں وہ یا
نیوں یا اور زائد ڈالنا پڑے گا.آپ کے مجوزہ متبادل میں پہلا تو مکمل ہے.لیکن دوسرے میں جوڑنے
کے لئے جو لفظ چاہئے وہ غائب ہے مثلاً یوں گھل گھل کر جو چراغ بجھے' کر دیا جائے تو پھر ٹھیک ہے.پڑھنے کے انداز کے فرق سے جو تم سا پیدا ہوتا ہے اس کی مثالیں قادر الکلام شعراء کے حوالے سے بیان
کر چکا ہوں جو مکروہ نہیں کبھی جاتیں.اس لئے وزن ٹھیک رکھنے کی خاطر اگر نصف مصرع کا کچھ آخرکی
ٹکڑا دوسرے نصف مصرع کو شروع میں مستعار بھی دینا پڑے تو کوئی حرج نہیں.بہر حال اس مصرع کی
شکل دو طرح بن سکتی ہے پہلی تجویز میں یوں اگر زائد لگتا ہو تو اسے اور کرلیں.ہیں.ا.جو آنکھیں مند گئیں رو رو کر.یوں گھل گھل کر جو چراغ بجھے
۲.جو مند گئیں آنکھیں روتے روتے.گھل گھل جو چراغ بجھے
مجھے تو پہلی تجویز کیوں کی بجائے اور کے ساتھ اچھی لگ رہی ہے.آپ کو جو پسند ہو وہ رکھ
(مکتوب ۱۵ مئی ۱۹۹۳ء صفحه ۱۱)
ظالم نے اپنے ظلم سے خود اپنے ہی افق دھندلائے ہیں
کے متعلق آپ نے تجویز دی ہے کہ آپ کی بجائے خود بھی ہو سکتا ہے.آپ کی تجویز منظور
ہے.بہت اچھی ہے.جزاکم اللہ تعالی.ٹھیک ہے اس کے مطابق اب اسے یوں کر دیں:
ظالم نے اپنے ظلم سے خود اپنے ہی افق دھند لائے ہیں
(مكتوب ٫۵دسمبر ۱۹۹۳ء)
الله
32
Page 197
نظم نمبر ۲۳
کہہ رہا ہے خرام بادصبا جب تلک دم چلے مُدام چلو
خرام مندرجہ بالا شعر میں پہلی اشاعت میں مؤنث باندھا گیا تھا.نظر ثانی کی مؤدبانہ
درخواست پر نه برامانا ، نہ گستاخی پر محمول سمجھا.کھلے لفظوں میں حقیقت حال بیان فرمائی.اعلیٰ ظرفی
اور وسیع القلمی کا ایسا مظاہرہ دنیا کے بڑوں میں کہاں دیکھنے کو ملتا ہے.یہ حصہ صرف اس سبق کے لئے
بھی بہت اہمیت رکھتا ہے کہ بڑا دل دکھانے سے کوئی چھوٹا نہیں ہو جاتا.وضاحت سے تحریر فرمایا:
دیگرام کے متعلق میری غلط فہمی ان شعروں کی وجہ سے ہے جن میں لفظ خرام استعمال ہوا اور
جہاں ضمیر لفظ خرام کی طرف نہیں بلکہ مضاف کی طرف جاتی ہے جیسے :
موج خرام ناز بھی کیا گل کتر گئی
اسی طرح میرے علم میں خرام کے معنوں میں جتنے لفظ مستعمل ہیں وہ سب چونکہ تانیث کا مرتبہ
رکھتے ہیں جیسے چال ورفتار وغیرہ.اس لئے اس خیال سے بھی ہمیشہ اس لفظ کو تانیث کے درجہ پر رکھتا
رہا.اب آپ نے توجہ دلائی تو لغات اٹھا کر دیکھیں جس سے معلوم ہوا کہ اہل ادب کے ہاں اسکو
مؤنث استعمال کی کوئی سند نہیں.ویسے بھی یہ شعر کچھ کمزور تھا کیونکہ صبا تو صبح کی ہوا کو کہتے ہیں شام کی
ہوا کو نہیں اور صبا کا پیغام صبح چلنے کا تو ہوسکتا ہے ، شام چلنے کا نہیں.لیکن چونکہ یہ دونوں نظمیں جو جلسہ
میں پڑھی گئیں جلسے سے چند دن پہلے شروع ہوئیں اور جلسہ کے ہنگامے کے دنوں میں مکمل ہوئیں
اس لئے پوری طرح نظر ثانی نہیں ہو سکتی تھی.اگر خرام لفظ استعمال ہوتا تو پھر بھی مؤنث میں ہی ہونا تھا.لیکن ہو سکتا ہے کہ متبادل شعر میں یہ لفظ آتا ہی نہ.اس لئے اگر وقت ملا تو پہلا مصرع تبدیل کر کے
الفضل کو ترمیم کے لئے لکھ دوں گاور نہ اس شعر کو حذف کرنے کے لئے اعلان کروایا جا سکتا ہے.(مكتوب ١٢ / نومبر ١٩٩١ء )
33
Page 198
بحر عالم میں اک بپا کر دو پیار کا غلغلہ تلاطم عشق
خاکسار نے پہلے مصرع میں اک کی جگہ "تم تجویز کیا جو حضور نے از راہ شفقت منظور فرمالیا مگر
جب مسودہ اصلاح کے لئے گیا تو تم کو پھر اک ہی تحریر کروایا.میرے توجہ دلانے پر آپ نے بڑا
دلچسپ جملہ لکھا:
بحر عالم میں اک بپا کر دو والے مصرع میں اک کی بجائے ”تم کی اجازت دی ہو گی لیکن
بادل نخواستہ دی ہو گی کہ آپ کی ہر بات کا تو انکار نہیں ہوسکتا.ویسے مجھے تو اک زیادہ پسند ہے“.☆ ☆ ☆.....(مکتوب ۵/ دسمبر ۱۹۹۳ء)
اپنے دیس میں اپنی بستی میں اک اپنا بھی تو گھر تھا
اس نظم میں انیسواں شعر ہے.آخر دم تک تجھ کو پکارا.آس نہ ٹوٹی دل نہ ہارا مصلح عالم باپ ہمارا.پیکر صبر ورضار ہبر تھا
خاکسار کی معمولی سی ترمیم کی درخواست پر آپ نے اصولی بحث کے ساتھ اچھی طرح
سمجھایا تحریر فرماتے ہیں.ول نہ ہارا کی بجائے آپ نے دل بھی نہ ہارا کی تجویز دی ہے.وزن تو اس میں بھی نہیں
ٹوٹتا.صرف پڑھنے کے انداز کا فرق ہے.کسی لفظ پر زیادہ زور دے کر پڑھا جائے یا کم زور دے کر پڑھا
جائے.تو اس سے بعض اوقات شعر کا وزن ٹوٹتا ہوا محسوس ہوتا ہے.مثلاً اس نظم کا پہلا مصرع ہے
اپنے دیس میں اپنی بستی میں اک اپنا بھی تو گھر تھا
لفظ میں اس مصرع کے دوسرے نصف میں واقع ہے.لیکن جو اسے پہلے حصہ کے ساتھ ملاتے
ہیں وہ وزن تو ڑ دیتے ہیں.جیسا کہ قادیان میں پڑھنے والے نے یہ مصرع پڑھا ہے.اور جس جگہ
زور آنا چاہیئے اس سے ہٹا کر دوسرے لفظ پر منتقل کرنے کے نتیجہ میں بالکل بے وزن مصرع لگ رہا ہے
34
Page 199
پہلے مصرع کے نصف کے آخری حرف کا قدم دوسرے نصف کے شروع میں جاپڑنے کے بہت سے
نمونے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے عربی فارسی کلام میں ملتے ہیں.اور شعراء کے
نزدیک ایسا کرنا جائز ہے.ایسی صورت میں اگر اس کو پہلے حصے سے ملا کر پڑھیں تو وزن ٹوٹ جائے
گا ورنہ نہیں.بیسویں شعر میں لفظ انوار کے بارے میں آپ نے لکھا ہے کہ ہندی تسلسل میں اجنبی لگ رہا
ہے.اس وجہ سے دوسرے مصرع کو یوں ہونا چاہئے.جس سے نور کے سوتے پھوٹے.روشنیوں کا جو سا گر تھا
اس نظم کا مزاج ملا جلا ہے.یہ صرف سکھوں اور ہندوؤں کے لئے ہی نہیں بلکہ پاکستانیوں کے
لئے بھی تھی.اس لئے میں نے اس نظم میں بعض جگہ عربی اور فارسی الفاظ استعمال کرنے سے گریز نہیں
کیا تاکہ ہم اپنا حق بھی قائم رکھیں.جہاں تک انوار کے لفظ کا تعلق ہے، نور کی یہ جمع شاید زیادہ اجنبی
لگ رہی ہو.لیکن اس کو روشنیوں کی بجائے نوروں میں تبدیل کر دیا جائے تو اور کسی تبدیلی کی ضرورت
نہیں.کیونکہ لفظ نور جو پہلے آیا ہوا ہے وہ تو پھر بھی موجود رہے گا.جس کو نور کی سمجھ آ جائے گی وہ نوروں کو
بھی سمجھ جائے گا.پس یہ شعر یوں بن جائے گا.سیرا سہاگن رہے یہ بستی جس میں پیدا ہوئی وہ ہستی
جس سے نور کے سوتے پھوٹے جو نوروں کا اک ساگر تھا
اس
نظم کا آخری شعر ہے.ہیں سب نام خدا کے سندر.(مكتوب ۱۵.۵.۹۳ صفحه ۵،۴)
وا ہے گرد.اللہ اکبر
سب فانی.اک وہی ہے باقی.آج بھی ہے جو کل ایشر تھا
خاکسار کی پہنچ محض لغت تک تھی.لغت دیکھ کر تجویز کر دیا کہ ایشر کی جگہ ایشور ہو تو وزن نہیں ٹوٹتا.35
Page 200
حضور پر نور کی لفظوں پر تحقیقات کے دائروں
کا اندازہ لگائیے.آپ نے تحریر فرمایا.اول تو یہ درست نہیں کہ ایشور سے وزن نہیں ٹوٹتا.دوسرے جہاں تک ایشر کا تعلق ہے بات
یہ ہے کہ قادیان میں ہندی دان احمدی سکالرز سے میں نے چیک کروا لیا تھا اور ان سب نے اس پر
صاد کیا.لغوی لحاظ سے اس کا اصل ایش ہے.جسے ایس بھی پڑھا جاتا ہے.دونوں متبادل ہیں.ہندی
اردو لغت میں ان دونوں کا مطلب مالک، خدا، حاکم، بادشاہ، خداوند تعالی دیا گیا ہے.یہ لفظ ور یا محض در
کے اضافہ کے ساتھ بھی مستعمل ہے.اردو لغت جامع اللغات میں لکھا ہے کہ ایسر دراصل وہ شہر ہے
-
جہاں سب سے بڑے دیوتا یعنی خدا کی عبادت ہوتی ہے.چنانچہ یہ مضمون کھول کر جامع اللغات ایئر ،
ایشز اور ایشور تینوں لفظ متبادل کے طور پر پیش کرتی ہے.جن کا مطلب بڑا دیوتا، خدا یا مالک یا خدا
تعالیٰ ہے.اسی طرح ایسر میں ایشر لکھ کر آگے خدا، ایشور ، اللہ معانی دئے ہوئے ہیں.گویا ایشور کا
دوسرا تلفظ ایئر اور ایشر ہے اس لئے کسی تبدیلی کی ضرورت نہیں ایشر ہی ٹھیک ہے.چند دن کے بعد آپ کا ایک مکتوب موصول ہوا.( مكتوب ۲۲.۱۰.۹۳ صفحه (۸)
میرا گزشتہ خط آپ کو مل چکا ہو گا ایشر کے لفظ پر.اس میں آپ
کی تجویز کی روشنی میں تبصرہ تو کر
چکا ہوں.لیکن اس کے بعد یہ بات سامنے آئی کہ حضرت اقدس مسیح موعود نے اپنی دو نظموں بعنوان
شانِ اسلام میں کوئی ۶ دفعہ اور ہندوؤں سے خطاب میں ۵ مرتبہ لفظ ایشر استعمال فرمایا ہے.اس
شہادت سے تو مزا ہی آگیا ہے.اس کے بعد تو کسی اور سند کی ضرورت ہی نہیں آپ نے در یمشین کی اتنی
عمدہ کتابت کروائی ہے لیکن آپ نے بھی اسے نوٹ نہیں کیا.(مکتوب ۱.۱۱.۹۳)
36
Page 201
نظم نمبر
تری بقا کا سفر تھا قدم قدم اعجاز.اس نظم کو پڑھتے ہوئے ایک شعر مجھے سمجھ نہیں آرہا تھا.ہو موت اس کی رضا
خوشی
پر
یہی کرامت ہے
سے اس کے کہے میں جو کھائیں سکھر ، اعجاز
میں نے پڑھتے ہوئے اس پر ایک سوالیہ نشان لگا دیا کہ مزید غور کروں گی.پیارے آقا کی نظر
اس سوالیہ نشان پر پڑ گئی میری الجھن دور کرنے کے لئے وضاحت فرمائی:
اس نظم کے دسویں شعر کے دوسرے مصرع کے سامنے آپ نے سوالیہ نشان ڈالا ہے.یہ مصرع
یوں ہے.خوشی سے اُس کے کہے میں جو کھا ئیں سم اعجاز.یہاں خدا تعالیٰ کا اعجاز مراد نہیں ہے بلکہ
انسان کی کرامت اور اس کا اعجاز مراد ہے.یہی مضمون ہے جو پہلے مصرع نے واضح کر دیا ہے.گویا اعجاز
تو یہ ہے کہ انسان اس کے کہے میں خوشی سے زہر بھی کھا جائے اور موت کی قطعا پر واہ نہ کرے.پر واہ
ہو تو صرف اس کی رضا کی ہو اور اس کی خاطر انسان تلخ سے تلخ گھونٹ پینے پر ہرلمحہ مستعد رہے."
نظم نمبر ۳۰
(مكتوب ۱۵.۵.۹۳ صفحه ۳)
الفضل کے رمئی ۱۹۹۲ء کے شمارہ میں صفحہ اول پر میری ایک پرانی نظم بی بی کے وصال پر چسپاں ہونے
والے کچھ نئے اشعار اضافہ کے ساتھ شائع ہوئی ہے اس پر بھی میں نے نظر ثانی کی ہے.اور اس کے
علاوہ آخر پر بعض مزید اشعار کا اضافہ کیا ہے وہ بھی شامل کر لیں.تم جن کا وسیلہ تھیں وہ روتی ہیں کہ تم نے
دم توڑ کے توڑے ہیں ہزاروں کے سہارے
وه
آخری ایام
-
وہ
بہتے ہوئے خاموش
37
Page 202
حرفوں کے بدن.اشکوں کے دھاروں کے سہارے
بھیگی ہوئی بجھتی ہوئی.مٹتی ہوئی آواز
اظہار
تمنا
وه اشاروں
کے
سہارے
وہ
ہاتھ جھٹکتے
ہوئے کہنا
رخصت
سہارے
میں نے نہیں جینا نگہداروں کے
وہ جن کو
نہ راس آئیں طبیبوں کے دلاسے
شاید کہ بہل جائیں.نگاروں کے سہارے
T
بیٹھ
مرے
پاس مرا دست تہی تھام
چھوڑ کے جا درد کے ماروں کے سہارے
آپ کا بہت بہت شکریہ کہ آخری دو اشعار کی طرف توجہ دلا دی کہ ان کے درمیان کچھ کمی تی
معلوم ہوتی ہے.مجھے بھی لگ رہا تھا.بہر حال آپ نے بہت اچھا کیا جو توجہ دلائی.شروع میں ان سے
میں مخاطب ہوں مگر آخر پر وہ مجھ سے مخاطب ہیں.اس لئے مضمون کو مزید کھولنے کے لئے میں نے چند
نئے شعروں کا اضافہ کر دیا ہے.امید ہے اب اس سے بات واضح ہو جائے گی.انشاء اللہ تعالٰی “
( مكتوب ۱۹۳-۱۲ صفحه ۲۹٬۲۸)
اعراب اور تلفظ کی غلطیوں کے بارہ میں راہنمائی
اعراب کی غلطیاں بھی آپ نے سمجھا سمجھا کر لغات کے حوالے سے بتائیں.صرف چند مثالیں
ملاحظہ ہوں :.☆
لفظ مناروں نہیں ، مناروں ہے.مینار درست ہے جب 'ی' کے ساتھ آئے اور جب
66
دی کے بغیر ہو تو منا ر ہوتا ہے."
