Complete Text of Khab Sarab
Content sourced fromAlislam.org
Page 1
خوا ب سرا
مجموعه کلام
مبارک صدیقی
Page 2
نام کتاب
شاعر
خواب سراب ( شعری مجموعه )
مبارک صدیقی (لندن)
[email protected]
سن اشاعت اول
جنوری 2001ء
سن اشاعت دوم
دسمبر 2015ء
سن اشاعت سوم
:
نومبر 2018ء
سن اشاعت چهارم
جولائی 2021 ء
Page 3
خواب سراب
انتساب
ہر اس شخص کے نام......جس کے ہونے سے لوگ
راحت اور امن محسوس کرتے ہیں
3
Page 4
3
9
10
14
18
21
22
23
25
28
30
خواب سراب
بِسْمِ اللهِ الرَّحْمنِ الرَّحِيمِ
فهرست کلام
32
32
انتساب
خواب سراب
گلابوں اور چراغوں کا شاعر
تاثرات
1 حمد منزل بھی تیری ذات ہے اور ہمسفر بھی تو
حمد.اُس سے مانگ کے دیکھ کبھی اے مور کھ سے انسان
ہجر کی کالی رات میں اُٹھ کر دل کے دیپ جلا
4 نعتیہ کلام.بات ایسی کہ خوشبوسی آنے لگے
5 نعت.پیار کیسے ہو گیا یہ واقعہ ہے مختصر
خزاں کی رت میں گلاب لہجہ بنا کے رکھنا، کمال یہ ہے
دُعا میں التجا نہیں تو عرض حال مسترد
کوئی ایسا جادوٹو نہ کر
و کوئی درد ہے جو ابھی دوا نہیں ہوسکا
10 وہ بات جس سے دُکھا ہوا دل قرار پائے ، وہ شاعری ہے
34
38
40
40
4
Page 5
42
44
46
46
48
49
49
51
54
53
55
57
61
63
65
66
68
71
73
خواب سراب
11 ستارہ بن کے رہو یا کسی دئے میں رہو
12 اُداس کیوں ہو
لوگ سب مل کے اگر دیپ جلانے لگ جائیں
14 میرے لئے جو آج سے تو غیر ہے تو خیر ہے
15 بہت بُرے ہو
16 کچھ دل کو ہیں آزار ذرا اور طرح کے
17 کوئی غیبی ہاتھ سہارا ہو گیا تو
18
کبھی یقیں یہاں وہاں
کبھی گماں اِدھر اُدھر
19 تم سے کیا چھپانا ہے
20 میں صاف صاف یہ کہتا ہوں استعارے بغیر
21
سخنوروں کے شہر میں وہ شاہ سخن کمال است
22 ہم نہیں وہ لوگ جو پتھر اٹھا کر مار دیں
23 اُداس لوگوں کو جو خوشی کی خبر سنائے ، وہ خوبصورت
24 ابھی وہ لوگ باقی ہیں
25 سرمئی شام ہے موسم ہے سہانا ،نا
26 وصال یار کو جانا تو ہو کے باوضو جانا
27 میں محبت کے بارے میں ویسے تو زیادہ نہیں جانتا
8 مانا کہ وہ بھی آج تک مانا تو ہے نہیں
29 سند ر روپ اور چاندی رنگت لے بیٹھے گی
74
76
78
5
Page 6
80
82
84
600000
86
88
90
90
93
94
40
97
99
99
101
103
105
108
109
110
111
112
114
30
خواب سراب
مسلک کے نام پر لگی جنگوں سے تنگ ہوں
31 اذیت ناک پنجرہ ہو چکا ہے
32 دعا کی لو سے دیے میں جلانے والا ہوں
33 کچھ ایسے لوگ بھی دنیا میں پائے جاتے ہیں
34 آنکھ ہے اشکبار ویسے ہی
35 اگر وہ سامنے آئے ، وہ اتنا پیارا ہے
36 اے میرے خدا مرے چارہ گر ، اُسے کچھ نہ ہو
37 کسے ہجرتوں کا ملال ہے
38 یہ دنیا ہے، یہاں پر داستانیں مار دیتی ہیں
39 وہ بھی دشمن داری کل پر رکھنے والا نئیں
40 دس ہیں میں مل جاتی ہے بازار سے خوشبو
رضائے یا ر ہے جب انتہا تو غم کیا ہے
یار
42 دیپ بن کر جلو آخری سانس تک
43 ڈوبتا جا رہا ہے دل میرا
44 عداوت میں خسارہ ہو گیا تو
45 قطعہ - کہہ نہیں سکے مگر
46 دنیا کی دل دُکھانے کی عادت نہیں گئی
47 وہ جسے میں نے دل و جان سے چاہا، آبا
48 اچھا ہے سو وہ تنہا ہے
6
Page 7
116
117
118
119
121
122
124
129
مخواب سرار
تو نہیں تو زندگی میں اک کمی رہ جائے گی
50 مجھ سے پتھر نے بھی اک دن کیمیا ہونا ہی تھا
51 دل کسی کے پیار میں سرشار تھا ایسا کہ بس
2 مینڈھی گل گل پھل گلاب اے
53 ریت پ نقش بناتے ہوئے تھک جاتے ہیں
54 دشمنوں سے بات ہم سے یاریاں
دل کر داسی یوروپ جائیے
دنیا دے وچ غم نئیں مکدے
7
Page 8
”مبارک صدیقی کی شاعری کا چراغ
وہاں جلتا ہے جہاں میرے جیسے
کسی شاعروں کے دیے ٹمٹمانے لگتے ہیں."
( پروفیسرعبدالکریم خالد )
مبارک صدیقی بلاشبہ صندل کا وہ درخت ہے
جو کلہاڑے کامنہ بھی خوشبو سے بھر دیتا ہے.(طاہر عدیم صاحب)
مبارک صدیقی صرف شاعر ہی نہیں
بلکہ مجسم مشاعرہ ہے.( چوہدری محمد علی مضطر )
8
Page 9
میری شاعری کا مجموعہ آپکے خوبصورت ہاتھوں میں ہے.میرے لئے یہ
بھی اعزاز کی بات ہے.میں اپنے اُن پیاروں کا ، اساتذہ کرام کا دل کی گہرائیوں سے شکر
گزار ہوں جنہوں نے ہمیشہ نہایت محبت و شفقت اور درگزر کا سلوک کرتے ہوئے میری
شاعری سے متعلق اپنے تاثرات سے نوازا.اللہ تعالی انہیں اس عمل کی بہترین جزا دے.آمین.خدا کرے کہ ان اساتذہ کرام نے جن خوبیوں
کی توقع مجھ سے کی ہے وہ خوبیاں مجھ
میں پیدا ہو جائیں.میں اپنے بہت پیارے دوستوں عزیزوں کا بھی شکر گزار ہوں جو قدم قدم
پہ نہ صرف میری حوصلہ افزائی کرتے ہیں بلکہ ایک اچھا دوست ہونے کا حق ادا کرتے ہوئے
احسن رنگ میں تعریف اور تنقید بھی کرتے ہیں.اللہ تعالی اُن سب کو ، آپ سب کو دین و دنیا کی
خوشیوں سے سرفراز فرمائے.آمین.مجھے بخوبی علم ہے کہ ہر تخلیقی شعبہ کی طرح شعر و ادب میں بھی سیکھنے کا عمل ہمیشہ جاری رہتا
ہے.قارئین کرام سے بھی دعا کی عاجزانہ درخواست کرتے ہوئے میں کہوں گا کہ اگر ساری
کتاب میں سے ایک شعر بھی آپکے دل کو لگے تو میں سمجھوں گا کہ مجھے میری ٹوٹی پھوٹی کاوشوں
کا صلہ مل گیا ہے.15 نومبر 2018ء
مبارک صدیقی
لندن
9
Page 10
گلابوں اور چراغوں کا شاعر
بسا اوقات ہم اپنی قلت منہمی کی وجہ سے شعر کوصرف تسکین کا ایک ذریعہ ہی
خیال کر لیتے ہیں جبکہ در حقیقت شعر اور شعور کا باہم گہرا تعلق ہے.ایک اچھا شعر ہمیں
فہم و ادراک کی ایسی راہوں پر لے جاتا ہے جہاں تک پہنچنا بسا اوقات مشکل ہی نہیں