38
Page 203
تحتَ الثّرى درست نہیں.یہ لفظ تَحتُ الشَّریٰ“ ہے.فیروز اللغات میں بھی
اسے تحتُ الشَّریٰ“ ہی لکھا ہے...☆
لفظ گرفتار نہیں اگر چہ عموماً بولا اسی طرح جاتا ہے.لغت کی کتابیں چیک کی ہیں.اس
کا صحیح تلفظ گرفتار ہے.“
☆
جَاءَ الْحَقُّ وَزَهَقَ الْبَاطِلُ“.اردو میں تو زُهَقَ الباطل ٹھیک ہے.لیکن آیت
کریمہ میں اس پر پیش موجود ہے.تا ہم عربی میں جس لفظ پر بھی قاری ٹھہرتا ہے وہ اس کی آخری حرکت
کو نہیں پڑھتا لیکن حرکت اسی طرح لکھی جاتی ہے.صرف وقف کی وجہ سے پڑھنے میں نہیں آتی.اس
لئے پیش ضرور ڈالیں.لیکن نیچے نوٹ دے دیں کہ شعر میں چونکہ یہاں وقف کرنا ہے.اس لئے حرکت
نہیں پڑھی جائے گی.بلکہ باطل کی بجائے باطن پڑھا جائے گا.“
☆
آپ نے مسودہ میں اویس کے نیچے تصحیح کرتے ہوئے الف کی زبر کے ساتھ اسے
اولیس لکھا ہے.یہ لفظ اولیس ہے ، الف کی پیش کے ساتھ.اسے اولیس لکھنا یا پڑھنا غلط ہے.عربی
لغت کی کتابوں لسان العرب، القاموس المحیط اور المنجد وغیرہ میں اولیس ہی لکھا ہے.“
مسودہ میں جاں لکھا ہے.یہ جاں نہیں بلکہ نون کے ساتھ جان ہے.ایسی چھوٹی چھوٹی غلطیوں
پر آپ کو گہری نظر رکھنی پڑے گی اور جہاں جہاں میں نے اعراب کو واضح کیا ہے.وہاں آئندہ مسودہ
واضح کر کے لگوائیں.ان میں سے کوئی حرکت زیر زبر چھوٹنے نہ پائے.سب اعراب اس مقصد سے
لگائے جانے چاہئیں کہ آجکل کے اردو پڑھنے والے بھی عربی کی طرح اعراب کے محتاج ہو چکے
ہیں.خصوصاً پاکستان سے باہر پیدا ہونے والے تو اس کے بہت محتاج ہیں.“
لفظ خاتم کے معنی ختم کرنے والا درست نہیں.ت کی زبر کے ساتھ اس کے معنی
انگوٹھی اور مہر کے ہوتے ہیں.اور مرا دسب سے اعلیٰ ، سب سے افضل.جس پر مقام ختم ہو جائے اور ہر
39
39
Page 204
قسم کے فیوض کا اجراء جس کی ذات سے وابستہ ہو جائے.یہ معنی ہیں جو کھول کر بیان کرنے چاہئیں.“
(مکتوب ۱۵.۵.۹۳ صفحه ۱۹)
حمد الفظ مہک کے متعلق آپ کی بات درست ہے.یہ مہک اور مہک دونوں طرح آ جاتا ہے.مگر
مجھے تو مہک سے زیادہ لگاؤ ہے اور ہمارے گھروں میں بھی مہک ہی پڑھا جاتا تھا.لیکن اہل زبان
ح ، و ھ سے پہلے زبر آجائے تو اس میں امالہ بھی کرتے ہیں جیسے رہنا، کہنا سہنا وغیرہ.اسی طرح
میں بھی مہک کو مہک کی بجائے امالہ کر کے مہک پڑھتا ہوں لیکن بعض شعراء جب ضرورت سے زیادہ
اپنی اردو جتاتے ہیں تو وہ مچل کے وزن پر مہک پڑھتے ہیں.(مکتوب ۳ دسمبر ۱۹۹۳ء)
چاروں اور بچی شہنائی اور پر زبر نہیں ہے.یہ لفظ اور ہے اور نہیں.اور کا مطلب ہوتا ہے
☆
مزید جبکہ اور کا مطلب ہے سمت.جس طرح چور کو چور پڑھنا جائز نہیں اسی طرح اور کو اور پڑھنا جائز
نہیں.☆
(مکتوب ۵/ دسمبر ۱۹۹۳، صفحه ۸)
لفظ ضائع کا ایک تلفظ اگر چہ ضایا بھی چل پڑا ہے مگر جب ادبی کلام پڑھا جائے تو پھر
اس کو ضایا پڑھنا یا لکھنا غلط ہے اور اس کو پسند نہیں کیا گیا.حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ اس سے بہت
الرجک تھے.لیکن اب یہ عرف عام میں مستعمل ہو چکا ہے.اس لئے اس کے اوپر کوئی گرائمیرین
دھونس ڈالنی مناسب نہیں.زبان دانی کی دھونس لفظوں پر ضرور چلتی ہے لیکن جب کوئی لفظ غلط العام ہو
جائے تو پھر اس کے سامنے ادب کی ساری لگا میں ڈھیلی پڑ جاتی ہیں.چنانچہ باوجود اس کے کہ حضرت
مصلح موعود کافی عرصہ لفظ ضایا کے خلاف احتجاج فرماتے رہے ہیں مگر پھر بھی ”ضایا راہ پاہی
گیا.آپ اس ناپسندیدگی کا اظہار ا کثر ایسے پڑھنے والوں پر فرماتے تھے جو آپ کے کلام میں ”ضایا
میرا پیغام پڑھ دیا کرتے تھے.اور ایسے اعلیٰ او بی کلام میں واقعی ضائع کو ضائع ہی پڑھنا چاہئے اور
ضایا نہیں کہنا چاہئے.باقی جو عام درست الفاظ ہیں ان میں اگر کوئی غلط پڑھے تو بہت تکلیف دیتا ہے
مثلا نشان کو نشان پڑھنا...(مکتوب ۵ اپریل ۱۹۹۵ء صفحه (۳)
40
Page 205
درد.ضمنا یاد آیا کہ شعروں میں تو در دلفظ مذکر استعمال ہی ملتا ہے جیسے:
در دمنت کش دوا نہ ہوا
دل میں اک در داٹھا آنکھوں میں آنسو بھر آئے
لیکن بول چال میں بسا اوقات سر درد ہو رہی ہے سننے میں آتا ہے.یا مجھے درد ہورہی ہے
اس کو آپ کس مقام پر رکھیں گی.غلط العام شمار ہوگا یا غلط شمار ہوگا ؟
(مکتوب ١٢ / نومبر ١٩٩١ء)
مشکل الفاظ کے معانی (Glossary) کی تیاری
متن کے بعد دوسرا مرحلہ مشکل الفاظ کے معانی اور تلفظ کو واضح کرنا تھا.ابتدائی طور پر جو
گلاسری (Glossary) خاکسار نے بنا کر بھیجی اس کے متعلق آپ نے تحریر فرمایا تھا:
”جہاں تک حاشیہ میں الفاظ معانی دینے کا تعلق ہے یہ بہت اچھا خیال ہے اور ضرورت بھی ہے
لیکن ان کا انتخاب ہر قسم کے پڑھنے والوں کی پہنی اور علمی سطح کا خیال رکھتے ہوئے کرنا چاہئے.بعض تو
بہت ہی عام فہم الفاظ کے معنی آپ نے دئے ہوئے ہیں.لیکن بعض ایسے الفاظ جو روز مرہ مستعمل نہیں
اور بعض اوقات اچھے بھلے پڑھے لکھے شخص کے ذہن میں بھی متحضر نہیں ہوتے ان کے معانی نہیں دیئے
گئے.اس لحاظ سے انتخاب کو Balance بنانے کی ضرورت ہے.اردو میں تلفظ دینے کی بجائے
انگریزی میں تلفظ دیا جائے تو زیادہ بہتر ہوگا.کیونکہ اُردو میں جس طرح تلفظ دئے گئے ہیں ان سے
پڑھنے والوں کو الجھن پیدا ہو سکتی ہے.مثلا منت کو مِن نَست، آئینہ خانے کو آئی نا خانے ، متسی
نصر الله کو متانص ژل لاہ، ٹیلہ کوئی لہ، نیر بد کی کوئی ہی رے دا وغیرہ وغیرہ.اس میں کوئی شک
نہیں کہ اس میں بڑی محنت کی گئی ہے.لیکن پڑھنے والوں کو اس سے الجھن بھی ہوسکتی ہے.اسلئے ساتھ
انگریزی میں بھی تلفظ دیں اور اردو میں ساتھ یہ نوٹ دے دینا چاہئے کہ یہ لفظ ایک ہی ہے صرف پڑھتے
41
Page 206
ہوئے صوتی لحاظ سے اس کی آواز جس طرح بننی چاہئے اس کی وضاحت کے لئے اس طرح لکھا گیا
ہے.✰✰✰....☆
( مكتوب ۹۳-۵-۱۵ صفحه ۱۱۸
خاکسار نے ان ہدایات کے مطابق الفاظ معنی کو Balance کیا.انگریزی تلفظ اور معانی
دئے اور آپ کی خدمت اقدس میں روانہ کئے.آپ نے ایک ایک لفظ کا جائزہ لیا.آپ کے ساتھ
ایک ٹیم کام کرتی تھی.جو اصلاحوں کو نوٹ کر کے کمپوز کر کے مجھے بھجوا دیتی.الفاظ معنی کی درستی کے بعد
کمپوزنگ کا مسئلہ تھا اور کمپوزنگ سے بڑھ کر پروف ریڈنگ کا جس میں آخر تک کچھ نہ کچھ خامیاں
رہیں.جولائی ۱۹۹۵ء میں جلسہ سالانہ پر کتاب بھیجنے کے جنون نے دن رات کام پر لگائے رکھا.صفحہ
کے ڈیزائن اور سائز تک کی منظوری حضور سے لی.طباعت کے کام میں سر دینے والے ہی اندازہ
کر سکتے ہیں کہ قدم قدم پر کیسی کیسی دشواریاں راستہ روک کر کھڑی ہو جاتی ہیں اور پھر کراچی کے مخصوص
حالات میں ایسی جگہوں پر صبر آزما د ریگتی رہی جو پہلے سوچا بھی نہیں تھا.مولا کریم کے فضل و احسان سے
۱۹؍ جولائی ۱۹۹۵ء کو کتاب چھپ کر آ گئی.اور جلسہ سالانہ پر حضور رحمہ اللہ کی خدمت میں ہماری قائم
مقام صدرامتہ الحفیظ بھٹی صاحبہ نے پیش کی حضور نے پسندیدگی کا اظہار فرمایا اور دعائیں دیں.اس کام میں محترمہ سلیمہ میر صاحبہ صدر لجنہ کی سرپرستی حاصل رہی.برکت ناصر صاحبہ نے کلام جمع کرنے میں مدد دی.محترم سلیم شاہجہانپوری صاحب نے کلام اور
گلاسری(Glossary) دونوں کی نظر ثانی کی.محترم عبید اللہ علیم صاحب نے قیمتی مشوروں سے نوازا
اور طباعت میں شیخ داؤ د احمد صاحب نے محنت کی.فجزاهم الله تعالى الاحسن الجزك.☆ ☆ ☆......42
Page 207
کلام طاھر کی طباعت پر اظہار خوشنودی اور دعائیں
پیارے حضور نے آپا سلیمہ صاحبہ کے نام مکتوب میں تحریر فرمایا:
"آپ کی سرپرستی میں کلام طاہر“ پر جو کام ہوا ہے وہ بہت ہی اعلیٰ ہے.ماشاء اللہ بہت
خوبصورت پیشکش ہے.جن کے نام آپ نے لکھے ہیں ان سب کا شکریہ اور میری طرف سے انہیں
محبت بھرا سلام اللہ تعالیٰ ان کے اموال نفوس اور اخلاص میں برکت دے اور اپنی رحمتوں سے
نوازے.“
خاکسار کے نام آقا نے تحریر فرمایا:.کلام طاہر کی خوبصورت دیدہ زیب طباعت پر بے حد شکریہ.آپ نے اس پر بہت محنت کی.ط
جزاکم اللہ احسن الجزاء اللہ آپ سب
کو علمی، ادبی، تعلیمی، تربیتی اور تبلیغی خدمات سرانجام دینے کی توفیق
دے اور سب بچوں کی طرف سے آنکھوں کی راحت عطا فرمائے.سب کو بہت بہت محبت بھر اسلام“.روز نامہ الفضل نے تبصرہ لکھا:
احمد یہ جماعت میں سب سے خوبصورت کتاب کاغذ ، پرنٹ ، جلد اور فلیپ کی خوبصورتی کو
مد نظر رکھتے ہوئے چھپنے والی کتاب کا اعزاز شعبہ اشاعت لجنہ اماءاللہ ضلع کراچی کے حصہ میں آیا ہے.“
( روزنامه الفضل ربوه ۱۶ اکتوبر ۱۹۹۵ء)
سب سے آخر میں حسین ترین بات کہ پیارے حضور نے کتب ملنے پر خاکسار کو کلام طاہر کا تحفہ
بھیجا اور اس پر دست مبارک سے تحریر فرمایا.عزیزہ امتہ الباری ناصر سلمھا اللہ، یہ پہلا نسخہ ہے جو کسی کو پر خلوص دعاؤں کے
ساتھ بھجوا رہا ہوں ظاہر ہے آپ کا حق فائق ہے.جزاک اللہ احسن الجزاء فی الدنیا والآخرة.دستخط (۹۵-۷ - ۲۵ لنڈن)
43
Page 208
کس زباں سے میں کروں شکر کہاں ہے وہ زباں
کہ میں ناچیز ہوں اور رحم فراواں تیرا
☆..نیم سیفی صاحب نے الفضل ۲۲ اگست 1990ء کے شمارے میں ایک دلچسپ قطعہ شائع کیا.سلیمہ میر و باری کو
مبارک ہو
طاہر
دل
بہت شایانِ شان آیا کلام حضرت
کچھ ایسی دیدہ زیب اس کی کتابت و طباعت ہے
که از خود ہو گیا مفہوم اس کا ظاہر و
خاکسار نے جوابا لکھا:.باہر
کلام حضرت طاہر کی خدمت اک سعادت ہے
اسے فصل خداوندی کا سارا سلسلہ کہہ دوں
اللہ کا احسان ہے اس کی عنایت ہے
ہے مجھ کو اک درویش کے دل کی دعا کہہ دوں
سلیمہ میز و باری تو ہیں اک تنظیم کا حصہ
میں سب لجنہ کراچی کی طرف سے شکریہ کہہ دوں
W
کلام طاھر کی لندن سے طباعت اور اضافے
اللہ تعالیٰ کے احسانات کا جتنا بھی شکر کروں کم ہے.۲۰۰۱ء میں لندن سے کلام طاہر کا نیا ایڈیشن شائع
ہوا.حضور پر نور کے ارشاد پر نئی شامل ہونے والی نظموں کی پروف ریڈنگ اور گلاسری کی تیاری کی
سعادت نصیب ہوئی.لندن سے جو کتاب شائع ہوئی وہ بدرجہا خوبصورت ہے.لجنہ کراچی کا
اشاعت کا اسلوب برقرار رکھا جس کی ہم سب کو بہت خوشی ہے.کتاب موصول ہوئی جس پر پیارے آقا
کا دلکش نوٹ تھا :
44
Page 209
پیاری امتہ الباری ناصر صاحبہ
کلام طاہر کے تعلق میں آپ کے بہت ہی قیمتی مشورے ملتے رہے ہیں اور بڑی محنت سے آپ
نے اس کی گلوسری بنائی ہے.اس کا جتنا بھی شکریہ ادا کیا جائے ، حق ادا نہیں ہوسکتا.بہر حال میری
طرف سے یہ عید کا تحفہ، جس میں آپ کا بڑا دخل ہے ذرا تاخیر سے پیش ہے، قبول فرمائیں.والسلام خاکسار دستخط ۱۸ دسمبر ۲۰۰۱ء
دستخط کر کے مجھے بھیجی کلام طاہر
آپ جیسا کوئی دلدار نہ دیکھا نہ سنا
اپنے عشاق سے یہ پیار نہ دیکھا نہ سنا
لطف اور ایسا طرحدار نہ دیکھا نہ سنا
میری جھولی کے لعل و جواھر
کلام ظاہر کی تیاری کے مہ و سال میری زندگی کا سنہری دور تھا کل تو ہوتے ہی حسین ہیں خار بھی
بہت حسین تھے.حضور انور کی خدمت میں خط لکھنا:
چھیڑ خوباں سے چلی جائے اسد
والا معاملہ نہیں ہوتا.جان و ایمان تھیلی پر رکھا ہوتا ہے.آپ کی طرف سے جواب موصول ہوتا تو ہر
دفعہ یہ سوچ کر کھولتی کہ لکھا ہوگا.عزیزہ ! اگر مبلغ علم کی کوتاہ قامتی کا یہ عالم ہے تو زحمت نہ ہی کریں جزاکم اللہ.مگر آپ نے
بڑے تحمل و برداشت بلکہ صبر سے میری کوتاہیوں سے صرف نظر فرمایا.اور سمجھا سمجھا کر حوصلہ بڑھاتے
رہے.میری جھولی میں ایسے لعل و جواہر بھی ہیں جن پر مجھے بجا طور پر عاجزانہ فخر ہے.یہ بھی کلیتہ
45
Page 210
آپ کا حسن نظر ہے
صلى
الله
ظہور خیر الانبیا میل ۱۹۹۳ء کے جلسہ سالانہ لندن اور پھر جرمنی میں پڑھی گئی.کچھ ترامیم و
اضافے کے بعد اس کا حسن دوبالا ہو گیا تھا.میں نے حضور انور کی خدمت میں نظم سن کر اپنے تاثرات
لکھے.میں نے تو کیا لکھا ہوگا ٹوٹے پھوٹے الفاظ میں مگر آپ کا مکتوب آپ کے حسن و احسان کا مرقع
ہے.آپ کی طرف سے لجنہ امریکہ سے خطاب کا اردو تر جمہ اور میرے کلام کا کتابت شدہ مسودد
موصول ہوا.جزاکم اللہ احسن الجزاء.اپنے خط میں آپ نے نعت ظہور خیر الانبیاء صلی اللہ علیہ وعلی آلہ
وسلم کے حوالے سے جو تبصرہ کیا ہے اس میں دو باتیں قابل غور ہیں.ایک تو یہ کہ ماشاء اللہ بہت ہی خوبصورت زبان میں تبصرہ کیا ہے اور جن جذبات کا اظہار کیا ہے وہ
بھی بہت لطیف ہیں.اور یہ بھی بالکل درست ہے کہ اس نظم پر محض آپ کی یاد ہی نہیں آئی بلکہ جذبہ
احسان کے ساتھ یاد آتی رہی.کیونکہ اس کے بہت سے شعر ایسے تھے جن کے متعلق مجھے خیال تھا کہ
اصلاح کے محتاج ہیں لیکن وقت نہیں ملتا تھا.آپ نے درست طور پر ان کی نشان دہی کی اور اصلاح
کروا کے چھوڑی اور نہ میں کئی سال سے اسے ٹال رہا تھا اس لئے یہ نعت اور اس کے علاوہ کئی اور نظموں
پر آپ
کی توجہ کے نتیجہ میں جو وقت نکالا ہے یہ مواقع ہمیشہ جذبہ احسان کے ساتھ آپ کی یاد دلاتے
ہیں.جزاکم اللہ احسن الجزاء فی الدنیا والاخرة“.☆☆☆....(مکتوب ۲۲ اکتوبر ۱۹۹۳ء)
رکھتی نہیں ترتیب سے یا دیں کبھی لیکن
باندھا ہے ترے نام کا اک باب علیحدہ
میرے اس علیحدہ باب میں الگ باندھ کے رکھا ہوا ایک مکتوب مجھے بے حد عزیز ہے.اس میں
46
Page 211
پیارے
آقا کی شخصیت کے کئی روپ کھلتے ہیں.دست مبارک سے تحریر فرمایا:
۹-۹۰ - ۱۹ عزیزه مکرمه امته الباری ناصر السلام علیکم ورحمۃ اللہ و بر کانت.جلسہ پر پڑھی جانے والی نظموں کے متعلق محبت بھرے رنگا رنگ خطوط ملتے ہیں لیکن سب پر
محبت کا رنگ غالب رہتا ہے اس لئے پوری طرح اطمینان نہیں ہوتا کہ کسی نے متوازن تنقیدی نظر سے
بھی جائزہ لیایا نہیں.کبھی کبھی سلسلہ کے بعض چوٹی کے شعراء اور ادیب بھی جب اپنی پسند کا اظہار کرتے
ہیں تو مجھے احساس ہوتا ہے کہ تعریف تو سچی کر رہے ہیں لیکن خامیوں کے متعلق صرف نظر کر جاتے ہیں
آپ کا آج کا خط مستثنیٰ ہے.پہلی بات تو یہ نمایاں ہے کہ تمام تریج ہے اور سچ کے سوا کچھ نہیں.جہاں کچھ اصلاح کی گنجائش دیکھی وہ بڑے علائم دلپسند الفاظ میں تجویز کر دی.انکسار کی آمیزش نے ان
الفاظ کو اور بھی شائستہ بنا دیا.دوسری نمایاں بات یہ ہے کہ آپ کے تبصرہ میں بھنورے کا سا رنگ پایا جاتا ہے.دور ہی سے
دیکھا اور سونگھا نہیں بلکہ بھنورے کی طرح ہر شعر کے دل میں ڈوب کر پردوں میں لپٹی ہوئی روح سے
شناسائی کے بعد لب کشائی کی ہے.یہ تو میں نہیں کہتا کہ میرے دل کی سب باتوں تک آپ اتر گئیں
لیکن یہ ضرور کہ سکتا ہوں کہ بند کواڑوں والے گھر کو راستہ چلتے ٹھہر کر نہیں دیکھا بلکہ کواڑ کھول کر اندر
سے بھی جائزہ لیا.ایک اور بات یہ بھی کہہ سکتا ہوں کواڑ کھلوائے نہیں خود کھولے ہیں یعنی آپ کی اپنی چابی ہی
سے تالے کھل گئے.جہاں تک اصلاح کے اشاروں کا تعلق ہے ذوق لطافت سے تو انکار نہیں لیکن میری سوچیں جن
راہوں سے گزر چکی ہیں ان کا آپ
کو علم نہیں..47
Page 212
ہم نے کوئلہ کوئلہ اپنا دل.میں یہ امر مانع تھا کہ اول اس طرح ایک ایک کر کے کوئلے کے بعد دوسرے کو ملے کا تصورا بھرتا ہے جبکہ
موجودہ جگہ پر کوئلہ کی تکرار پہلے ہی سے جل جل کر کوئلہ ہوئے ہوئے دل کا تصور پیش کرتی ہے.آنچل
لہرانے یا بکھرانے میں یہ روک پیش نظر تھی کہ دو تین شعر جو اس غزل میں پڑھے نہیں گئے اُن میں
ایک آنچل لہرانے والا شعر بھی تھا.دوسرے یہ نہ بھی ہوتا تو شفق کے چہرے پر آنچل ہرانے یا بکھرانے
کی بجائے گیسو بکھرانے کا مضمون زیادہ بر حل معلوم ہوتا ہے.آنچل سے یا پلو سے چہرہ چھپایا
تو جاتا ہے چہرے پر آنچل لہرایا یا بکھرایا نہیں جاتا.جو شعر پڑھے نہیں گئے ان میں سے جو یاد ہیں وہ
لکھ دیتا ہوں.سه
خالق کی طرح پر بت بھی ایک نئی شان ہر آن بدلتا ہے
موسم کے رقص وسرود نے جلووں کا دربار لگایا ہے
چمپئی ، کاسنی، اودے، پہلے پھول کھلے ہیں
بہکی بہکی مست ہواؤں نے آنچل لہکایا ہے
دور افق پر اور ہی رُت ہے چھائی ہے گھنگھور گھٹا
بادل نے بجلی نے گرج نے ایک کہرام مچایا ہے
اس طرح کے سچے اچھے خط آپ بے شک، بے جھجک لکھا کریں.ایسے خطوں سے چلتے چلتے ،
ر کے بغیر سستانے کے سامان ہو جاتے ہیں.جزاکم اللہ احسن الجزاء.آپ کی لجنہ کی مصروفیات کی رپورٹ دل سے دعا ئیں کومتی ہے جزاکم اللہ احسن الجزاء.والسلام
48
خاکسار
( دستخط )
Page 213
پیارے آقا کو خوشیاں بانٹنے کا عجیب ملکہ حاصل تھا.یہ الفاظ اب بھی دماغ میں
گونجتے ہیں.ایم ٹی اے کی نشریات کے بالکل آغاز میں ۱۴؍ جنوری ۱۹۹۴ء کو ملاقات پروگرام میں
حضور رحمہ اللہ نے فرمایا کہ امتہ الباری ناصر یہ پروگرام سن رہی ہوں
تو یہ رباعی بھی کلام طاہر میں شامل
کرلیں.بذل حق محمود میری کہانی کھوگئی
ނ
وہ
بذل حق سے روٹھ کر واصل حق ہوگئی
نذر راوی کی تھی میں نے کتنے ارمانوں کے ساتھ
ناؤ لیکن کاغذی تھی غرق راوتی
راوتی ہو گئی.✰✰✰...✰
وہ کرتے ہیں احسان احسان ہمیشہ وراثت میں پائی ہے شان کریمی
ہیں مرد خدا میں خدا کی ادائیں وگرنہ میں کیا میری ہستی ہی کیا ہے
ہے ناچیز ذروں کی خاطر شغف میرے سورج کا شعر و ادب میں
غنیمت
ہے
سایه
نگن آسماں معرفت کا زمیں
رو
بہت
آیا ہوا ہے
میں لاؤں کہاں سے وہ الفاظ جن میں ادا کرسکوں شکریہ جیسا حق ہے
ہے جا رہے ہیں تشکر کے آنسو مرا پگلا دل آج پگھلا ہوا ہے
بڑی عاجزی سے میں سر کو جھکائے خدا سے یہی اک دعا مانگتی ہوں
میرے آقا کی ساری دعائیں ہوں پوری ، علاوہ ازیں، چاہئے اور کیا ہے
☆☆☆.....49
Page 214
KALAM-E-TAHIR
کلام طاہر
GLOSSARY
مشکل الفاظ تلفظ اور معانی
Page 215
زیر
زیرے
Symbols for Pronunciation and Transliteration.Vowels
Consonants
a
a
e
ت ط
t
ف
ق
ک
گ
(-
ای
ل
S
م
ن
ز ج
ش س، ص
u ,00 او
sh ش
11
پیش
au
او
ں
ch
ai
اے
0'0' h
i kh
رڈ
رڈ
عء
d
Z
r
,
i gh
g
m
n
n
W
y ی
Page 216
اک رات مفاسد کی وہ تیرہ و تار آئی
ik rāt mafāsid ki
مقاسید matasid
خرابیاں، برائیاں، جھگڑے Riots, disturbances, disorder
تیره و تار tirah-o-tar
تی را او تار) بالکل تاریک گھپ اندھیرا Pitch darkness
ظلمات zulmat
اندھیرے، تاریکیاں Multiple darknesses
گمراہی gumrahi
زائل za'il
دور ہو گئے To vanish, to disappear
شان خود آرائی shan-e-khud araee
خود کو بنانا سنوارنا To reveal one's beauty with majesty
غارت gharat
تباہ برباد Ruined, destroyed
چوپٹ chaupat
تباہ برباد Ruined, come to nought, to be scattered
یورش yurish
حملہ Onslaught
بے دینی، بے راہ روی
Irreligiousness, to lose the right path, crookedness
دار آئی waraee
صدقے کر آئی، نچھاور کر آئی.Sacrificed every source of
light on the altar of darkness
صف آرائی safaraee
جنگ یا مقابلے کے لئے سپاہیوں کی صفیں، قطاریں درست کرنا
بام bam
چھت Roof, balcony
چمن chaman
باغ Garden
جمشیدی و دارائی jamshaidi-o-darai
جمشید اور دارا ایران کے مشہور بادشاہ تھے مراد یہ ہے کہ دنیا کی بڑی
بڑی بادشاہتیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر نثار ہو رہی تھیں
To be arrayed in battle formation
بحروبر bahr-o-bar
سمندر اور زمین، خشکی اور تری Land and sea
طاغوت taghut
شیطان گمراہوں کا سردار Satan
چیلوں chelon
چے لوں) شاگردوں، مریدوں Disciples
ہتھیا لیا hathya liya
قبضہ کرلیا Misappropriate
عرش معلیٰ arshe-mualia
اعرش معل (لا سب سے اونچا آسمان Most exalted heaven
ساعت نورانی saate noorani
روشن گھڑی Luminous hour
خورشید khursheed
سورج The sun
کافور ہوا kafoor hua
غائب ہوا Vanished, disappeared
the
feet of the
They would willingly sacrifice their kingdoms
and all they stand for at
Holy Prophet (pboh)
بزم مه و انجم bazme maho anjum
ابز مے صو انجم) چاند ستاروں کی محفل
was
All the earliest Prophets who graced the world
a constellation of stars and moons
like
but a manifestation of the beauty and glory
of the Holy Prophet (pboh)
اونی adna
معمولی The most humble
منت minnat
عاجزی Humble and earnest supplication
میت meet
دوست Intimate friend
پیام payam
پیغام Massage, advice
صیدہ دام saide tah-e-dam
جال میں پھنسا ہوا شکار Trapped prey
1
Page 217
گن گانا gun gana
تعریف کرتا Sing praises
لب بام lab-e-bam
کو ٹھے یا چھت کا کنارا Edge of the balcony
گام gam
قدم.ایک قدم کا فاصلہ A step
گرام khiram
چلتا - ناز و انداز سے چلنا Gait
جلوه قاسم am
jalwah - e -
سب کے سامنے آتا - نمودار ہوتا To unravel one's beauty
سرود surood
نغمه - راگ A melody
عبر ambar
خوشبو Ember
اے شاہ مکی و مدنی سید الوری
ay shahe Makkio Madani....sayyed ul wrā
سید الورى
مخلوقات کے سردار Supreme in the entire creation
اسیر aseer
قیدی A captive
حبيب habeeb
محبوب sweetheart
Beloved,
ندا tida
Ready to lay down one's life for the sake of a
cause of a person
مصطفی mustafa
چنا ہوا ، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا نام مبارک
The chosen one (title of the Prophet Muhammad)
جدا juda
الگ
وہ
Separate
جلوه گاه jalwah gah
جگہ جہاں جلوہ دکھایا جائے یا دیکھا جائے Seat of glory
متنفر mustaqar
عارضی ٹھکانہ ٹھرنے کی جگہ Temporary abode, resting place
جلوه jalwah
ظاہر، منعکس Unveiling of splendour
بعد از خدا بزرگ توئی قصہ مختصر
ba'ad az khudā buzurg tui qissah
خدا تعالیٰ کے بعد بزرگ ترین وجود تیرا ہے.mukhtasar
You are the noblest after God
زانوئے ادب نہ کرنا zanue adab teh karna
ادب سے بیٹھنا، اطاعت اختیار کرنا شاگرد ہوتا
someone
in
a humble and
To sit before
respectful posture
کبریا Kibriya
بزرگی شان و شکوہ اللہ تعالیٰ کا صفاتی نام
an
of
attribute
God
جلو jilau
معیت ، ساتھ In company of
خاک پا khake pa
Grandeur, magnificence,
پاؤں کی دھول The dust under one's feet
نیر بدی nayyire huda
ہدایت کا سورج، مراد سیدھا چمکدار راستہ
The sun of guidance
پیشوا peshwa
رہنما امام Leader; guide
دگر digar
دوسرا Any other; another
شاخ با شمر shakh - e - basamar
پھل دار شاخ یا شمنی A bough laden with fruit, Fruit bearing
عناد anad
دشمنی Grudge, enmity
بغض bughz
کینه Malice
کلام kalam
بات گفتگو ، شعر، نظم، ملفوظات، تصنیف Poem, Verse, prose
له
2
Page 218
پرخاش parkhash
رنج، لڑائی، نا اتفاقی A grudge
انے آں کے سوئے من......سخت کا فرم"
ae an ke...داوین میں حضرت مسیح موعود کا کلام ہے، ترجمہ ہے:.حضرت سید ولد آدم صلے اللہ علیہ وسلم
Hazrate Sayyede wulde......سيد ولد آدم sayyed -e- wulde Adam
اے وہ جو میری طرف سینکڑوں کلہاڑے لے کر دوڑ رہا ہے آدم کی اولاد میں سے سب سے محترم سردار
باغباں سے ڈر کیونکہ میں ایک پھلدار شاخ ہوں"
The best among the sons of Adam
This is a poem of promissed messiah and it means
'O those who are running towards me with hatchets
in their hands, beware of the gardener because
I am a bough laden with fruit
akram
افضل afzal
بزرگ ترین بهترین Most excellent; prominent
اکرم
فیض faiz
بہت مہربان / بہت کریم Most gracious
قائدہ، سخاوت، نیکی بھلائی، Beneficence, charity ,favour مکرم mukarram
نجم ajam
عرب کے سوا کوئی بھی ملک Non - Arabs
کالعدم kal - adam
نہ ہونے کے برابر As if non - existent
لحظہ lahzah
ثانیہ ، سیکنڈ ، پل لحہ ' دم بھر A passing moment
و میدم dam ba dam
ہر سانس کے ساتھ
عزت دیا گیا، محترم، معزز Venerable
هروماه mehr -o- mah
سورج اور چاند Sun and moon
دم توڑنا dam torna
سانس اکھڑنا' مرجانا To breathe one's last, to die
عالم alam
دنیا کائنات The world
tr
anan fanan
Breath by.breath (continuously), every moment
سوئے حرم su-e-haram
ایک دم فورا ، جلدی In a twinkle of an eye
اثر uttar
شمال North خانہ کعبہ کی طرف in the direction of the house of God
این چشمه روان
مسیح موعود کا کلام ہے
een chashma - e - rwān
محمد است " وادین میں حضرت
ترجمہ :- مصارف کا دریائے رواں جو میں مخلوق کو دے رہا ہوں یہ
محمد کے کمالات کے سمندر میں سے ایک قطرہ ہے.دکھن dakhan
جنوب South
پورب purab
مشرق East
pacham
means
This is a poem of the Promised Messiah and it
The flowing rivers of wisdom that I am
giving to mankind is but a drop in the
of excellences of Muhammad (pboh)
ocean
3
مغرب West
شارع share
شریعت لانے والا شریعت والا، حاکم، راہ راست کو فروغ دینے والا
law bearing prophet
Page 219
khātam
مستی masti
انگوٹھی مہر سب سے اعلیٰ سب سے افضل، جس پر مقام ختم ہو جائے خمار نشر Intoxication
اور ہر قسم کے فیوض کا اجراء جسکی ذات سے وابستہ ہو جائے
Fountainhead of beneficence (pinnacle)
افسانے afsane
قصے کہانیاں Tales legend
عرفان irfan
خدا شناسی پہچان Profound knowledge
ساقی کوثر saqi -e- Kausar
ظرف zarf
برتن.پیمانہ - جام Capacity, vessel
چاره گر charah gar
معالج Physician
امدادی imdadi
ردگار Helper
بے راہرووں berahrawon
جنت کی نہر کوثر سے پانی پلانے والے روحانی علوم سکھانے والے گھرا ہوں.غلط رستوں پر چلنے والوں The waywards
Steward of the eternal spring in paradise
mast
خدا تعالی کی معرفت کے نشے میں چور Intoxicated
پیر مغاں peer-e-mughan
مے خانے کا سردار Master of revelry, a tavern keeper
باده اطهر badah-e-athar
پاک شراب Very pure wine
گھر آنا ghir ana
امنڈ آتا.چاروں طرف سے "
tr.To hover,
گھنگھور گھٹائیں ghanghur ghatain
گہرے سیاہ بادل
Thick dark grey clouds gathered from all sides
ہادی hadi
ہدایت دینے والا Guide
عارف arit
خدا کو پہچان لینے والا
One who delves deep into the secret of things
منادی munadi
پکارنے والا A proclaimer
یکساں yaksan
برابر - ایک Equal, alike, even
روا rida
چاور A cloak
می muhyee
زندہ کرنے والا Life giver (an attribute of God
محمود makhmoor
نشہ میں چور مد ہوش Intoxicated
ابر abr
بادل Clouds
آب حیات ab-e- hayat
امرت جس کے پینے سے آدمی کو ہمیشہ کی زندگی مل جاتی ہے Elixir
پستی pasti
نشیب Low lying places
بلندی bulandi
اونچائی Every height
بادہ کش badah kash
شراب پینے والے Given to drinking wine
صل علیہ کیف بھی
sall
- e - alaihe kaifa yuhye
اس پر ورور ہو اس نے کیسا زندہ کیا
Seek blessings of Allah upon him how wonderfully
he revives the dead
شیریں بول sheereen bol
میٹھی باتیں Man of sweet words
انفاس antas
نفس کی جمع.سانس The breaths
مطهر mutahhar
نهایت پاکیزه Purified and holy
Page 220
خصائل khasail
خصلت کی جمع.نیک عادات والا
Characteristics, someone with excellent conduct,
of good disposition and habits
شمائل shama'il
عادتیں.خصلتیں Good natured, good qualities
حامل hamil
رکھنے والا.اٹھانے والا Bearer, carrier
عامل amit
عمل کرنیوالا
The one who not only speaks of good things,
but also performs good deeds
کامل kamil
مکمل
Perfect, complete
سرکار sarkar
بادشاہت August presence
پلٹادی کایا palta dee kaya
حالت یکسر بدل دی
Metamorphosed, complete transformation.How
completely has he transformed
سائل sail
سوال کرنے والا.فقیر Begger, an applicant
سرتاج sartaj
A chief, a leader
ابنائے آدم abna-e-adam
اولاد آدم Adam's children
معراج miraj
مرتبہ بلندی The loftiest celestial point which
the Holy Prophet (pboh) reached in a grand vision
showing that he was the closest to God.جست jast
چھلانگ Leap, spring, jump
ہفت مراحل haft marahil
سات مرحلے.یعنی ہر قسم کی مشکلات
To leap the seven stages of heaven in one bound.افسوں afsun
جارو Magic, charm
موہ لیا moh lia
جیت لیا
خام kham
نامکمل حالت میں.کچا Raw, imperfect
جنا تھا jana tha
پیدا کیا تھا Had given birth
وحشی wahshi
جنگلی.غیر مذب-جو انسانوں سے گھبراۓ Savage
hilm
برد باری.تحمل Forbearance
معلی moti
عطا کرنے والا.دینے والا Donor
شہرہ عالم shuhrah-e-alam
پوری دنیا میں مشہور Renowned, famous
عالی ali
بلند High, sublime
To enamour and to fascinate with one's charms
پیکر paikar
چہرہ.شکل و صورت Personification
خوبو khu bu
خصلت رنگ ڈھنگ Style and bearing
نخوت nakhwat
گھمنڈ Arrogance, pride pomp
ایثار isar
قربانی Modesty, sacrifice
خار khar
کانٹا.ناگوار Thorn, thistle
بتکده but kadah
مندر.مورتی کی پوجا کی جگہ House of idol worship
لات و منات lat-o-manat
بتوں کے نام Names of idols
Page 221
عالم ہو گا (ہو کا عالم) alam hu ka
خاک نشیں khak nasheen
عالم لاہوت اجاڑے دیرانہ عالم ذات الہی جہاں سالک کو فنافی اللہ کا عاجز لوگ Humble, dervish
مقام حاصل ہوتا ہے.مراد یہ ہے کہ بتکدہ ہائے لات و منات فنا ہو گئے متی نصر الله mata nasrullah
صرف ذات الہی باقی رہ گئی.اللہ کی مدد کب آئے گی
When will come the aid of God?
لا جرم la jaram
بے شک یقیناً Undoubtedly
Complete annihilation of all that was other than
God, a state of bewilderment
ظلمات zulmat
اند میرے Darkness, regions of darkness
نصرت nusrat جاء الحق وزهق الباطل ان الباطل کان زھوقا (بنی اسرائیل : 82)
ja al haqqo wa zahaqal batilo
innal batila kānā zahūqā.حق آگیا اور باطل چلا گیا باطل کو تو جاتا ہی تھا
It is in the nature of falsehood to flee in the presence
of truth.Truth has come and falsehood has fled.گاڑ دینا gar dena
ٹھونک دیتا Firmly planted the flag of unity
پرچم parcham
جھنڈا A flag
Help
قرین qareen
قریب Near, close at hand
غلطاں ghaltan
لڑھکتا ہوا Engrossed
کا فر گر kafir gar
کافر بنانیوالا
To give verdict about someone who is a non-believer
ساکن sakin
رہنے والا Inhabitant
محمد mulhid
ذکر سے بھر گئی ربوہ کی زمیں آج کی رات خدا تعالی کو نہ ماننے والا An infidel
zikr sey bhar
وات" waqiatan
دراصل حقیقت میں In fact, in reality
خلد بریں khulde bareen
سب سے اونچا آسمان - عرش الہی
The most exalted paradise
وا در گرید wadar-e-giryah
کھلا.دروازہ.رونا جی بھر کر رونا
دجال dajjal
جھوٹا The Anti - christ
عشاق ushshaq
چاہنے والے Lovers
مول mol
قیمت Price, value
ہجر hijr
جدائی.فراق Separation
ہیں simin
نقرئی.چاندی جیسے Silvery
To weep bitterly, the opening of the gate of
wailing or moaning
کشا دیده و دل kusha deedah-o-dil
کھلی آنکھیں اور دل.کھلے دل سے استقبال کرنا
The eyes and heart feel free and the lips are at
liberty
6
Page 222
ہیں بادہ مست بادہ آشام احمدیت
ذوالمنن zulminan
ذل م نن) صفت خداوندی بخشش اور احسان کرنے والا
Forgiver, bestower (attribute of God)
hain bādah mast badah
باره badah
شراب Wine, spirits
mast ☑
سرشار intoxicated
آشام asham
پینے والا One who drinks
meenā
شیشہ شراب کی بوتل A long-necked flask
جام jam
پیالہ.شراب پینے کا برتن.گلاس A goblet
تشنه tishnah
پیاسا.خواہشمند Thirsty
سیو sabu
گھڑا.مٹکا Wine jug, ewer, pitcher, jar
گلفام guitam
پھول جیسے رنگ والا معشوق Rosy
دہریت dahriyat
المحاور خدا کو نہ ماننا Atheism
masmoom
Polluted or poisoned air
سموم
الحاد ihad
سینچتا seenchna
آبپاشی کرنا.کھیتوں کو پانی دیتا To irrigate
چمن chaman
باغ کے قطعات.گلزار.پھواری A flower garden
انجمن anjuman
مجلس محفل کمیٹی Union, society, congregation
nāle Lt
فریادیں.واویلے - فغاں - شوروغل
Lamentations, bewailings
خوش لحن khush lahn
چھی آواز والا.سریلا - خوش گلو Melodious Sweet voice
ماه تمام mah-e-tamam
چودھویں رات کا چاند.بدر ید ر Full moon
گمان guman
خیال - اندازه - شک و شبہ - وہم
Suspicion, guess.perception
دام dam
جال پھندا.دھوکا Net, snare
دام mudam
-- سدا - دائم Forever, eternally, always, everlasting ہمیشہ.پر pisar
بیٹا.لڑکا.فرزند Son, child
از az
سیدھے راستے سے پھر جانا ملحد ہو جانا.مرتد ہوتا Aostasy
دبائیں waba ain
(حرف جر ) سے From, than, by, of, out of
متعدی بیماریاں، وہ بیماری جو ہوا کے خراب ہونے سے پھیلتی ہے.تیز گام taizgam
Epidemics
منادی munadi
تیز چلنے والا ,Swift, quick
پکارنے والا.اعلان کرنے والا proclaimer
زو zad
مار چوٹ.نشانہ Hit, stroke, target
7
Page 223
lekhū
لیکھرام ایک آریہ مذہبی لیڈر جس کے حق میں حضرت مسیح موعود کی
پیشگوئی پوری ہوئی اور وہ مقررہ میعاد میں مرگیا).Lekhram was an Aryan religious leader who used
to abuse the Holy Prophet in the vilest terms.The Promised Messiah warned him; 'If you do
not desist from abusing our holy master, then |
will pray against
you in
response to his
prayers he saw a dream that an angle of revenge
would kiil Lekhram with a sharp dagger.The
prophecy fixed the time to within six
years,
with the addition that the day of his death
would be adjacent to Eid.prophecy
Lekhram on his part made a counter
declaring 'you talk of six years, God has told
me it was Satan talking to you.God has told
me that you will be totally annihilated within.three years and no-one in Qadian would even
remember your name.So a spiritual duel began
and resulted in the death of Lekhram as prophecied.His own prophecy came to nought.taigh
تلوار Sword, dagger
ازن izn
اجازت خدا تعالی کا حکم leave, permission, command
L
دو گھڑی صبر سے کام لو ساتھیو.do ghari sabr se kam lo sathio......گھڑی ghari
رات دن کا ساٹھواں حصہ 24 منٹ کا وقفہ.قلیل وقت Moment
ظلمت وجور zulmat -o- jor
تاریکی.اندھیرا.ظلم جفا Darkness and tyranny
رت Tut
رسم Weather, season
کبر نمرود kibr-e-namrud
تکبر نمرود وہ بادشاہ جس نے حضرت ابراہیم کا مقابلہ کیا تھا اور انہیں
بھڑکتی ہوئی آگ میں ڈلوا دیا تھا (مراد نمرود کا تکبر)
Arrogance of Namrud.Namrud was the king
who opposed Hadhrat Abraham and intended
to have him thrown into a burning fire
اعجاز ijaz
معجزه کرامت Miracle, wonder
عما asa
سونٹا.حضرت موسیٰ کے ہاتھ کی لکڑی جس سے وہ معجزہ دکھاتے تھے.Staff, the rod of Moses with which he worked miracles
ساحر sahir
جادوگر Sorcerer, magician
رائیگاں raigan
فضول.بے کار in vain
پھول پھل جانا phul phal jana
درختوں میں پھول پھل لگنا To flower and to bear fruit
پھول پھل لانا phul phal lana
سر سبز ہوتا.بامراد ہونا ترقی کرتا
To flower and to bear fruit, to prosper
رب الورى rabb-ul-wara
مخلوقات کا رب Lord of creation
املی لھم ان کیدی متین
Umli lahum in na kaidee mateen
سوره اعراف آیت 184 اور میں انہیں سردست ڈھیل دے
رہا ہوں میری تدبیر بڑی مضبوط ہے."