ناممکن ہوا کرتا ہے.شاعری محض الفاظ کو سلیقے اور طریقے سے برتنے کا نام ہی نہیں
ہے بلکہ یہ ہمارے روز مرہ رویوں ، معاملات اور واقعات کی عکاس ہوا کرتی ہے.مصور کائنات کی بنائی ہوئی یہ دنیا بہت وسیع ہے اور اس میں پھیلے منظر اور رنگ
بھی بے انتہا ہیں.شاید ہی کسی عکاس کیلئے ممکن ہو کہ وہ ان تمام خوبصورت مناظر کی
تصویر کشی کا حق ادا کر سکے.پھر بھی کچھ اہل قلم ایسے ضرور ہوتے ہیں جنہیں قدرت کی
طرف سے یہ سلیقہ عطا ہو جاتا ہے کہ وہ ممکنہ حد تک قاری کو اس انتہا تک لے جاتے
ہیں جہاں تک اس کا شعور اُسے اجازت دیتا ہے.وہ انسانی رویوں کی چادر کے سب
تانے بانے کھول کر سمجھا بھی دیتے ہیں اور انہیں بہتر بنانے کا ہنر بھی بتا دیتے ہیں.جیسا کہ ظلم کو مٹانے کیلئے صبر کی طاقت کا اظہار کرتے ہوئے مبارک صدیقی کہتے ہیں :
ہم نہیں وہ لوگ جو پتھر اُٹھا کر مار دیں
ہم ہیں وہ جو رات کو سورج دکھا کر مار دیں
10
Page 11
مبارک صدیقی کا اسلوب اور انداز گوسادہ معلوم ہوتا ہے اور ایک عام پڑھنے والا بھی
اپنی ذہنی سطح کے مطابق اس سے مطلب اخذ کر کے آگے بڑھ جاتا ہے لیکن ایک نقاد
کیلئے ان کے اشعار بہت سی پرتیں کھولتے چلے جاتے ہیں.ایک کے بعد ایک نئی تہہ
گھلتی جاتی ہے اور نئے معانی اور استعارے سمجھ میں آتے چلے جاتے ہیں.جیسا کہ
یہ شعر ملاحظہ ہو:
لوگ سب مل کے اگر دیپ جلانے لگ جائیں
اے سیاہ رات ترے ہوش ٹھکانے لگ جائیں
قارئین کرام ! الفاظ کو اعجاز میں بدلنا آسان نہیں ! لیکن لفظوں سے معجز نمائی کرنے
والے مبارک صدیقی ایسا کر گزرتے ہیں.لفظ مسیحا ہیں تو مبارک صدیقی اس مسیحائی
میں کمال رکھتے ہیں.شعر اگر زندگی کا فہم و ادراک ہے تو مبارک صدیقی اس ادراک
کی راہوں میں مشاق ہیں.لفظوں کو زندگی دیتا اور احساسات کو قوت بیان عطا کرتا
ان کا کلام اور ان کا ہنر نہ صرف الفاظ کو حیات بخشتا ہے بلکہ اپنے سُننے اور پڑھنے
والوں
کو بھی زندگی کے نئے ذائقے چکھاتا ہے.ان کے اشعار بلاشبہ مسیحائی کا سا اثر رکھتے ہیں.پڑھنے والا ان کے اشعار کے آئینے
میں اپنے وجود کی ، اپنے افکار کی اور اپنے جنون کی تلاش کر سکتا ہے.دیدہ بینا لئے
ہوئے مبارک صدیقی باریکی سے چیزوں کے حسن کی تلاش اور کھوج میں لگا رہتا ہے
اور اکثر ایسے پہلو کھوجنے میں کامیاب رہتا ہے جو عام آدمی کی نظر سے اوجھل رہ
جاتے ہیں.ان کا یہ شعر انہی پر صادق آتا ہے کہ:
11
Page 12
کچھ ایسے لوگ بھی دنیا میں پائے جاتے ہیں
جہاں بھی جائیں دیتے ہی جلائے جاتے ہیں
مختصر یہ کہ کچھ شاعر شعر کہتے ہیں اور کچھ کرامت دکھاتے ہیں.مبارک صدیقی بلا شبہ
اُردو شاعری کے میدان میں ایک ایسا ہی نام ہے جو کرامت دکھاتا ہے.لیکن طبیعت