Surah Al-Araf, ch.7, v.184.means'l give them
respite, surely my plan is mighty.لا جرم la jaram
بے شک Doubtless
بالیقیں bil yaqeen
یقین کے ساتھ With certainty
نوا nawa
آواز Voice, sound
8
Page 224
موج خون گل moje - khoone - gul
پھول کے خون کی مر (خون کی طرح سرخ)
A wave of colour born out of the swaying of blood
red roses
پل pal
پلک جھپکنے کا عرصہ بہت تھوڑا وقت.لحظہ.سیکنڈ
In the twinkling of an eye.A fleeting moment.عصر asr
زمانه ,Time, age
چاره charah
علاج Treatment, remedy
پیغام آرہے ہیں کہ مسکن اداس ہے
Paighām ārahe hain keh
مسکن maskan
رہنے کی جگہ گھر Home, residence
طائر tair
رنده Bird
تیمن nasheman
گھونسلا Nest, residence
سرو سمن sar wo saman
درخت پودے Cypress tree, jasmine
نرگس nargis
پھول کا نام جسے شعراء آنکھ سے تشبیہ دیتے ہیں
گل بدن gul badan
نازک اندام Delicate like a flower, flower like in build
پیرہن pairahan
جسم کا لباس Dress
آزرده azurdah
اداس - Sorrowful, sad
شاد shad
خوش Pleased, happy
برق تپاں barq-e-tapan
جلانے والی بجلی A bolt of lightening
نال nihal
خوش.بے فکر.Exalted, pleased, happy
خرمن khirman
کھلیان، غلے کا ڈھیر Stockpile of grain
وادی ایمن wadee-e-aiman
واری اے اے من) وہ جنگل جہاں حضرت موسیٰ اپنی بیوی کو چھوڑ کر
آگ کی تلاش میں نکلے تو ایک درخت پر خدا کی تجلی نظر آئی یہ مقام کوہ
طور کے دائیں طرف تھا اس لئے وادی ایمن مشہور ہوا.The blessed valley by the side of mount Sinai where
Moses had a glimpse of God.Daffodil, narcissus.Flower with which the poet
compares a beautiful eye.طور tur
کوہ سینا.جزیرہ نمائے سینا.جہاں حضرت موسیٰ پر تجلی الہی کا ظہور ہوا
اس مصرع میں غم کا پہاڑ مراد ہے.دوسرے مصرع میں موسی اور
وادی ایمن کے ذکر سے معنوی حسن نمایاں ہے.Mount Sinai.Here, metaphorically, it means moun-
tain of grief.namah bar
نامه
پر
چٹھی رساں.قاصد Carrier of a message, courier
بن بای ban basi
جنگل میں جاکر رہنے والا.جلا وطن
Exiled, dweller of the wilderness
nam
Moist, damp,
تم
لالے کا داغ lale ka dagh
گل لالہ سرخ رنگ کا پھول
Black spot in the heart of a poppy
ریں hazin
غمگین Sad, sorrowful
سوسن sosan
آسمانی رنگ کا پھول جسے شعراء زبان سے تشبیہ دیتے ہیں
A lily, the iris with which the poet compares
a tongue
9
Page 225
من man
دل Heart
مجنون majnun
محبت میں پاگل
A lover who became a legend because he was
madly in love.دشت dasht
صحرا.جنگل Wilderness
جھڑی لگنا ihari lagna
بارش ہونا ، متواتر مینہ برسنا Incessant rain
جھا بجھن ihanjhan
پاکل پاؤں کا ایک زیور
madh p
شهد - شیریں Nectar
مدھر گیت madhur geet
میٹھے شہد جیسے گیت Sweet songs
امرویپ amar deep
کبھی نہ ختم ہونے والے چراغ Eternal lamp
ریت reet
رسم دستور طریق Custom, rite
غم فرقت gham-e-furqat
جدائی کا غم Grief of separation
دلداری dildari
روی Solace, to soothe and comfort, to treat
some ɔne with special kindness and love with
the purpose to soothe and console
Dancer's anklet fitted with small bells
را گن ragan
گانے والی Female singer
اے مجھے اپنا پر ستار بنانے والے
ay mujhay apnā pristār
پرستار paristar
پوجا کرنے والا پرستش کرنے والا
A worshiper, an adorer, a devoted servant
بیرون baseron
ٹھکانوں Lodgings
ٹھکانا کرنا thikana karna
کسی جگہ رہنے لگنا
Shelter for temporary or permanent abode
کرده rah
sar e-
راہ میں Edge of the road
را فیشه "مرضیه raziatan marziyah
تو اسے پسند کرنے والا ہے اور اس کا پسندیدہ بھی
جوت jot
لگن ، آگ Flame of love
پرینت preet
Love, affection ✓✓
پردے hardey
سینه دل Heart, breast
سرمدی پریم sarmadee praim
ہمیشہ رہنے والا پیار Everlasting love
آشاؤں ashaon
آرزووں Longings, hopes, desires
دھیرے دھیرے dheere dheere
آہستہ آہستہ Slowly, slowly
Portion of a verse from the Holy Quran, meaning
with one who is pleased
بے تاب be tab
بے قرار Restless, impatient
کاشف اسرار kashif-e-asrar
'to
be
pleased
with you.'
پوشیدہ راز بتانے والا Discoverer of secrets
تمنا tamanna
آرزو خواهش Desire, request
اشک ashk
آنسو Tears
خاک آلوده khak aloodah
جس کو مٹی لگی ہو Dusty
10
Page 226
پراگنده paragandah
پریشان حال in a shattered and miserable state
زبوں حال zabun hal
كرب و بلا karb-o-bala
دکھ.مصیبت Anguish, affliction
اکسانا uksana
ابھارنا.اٹھانا.تحریک دیتا To excite, to arouse, to agitate برا حال In a miserable condition, in a pitiable condition
زانو zanu
گھٹنا، گھٹنے پر بٹھانے کا مطلب تو قیر دینا، قریب کرلیتا Knee,lap
ہول hol
خوف ڈر Terror, horror, fright
غیرت ghairat
لحاظ شرم حیا.حمیت Sense of honour
عنان inan
نظام.باگ ڈور A reign
کم اوقات kam auqat
کم حیثیت Ignoble, lowly
گردوں gardan
آسمان The heavens in orbit
چاپ chap
قدموں کی آواز Sound of footsteps
باری bari
موقع.نمبر Turn
ایام ayyam
دن.زمانہ Days time
ستم گر sitam gar
ظلم کرنے والا Tyrant, oppresser
لاج رکھنا taj rakhna
عزت کی حفاظت کرنا
To protect the honour, to have a sense of shame
ستار sattar
بیبوں کو ڈھانپنے والا.خدا تعالی کی ایک صفت
One who covers other's faults (an attribute of God)
putle
مورتی Image, puppet
سلاسل salasil
سلسلہ کی جمع.بیڑیاں.زنجیریں Chains
paimän k
Promise, agreement ✓✓
ارمان arman
خواہش Wish.desire
زیبا zeba
مناسب To behove, becoming کیا موج تھی جب دل نے جیسے نام خدا کے اوقات auqat
kiä mauj thi jab dil.دھونی رمانا dhuni ramana
کسی جگہ آگ جلا کر جوگیوں کی طرح بیٹھ جاتا.فقیر ہو کر بیٹھ جاتا
حیثیت Status, position
درس dars
To reveal one's face to someone, admonition☑
Like a hermit who sits lost in the memory of
with incense burning before him
God
سیل رواں sail - e - rawan
تیز سیلاب Flood
اسلوب usloob
طریقہ - طرز - روش Way, style, manner
11
چاکر chakar
نوکر Servant
سرا sada
ہمیشہ Ever
Page 227
شاہراہ shahrah دیار مغرب سے جانے والو! دیار مشرق کے باسیوں کو بڑی سڑک Highway
diyare maghrib say jane....دین متین deene mateen
مضبوط معقول دین - یعنی اسلام
ویار diyar
شهر، علق Country, region
بای basi
رہنے والا Dweller, inhabitant
غریب الوطن gharib -ul- watan
مسافر پردیسی Living in exile
راچی za'iche
جنم پترا.مستقبل یا قسمت کے متعلق اندازے Horoscope
معنون mo - an - won
(م عن دن) کسی کے نام سے منسوب کیا گیا Dedicated
انصرام insiram
انتظام Management, organisation
alam
غم، رنج Agony, pain, torment, grief
سجود sajood
سجدے Prostrations
قیام qiyam
نماز میں کھڑے ہونا Standing posture in prayer
زگم zum
گمان، ظن Presumption
مجھولے bagule
ہوا کے چکر، گردبار Whirlwinds
زیب zeb
منا Behove
زیر میں zere nagin
تحت.زیر حکومت Subjugated
بسات bisat
حوصلہ.چوسر یا شطرنج کھیلنے کا تختہ A chess board
کلید فتح و ظفر kleede fath-o-zafar
فتح اور کامیابی کی چابی Key to ultimate victory
Solid and sound religion (Islam)
درانا darrana
بلا خوف Without any fear
گام گام gam gam
قدم قدم Step by step
آئے وہ دن کہ ہم جن کی چاہت میں گنتے تھے.....a ay woh din keh.......تسکین taskeen
سکون Comfort
ہویدا havaida
ظاہر To appear
قلب تپاں qalb-e-tapan
تڑپنے والا دل Burning heart
بے غرض be gharaz
بے مطلب Selfless
بے ریا be riya
بغیر دکھا دے کے Without any show or formality, sincere
دلنشیں dilnasheen
دل میں گھر کرنیوالا
Something or someone who finds a place in one's
heart.'The one who has occupied my heart is
also the one who has carried it away.'
دلربا dilruba
دل پر اثر کرنے والا
The
one's
steals
who
one
fascinating, carries away.heart, enchanting,
12
Page 228
کرب و بلا karb-o-bala
تکلیف.دکھ Anguish
بدیس آشیاں badais, ashian
غریب الوطن.پردیس میں رہنے والا
افق utuq
وه
جگہ جہاں آسمان اور زمین ملے ہوئے دکھائی دیتے ہیں Horizon
قوس قزح qaus-e-quzah
وہ سات رنگ کی کمان جو آسمان پر بارش کے بعد دکھائی دیتی ہے.A rainbow
Someone expected back home but seeming to be
settled elsewhere.کاروان carvan
قاتل A caravan
نچھاور nichhawar
نار کرنا.قربان کرتا.To shower, to make an offering
امرت amrat
اکسیر.آب حیات شہد Elixir
قرة العین qurratulain
آنکھوں کی ٹھنڈک Coolness of eyes
ساربان sarban
اونٹ چلانے والا.میر کارواں A camat driver, leader
توفیق پرواز tofeeq-e-parwaz
اڑنے کی ہمت - موقع طاقت
Ability or strength to undertake a journey
رشکستہ par shikastah پر
جس کے پر ٹوٹ گئے ہوں.مجبور
Helpless, with broken wings
چشمک chashmak
رنجش.مخالفت - تحقیر To bear grudge, to jeer
روداد rudad
کہانی.داستان.ماجرا Narration
رقم
raqam
لکھنا To Write
گوشه محترم gosha-e-mohtaram
قابل عزت کونا.عزت والی جگہ
A special space reserved for someone as a mark
of honour and respect
آہ و فغاں ah-o-fughan
آہ بھرنا.رونا Cry of pain
پیکر paikar
چہرہ.شکل و صورت Face, appearance
عالم خواب alame khab
(عالے خاب) نیند کی حالت In a world of dreams
خفتگان khuttagan
سوئے ہوئے Asleep
زینت zinat
خوبصورتی Beauty, elegance
فرط الفت fart-e-ulfat
محبت کی زیادتی With overwhelming love
بوت bose
چومنا Kisses
دعا mudda'a
مقصد Objective, goal
بالیقیں bilyaqeen
یقین کے ساتھ Most certainly
جس habs
Detention, imprisonment
پا به زنجیر pabah zanjeer
پاؤں میں زنجیر ہونا Feet in chains
یورش yurish
حمله، وهاوا,Attack, storm
طائر tair
پرنده Bird
آشیانه ashiyanah
گھونسلا Nest
محصور mahsoor
گھرا ہوا Fortified, surrounded
13
Page 229
مشکل کشا mushkil kusha
مشکل دور کرنیوالا One who removes or solves difficulties
بديلا bad bala
مشکل Evil things, misfortune
دیکھو اک شاطر دشمن نے کیسا ظالم کام کیا
جاء الحق وز حق الباطل ان الباطل كان زهوقا
ja al haqqo wa zahaqal batilo
innal batila kāna zahooqā.حق آگیا ہے اور باطل بھاگ گیا.اور باطل تو ہے ہی بھاگ جانے والا
The truth has come and falsehood has fled, it
is in the nature of falsehood to flee.Dekho ek shatir dushman nen..شاطر shatir
شوخ، عیار، چالاک Sharp-shooter, devious
فكر makr
دھوکا، فریب، ریا نفاق، چالاکی، عیاری، چال
عاجز ajiz
کمزور بے بس، مجبور لاچار Humble
امانت amanat
سپرد کی ہوئی چیز (یہاں مراد خلافت ہے ) Trust
کٹھن kathin kathan
مشکل Difficult
Deception, cheating, fraud, cunning
بار bar
طائر tair
پرنده Bird
تهمت tuhmat
الزام Accusation, or an unfounded accusation
جلادي jalladi
سفاکی، ظلم Butchery
عبت abas
بے فائدہ بیکار in vain, useless
دجل dail
جھوٹ' قریب، دھوکا Fraud, deception, duplicity
طشت از بام tasht az bam
ظاہر، مشہور عام، عیاں
بوجھ وزن ذمہ داری Burdon, load
حیب maheeb, muheeb
خوفناک خطرناک، ڈراؤنا Formidable, dreadful, frightful
مراحل marahil
منزلیں.درجے Challenges
کھالوں khalon
چھڑی Garb
گرگ gurg
بھیڑیا Wolf
مقتولوں maqtulon
جنکو قتل کردیا گیا Stain
bepharnā, bapharnā to
For the truth to come out, for the sins and follies
to be disclosed.Expose
تدبیریں tadbeerain
Schernes
ونا dagha
Artifice
nafs
جان، روح وجود Spirit, person, self, soul
بے قابو ہونا Ride back.To become enraged.Charge at
بن باسی ban basi
بے وطن جنگل کا رہنے والا
14
In exite, a dweller of the wilderness
للكارا lalkara
پکارا مقابلے پر بلایا Challenged
مبارز mubariz
مقابلہ پر چڑھ کر لڑنے والا سپاہی، جنگجو Courageous
Page 230
مباحل mubahal.جسکو مباہلہ کا چیلنج دیا گیا ہو One who is challenged to mubahalah فریب traib
دل گرده dil gurdah
ہمت، طاقت ، حوصلہ Guts, Courage
pitta
توصله ، ہمت Courage, vator
دھوکہ Deceit
How long can flimsy excuses be of avail.چوراہا chauraha
وہ
جگہ جہاں سے راستے نکلتے ہیں Crowded market place
پھوٹا Phoota
ٹوٹ گیا.Exploded
چورا ہے میں بھانڈا پھوٹنا
سرد حق mardehaq
سچا انسان Man of truth
روپوش ruposh
چہرہ چھپاتا.منہ چھپائے پھرتا.Absconde
chaurahe main bhanda phootnā
سب کے سامنے راز کھل جانا
Exposing a secret resulting in public disgrace
یتی بھاگوں چھینکا ٹوٹا billi bhagon cheenka toota کھودا پہاڑ اور نکلا چوہا
اس چیز کا ہو جاتا یا مل جاتا جس کا خیال بھی نہ ہو A windfall
سریدوں mureedon
Devotees
جھونکی دھول honkee dhool
Throw dust
Place
Hooligans
khoda pahār aur nikla chooha
To dig up a mountain and discover only a mole
گڑھا garha
گری جگہ کھائی A hole, a pit
منارے manare (لفظی مطلب چراغ دان)
مسجد کے مینار Minarets
آڑے aray
مشکل Troubled
افق ufuq
وہ جگہ جہاں زمین و آسمان ملتے دکھائی دیتے ہیں.Horizon
ریپ deep
A small earthen lamp, a light b
Capture, general arrest
قریه qaryah
فتنه گر fitnah gar
پکڑو پکڑ pakar dhakar
عام گرفتاری
سمار mismar
گرایا ہوا منهدم Ruined, demolish
talism
معابد ma abid (معبد کی جمع) چارو lllusory, a spell, an enchantment, a magic
عبادت خانے Places of worship
جوٹھا jootha
پس خورده مستعمل Used articles or food
کاٹھ کی ہنڈیا kath ki handiya
محاورہ ہے جھوٹ بار بار فائدہ نہیں دیتا.پورب سے چلی پر نم پر نم باد روح و ریحان وطن
poorab say chali purnam purnam...پورب purab
مشرق East
15
Page 231
purnam
بھیگی ہوئی ، آنسوؤں سے بھری ہوئی 15
باد bad
ہوا wind
روح rauh
With tears
سوئے یار su-e-yar
محبوب کی طرف To the beloved one
دور افتاده dur uftadah
جو فاصلے پر ہو توجہ سے محروم
Distant, forgotten, abandoned
آسائش و فرحت تازگی، ٹھنڈی ہوا خوشبو fragrance لخت جگر lakhta jigar
Freshness,
ریحان raihan
علمی، مجازا" شراب گل سرخ کے سوا تمام پھولوں پر بھی صادق آتا
جگر کا ٹکڑا اولاد
A part of one's life,
a darling child
a piece of one's heart,
ہے
The fragrant flower of sweet basil
باد روح ریحان وطن
bad-e-rauho raihan-e-watan
وطن کی طرف سے آنے والی ہوا کے فرحت بخش مشکبار جھونکے
A breeze laden with the memory of comfort and
fragrant flowers of one's homeland
pachham
مغرب West
سندر sundar
خوب رو Beautifut
مرغان وطن murghan-e- watan
وطن کے پرندے مراد ہم وطن لوگ
Song birds of my homeland
اولیس ovais
حضرت اویس قرنی آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات مبارکہ میں یمن
میں اسلام قبول کر چکے تھے ، مگر اپنی والدہ کی خدمت میں مصروف رہنے کی
وجہ سے آنحضور کی صحابیت کا شرف حاصل نہ کر سکے.اُنحضور نے اس
خدمت کو نہایت قدر کی نگاہ سے دیکھا اور بسا اوقات یمن کی طرف منہ
کر کے فرماتے تھے کہ مجھے یمن کی طرف سے خدا کی خوشبو آتی ہے.آنحضور نے حضرت اویس قرنی کو سلام بھجوایا اور حضرت عمر کو نصیحت
فرمائی کہ ان سے دعا کی درخواست کریں.Ovais Qarni, although not a companion of the
Holy Prophet (pboh), but because of exceptionally
profound love for him, the Holy Prophet (pboh)
held him very dear to his heart.Among the
contemporaries, he is the only one to whom the
Holy prophet (pboh) sent his salaams as an expr-
ession of his love.He was prevented from visiting
the Holy Prophet (pboh) for the only reason that
his mother was ill and constantly needed attention.برکھا barkha
برسات' بارش Rain, clouds
امین umdeen
اترین Welled up, to overflow
باران baran
بارش مینه Rain
سکان Sukkan
رہنے والے باشندے Inhabitants, citizens
یاران yaran