میں انکساری ایسی کہ دل سے دعا نکلتی ہے.شعر ملاحظہ ہو:
ہر ایک عزت و رفعت ہے خاکساری میں
سو چاند چھو کے بھی مٹی سے رابطے میں رہو
مبارک صدیقی کا تھوڑا سا کلام پڑھنے یا سننے والا بھی یہ خوشگوار تاثر لئے بغیر نہیں رہ
سکتا کہ ان کی باغ و بہار شخصیت کی طرح ان کے کلام میں بھی جا بجا روشنی ، گلاب اور
خوشبو بکھری ہوئی ہے.اس حوالے سے انہیں چراغوں ، گلابوں اور خوشبوؤں کا شاعر
کہا جائے تو بے جانہ ہوگا.یہ چند اشعار ملاحظہ ہوں:
دس بیس میں مل جاتی ہے بازار سے خوشبو
بہتر ہے مگر آئے جو کردار سے خوشبو
گلاب ایسے بھی دل کے لہو سے بو جاؤ
کہ مر بھی جاؤ تو خوشبو کے تذکرے میں رہو
وہ ملے اگر تو اسے کہوں اے گلاب شخص
کوئی تجھ سا کیا ،تری خاک پا نہیں ہوسکا
12
Page 13
مبارک صدیقی کی شاعری کو پڑھ کر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ وہ بہت سادگی سے ایک
مضمون بیان کر کے آگے نکل جاتے ہیں اور جب پڑھنے یا سنے والا مضمون میں غوطہ
لگا کر باہر نکلتا ہے، وہ ایک نئی منزل پر مسکراتے چہرے کے ساتھ ان کے منتظر ہوتے
ہیں.وہ خود لکھتے ہیں:
خزاں کی رت میں گلاب لہجہ بنا کے رکھنا کمال یہ ہے
ہوا کی زد پہ دیا جلانا، جلا کے رکھنا کمال یہ ہے
مسکراتے چہرے اور گلاب لہجہ کے حامل اس شاعر کو اللہ تعالیٰ نے میدانِ شعر میں
کمال بنایا ہے اور مبارک صدیقی نے اس کمال کو جس محبت اور خوش اسلوبی سے
استعمال کیا ہے، اس کی جھلک آپ کو اس کتاب کے ہر صفحے پر نظر آئے گی.( ڈاکٹر وسیم احمد طاہر، جرمنی)
13
Page 14
علم را برتن زنی مارے بود
علم را بر دل زنی یارے بود
مولانا روم کہتے ہیں کہ علم کو اگر بدن پر لگایا جائے یعنی اس سے دنیا طلبی کا کام لیا
جائے تو یہ ایک سانپ بن جاتا ہے لیکن اگر علم کو دل سے جوڑا جائے یعنی اس سے
دلوں کی اصلاح کا کام لیا جائے تو یہ یار بن جاتا ہے.مبارک صدیقی نے علم کو نہ
صرف دل سے جوڑا ہے بلکہ اس علم سے ٹوٹے ہوئے زخمی دلوں پرا کسیر دوا کا کام بھی
لیا ہے.اس کی شاعری میں جہاں نئی زمینوں پر نئی فصلیں لہلہاتی نظر آتی ہیں وہاں
پرانی اور بنجر زمینیں بھی نت نئے پھولوں سے مرصع و مزین دکھائی دیتی ہیں.وہ ایک
ایسا ساحر ہے جو رنج والم کے گہرے مناظر کو چٹکی بجاتے ہی سفید کبوتروں اور اُجاڑ ،
ویران آنکھوں کو پلک جھپکنے میں ہزار ہا رنگین تتلیوں سے بھر دیتا ہے.پاس کی
تاریک راہوں میں اس کی شاعری جگہ جگہ جگنو چھوڑتی نظر آتی ہے.دلوں کے بے
رنگ آسمان پر قوسِ قزح کے تھان بچھا دینے والا یہ شاعر صدیوں کے سمندرلمحوں میں
پار کروانے کا ہنر بخوبی جانتا ہے.مبارک صدیقی بلا شبہ صندل کا وہ درخت ہے جو کلہاڑے کا منہ بھی خوشبو سے بھر