دوست Friends
کوئے دار Ru-e-dar
پھانسی گھاٹ place of execution by hanging
تن آسان tan asan
ست کامل Easy going, indolent
جوروجفا jorojafa
ظلم، تکلیف ایذا
نگری nagri
:
Tyranny.oppression and cruetly.To treat one's lover without mercy.گاؤں، قصبہ A town, a village
عیاں iyan
واضح ظاہر، نمایاں نظر آنے والا Manifest
ستم sitam
ظلم ، زیادتی، آزار Oppression, tyranny
16
Page 232
katha
کہانی بیان، روایت Tale
تالوں nalon
آہ و بکا آنسو، فریاد Lamentations
سندیسے sandese
پیغامات، خوشخبریاں Messages
masā ✓
شام Evening
صبح و مسا subh-o-masa
صبح و شام جاری، مسلسل Day and night
بدبخت bad bakht
بری قسمت والا The cursed one
حاکم hakim
حکومت کرنے والا بادشاہ A ruler, king
آزرده azurdah
ناراض، ناخوش، خفا Unhappy
محکوموں mahkumon
تابع، رعایا ، حکم کیا گیا Vassals and subjects
در bair
،دشمنی عداوت Enmity, hostility
تختہ مشق ستم takhta-e- mashq-e-sitam
جن پر بے دردی سے ظلم ہو Under the tyranny
گہنے gahne
زیور ,Ornaments, jewels
جبينون jabinon
پیشانیاں، ماتھے The foreheads
زندان zindan
قید خانہ جیل Jail, prison
بھاگ bhag
قسمت Luck, fortune
تھپیڑے thapere
تیز ہوا کے جھونکے Gusts
منادی munadi
پکارنے والا ڈھنڈورچی A proclaimer
ناگ nag
پهن دار سیاه سانپ Viper, cobra
زاغ zagh
کو ا Crow
زغن zaghan
چیل (Kite (bird of prey
منڈیروں manderon
دیوار کا اوپر کا حصہ جو ڈھلوان ہو تا ہے ، پشتہ Ledge
کال kag
کو ا Crow
مرغان خوش الحان murghan -e- khush ilhan
خوش آواز پرندے
Birds of song with melodious voice
معدوم ma'dum
مٹایا گیا' نابود Non-existent, vanished
سکھ نوکر شاہی sikkanaokar shahi
اثر حکم، سرکاری افسر
The bureaucracy reigns supreme, influence, bureaucrats
کالا دھن kala dhan
حرام کا مال Black money
فراوانی frawani
زیادتی کثرت افراط Abundance
مجزوم majzum
کوڑھی Leprous
قابض qabiz
قبضہ کرنے والا دخیل Someone in occupation, occupier
باوردی دربان.ba wardi darban
فوجی نگران A uniformed watchman
بحر ظلمات bahre zulmat
اندھیروں کا سمندر جہالت کا سمند (An ocean of darkness
طغیانی tughyani
سرکشی، سیلاب Violent upsurge
دھارے dhare
چشمے سوتے ، دریا Storm flood, column of water
جلب زر jalbe zar
17
Page 233
دولت کا حاصل کرنا Greed for wealth, avarice
مفلس muftis
غریب ' کنگال Poor, penniless
تاحد نظر
ta had -de- nazar
جہاں تک نظر کام کرے As far as one can see
سیل عصیاں sail-e-isyan
گناہوں کا سیلاب A flood of sins
بے کس bekas
بے یارو مدد گار Helpless
ابر کرم abr-e-karam
بخشش کا بادل.بادل کی طرح سخاوت A cloud of mercy
متوالے matwale
- مدہوش.مخمور Intoxicated محبت میں مست.والی wali
مالک.سردار دوست Mentor, supporter
جود jud
To
be frustrated in one's designs,
completely defeated
to be
man
مان
گھمنڈ.غرور
To be confident of someone,s loyalty, friendship
پاره پاره parah, parah
ٹکڑے ٹکڑے Pieces, slices ریزه ریزه
افق ufuq
وہ جگہ جہاں زمین و آسمان ملے ہوئے دکھائی دیتے ہیں.Horizon
کھلانا kajlana
مدھم ہو جانا.سانولا پڑ جاتا
After sunset, the dusk becomes murky
فلک falak
آسمان Sky, heaven
شداد shaddad
قوم عاد کے ایک بادشاہ کا نام جس نے خدائی کا دعویٰ کیا تھا
بخشش سخاوت Charity
sakha
A king who became a symbol of cruelty and
despotism.The name of the king of the people
of 'Aad' who claimed that he was god.فیاضی بخشش - خیرات Charity, generosity
پجاری pujari
پوجنے والا.عبادت کرنے والا A worshipper, a priest
مکار makkar
مکرو فریب کرنے والا.Cunning, deceitful
فکر makr
دھوکا.چالا کی Conspiracy, plotting, cunning, play
بازی bazi
کھیل تماشا.داؤ Play
ٹھاٹھ thath
شان
و
شوکت تکلفات Dignity, pomp
و هزاره جانا dhara reh jana
رکھا رہ جاتا.بیکار رہ جاتا To remain useless
بنجارا banjara
A grain merchant, a roving
trader carrying merchandise on his back
غلے کا سوداگر - بیوپاری
آن an
شان و شوکت فخر
This word has 3 meanings :
مالک malaik
فرشتے Angels
خاب khaib
محروم نا امید unsuccessful
خاسر.khasir
گھانا کھانے والا.نقصان اٹھانے والا loser
خائب و خاسر kha'ib-o-khasir
18
1.Honour, modesty, coyness
2.Fleeting moment
3.Instead of 'Aa'' Aan' is sometimes used
in poetry and it means to come'
تو مرے دل کی شش جہات بنے
too mere dil ki shash jihat....شش جهات shash jihat
چھ اطراف تمام عالم The whole universe, all six sides
Page 234
کائنات kainat
عالم رنگ و بو دنیا The world, universe
neech
Low, mean
کمینہ ذلیل
منقطع munqati
کٹا ہوا ' الگ Disjoined, broken, cut off
گل ہوئے gul bute
سارا تمام کل وہی ہے، صوفیانہ تصور ہے کہ سب کچھ خدا ہی ہے ، خدا
کے سوا کسی کا وجود نہیں ہے اور یہ خدا ہی ہے جو مختلف شکلوں میں جلوہ
مر ہے
is everything Pantheism
Wholly, entirely, he
It is a Sufi concept that everything is God,
nothing exists beside God.It is God who is
manifested in all creation.عین ذات ayne zat
پھول پودے مراد زیب زینت Roses and flowering plants خدائی صفات اور ذات کا مظہر اس حد تک مظہر کہ گویا وہی ذات ہو جاتا
توہمات tawahhamat
و ہم گمان ، شک Imagination, superstition
معلمات muzlimat
God's attributes personified
منصور mansoor
ایک ولی اللہ کا نام جنہوں نے حالت جذب میں انا الحق کا نعرہ بلند کیا جس
کی پاداش میں انہیں سولی دی گی.Name of a holy man
and negated
himself
who believed in Pantheism
separate entity from
سردار sare dar
as
a
مظلمہ کی جمع ہے جو ظلم سے باب افعال میں اسم فاعل ہے اسکے بنیادی
معنی تو تاریکی کے ہیں لیکن سوالات کے معلمات بننے سے یہاں مراد یہ
ہے کہ (1) وہ تاریک چیزیں یا سوالات جو سمجھ میں نہیں آرہے اور خود
میم ہیں (2) اند میرے پیدا کرنے والے یعنی ایسے سوالات جن کے
نتیجہ میں انسان اندھیروں میں کھویا جائے دونوں صورتوں میں مراد ایسے تعلیمات ta'alliyat
لاجواب سوال ہیں جن کا کوئی جواب نہیں اور جس طرح رات لاف گزاف بڑکیں Boastings, bragging
اندھیری ہوتی ہے اور دوسروں پر اندھیرا ڈالنے والی ہوتی ہے اسی
طرح ان سوالوں کی حقیقت ہے اور بعینہ ویسا ہی مضمون ہے جیسا کہ
اذا ظلم عظیم کامنوا میں بیان ہوا ہے"
or
over
پھانسی کے تختے پر سولی پر On the gallows
God.عربی uzza
عربوں کا بت A well known idol of the Arabs
لات lat
عربوں کا بت A well known idol of the Arbas Uzza and
Multiple darkness, things incomprehensible
shadows
casts
which
something dark
other things so that they become indiscernible
and also things which cast shadows of doubt.پیمانه صفات paimanah -e- sifat
سفات کو سمجھنے کا ذریعہ آلہ
Lat were two imaginary gods of the Arabs
محمود mahmood
تعریف کیا گیا، محمود غزنوی جس نے ہندوستان پر حملے کے دوران سومنات
کے مندر سے بت توڑے تھے.Praiseworthy
Ghaznavi
and
a name which refers to Mahmud
times
17
India
invaded
who
succeeded at last in demolishing the Somnaat
temple.سومنات somnat
گجرات (انڈیا) کا مشہور بت خانہ
The most revered temple in India
کھنڈر khandar
ٹوٹا ہوا مکان، ویرانہ Ruins
19
A goblet sparkling with God's attributes
میزان meezan
ترازو تقسیم :
Balance, scale, measure
عالم حیرتی alame hairati
حیران کن دنیا Wonder world
mazhar
ظاہر کرنے والا One who reflects something
ہمہ اوست hama, ust
Page 235
بے ثبات be sabat
فانی Mortal, perishable, trail
جیت jeet
فتح Victory, gain
مات mat
شکست Defeat
سبک subuk
ہلکا کم وزن تیز Light, delicate
سانے suhane
دل پسند بھلا pleasant
ساجن sajan
محبوب A lover, sweetheart
در سول darson
To make a public appearance
لیکھوں laikhon
حساب کتاب Account
لاف lat
جھوٹ Vain boasting
ناترس matars
بے خوف نڈر
Audacious, fearless, devoid of God's fear
ہر طرف آپ کی یادوں پر لگا کر پہرے کلفت kulfat
har taraf ap ki yadun.....پرے pehre
جمبانی رکھوالی Watch, guard
جی کڑا کرنا jee kara karna
سخت کرنا
رنج ، تکلیف Exhaustion, fatigue, weariness
لمن milan
Meeting of two friends l
گلشن میں پھول باغوں میں پھل آپ کیلئے
To brace oneself, to muster one's courage
ناگہاں nagahan
اچانک Suddenly
gulshan main phul....کنول Kanwal
چاتی میں کھلنے والا پھول Lotus, water lily ہم آن ملیں گے متوالو بس دیر ہے کل یا پرسوں کی پرونا pirona
ham an milain ge matwalo....متوالو matwalo
دھاگہ ڈالنا To stringe
مژگاں miygan
پلکیں Eye lashes ( محبت میں مست مخمور مدہوش.Those intoxicated by love
دید deed
دیکھنا To see
فرط طرب fart-e-tarab
خوشی کی زیادتی Overwhelming pleasure
سرسوں پھولنا sarson phulna
سرسوں کے پوروں پر پھول آنا، زرد ہی زرد نظر آتا
Flowering of the rape seed plants 'when you
see riots of golden colour'
خوشوں khoshon
کچھا، بالی bunches
روشنائی raushna'i
سیاہی ink
جل jal
پانی.Tears, water
چرنوں charnon
قدموں Feet
ازن izn
اجازت، حکم Permission, command
جان گسل jan gusal
جان کو گھٹانے والا A profound sorrow which kills
20
Page 236
بازگشت baz gasht
گونج Echo
نغمه سرا naghmah sara
نغمہ گانے والے.غزل سرا Singer
دشت dasht
صحرا جنگل Wilderness
جبل jabal
پہاڑ Mountain
جز juz
سوائے Except
وصل wasi
Meeting, union t
عقده uqdah
بھید.معمہ.راز Knot, mystry
فراق firaq
دوری Separation, distance
دراز daraz
طویل لمبا Long or stretched out
سکھیاں sakhiyan
سیلیاں Bevy of merry making girls
ازل azal
ابتداء Beginning, source, origin, eternity
تری راہوں میں کیا کیا ابتلا روزانہ آتا ہے
teri rahon main kia kia....اتلا ibtila
آزمائش Trial, persecution
احمد ohud
بے آب و دانه be ab -o- danah
Without food and water
بغیر پانی اور کھانے کے
کنار آب kinar-e-ab
ندی کے پانی کے کنارے
By the bank of a brook, river or stream
کڑا ویرانہ Kara veeranah
سخت Inhospitable desert
سنگستان کابل sangistan -e- kabul
کامل کا پہاڑی علاقہ Rock terrain of Kabul Afghanistan
شهزاده shahzadah
Prince, princely
حضرت شہزادہ عبد اللطیف شهید مراد ہیں جن کو کامل افغانستان
میں 1903ء میں حضرت مسیح موعود پر ایمان لانے کی پاداش
میں نہایت ظالمانہ طریق پر سنگسار کر دیا گیا.Shahzada
to
who
Latif
Abdul
was
Refers
martyred by being cruel, stoned to death only
because he believed in the Promised Messiah.سنگسار کرنا sangsar karna
پتھر مارتا ، پتھر مار مار کر مار دینا Stoned to death
دم تسبیح dam-e-tasbeeh
تسبیح کے وقت
Like the beads of a rosary, while lost in the
memory of God (he was being stoned to death)
اہل جفا ahl-e-jafa
ظلم کرنیوالے Tyrant
اہل وفا ahl-e- wafa
وفا کرنیوالے The faithful
رمی rami
پتھر پھینکنا Showering stones
سردار sare dar
On the gallows
مدینہ منورہ کی ایک پہاڑی جس کے دامن میں جنگ احد لڑی گئی جس میں پسران باطل pisran -e- batil
مسلمانوں نے اپنے سے بہت زیادہ تعداد میں کفار قریش سے شدید جنگ جھوٹ کی اولاد یعنی جھوٹے لوگ Children of falsehood
لڑکی
nar;
A hill in Medina near which the battle of Ohud
مرد Male
21
took place
Page 237
مردان Mardan
سفاکی saffaki
سرحد کا ایک شہر جہاں ایک خاتون رخسانہ کو 1986 میں گولی مار کر
شہید کر دیا گیا
ظلم
Cruelty, sheddering of blood
A town of North West Frontier where in 1986.A lady by the name of Rukhsana was martyred
by the local men.She was shot down.شیوه shewah
طریقہ عادت Mode
سکرنڈ.پنوں عاقل.دارہ.لڑکا نہ.حیدر آباد.نواب شاہ
Sukhar, Sakrand, Punnonāqil, Wārā,
Larkana, Hyderabad, Nawabshah
صوبہ سندھ
اوکاڑہ.لاہور.خوشاب.ساہیوال فیصل آباد.سرگودھا
Okārah, Lahore, Khushāb, Sāhiwāl,
Faisalabad, Sargodha
شہر جہاں مظالم توڑے گئے کلمہ کا پیج
پر
صوبہ پنجاب کے وہ
کلمہ لکھنے
صدر دروازوں
بيوت الصلواة کے
لگانے
اور دیگر اسی قبیل کے "جرائم" کی پاداش میں زدو کوب کا نشانہ
بنایا گیا مقدمات قائم کر کے قید و بند کی صعوبتوں سے دوچار کیا
گیا اور بعض کو راہ خدا میں اپنی جانوں کے نذرانے پیش
کرنے کی توفیق ملی.سندھ کے شہر جہاں احمدیوں کو شہید کیا گیا.لڑکانہ دراصل لاڑکانہ
ہے ضرورت شعری کیوجہ سے لڑکا نہ کیا گیا ہے.Cities of Punjab district where atrocities were
unleashed.Houses were burnt, shops were gutted,
some Ahmadis were martyred.Many were
imprisoned for declaring the Kalima Shahada.In each of these towns of the Sindh district
in Pakistan, Ahmadis were martyred.حیدر
آباد qatil - e - Hyderabad قتل
سندھ میں ڈاکٹر عقیل بن عبد القادر 1974 میں حیدر آباد میں
ے گئے.شہید کر دیئے.One murdered in Hyderabad, in 1974 Dr.Aqeel,
son of Abdul Qadir was martyred in Hyderabad,
Sindh.نواب شاہ Nawabshah
لهوپاشی lahu pashi
خون بہانا Bloodshed
سانحہ sanihah
واقعہ حارث A tragic occurrence
ٹوپی topi
سرحد میں مردان کے قریب شہر جہاں احمدیوں پر مظالم توڑے
جناب عبد الرزاق کو بھریا روڈ نواب شاہ میں 1985 کو شہید کر
دیا گیا نواب شاہ شہر میں بیت الصلواۃ محمود ہال کو آگ لگائی گئی
مربی اور متعدد احمدیوں کو زدو کوب کیا گیا.جماعت کے
گئے.A city near Mardan in the NWFP where atrocities
were unleashed against the Ahmadis.بلائے ناگہاں bala-e-nagahan
اچانک آنیوالی مصیبت
Sudden unexpected appearance of Maulana like a
bolt of the blue.Everyday a new freak
نت نیا nit naya
ہر دفعہ نیا
of a Mautana appear like a bolt of the blue.The tale of misery relating to Nawabshah.In
1986 Abdur Razzaq was maryred in Bhiriya Road
Nawabshah.Mahmud Hall the place of worship in
the town was set on fire and the missionary as
well as many other Ahmadis were beaten up,
attacked and stoned.All worshippers were
imprisoned.Wagon loads of people were stoned
stabbed by a mob led by Mullas.and
کوئٹہ Quetta
صوبہ بلوچستان کا شہر جہاں بیت الصلواة پر تالا ڈال دیا گیا.اور
متعدد احمدیوں کو جیل میں رکھا گیا.22
A city of Balochistan district where our place
of worship was locked up and many of the
Ahmadis were put in jail.معابد maabid
عبادت گاہیں Places of worship
عباد الله ibadullah
اللہ کے نیک بندے Servants of God
دل برمانا dil barmana
دل کو زخمی کرنا To drill through one's heart
Page 238
چلن chalan
طریقہ Vile conduct
روش ravish
طور طریقہ Walk, path
غول بیاباں ghol-e-bayaban
جنگل کے شیاطین
Like a drunkard
سرائے sara'e
مسافرخانه Roadside inn
دشت طلب میں جا بجا بادلوں کے ہیں دل پڑے
dashte talab main ja baja....Hobgoblins, demons of the wilderness
آب بقا ab -e- baqa
زندگی کا پانی آب حیات Elixir, the water of life
ول dal
بہت گہرا ابر، گھنے بادل Layers of dense clouds
اشکبار
ار ashkbar
آنسو بہانا Shedding tears
امر amar
جس کو فنا نہ ہو
عدو adu
دشمن Enemy
مثل mist
Everlasting
tishnah
پیاسا Thirsty
درد نہاں dard-e-nihan
چھپا ہوا درد Concealed pain
سود و زیاں sud-o-ziyan
کی طرح Like, as, resembling
مبا saba
نفع نقصان Gain and loss
خوشی.مسرت Ecstacy, delight
سرور Suroor صبح کی نرم تازہ ہوا A gentle breeze, a morning breeze
sastānāt
آرام کرنا To rest a while
ننکانہ Nankana
صوبہ پنجاب کا ایک قصبہ
A
town in Punjab, Pakistan where all Ahmadi
houses were set ablaze
rind
شرابی Thirsty for a drop of wine
تشنه لب tishnah lab
پیاسے ہونٹ
One with thirsty, parched tips as if a bartender
-