دیتا ہے.شاعری کے اس سفر میں میری سرسبز و شاداب دعا ئیں ہمیشہ اس کے ساتھ
رہیں گی.14
(طاہر عدیم صاحب)
Page 15
ه مبارک صدیقی کی شاعری مزاحیہ ہو یا سنجیدہ دونوں میں حسن و کمال اور نیکی کا
پیغام پایا جاتا ہے.(ضیاء اللہ مبشر )
مبارک صدیقی نام ہے اُس شاعر کا جو اپنی دل آویز شاعری کے گلابوں سے
خزاں موسم میں گلرنگ بہاروں
کی نوید دیتا ہے.(ڈاکٹر سر افتخارا یاز، برطانیہ)
خیالات کی فراوانی، اظہار بیان کی روانی، اور معنویت کی تابانی کا نام ہے
مبارک صدیقی کی شاعری.(امام عطاءالمجیب راشد )
مبارک صدیقی ایسا ہنستا مسکراتا شاعر ہے جو اپنے اشعار سے لوگوں کے لبوں پہ
مسکراہٹ بکھیرتا ہے اور اُداس دلوں میں خوشیوں کے چراغ روشن کرتا چلا جاتا ہے.ليق عابد )
ه مبارک صدیقی مزاح سے سنجیدگی تک اور شاعری سے شخصیت تک، ہر زاویے
اور ہر پہلو سے ممتاز اور منفر د نظر آتے ہیں.(ڈاکٹر نکہت افتخار )
15
Page 16
خواب سرار
شاعر ہونا، ٹھیک ہے لیکن جب کوئی مبارک صدیقی جیسا شاعر ہو تو اسے
خوبصورت اور بھر پور شاعر کہا جاتا ہے.ایک ایسا شاعر جسے پڑھنا بھی اور سننا بھی
اعزاز ہوتا ہے.شاعرانہ گداز جب معاشرتی رویوں کے رد عمل سے پیدا ہونے
والے احساس کے تخلیقی قرینے سے مل کر شعر میں ڈھل جائے تو یہ کسی شعری معجزے
سے کم نہیں ہوتا اور یہی شعری معجزہ مبارک صدیقی کا بنیادی وصف ہے.نہایت
سلاست اور بے ساختگی سے بہت بڑی بات کہہ کر اتنی ہی فطری بے نیازی سے آگے
بڑھ جانا ان کی ذات اور شاعری دونوں ہی میں پورے توازن کیساتھ نظر آتے ہیں.میرے لیے زیادہ طمانیت کی بات یہ ہے کہ وہ جتنے اچھے شاعر ہیں اتنے ہی اچھے اور
دلنواز انسان بھی ہیں.(فرحت عباس شاہ)
مبارک صدیقی جب اپنے خوبصورت اشعار سناتے ہوئے مسکرارہا ہوتا ہے تو
نہ جانے مجھے کیوں لگتا ہے کہ وہ کوئی غم چھپا رہا ہے.اسکی شاعری کی آنکھوں میں
آنکھیں ڈال کے دیکھئے تو آپ کو بھی ایسا ہی لگے گا.مبارک صدیقی دل سے شعر کہتا
ہے جو سیدھے دلوں میں ترازو ہو جاتے ہیں.(عبد الکریم قدسی)
مبارک صدیقی ایک خوبصورت اور بھر پور شاعر ہے جو غزل بھی خوب کہتا ہے
اور نعت بھی بہت خوب کہتا ہے.مجھے لندن میں اس محبت کرنے والے نوجوان
جذبوں کے شاعر سے مل کے بہت خوشی ہوئی ہے.“ (انور مسعود )
66
16
Page 17
انگریزی زبان کے ماحولیاتی طلسم میں اردو سخن گوئی کا جادو جگانا اور کرب و
طرب کے اظہار کو اپنا نا کوئی معمولی فن نہیں ہے لیکن مبارک صدیقی نے کمال
خوبصورتی کے ساتھ اپنے خوبصورت کلام میں یہ جادو جگایا ہے.(مبارک احمد عابد )
مبارک صدیقی صاحب کا کلام جب بھی نظر سے گزرا اچھا لگا.(امجد اسلام امجد)
مبارک صدیقی خوبصورت لب و لہجے کے شگفتہ گو شاعر ہیں.(رشید قیصرانی)
مبارک صدیقی صرف شاعر ہی نہیں بلکہ مجسم مشاعرہ ہے.( چوہدری محمد علی مضطر )
00
17
Page 18
حمد
منزل بھی تیری ذات ہے اور ہمسفر بھی تو
مولا مرا چراغ تو شمس و قمر بھی تُو
طول شب فراق میں نُورِ سحر بھی تُو
نیلم بھی تو، زمرد و لعل و گہر بھی تو
نظر بھی تو ہی تو مد نظر بھی تو
حد
مولا مرے ادھر بھی تو میرے اُدھر بھی تُو
منزل بھی تیری ذات ہے اور ہمسفر بھی تُو
18
Page 19
جلوے ترے ہزار ہیں کوہ و دمن کے پیچ
تنتلی بہار پھول کی صورت چمن کے پیچ
سنبل گلاب و لالہ و سرو وسمن کے پیچ
رنگ و گل و بہار کی ہر انجمن کے پیچ
کرتا ہے ڈال ڈال یہاں باشمر بھی تو
منزل بھی تیری ذات ہے اور ہمسفر بھی تُو
تو وہ ہے جو کہ خاک سے خوشبو نکال دے
پھولوں کو رنگ روپ دے اور بے مثال دے
اک گن سے کہکشاؤں کو رستے پہ ڈال دے
اک دو نہیں ہزار جو سورج اُچھال دے
وہ بے مثال و با کمال و با ہنر ہے تو
منزل بھی تیری ذات ہے اور ہمسفر بھی تو
19
Page 20
مولا میں بے قرار ہوں اور چشم تر ہوں میں
اندھا سا اک فقیر سر رہگزر ہوں میں
سنتا ہوں تیری چاپ جدھر بس اُدھر ہوں میں
بخشش کی بھیک مانگتا پھرتا ادھر ہوں میں
میرے خیال و خواب سے ہے باخبر بھی تو
منزل بھی تیری ذات ہے اور ہمسفر بھی تُو
مولا وہ بھیک دے جو کرے باشمر مجھے
جانے دے بے حساب ہی اور خاص کر مجھے
اپنے کرم سے کر وہ عطا چشم تر مجھے
دھو کر مرے گنہ جو کرے معتبر مجھے
دشت طلب میں ایک مرا راہبر بھی تُو
منزل بھی تیری ذات ہے اور ہم سفر بھی تُو
20
Page 21
اس سے مانگ کے دیکھ کبھی
اُس سے مانگ کے دیکھ کبھی ، اے مور کھ سے انسان
جو کہ جل تھل کر سکتا ہے، پیاس کے ریگستان
جس خورشید کو دیکھ کے پگھلیں، برف کے بلتستان
جس کا وصل مٹا دیتا ہے، ہجر کے راجستھان
ساری دنیا چھوڑ چھاڑ کے، اُس سے جاکے مل
رو رو اپنا حال سنا، اور رکھ قدموں میں دل
پاؤں اُس کے پڑ کے کہنا، اے نوروں کے نور
جس نے کاٹے کشٹ ہزاروں، میں ہوں وہ مزدور
گرتے پڑتے آیا ہوں، میں گھائل کچور و چور
کر دے گھپ اندھیرے مجھ سے ، میلوں صدیوں دور
21
Page 22
بخش دے مجھ کو، دیکھ نہ میرا نامہ اعمال
میرے ہاتھ نہ پہلے کچھ بھی، ایسا ہوں کنگال
دُکھ کے ببر شیر ہیں پیچھے، بن جا میری ڈھال
پھر نہ دنیا مڑ کے دیکھوں، ایک نظر وہ ڈال
تیرے ہاتھ میں بخشش کے ہیں، اربوں بحرِ ہند
رحمت کا اک چھڑک وہ قطرہ، جی اُٹھے یہ چند
22
22
Page 23
ہجر کی کالی رات میں اُٹھ کر دل کے دیپ جلا
ہجر کی کالی رات میں اُٹھ کر دل کے دیپ جلا
آنکھ کے مر جانے سے پہلے آنسو چار بہا
نفس کے کالے جادوگر سے جلدی جان چھڑا
اُس کی یاد میں ایسے رو کہ ہستی جائے ہل