یا دیار ے yadeyar se
The memory of the beloved pours down like
a rain of wine
ہجر یار hijreyar
In separation of one's beloved
رندانه rindanah
23
زیروبم zeer-o-bam
نیچے.اوپر Ebb and tide
باد سموم bad-e-samum
گرم ہوا Blazig wind
اس as
امید خواهش Longing, desire, hope
یاس yas
نا امیدی Despair
ریپ deep
دیا، چراغ Lamp
لو lau
موم بتی کا شعلہ Flame
طل tall
Heavy dew or light drizzle
تجلیات tajalliat
تجلی کی جمع، ظاہر ہونا، روشنی، خدا تعالیٰ کے جلوے
Illuminations, divine manifestations
Page 239
در dair
temple, place for idol worship
حرم haram
خانہ کعبہ کی چار دیواری
The sacred house of God in Mecca
näsih Et
گیسو Desu
کر کے لیے بال لٹ Tress
من موہن man mohan
دل موہ لینے والا
Charms one's heart away, charmer of heart
نصیحت کرنیوالا Admonisher
پھانس phans
لکڑی کا ٹھا سا ریشہ کا خلش اندیشہ نگر Sprinter
کل پڑتا kal parna
چین آنا To be at ease
بے محل be mahal
بے جگہ ، غیر مناسب Out of place, improper
مرگ marg
موت Death
ازن izn
اجازت Leave, permission
کھڑا mukhra
نه چهره Visage, countenance, the face
داغ جدائی dagh-e-judai
جدائی کا غم
An aching spot in the heart left by separation
فرقت furqat
جدائی Separation
kumlānātur
مرجھانا خشک ہونا To wither
چند رما chandarma
چاند مهتاب Full moon, eclipsed
یہ دل نے کس کو یاد کیا.....N.8.As a phrase:
Having dressed his precious memory in an attire
of rosy coloured twilights,
The madman is swinging that memory on a
swing of a-rainbow
gahnānā tt
yeh dil ne kis ko yad...سپتوں Supnon
خواب رویا Dreams
بوٹوں buton
چھوٹے درخت، پودے plants
عنبر بار amberbar
خوشبودار :
Showering fragrance >
پیراهن pairahan
لباس ، کپڑا کر ما robe, attire, garment
قوس قزح qaus-e-quzah
رهنگ Rainbow
پینگوں paingon
جھولے Swings
گہن لگنا رونق گھٹتا To eclipse
درد بداماں dard badaman
دامن میں درد لئے ہوئے
Carrying deep pathos, sadness, the grey misty air
laden with sorrow has darkened the entire horizon
غنی ghani
آسوده، مطمئن، دولت مند Rich wealthy
تھوہر thohar
ایک خاردار زہریلا پودا جس کے پتے سبز اور پھول رنگ برنگے
ہوتے ہیں Cactus
ہفت افلاک haft aflak
سات آسمان Seven heavens
پنچھی panchi
پرندہ پکھیرو A bird
24
Page 240
آکاشی akashi
آسمانی آفاقی Heavenly
بے مرشد be murshid
بے راہ نما Without a spiritual guide
chaupāyā
چار پاؤں کا مویشی A quadroped, an animal
تن tan
جسم، شخص Body
man
دل، ضمیر Conscience, heart, soul
دهن dhan
مال، قسمت Wealth
پرائے prae
غیر بیگانه ، اجنبی Stranger
خوفزدہ ڈرے ہوئے Afraid
kutya
جھونپڑی Cottage, hut
دیپک dipak
تھا چراغ A poor man's small earthen lamp
افلاس atlas
غربت، ناداری Poverty
ماں کا جایا man ka jaya
گئے ماں کی اولاد ,Born of the same mother
صدیقوں sid-digon
صدیق کی جمع کچے The truthful, the steadfast
ڈولا dola
لڑکھڑایا Stagger
پیار کی پینگیں peyar ki paingain
پیار کے تعلقات Swings of love
ان کو شکوہ ہے کہ ہجر میں کیوں تڑپایا ساری رات جائیں جائیں ہم روٹھ گئے اب آکر پیار جتائے ہیں.un ko shikwah he ke.....درو بٹانا dard batana
نین nain
jäin jäin ham rooth
دکھ میں شریک ہوتا Shared pain
کومل komal
نرم و نازک ، شیریں Soft, tender
کجلائی kajlai
سرمئی، کاجل لگی ہوئی
piyā
Leaves are all coverd with soot
محبوب Beloved, sweetheart
پریمی premi
محبت کرنیوالا Lover
کتھا katha
کہانی Tale
سوجے نین suje nain
سوجی ہوئی آنکھیں Swollen eyes
گریاں giryan
روتے ہوئے Weeping, crying
ترسان tarsan
آنکھ
Eyes
ruthe
روٹھے
خفا ناراض To shame, anger
بھاگ جگائے bhag jagae
قسمت جگائی To awaken one's sleeping fortune
ر گئیں mund gaeen
مند
بند ہو گئیں Closed
نیر neer
یانی آنسو دریا Tears
milan
ملاقات ، ملنا، میل جول Meeting of lovers
سرد sarmad
ہمیشہ رہنے والا Everlasting
سرفراز sarfaraz
ممتاز ، سربلند ، معزز Exalted, and honoured
25
Page 241
جایا jaya
بیٹا فرزند لڑکا Born of the same mother
وقت کم ہے، بہت ہیں کام چلو
waqt kam hai.....لملکجی malgajee
میلی مٹی کے رنگ کی Light grey, after dusk
خرام khiram
ناز و ادا کی چالcolloquially-kharam) walk or stately gait)
باد صبا bad-o-saba
وہ ہوا جو مشرق سے چلے ، موسم بہار میں چلنے والی ہوا
Morning breeze
دام mudam
ہمیشہ سدا Always
محمو mahv
زائل دور هم Engrossed ,absorbed, charmed
قربتیں qurbatain
نزدیکی رشته پاس Nearness, intimacies
برق گام barq gam
constant
tasks
daily
remains
simultaneously
in his rememberance of God.دائما " ( دائن) daiman
ہمیشہ سے لگاتار Continuously, Always
زیروبم zer-o-bam
نیچا اور اونچا Low and high, eb and tide
موجزن mojzan
ٹھاٹھیں مارنے والا Stormy, tumultuous
ریا surayya
جھمکا وہ سات ستارے جو پاس پاس رہتے ہیں
Pleides, (cluster of seven 7 stars in taurus)
غلغلہ ghuighulah
ہنگامہ شور و غل Tumult
تلاطم talatum
موجوں کا زور پانی کے تھپیڑے موج لہر جوش Storm
جو درد سکتے ہوئے حرفوں میں ڈھلا ہے
jo dard sisakte hue...سکتے ہوئے sisakte hue
سسکیاں لیتے ہوئے Sobbing, sighing
بجلی کی تیزی سے انتہائی تیز رفتاری سے Swift as lightening ڈھلا ہے dhala hai
ابر abr
بادل گھٹا Cloud
مه و نجوم mah-o-nujum
چاند و ستارے Moon & stars
زمام zimam
باگ، تکمیل Rein, bridle
پیشوائی peshwa'i
رہبری رہنمائی استقبال Guidance, leadership, reception
خوشا khusha
بہت اچھا خوب Happy, how fortunate, blessed
دل بیار دست بکار dil bayar dast bakar
دل میں ہر وقت خدا تعالی کی یاد اچھی چیز کا خیال مصروفیت میں بھی دل
ر نہیں ہوتا
ست رور
شکل پائی ہے، رواں ہوا ہے Moulded into
Lap
آغوش aghosh
گود
مریض شب غم mareez-e-shab-e-gham
غم کی رات کا مریض
A patient tormented by the night of grief
رس ras
شیرینی، مٹھاس Juice
عمر خضر umr-e-khizar
طویل عمر Eternal
مهمان سرا mihman sara
مهمان خانه مہمانوں کے گھرنے کا مکان
Caravan serai - a roadside inn
سلاسل salasil
بیٹریاں زنجیریں Chains
26
A proverb
-
a
person,
whilst engaged in his
Page 242
گرفتار بلا gariftar-e-bala
آزمائشوں میں مبتلا
Chained, imprisoned, prisoner of calamities
اسیر aseer
قیدی بندی Captive
رشتہ جاں rishta-e-jan
سانس لینے کا سلسلہ
Bondage like lifeline, relationship like a lifeline
ربط بہم rabt-e-baham
آپس میں تعلق آپس میں جو ڑیا رشتہ Mutual relationship
masā
نذر ، خیرات تحفہ Alms, charity
جو کھٹ chaukhat
چوک
دروازے کی چار لکڑیاں جس میں پٹ لگائے جاتے ہیں Threshold
گم گڑھ.gum gashtat
کھویا ہوا بھاگا ہوا ، بھولا ہوا One who is lost
کشکول kashkol
فقیروں کا پیالہ ، زنبیل Begging bowl
خیرات khairat
صدقہ نیکی Alms, chairty
صدا sada
گونج ، آہٹ Voice, call
رہائی rihai
نجات فراغت معافی آزادی Liberation
گھٹا کرم کی ہجوم بلا سے اٹھی ہے
شام Evening
زندان zindan
قید خانہ جیل Prison
وا wa
کھلا ہوا کشادہ Open
باز آنا baz ana
پلٹنا ، پیچھے واپس آنا To abstain
جلوت jalwat
با ہر عام جگہ To be in company
نقرئی nuqrai
چاندی کا بنا ہوا چاندی جیسا سفید Silvery
فيا ziya
روشنی چمک رونق ,Light, splendour
جسر بر پا کرنا hashr bapa karna
قیامت آفت شور و غل - برپا کھڑا قائم
ghatā karam ki hujoome..گھٹا ghata
ابر، بادل، کالی بدلی Dense, dark clouds
کرم karam
بزرگی عنایت Kindness, grace
ہجوم بلا hujum -e- bala
آزمائشوں کا ہجوم ابتلاوں کی کثرت Trials
The whole phrase means: The thick clouds which
are about to shower the blessings of Allah, rose
from the storms of overwhelming calamities.کرامت karamat
معجزه Miracle
To cry or wail, to create an uproar
پیکر paikar
ورد آشنا dard ashna
درد سے واقف ہمدرد
چهره شکل صورت Personification, embodiment
پہلو pahlu
کروٹ ، بغل ، طرف Angle, side
گدا gada
فقیر بھکاری ، منگتا.دان dan
Beggar
Aware of pain, sympathiser (A miracle has arisen
from the heart, long accustomed
to sorrow)
زمین بوس zameen bos
جو شخص حاضر ہو کر اظہار ادب کے لئے زمین چومے
Wonder at its reach that it has started talking
to God on high while it was merely a thing lying.on the dust, but raised by the command of Allah.27
Page 243
رسائی rasai
دخل ، واقفیت reach
غلب qalb
دل ضمیر Heart, soul
تحت الثریٰ tahtussara
زمین کا سب سے نیچے کا طبقہ مٹی کے نیچے
Under the earth the deepest region of the earth
ازل azal
آغاز (Eternity (in past tense
خلا khala
خالی جگہ A void
sāda
ہمیشہ دائم، ہروقت Always
ابلیسمت ibleesiyat
سرکشی، فتنه انگیزی Satanic
بانگ bang
آواز Call
زبوں zabun
عاجز، ضعیف
اباء iba
انکار، نفرت ، نا فرمانی Rebellious rejection
سیه بخت siyah bakht
بد نصیب بد بخت
خموشیوں khamoshion
سکوت سناٹا Moments of absolute silence
ھنکنی
khanakne lagi
بجنے لگی کھڑکنے لگی To single, jingling
کیک kasak
ٹیں ہلکا ساورد Stitches of pain
ہوک huk
وہ درد جو دل یا سینے میں ٹھہر ٹھر کر اٹھے Excruciating groan
بے نوا be nawa
بے آواز - زبان فقیر Soundless, silent
التجا iltija
آرزو منت سماجت درخواست To beseech, to entract
ناکتخدا na katkhada
بن بیاہا کنوا را Virgin
ارا ada
انداز قرینه Captivating style
دا nida
آواز 'پکار Voice, call
قول بلی qaule bala
ہاں کہنا To say yes
(قرآن پاک کی آیت: "الست بربکم قالو بلی" کی طرف اشارہ ہے)
According to Holy Quran, even before the
creation of life in the blue print of Gods
scheme of creation.He enquired form each
soul;
Am I your Lord or not? "
they all responded;
why not, why not?
1F
Extremely ill-fated, one who's fate is charred
نیش زن nesh zan
برائی کرنے والا Ever-stinging, vicious
مردود mardud
رد کیا گیا' بے عزت کیا گیا Accused
کریلا karbala
بخدا bakhuda
By God...refers to the verse 7:173
خدا کی قسم 173
شبیہ shabeeh
شکل تصویر ، مانند Portrait, image, resemblance رنج و آفت کا مقام، بیابان عراق میں اس جگہ کا نام جہاں حضرت امام
حسین نے شہادت پائی' وہ جگہ جہاں پانی نہ ملے
خاک پا pa
khak -e-
پاؤں کے نیچے کی مٹی عاجز ، مسکین
The image is that image which rises form the
dust under your feet.28
The battlefield where Imam Hussain, the second
son of Hazhrat Ali, was martyred mercilessly.It
is a place near the bank of the Euphrates.No
family members were allowed to take water.
Page 244
وسط انوار mahbat-e-anwar
نور کے اترنے کی جگہ
Place
manifestations
where
of
God's
light
constantly descend.صداsada
گونج، گنبد کی آواز آواز
The same voice which is eternally raised time
after time.اچی uchchi
بلند اونچی High, tall, elevated
عرش نشیں arsh nasheen
ممتاز جگہ پر بیٹھنے والا Heavenly
خاک بسر khak basar
پریشان حال خراب و خسته in a miserable state
آکاشی akashi
ہوائے عیش و طرب hawa -e- aisho -o- tarab آسمانی آفاقی Heavenly
خوشی اور چین کی خواہش lust for luxurious life
جتن jatan
دھرتی dharti
کوشش، سعی، تدبیر، تجویز، علاج، محنت
Ploy, manouevres, strategums, measures
بیدار bedar
ہوشیار چوکنا، جاگتا ہوا Awake.watchful
ماتی mati
سرشار مست متوالی Intoxicated
زمین دنیا مٹی Earth
پر جا parja
رعایا ، محکوم مخلوق
پر کاشی parkashi
The earthly occupants who are
illuminated with the light of God.ظاہر ہونا فاش ہونا روشن ہونا Manifest, shining
متلاشی mutalashi
تلاش کرنے والا جستجو کرنے والا Seeker اپنے دیس میں اپنی بستی میں اک اپنا بھی تو گھر تھا پنکھ پکھیرو pankh pakheru
apne dais main apni basti....سندر sundar
خوبصورت ، حسین Beautiful
کتھائیں kathaain
بیاں‘ مقولے قصے Tales
من man
دل، جی، ضمیر Conscience, heart, soul, spirit
جنا janta
گروہ بہت سے آدمی، مجمع بھیٹر People
فیض رسان faiz rasan
فائدہ پہنچانے والا Bountiful, gereous, beneficient
بندہ پرور bandah parwar
غلام کو پالنے والا بندہ نواز Cherisher of servants, patrons
بازو پر بال Visitor on wings
بستان bustan
باغ Garden
جاة
جگہ مقام موقع Room, place, shop
ڈنکا باجا danka baja
نقارہ بجانے کی لکڑی، نقارہ شہرت Beat of a drum
peetam
معشوق نہایت پیارا Most beloved, sweet heart
کنیا رکن ہی نیا) konhiyya
سری کرشن جی ، خوبصورت لڑکا معشوق
One who plays with a flute (name of Krishna)
مرلی دھر murtee dhar
کرشن جی کا لقب اکثر ہندوؤں کا نام ہوتا ہے
One who plays the flute (name of Krishna)
29
29
Page 245
شہنائی shahnai
نفیری ایک ساز جسے منہ سے بجاتے ہیں Clarion
bhajan
وظیفہ خدا کی تعریف کا راگ A hymn
وهوم dhum
شورا غل شهرت Fame, pomp
رت rut
موسم کسان Season, weather
بھگوان bhagwan
خدا تعالی پر میشر ایشر God, supreme being
لمن milan
ملاقات ، میل جول Meeting of lovers
درشن darshan
دیدار نظاره To look at, interview
گوتم بدھا gotam buddha
بدھ مذہب کے بانی کا نام
The name of the founder of Budhism
آشا asha
امید آرزو Desire, hope
chakar
نوکر خادم ملازم Servant
کواڑ kiwar
دروازه Doors
ایٹر eeshar
بھگوان، خدا God
maya!
خدا کی قدرت، رحم ، پیار، دولت رونق ، کرشمه
Wealth
روپا rupa
چاندی Silver
کلفت kulfat
رنج، تکلیف Trouble, distress
مندر mandir
ہندوؤں کی عبادت گاہ A temple
kirpā✓
درس daras
نظارا درشن دیدار Seeing, showing, displaying
بدهی buddhi
دانائی، عقل، سمجھ ، فہم گیان Wisdom
رشیں rishion
خدا پرست سادھو Saintly people
مظهر mazhar
ظاہر ہونے کی جگہ تماشاگاہ Manifestation, spectacle
مینی isa
حضرت عیسی ابن مریم اللہ تعالیٰ کے نبی Jesus
مہربانی عنایت Pity, mercy
پاپی papi
پاپ کرنے والا گنہگار، مجرم ظالم بد کار The sinful
نارائن narain
قدیم ہمیشہ رہنے والا خدا The supreme being
کیری kiree
چیونٹی Ant
(The visit by the most supreme being, to the
the most humblest of creatures.)
رہا birha
noor -
e
-
nazar
نور نظر.آنکھ کی روشنی Apple of the eye
منظور نظر manzoor - e - nazar
پسندیدہ مقبول A favourite
ولدار dildar
تسلی دینے والا معشوق Charming, beloved
ہجر جدائی، فراق Separation
حد نظر
hadd -e- nazar
دیکھنے کی حدود ، آنکھوں کی پہنچ e
پریمی praimi
محبت کرنے والا دوست Lover
As far as one can see
30
Page 246
کبھی اذن ہو تو عاشق دریار تک تو پہنچے
kabhi izn ho to ashiq.ازن izn
Permission
روپ نگر rup nagar
خوبصورتی کا مرکز Land of the beloved
ر wasse
ظاہر ہو The love of God dwells on their faces
akhiyan
اکھین
آنکھیں Eyes
mai 2
شراب Wine, spirit
بیت peet
محبت، عشق دوستی love
دیدہ ور deedah war
دانا ہوش مند One who has vision
ہجر higr
جدائی ، مفارقت علیحدگی Separation, absence
دو بھر dubhar
دشوار مشکل hard to bear
اُس as
امید خواهش، آرزو Desire
muslih
اصلاح کرنے والا درست کرنے والا Reformer
سهاگن suhagan
لہ عورت جس کا خاوند زندہ ہو
در یار dare yar
دروازه محبوب Threshold of one's beloved
نگارش nigarish
تحریر لکھا ہوا Plea, humble request
نگار nigar
تصویر بہت خوبصورت Beloved
شراب ناب sharab'e'nab
خالص شراب Grape liquer
naseem
پچھلی رات کی نرم و معطر ہوا ، صبح کی ٹھنڈی ہوا
Let the breeze of my sigh reach the blossoming
chah
خواهش آرزو ، محبت ، مزہ ، ضرورت، مانگ Love
حلاوت halawat
مٹھاس لذت sweetness
رگ خار rage'khar
کانٹے کی رگ The lifeline of the thorn
of flowers.(Let the sweetness of my love, reach the lifeline
of the thorn.)