وقت نکال کسی دن تھوڑا اپنے آپ سے مل
تنہائی میں بیٹھ کسی دن خود سے مانگ حساب
کتنے تونے خار بچنے ہیں کتنے پھول گلاب
دو آنکھوں میں پال لئے ہیں تو نے دو سو خواب
تو نے خود کو جان لیا ہے شاید سب سے تیز
وقت کی دیمک چاٹ گئی ہے رستم اور چنگیز
23
Page 24
بات سمجھنے والی ہے اس دل کو یہ سمجھا
جیسے تیسے ہو سکتا ہے جا کے یار منا
آنکھ کے آنسو، پیر کے چھالے، دل کے زخم دکھا
اُس سے کہنا، کیا کہنا ہے، کیا میری اوقات
کر دے مجھ پہ اپنے پیار کے رنگوں کی برسات
24
24
Page 25
نعتیہ کلا
بات ایسی کہ خوشبوی آنے لگے
نام ایسا کہ دل جگمگانے لگے
کام ایسے کہ روح گنگنانے لگے
حسن ایسا چمن مُسکرانے لگے
بات ایسی کہ خوشبو سی آنے لگے
اور چہرہ کہ جیسے ہو
ماه تمام
عليك الصلوة عليك السلام
25
25
Page 26
وہ
لطافت تھی
جیسے کہ آذان ہو
وہ حلاوت تھی جیسے کہ قرآن ہو
وہ
ہو
طراوت تھی جیسے گلستان
وہ سخاوت تھی
ت تھی جیسے کہ طوفان ہو
وہ محبت کہ عاشق ہوئے خاص و عام
عليك الصلوة عليك السلام
اُنکے آتے ہی موسم بدلنے لگے
پھول شاخوں
اپنی مچلنے لگے
دل کے پتھر دعا سے
پگھلنے لگے
جاں بلب لوگ پھر
سے سنبھلنے لگے
مسکرا کے فرشتوں نے بھیجے سلام
عليك الصلوة عليك السلام
26
Page 27
اُن کو دیکھا تو اُن پہ فدا ہو گئے
بت پرستوں سے وہ با خدا ہو گئے
اُنکے در کے گدا بادشاہ ہو گئے
لوگ مٹی کے وہ
بن
وہ کیمیا
کیمیا ہو گئے
گئے سیدی ایک حبشی غلام
عليك الصلوة عليك السلام
بے سہاروں کا وہ آسرا بن گئے
بیقراروں کے دل کی صدا بن گئے
درد
دیکھا جہاں بھی دوا بن گئے
عین گرداب میں ناخدا بن گئے
عشق ایسا کیا، کہہ اُٹھے وہ
تمام
عليك الصلوة عليك السلام
27
Page 28
نعت
پیار کیسے ہو گیا یہ واقعہ سے مختصر
اہل دنیا کو نجانے اور کیا اچھا لگا
اہل دل کو بس محمد مصطفی " اچھا لگا
روشنی
جان دینے پھر پتنگے آگئے
شب گزیدہ قوم کو روشن دیا اچھا لگا
درد کے صحرا میں بارش وصل کی جل تھل ہوئی
ہجر کے ماروں کو موسم وہ بڑا اچھا لگا
جس نے اُس کے ہاتھ چومے، خود بھی خوشبو ہو گیا
اہل دل کو عشق کا یہ معجزہ اچھا لگا
28
Page 29
پیار کرنا جرم ہے تو سُن زمانے غور سے
وہ
ہمیں تھوڑا نہیں بے انتہا اچھا لگا
اُسکی خاطر زخم جو آئے وہ سارے پھول تھے
اُسکے کوچے تک ہمیں ہر کربلا اچھا لگا
پیار کیسے ہو گیا واقعہ ہے
ہم دکھی تھے اور ہمیں دکھ آشنا اچھا لگا
مختصر
عشق بھی کیا چیز ہے اب کیا بتائیں دوستو
جو بھی اُس تک لے گیا، وہ راستہ اچھا لگا
کیا عجب، روز قیامت وہ مبارک یہ کہیں
میرے اس شاعر نے اُس دن جو کہا اچھا لگا
29
29
Page 30
کمال یہ ہے
خزاں کی رُت میں گلاب لہجہ بنا کے رکھنا، کمال یہ ہے