A woman whose husband is alive
ہستی hasti
وجود‘ قیام‘ موجودگی Existence
سوتے saute
پانی نکلنے کی جگہ سر چشمہ Spring, fauntain
اگر sagar
سمندر Sea, ocean
وا ہے گرد wahe guru
ایک خدا One and only God
بغض bughz
نفرت ، عداوت، دشمنی will
حصار hisar
ill - will
احاطه ، قلعہ گھیرا Fortification
نفخ روح natkhe ruh
روح کا پھونکنا life
Breath of life
دل زار dil-e-zar
پریشان دل، تکلیف میں The lamenting heart
31
Page 247
غراب ghurab
کوا Crow
شکستہ shikastah
ٹوٹا ہوا خراب bird with broken wing)
ندا nida
آواز Call
نوید naveed
خوشخبری بشارت Glad tidings
چاکر chakar
نوکر، خادم، اہل کار Servant
نقد جاں نقد دل naqde jan, naqde dil
دل اور جان I will shower the treasures of my life
but at least it should pass by my house.نچھاور nichhawar
شار Offering, sacrifice
دار dar
گھر جگہ مقام House, place, country
برقی پا barq pa
تیز قدموں والا With the speed of lightening
دلربا dil ruba
دل لبھانے والا ، معشوق Steeler of hearts شجر خزاں رسیدہ shajar khizan raseedah
درخت جس پر خزاں آئی ہو
The tree which has not
of another autumn.seen
the desolation
وصل wasl
ملاقات معشوق سے لمنا Meeting between lovers
قبل habi
ری کوٹا دھاگا Rope, cord
ana tl
شعور ، خودی خودداری Ego
بت نار but -e- nar
آگ کا پتلا Idol shaped of fire
جمیل jameel
حسین ، خوبصورت Beautiful, elegant
غبار نالہ ghubare nalah
گرد رنج ملال Let my lamentation reach the dust
نہ وہ تم بدلے نہ ہم طور ہمارے ہیں وہی
na wuh tum badle na ham....عاقبت aqibat
آخر انجام نتیجه Destination, fate, final outcome
رہین مرگ
raheen -e- marg
مرنے والا Prisoner of death
دا تا مراد حضرت داتا گنج بخش data
دینے والا ہی The idolised saint Data Gang Baksh
حمار himar
Donkey, ass
گدھا ، خبر احمق ss
سوار خواهد آمد sawar khahad amad
سوار آنا چاہتا ہے a rider is about to arrive
طور taur
حالت، طرز، قسم Habits
قرب qurb
پاس، نزدیکی، مرتبہ Close
بزم جہاں bazm-e- jahan
دنیا کی محفل The universe
جھٹپٹوں ihutpaton
صبیح یا شام کی سیاہی Twilight
چوبارا chaubara
کو ٹھا مکان کے اوپر کا وہ کمرہ جس کے چار دروازے ہوں یا مار کھڑکیاں
ہوں
A room
on the housetop with four doors or
windows, a summer house
32
Page 248
بزم آرائی bazm arai
محفل آراستہ کرنا To arrange a meeting
شفق shafaq
علاج تدبیر Remedy, cure
چاره charah
علاج تدبیر Cure, remedy, medicine سرخی جو طلوع آفتاب سے بیشتر صبح اور غروب آفتاب کے بعد شام کو
نمودار ہوتی ہے Twilight
گلشن gulshan
باغ پھلواری Flower garden
جھرنوں Jharnon
پانی کی چادر آبشار Cascade, waterfalls
madhur p
آنگن angan
گھر کے اندر کا صحن Courtyard
قضا gaza
حکم خدا فرمان الہی Destiny, decree, death
گر گوہر gohar
موتی جو ہر مادہ Pearl
لب ساحل tab -e- sahil
کنارا River bank
شیریں بیٹھا ، سریلا Sweet, melodious
مدہوش madhosh
بد مست متوالا حیران Astonished, drunk, senseless
نیلگوں nilgun
نیلے رنگ کا ' آسمانی رنگ کا Azure
رود rud
ندی شهر، تالا Creek, stream
گل پوش gul posh
پھولوں کا لباس پہنے ہوئے Covered with flowers
ٹاؤ nao
Boat
ثبات sabat
قرار پائیداری Steadfastness, stability
ٹھن kathan
سخت دشوار Difficult, hard
تری بقا کا سفر تھا قدم قدم اعجاز
tiri baqa ka safar tha...mai
شراب Wine, liquor
بقا baga
قیام، باقی رہنا، زندہ رہنا Eternity
ساقی saqi
اعجاز ijaz
شراب یا حقہ پلانے والا A cup bearer, the beloved one
معجزه Miracle
رنجش ranjish
غم آزردگی بگاڑ Grief, unpleasantness
مداوا mudawa
33
fana
موت ہلاکت Mortality, death
دوش dosh
کندھا نشانہ Shoulder
Page 249
زیروبم zer -o- bam
نچا اور اونچا سر طبلے یا نقارے کا دایاں بایاں رخ
شمانت shamatat
کسی کے نقصان پر خوش ہو تا خندہ زنی
Ebb and tide
کرشمه Karishmah
کرامت Wonder, miracle
Rejoicing over an enemy's misery or misfortune
اعداء ada
دشمن، مخالف Enemies
paiham (☑
لگا تار متواتر پے در پے Incessently, repeatedly
نحیف naheef
دبلا پتلا، کمزور لاغر ، ناتواں، ضعیف Weak
مرتم.murtasam
نشان کیا گیا، مہر لگایا گیا To be etched on
nam
گیلاپن، رطوبت Moist
غنا ghana
تو نگری دولت مندی indifferent / independant
عرفان fan
:
شناخت اللہ تعالٰی کی معرفت خداشناسی
ستم sitam
ظلم، زیادتی، غضب، قباحت Tyranny, outrage, injustice
سم samm
زہر Poison
baham
اکٹھے (ایک دوسرے کے ساتھ ) باہم کا مخفف Together
استغفار istighfar
بخشش چاہنا ، تو یہ کرنا begging for forgiveness
نوا nawa
آواز صدا راگ نغمه Call, sound, voice
ملکوتی malakuti
فرشتوں کے متعلق فرشتوں جیسی Angelic
knowing the underlying
بندگی bandagi
عبادت بجز Humility, worship
جو دو عطا jud - o - ata
انعام ، بخشش ، سخاوت Generosity, charity
بچشم نم
bachashm- e
-
nam
آنسو بھری آنکھوں کے ساتھ With tearful eyes
تم کرنا kham karna
جھکانا موڑنا ، گھمانا To bend, to twist
ضبط zabt
نگهبانی ، حفاظت
Self
sorrow
control, control of one's sorrow, suppress
امر amr
حکم فرمان Command
امر amar
نہ مرنے والا لازوال Eternali mmortal, imperishable
علام adam
نہ ہوتا ، نیستی غیر حاضری ، نقصان Non-existence
احیائے نو ihya-e-nau
دوبارہ زندہ کرنا Revival of the dead
34
Page 250
وسیلہ wasilah ہے حسن میں ضو غم کے شراروں کے سہارے
ذریعہ واسطہ سمارا
Who intercedes, intercessor, link between the two
he husn main zau gham.....ضو zau
روشنی چمک Light
شرارے sharare
چنگاری Sparks of fire
معلق mu'allaq
لٹکا ہوا ، آویزاں Suspended, hanging
لرزان farzan
་
لرزنے والا ملنے والا Trembling, fearing
سرگور
sar -e- gor
قبر کے کنارے By the graveside
هزار mazar
زیارت کرنے کی جگہ A tomb
امنگیں umangain
جوش ولولے شوق Longing, excessive desire
دم توڑنا dam torna
نزع کی حالت میں ہوتا' سانس اکھڑنا
To breathe one's last
اشک ashk
آنووا A tear, tears
دھارا dhara
چشمہ سوتا Stream, current
نگهدار nigahdar
نگهبان پاسبان محافظ Guardian, keeper
راس آنا ras ana
موافق آنا ٹھیک ہوتا To agree with
ولات dilase
تلی، تشفی، تسکین
نگار nigar
encouragement,
consolers,
Comfort,
commisorators
ناداری nadari
مفلسی، تنگی Poverty
بخشش bakhshish
معانی در گزر Forgiveness
بے چارگی be chargi
بے بسی ، مجبوری Helplessness
نگهبان nigahban
چوکیدار محافظ Guard, keeper, watchman
دلاری dulare
پیارے لاڈلے ، عزیز Dear, darling, beloved
ناؤ nao
کشتی Boat
کھویا khiwayya
ملاح کشتی چلانے والا A boatsman, a sailor
تصویر بہت خوبصورت زیبائش painting, picture
دست تهی tihi
dast - e
-
خالی ہاتھ The empty hand
یہ پراسرار دھندلکوں میں سمویا ہوا غم
ye pur asrar dhundalkon.مهم mubham
مشکوک گول مول بات غیر واضح Undifinable
الم alam
رنج ، غم ، دکھ Grief
ze j
(از کا مخفف) سے with
راه گزار rahguzar
راه گزر راسته Path
35
Page 251
مہمان سرا mihman sra
مہمانوں کے ٹھرنے کی جگہ Roadside inn
حزن huzn
رنج لمال ، غم Grief, sorrow
زیارت که ziyaratgah
زیارت گاہ.ایسی جگہ یا شخص جس کی زیارت کی جائے
A place of pilgrimage
صد قافلہ ہائے sad qatilah hae
سو قافلے مراد ان گنت قافلے Hundreds of caravans
جوگن jogan
mohsin
احسان کرنے والا A benefactor, generous
قق qashgah
تلک‘ ٹیکا جو ہندو ماتھے پر لگاتے ہیں
Mark on forehead indicating a Hindu sect
عمامه imamah
پگڑی، دستار A turban
صليب saleeb
وہ لکڑی جس پر رومی عیسائیوں کو لٹکاتے تھے A cross
عرفان irfan
جوگی کی مونٹ جو گی وہ مرد جس نے دنیا ترک کر کے فقیری شناخت Profound understanding, insight
اختیار کرلی ہو Female ascetic
آزار azar
بیمار کی تکلیف Pain and sorrow personified
راہب rahib
زاہد یا عابد دنیا چھوڑ دینے والا Hermit
chiragh 'charagh 'z
دیا ، شمع A lamp, a light
سراغ suragh
کھوج پتہ نشان Search tracks
sastānā t
To repose a
آرام کرنا little
اوٹ ot
رسوائی ruswai
بد نامی ذلت Disgrace, dishonour
ماوا mudawa
علاج چاره تدبیر Cure
وابسته wabastah
بندھا ہوا، متعلق Bound, attached
malja
وہ مقام جہاں پناہ لے Place of refuge
اور باوا mawa
جائے پناہ گھر، ٹھکانہ
Refuge
بہار آئی ہے دل وقف یا ر کر دیکھو
روک ، پرده نقاب
تیرگی tirgi
From behind a cover
تاریخی Darkness, obscurity
پاس yas
مایوی Despair
ر sahar
صبح فجر 2 Mornin
ناله شب nala -e- Shab
رات کے وقت رونا Lamentation of night
شرف sharat
بزرگی برتری عزت Mark of honour
bahār a'i he dil waqfe yar
جاءا ja al masih
المسيح h
مسیح آگیا
The Promised Masiah has come
وقف یار waqt -e- yar
صرف خدا تعالیٰ کے لئے Dedicated to God
خرو khirad
Wisdom, intelligence
Nazr
پیش کرتا An offering
36
Page 252
جنون junun
دیوانگی، پاگل پن ، دھن یہاں مراد ہے جو بن ، نکھار
Full bloom, Madness, insanity
غضب ghazab
شدید غصہ Violence, oppression, anger
ہم کنار ham kinar
گلے لگاتا Embrace
تعصبات ta as subat
مذہبی جانبداری Prejudice, religious persecution
برچھی barchi
چھوٹا بھالا، بلم، نیزہ A small spear
نحوست nuhusat
بچار bichar
سوچ - غور - فکر Consideration, thinking
ظهور zuhoor
ظاہر ہونا Appearance
فراسه
است firasat
دانائی - تیز نمی Preception, understanding
لا جرم la - jaram
بے شک - یقیناً" Undoutedly
عقیدت aqeedat
اعتقاد ندہی اصول پر بھروسا Faith, firm blief, a creed
نظام nizam
سلسلہ ترتیب انتظام Order, arrangement, system
منحوس ہوتا ، بد نصیبی Bad presage, omitune, evil, misfortune نس Shams
گندر bhagandar
ایک قسم کا پھوڑا
Fistula in rectum, a boil in or close to anus.سورج آفتاب
گردش gardish
The sun
پیر تسمہ پا peer -e- tasma pa
پیچھا.ا نہ چھوڑتا.To stick, to cling, to dog, to be pasted
منار بیضا manar -e- baiza
روشن سفید مینار White minarret
جائے ادب ja-e-adab
ادب کی جگہ Place of respect or courtesy
آنگن angan
صحن Courtyard
مانده ma'idah
کھانا نعمت Food
الله lillah
اللہ کے لیے For God sake, in the name of God
بوس و کنار bus -o- Kinar
چومنا، گلے لگانا Kissing, embracing
Revolution, circulation
لیل lail
رات شب Night
نهار nahar
روز دن Day
خرام khiram
چال Stately gait, walk
حساب چرخ hisab -e- charkh
آسمان کا حساب نظام شمسی Calender of solar system
بے اعتبار be - i'tebar
جس پر اعتبار نہ ہو نا قابل اعتبار Untrustworthy, Unreliable
چاره charah
علاج تدبیر Remedy, cure
پیارے peyade
ہیں آسمان کے تارے گواہ سورج چاند پیدل چلنے والے فوجی Infantry
hain asman ke tare gavah.....ماند پڑنا mand narna
مدھم ہو جاتا.ر
Aclipsed, faded, dull, fain
37
چڑھ دوڑنا charh daurna
حملہ کرتا To attack
pa'e
واسطے وسیلہ ہے.For
Page 253
کارزار carzar
لڑائی، جنگ Combat, battle, war
اٹل atal
نده
ٹکتے
والا Firm inevitable
غل غپاڑا ghul ghaparā
بیحد شور و غونا حد سے زیادہ چیخ و پکار
Disturbance, brawl, shouts
تو خوں میں نہائے ہوئے ٹیلوں کا وطن ہے
Too khoon main nahas hue.....بوسنیا ہرزگو دنیا.Bosnia Herzegovina is a sovereign state which came
into existence in 1992 after the collapse of Soviet
Union.Yugoslavia, which was a communist country
(outside the Soviet Union) broke up into three
parts Serbia, Croatia and Bosnia Herzegovina - along
ethnic lines.Bosnia has а mix of the three
races with Muslims in majority.To lement, to beat the breast in sorrow
چھاتیاں، پیٹنا chatian poetna
ماتم کرنا
كسوف Kusuf
سورج گرہن Solar eclips
بھڑاس نکلنا bhras nikalna
جی کا بخار نکلنا (غبار کینہ عداوت)
To vent one's rage or spleen
نفس qafas
پنجرا جال پھندا A cage
دو دو ہاتھ کرنا do do hath karna
لڑائی کرنا ، آزمائش کے لئے تھوڑی سی لڑائی کرنا
To be at war, to make a querrel
babar
سوق sinafaq
شام کی سرخ روشنی Twilight in the evening
خوں بار Khun bar
خون بہاتا Shedding blood
جھرنا gharna
چشمه آبشار A spring, a water fall
نوخیز nau khez
نوجوان Newly risen, youngsters
قتیل qateel
قتل کیا گیا Killed, murdered
مقتل maqtal
بڑا شیر جس کی گردن پر بال ہوتے ہیں A lion
بن ban
جنگل بیابان صحرا A forest, jungle, a wood
آنکھیں چار کرنا ankhain char karna
رو برو ہونا To come face to face
عجز iiz
کمزوری، شکست ، مسکینی Humility, submission
اختیار ikhtiyar
پسند کرنا قبول کرنا Adopt, choose
قتل کرنے کی جگہ A place of slaughter or of execution
دم dam
خون Blood
يا pa
پاؤں Foot
بسته bastah
بندھا ہوا Tied, bound, helpless
میاد sayyad
شکاری Hunter
دختر dukhtar
بیٹی Daughter
عرش نشیں arsh nasheen
ممتاز جگہ پر بیٹھنے والا Heavenly
38
Page 254
رولنا rolna
پھٹکنا، چھانتا 1 برنا To roll, to pick up
دفینه dafeenah
خزانه Hidden treasure
آنگن angan
صحن Courtyard
گلرنگ gulrang
پھولوں کے رنگ والا Red, rosy
رقم raqam
تحریر
خط To write, to note
سطوت satwat
دید به رعب Power, authority
تنویر tanwir
روشنی نور چمک Enlightenment
سینه شمشیر seena -e- shamsheer
تلوار کا پھل Blade at sword
حامی hami
از A protector, a supporter حمایت کرنے والا مددگار -
بلا لیا Called back
ین سٹی
pan sutti
توڑ پھینکی.Broke loose
عرشاں تائیں arshan taeen
عرش تک آسمانوں تک Upto the heavens
لائی تاری rai tari
Jumped
مار اڈاری mar udari
اڑنا.اڑان Flew, moved very fast
kalle
اکیلے All alone
عمر ہنڈائی Umar handaee
عمر گزاری Throughout the life
سیوک sevak
خادم Servant
پائی Pa'i
Brother friendly
الحار ilhad
سیدھے راستے سے ہٹ جاتا Atheism, Apostasy
آؤ مجنو مل ہیے.......نت nit
ہمیشہ Always
kam
Works, deeds
بیندای banda see
Used to sit
thal le
ao sajno mil ba'iay
مجنون sajnon
ساتھیو.دوستو Friends, companions
مگر ان
لب mil bai ay
Let us sit together
ٹردے turday
On the way, while travelling
dane muk gaey
وانے تک گئے
زندگی کے دن گنے گئے.یا دنیا سے اسکا رزق اٹھ گیا.وفات پا گیا.Expression meaning days that were numbered
صد ماری sad mari
تھے
نیچے Down
چھاتی ڈائی chati dai
تابعداری کی فرمانبرداری کی To charge head on
پاپڑ دیئے papar welay
بہت مشکلات برداشت کیں Toiled, laboured
جھمیلے jhameele
مشکلات Hazards
جھلے ihalle
برداشت کئے Faced Toterated
39
Page 255
ایم ٹی اے M.T.A
M.T.Mulsim Television Ahmadiyya
کھرو ghabroo
جوانی Youth
چار چفیرے char chaterey
چاروں طرف All around
پویا pooya
پیدل چلا Walked, on foot
منڈے کڑیاں munre kuryan
Boys & girls
چونویس چونویں chonvain chonvain
چنیده - منتخب Selected
رے walle
Collected, brought together
کوڑے Koore
جھوٹے False
لا الہ الا اللہ La ilaha il lal lah
اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں There is no God but Allah
اللهم صلى Alla humma Salle
Blessings upon the Holy Prophet
مرے درد کی جو دوا کرے.کوئی ایسا شخص ہوا کرے
merey dard ke jo dawa karey..آہ و بکا ano buka
روها ناله و فریاد کرتا Groan, cry
قرار grar
آرام سکون Rest Tranquillity
قصص
qesas
اقصہ کی جمع) کہانیاں، داستانیں Fiction, narration, stories
ماڑے موٹے mare mote
Simple, unexppensive worthless, ordinary
ٹے talle
کپڑے Clothes
بارون baron
اوپر اوپر سے Apparently
وڑوٹ رکھی dar vat rakh khi
خاموش رہے Kept quite
لکھ نہ
پلے kakh na hove palle
نہ ہووے
کچھ بھی پاس نہ ہوتا..Divested of every thing
نبهاون nebhawan
نیا ہنا نبھاتا
To be constant in relation.To be faithful
فراق teraq
بدائی Separation
موندنا mundna
بند کرنا ڈھانپنا Shut, close cover
نزول nuzul
اترنا Decent
جنون junun
دیوانگی، دهن، سودا Madness.have a zeal
قضا gaza
حکم، حکم خدا فرمان الہی Divine decree
rafeeq 3
دسان dassan
بتاؤں To Express.To tell
تیتھوں tethon
تم سے
From you ←
40
ساتھی، دوست Friend
خلوت khalwat
تنہائی، علیحدگی، گوشہ نشینی Privacy
Page 256
اک برگد کی چھاؤں کے نیچے
ik bargad ki chãoṇ ke neeche
مدعا mudda'a
Objective, goal
حاجات hajat
ضرورتیں
Needs
مُقْطَرب muztarib
بے چین، بے قرار Agitated, Uneasy
خدا کرے کہ میرے اک بھی ہم وطن کے لئے
آسوده asoodah
مطمئن، خوشحال Contented, Satisfied
نبال nehal
خوش مطمئن مسرور Happy, Prosperous
ملول malool
اُداس رنجیده، غمگین Dejected, depress
khasta
خراب بدحال، مفلس In a miserable state
سوچا بھی کبھی تم نے کہ کیا بھید ہے ملاں
Khuda kre ke mire ik bhee
ham watan ke lie
socha bhi kabhi tum ne ke kia bhaid
he mullan
وبال wabal
بوجھ، عذاب، آفت، مصیبت Clamity
رگیدنا ragaidna
پیچھا کرنا ، تعاقب کرنا To pursue, To chase
پائمال pa-e-mal (پائے مال)
پامال.با مال روندا ہوا، کچلا ہوا Ruined, tampered
ص رعنا gule ra'na
سرخ و زرد پھول، محبوب A beautiful delicate rose
اند مال indemal
زخم بھرنا Healing of a wound
اوج auj
اونچائی، بلندی، شان Highest, summit
غازی گفتار و قیل و قال ( غازی اے گفتار و قیلو قال)
ghāzi-e-guftāro qeeloqāl
بلاريب bela reib
بیشک، بے شبہ، قطعی درست ست No doubt
عیاری ayyari'
فریب، دندا، دھو که بازی Craftiness, cunningness
جلادی jalladi
سخت ظلم، سنگدلی، بے رحمی Cruelty, butchery
سفاکی saffaki
بے رتی، ستمگری، ظلم، خوں ریز کی Mercilessness
اوصاف حمیده ausaf-e-hameedah
وصف کی جمع خوبیاں Praiseworthy qualities
جھوٹو تم نے ٹھیک الزام دھرا ہوگا
ghooto tum ne theek ilzām dharā
hoga
غازی.لڑنے والا ، گفتار - گفتگو، قیل و قال - جھگڑا فضول بحث بک بک جھک جھک bak bak ghak ghak
Champion of vain talk
ثبت sabt
نقش، تحریر An impression
41
بکواس کرنا Babble gabble
عدالت adalat
A court of justice
Page 257
رضائے باری raza-e-bari
اللہ تعالی کی خوشنودی Pleasure of Allah
توحید کے پر چارک مرے مرشد کا نام محمد ہے
سامنے مجلس میں Presence, Presence of a superior authority
آه
بگاه ah-o-buka
,
رونا، فریاد کرنا Wailing
فغاں fughan
tauheed ke parchārak mere murshid
ka nām Mohammad he
پر چارک parcharak
مبلغ، پر چار کرنے والا Preacher
مرشد murshid
ہدایت دینے والا ، پیشوا، رہنما، پیر Spiritual guide
جینا japna
Cry of pain or distress
طیور tuyoor
طائر کی جمع ، پرندے Birds
تاب دید tabe deed
دیکھنے کی طاقت Endurance of sight
تجلی
tajalli
ظاہر ہونا Manifestation
بار بار ایک ہی نام لینا، خاموشی سے ذکر الہی کرنا ، پوجا کرنا To repeat the طور toor
اوراک idrak
name of God
سمجھ بوجھ ، عقل، فہم، رسائی Perception, Comprehension
ھینا kheina
کشتی چلانا To row
دن آج کب ڈھلے گا کب ہوگا ظہو ر شب
din aj kab dhalay ga kab hoga
zuhoor-e-shab
ظہور zuhoor
ظاہر ہوتا To appear, To become visible
گر یہاں greiban
کوہ سینا، وہ پہاڑ جہاں حضرت موسی پر اللہ تعالیٰ کی تجلتی ہوئی Mount Sinai
امشب imshab
آج کی رات Tonight
ناصبور na suboor
بے صبر، کم حوصلہ Devoid of patience, impatient, restless
لیلائے شب laela-e-shab
اندھیری رات Night of darkness
سیماب seemab
بے قرار Mercurial
زیب تن zeib-e-tan
پہننا To adorn one's body
لباس کا وہ حصہ جو گلے کے نیچے رہتا ہے The opening or breast کواکب kawakeb
چاک گریباں chake greiban
گریباں کا کھلا حصہ Slit of a garment
حضور huzoor
of a garment
کوکب کی جمع، ستارے Stars
طهور tahoor
انتہائی پاک، پاک کرنے والا Pure, Purifying
42
Page 258
ناگاه nagah
یکدم اچانک All of a sudden
کوزه koozah
آتش فشاں پہاڑ Volcano
سنیاسن sanyasan
مند و فقیر عورت جس نے دنیا چھوڑ دی ہو
دوہا doha مٹی کا برتن A small earthen pot for water, Pitcher, gablet
ر نجوم tahi-nujoom
ستاروں کے نیچے یعنی رات کے وقت Under the stars, at night
صور پھونکنا soor phoonkna
اعلان کرنا To blow a horn
سُرور suroor
با کامل کا نشہ خمار Slight intoxication, pleasure
Hindu ascetic woman
A religious mendicant
دو مصرعوں کا ہندی شعر A Hindi couplet
سنسار sansar
جہان، دنیا، عالم World, The universe, The mankind
ریت reet
ریم Custom, fashion, manners, habit
پربت parbat
پہاڑ Mountain
کٹنا پا kutnapa روٹھ کے پانی ساگر سے جب بادل بن اُڑ جائے
rooth ke pani sāgar se jab
badal ban ur jāe
چاپلوسی، مداهنت Cunning
Weather, time, season, state
samay
وقته، مدت، موسم، رت
تان اُڑانا tan urana
گانوں میں سُروں کو خوبصورت انداز سے ادا کرنا..To strike up a tune
تم نے بھی مجھ سے تعلق کوئی رکھا ہوتا
To sing
tum ne bhee mujh say ta'alluq ko'i
rakhā hotā
ساگر sagar
سمندر Ocean Sea
بدلیس badais
ولیس سے باہر Abroad, foreignland
Someone expected back home but seeming to
be settled elsewhere.مردے hird ey
دل، قلب، ضمیر Heart
neer
آنسو Tears
پر ہا Birha
، جدائی، فراق Seperation
اگنی
agni
آگ Fire
جوال لکھی jawalamukhi
شوریده shoridah
محبت میں دیوانہ Desperately in love
خونابه khoon-nabah
خون کے آنسو Tears of blood
سیلاب بلا sailab-e-bala
مصائب کا ریلا Flood of calamities
عارض ariz
The cheek E
43
Page 259
کیتی geeti
جہان، دنیا، عالم زمانہ The earth
آفاق afaq
افلاک آسمان Horizons
بے سود be sood
بے فائدہ Unprofitable, Useless
لیا malja
وہ مقام جہاں پناہ ملے Place to refuge
ماوی mawa
جائے پناہ، گھر ٹھکانہ Resort, refuge, shelter
مداوا mudawa
علاج چاره، تدبیر Cure, remedy
اذن نغمہ مجھے تو دے تو میں کیوں نہ گاؤں
بے ترتیبی ack of harmony
کلیل tahleel
گھل جانا
Dissolve
افلاک aflak
آسمان The heavens
نیلگوں neelgoon
نیلے رنگ کا ، آسمانی رنگ کا Azure or blue coloured
موج طرب moujetarab
خوشی کی لہر A wave of pleasure
محراب mehrab
قوس کی شکل میں یا خمدار Dome of prayer.Curvature of feet
معبد mabad
عبادتگاه Place of worship
منصورہ لے کر آئی ہے
Mansoora ley karai he
ہول houl
izne naghma mujhe too de to main
kioon na gā oon
کون و مکاں kaunomakan
عالم موجودات، دنیا، جهان The universe
بننا bun-na
سلائیوں کی مدد سے اُون سے سویٹر وغیرہ بنانا، معنوی طور پر کوئی گیت بنانا
کثافت kasafat
To spin a song
غلاظت بوجھ، گندگی Impurity, filth
جمود jamood
ٹھہراؤ Staleness
بے رنگی berabtgi
ڈر، خوف، اندیشہ، گھبراہٹ Horror, fear, fright
لم ڈھینگی lam dheengi
قدآور Long legged
ہارٹلے پول میں کل ایک کنول ڈوب گیا
Hartleypool main ka! aik kanwal
doob gia
نجیب najeeb
شریف بزرگ Person of ncble birth, gentte, honourable
44
Page 260
گردیده garweedah
لداده، فریفتہ Captivated
یوباس boobas
خوشبو Smell, fragrance
جگراتا jagrata
جاگتے ہوئے رات گزارنا Sleepless night
اے عظیم انڈونیشیا
ae azim Indonesia
مدام mudam
ہمیشہ Ever, always
غلام خیر الانبیاء ghulame khairul ambiya
رسول الله علل کا غلام
The servent of the
Best Prophet of Allah
نقیب naqueeb
تشہیر کرنے والا A proclaimer
صلح و آشتی sulhoashti
امن Peace & Harmony
رودبار roodbar
چشم ہائے تر chashmha-e-tar ندی، نالہ نہر Creek, stream, gulf, strait area
بھیگی ہوئی آنکھیں Eyes full of tears
بہرہ ور bahrawar
فائدہ اٹھانے والا، خوش قسمت Prosperous, fortunate
نرگس nargis
پھول کا نام جسے شعراء آنکھ سے تشبیہ دیتے ہیں Narcissus
تصال khisal
عادتیں Habits, Ostentation
بے ریا beriya
وہ روز آتا ہے گھر پر ہمارے ٹی وی پر
wo roz ata he ghar par hamare
T.V.par
پیشوائی کرنا peishwa-i-karna
استقبال کرنا ، خوش آمدید کہنا Going out to receive, To welcome
بلیوں اچھلنا ballion ochalna
دل بہت دھڑکنا Leeping high, high leap
قالب qalib
دکھاوے کے بغیر Without any show or formality سانچہ Frame, A mould, A model
تسلط tasal lut
حکومت، غلبه، قابو Domination, Command
سرمدی sarmadi
ہمیشہ رہنے والا Eternal, Everlasting
قبور quboor
قبر کی جمع Graves
ربل dabal
خوب، زیادہ (Excessive (Punjabi expression
گوٹھ gouth
گاؤں دیہہ (A village (Sindhi expression
تھل thal
پاکستان کا ایک صحرائی علاقہ A desert area in Pakistan
45
Page 261
khal
بے نشاں be nishan
بے نام و نشان Without name
چین جبیں cheene jabeen کھڑے ہو کر Khal means standing according to the
usage of Thal
پیشانی کے بل Frown
اہل جہاں ehle jahan
دنیا والے People of the world تیرے لیے ہے آنکھ کوئی اشکبار دیکھ
Tere liye he ankh ko‘i ashkbār daikh
بدگماں bad guman
بے اعتبار شک کرتا Suspicious, mistrustful
اشکبار ashkbar
سوز دروں soz - e - drun
دل کی جلن Hidden fire آنسو برسانے والا ، رونے والا.Weeping.Shedding tears
زار ونزار zaro nezar
کمزور weak
بزم طرب bazm-e- tarab
خوشی کی محفل A joyful assembly
تبسم کناں tabassum kanan
نوائے جگر خراش nawa'e jigar Kharash مسکراتے ہوئے Smiling
جگر کاٹ دینے والی آواز، انتہائی دکھ بھری آواز
A heart rending voice
barbat b
مقاصد maqasid
مقصد کی جمع Objects, aims
ایں و آں an
een - o
ایک قسم کا ساز A kind of harp
وعدة ضبط الم
wa'dah-e zabte alam
غم برداشت کرنے کا وعدہ
Assurance to control anguish, severe misrey.بنده
bande shakaib
Tie of endurance.Bounds of endurance
لالہ زار lalah zar
یہ اور وہ This and that
ضعف Zut
کمزوری Weakness.feebleness
شادماں shadman
خوش Happy
پاسباں pasban
محافظ Guard, watchman
سرخ پھولوں والا باغ A bed of tulips
نا مرادی na muradi
مایوسی ناکامی Frustration, disappointment لوح جہاں پہ حرف نمایاں نہ بن سکے جاں بلب jan balab
lohe jahan pe harfe.....لوح جہاں loh -e- jahan
سطح زمین پر
Face of the earth
مرنے کے قریب ting, at the point of death
آتش بجان atish bajan
جس کے بدن میں آگ لگی ہو The soul is aflame
46
Page 262
حسن صنعت rusne sanat ہیں اشک کیوں تمہارے انہیں روک لو..کاریگری Creative skills
bahain ashk kiyon....دل شکستگی dil shikastagi
ٹوٹ پھوٹ
At the breaking of my heart, the
scenario is like a boat capsising the only hope
معجزة mujizah
وہ کام جو انسانی طاقت سے باہر ہو A miracle
نرگس چشم nargis -e- chashm
رگس کے پھول کی طرح حسین آنکھیں
Beautiful eyes like narcissus flower
غرق gharq
which I cherished, deserted me.ڈوبا ہوا Drown, sink
کنارہ کرنا kinara karna
نیم باز neem baz
آدمی کھلی Half open, intoxicated
برگ
barg
Headed for the shore
شمع رخ shamal rukh
چہرہ کی چمک radiant face, the reflection of the lamp
یر تو partau
عکس Reflection
یارا yara
طاقت ہمت Strength, courage, power
کبھی اپنا بھی اک شناسا تھا
of the beauty
kabhi apna bhee ik.....اسرا asra
سارا Support
مطلوب
Matlūb
طلب کیا گیا، محبوب The desired one, beloved
سراپا sarapa
سرسے پاؤں تک Personification
جمال jamal
خوبصورتی، حسن Beauty
سرتا پا sar ta pa
سر سے پاؤں تک From head to foot, totally
پتہ Leaf
دہن dahan
امنه Mouth ادیان کا مخفف).نیم وا neem wa
آدھی کھلی Half open
تابنده tabindah
روشن Bright, luminous
takallum
بات کرنا ، گفتگو Conversation
خوش ادا khush ada
خوبصورت انداز Graceful, charming
بے ریا be riya
سیدھا، صاف، بے تکلف Withont austentation
کرشمه Karishmah
انوکھی بات کرامات A miracle
فسوں fusun
افسوں، جادو Fascination
پراسرار purasrar
سر بھید، پوشیدہ باتیں Mysterious
مجسمه mujassamah
Personification ☑
سرود surud
نغمه راگ A melody
47
Page 263
غزل سرا ghazal sara
ترنم سے غزل پڑھنے والا Singer of an ode
ائم dalim
ہمیشہ سدا Perpetual, permanent
فراق firaq
جدائی Separation
وصل wasl
Meeting, union
سردی sarmadi
دا گی Eternal
نغمه سرا naghmah sara
گیت سنانے والا One who sings a melody
طائفہ ta'ifah
گروه Troupe
کنگال kangal
مفلس، محتاج Penniless
ایا asasah
جمع کیا ہوا سرمایہ Wealth
واہمہ wahimah
وہ طاقت جس سے ایسی باریکیاں معلوم ہوتی ہیں جن کا تعلق محسوسات
ہے ہے.Illusion, fancy, imagination
ہوتی hayala
میرے بھائی آپ کی ہیں سخت چنچل سالیاں
Mearye Bhai ap ki haen sakht......chanchal
شوخ کھلنڈری playful, naughty
فعلہ جوالہ shu'lah-ejawwalah
گردا گرد پھرنے والا شعلہ مراد ہے شوخ ، بے قرار
An encircling flame, mischievous
پرکاله parkalah
چنگاری A spark
برگد bargad
بڑ کا درخت، اس درخت کے ریشے شاخوں سے لٹک کر زمین تک پہنچتے ہیں.A banyan tree
ڈالیاں dalian
ٹہنیاں.شاخیں.Branches
منتظر میں ترے آنے کا رہا ہوں برسوں
muntazir main tere āne ka rhā hoon
barsoon
Aetherial image, outline
وم ولا سا dam dilasa
بلاوا Consolation
دیده deedah
eye Fi
The eye
nārasā
t
نہ پہنچ سکنے والا Unfulfilled love
ma'e 2
شراب Wine
فُرقت furqat
ہجر، جدائی Seperation
زبوں حال zaboon hal
برا حال خراب حال hi ser able condition, pitiable
گلفت kulfat
رنج، تکلیف
Affliction, trouble, distress
محجوب mahjoob
حجاب میں، پوشیدہ، مخفی Bashful, modest, veiled
48
Page 264
أطوار نظر atwar-e-nazar
دیکھنے کے طریق، طرز، ڈھنگ Manners of looking at
بام و در bam o dar
چھت اور دروازے یعنی رہائش گا ہیں
Roof, terrace, balcony
and doors mean residences
ہم وثم hamogham
دکھ، تکلیف تم Anxiety, Grief, sadness, worry and grief
اک پیسہ پیسہ جوڑ کر بھائیوں نے شوق سے
Ik pesa pesa jorr kar….......بدھو buddhoo
بے وقوف A fool, devoid of sense
thitharnā
کپکپانا ، سردی سے لرزنا
زیست zeest
زندگی، عمر Life, Existence
مرقد margad
قبر Grave, Tomb
ہیں لوگ وہ بھی چاہتے ہیں دولت جہاں ملے
Hain log wo bhi chahtey hain......بت کدے butkade
مندر Idol temples
درس وحدت خدا darse wahdate khuda
خدا تعالی کے ایک ہونے کا سبق A lesson of oneness of God
خوشا نصیب khushanaseeb
خوشا، خوشی کا کلمہ ہے.بہت خوب قسمت ، خوش قسمت
How fortunate.Extremely fortunate
To shiver.To be numb.to be chilled
کمند karmand
رسی کی سیڑھی، پھندا A rope ledder for scaling
dahan
امیر کارواں ameere karwan
سالار قافلہ The leader of the caravan
عمر جاوداں umre jawedan
ہمیشہ کی زندگی Eternal life
طفل tifl
بچہ An infant.A child
منه mouth
بت کده butkadah
مندر An idol temple
peer
بوڑھا ، عمر رسیدہ An old man
یہ دو آنکھیں ہیں شعلہ زا یا جلتے ہیں پروانے دو اف یہ تنہائی تری الفت کے مٹ جانے کے بعد
ye do ankhain hain shola za ya jalte
hain parwāne do
شعله زا sholah za
جلتی ہوئی Blazing, flashing
49
uf yeh tanhai teree ulfat ke.....اف أن
آه او ہو درد یا رنج کے اظہار کیلئے کہا جاتا ہے
O, woe (a sad sigh)
Page 265
تنائی tanhai
اکیلا پن
Lonliness
الفت ulfat
محبت چاہت Love, friendship
فرقت furqat
جدائی، فراق، دوری The days of parting.A separation
گر بتانا umr bitana
عمر گزارنا
Span of life, spending time t
ہوش hosh
حواس میں آنا To come to one's senses
عقده ugdah
گره معما پیچیده بات A question unsolved, entanglement
A riddle,
سودائی saudai
دیوانہ پاگل Melancholic, crazy, mad
پرده دار pardah dar
حجاب، شرم رکھنا Covers of coyness
معصوم
ma'soom
ور Modest.Simple.Pure.Innocent بے گناہ بے قصور
رسوائی ruswai
بدنامی بے عزتی
Blame, dishonour; M reputation, disgrace
وائے walay
کلمه افسوس جو اظهار مصیبت یا رنج و الم کے موقع پر زبان پر آتا ہے
Oh (an expression of torment) Atas, Woe
پیری peeri
پڑھایا old age
پشیمانی pashemani
شرمندگی ندامت افسوس Regret, Repentance
جنون junoon
دیوانگی Craze, madnese
50
شرمنده sharmindah
شرم سار، ناوم Ashamed
آئینه a'eenah
A looking glass, mirror