ہوا کی زد دیا جلانا، جلا کے رکھنا، کمال یہ ہے
ذرا سی لغزش پہ توڑ دیتے ہیں سب تعلق زمانے والے
ایسے ویسوں سے بھی تعلق بنا کے رکھنا، کمال یہ ہے
کسی کو دینا یہ مشورہ کہ وہ دُکھ بچھڑنے کا بھول جائے
اور ایسے لمحے میں اپنے آنسو چھپا کے رکھنا، کمال یہ ہے
خیال اپنا مزاج اپنا، پسند اپنی کمال کیا ہے؟
جو یار چاہے وہ
وہ حال اپنا بنا کے رکھنا، کمال یہ ہے
30
30
Page 31
کسی کی رہ سے خدا کی
رہ سے خدا کی خاطر، اٹھا کے کانٹے ، ہٹا کے پتھر
پھر اس کے آگے نگاہ اپنی جھکا کے رکھنا، کمال یہ ہے
وہ جس کو دیکھے تو دُکھ کا لشکر بھی لڑکھڑائے، شکست کھائے
لبوں پہ اپنے وہ مسکراہٹ سجا کے رکھنا، کمال یہ ہے
ہزار طاقت ہو، سو دلیلیں ہوں پھر بھی لہجے میں عاجزی سے
ب کی لذت، دُعا کی خوشبو بسا کے رکھنا، کمال یہ ہے
ادب
31
Page 32
دُعا میں التجا نہیں تو عرض حال مستر د
دُعا میں التجا نہیں تو عرض حال مسترد
سرشت میں وفا نہیں تو جمال مستر و
ادب نہیں تو سنگ و خشت ہیں تمام ڈگریاں
جو حُسنِ خُلق ہی نہیں تو سب کمال مُسترد
عبث ہیں وہ ریاضتیں، جو یار نہ منا سکیں
وہ ڈھول تھاپ بانسری وہ ہر دھمال مسترد
کتاب عشق میں یہی لکھا ہوا تھا جا بجا
خیالِ یار کے ہر اک خیال مسترد
32
Page 33
کہو، شنو، میلو مگر بڑی ہی احتیاط سے
مٹھاس بھی تو زہر ہے جو اعتدال مسترد
وہ شخص آفتاب ہے میں اک چراغ گج ادا
سو اُس حسیں کی بزم میں میری مجال مسترد
تو کیا کوئی گلاب ہے؟ حسین میرے یار سے
وہ لاجواب شخص ہے، سو یہ سوال مُسترد
بچھڑ کے ایک شخص سے، لہو لہو ہے دل مگر
رضائے یار اس میں ہے تو پھر ملال مُسترد
میں معترف تو ہوں ترا مگر اے چاند معذرت
کہ ذکر حسنِ یار میں تری مثال مُسترد
حساب عمر دیکھ لو کہ پھر پل صراط پر
یہ نفس کے اگر مگر، فریب چال مسترد
33
Page 34
کوئی ایسا جادوٹو نہ کر
کوئی ایسا جادو ٹونہ کر
مرے عشق میں وہ دیوانہ ہو
یوں اُلٹ پلٹ کر گردش کی
میں شمع تو وہ پروانہ ہو
ذرا دیکھ کے چال ستاروں کی
کوئی زائچہ کھینچ قلندر سا
کوئی ایسا جنتر منتر پڑھ
جو کر
بخت سکندر سا
کوئی چلہ ایسا کاٹ کہ پھر
کوئی اسکی کاٹ نہ کر پائے
کوئی ایسا دے تعویذ مجھے
وہ مجھ پر عا
عاشق
ہو جائے
34
Page 35
کوئی فال نکال کرشمہ گر
مری رہ میں پھول گلاب آئیں
کوئی پانی پھونک کے دے ایسا
وہ پئے تو میرے خواب آئیں
کوئی ایسا کالا جادو کر
جو جگمگ کردے دن میرے
وہ
کہے مبارک جلدی آ
اب جیا نہ جائے بن تیرے
کسی ایسی
ره
پہ ڈال مجھے
جس ره
رہ سے
کوئی تسبیح
وہ دلدار ملے
دم
درود
بتا
جسے پڑھوں تو میرا یار ملے
35
Page 36
کوئی قابو کر بے قابو جن
کوئی
سانپ
نکال پٹاری سے
کوئی دھاگہ کھینچ پراندے کا
کوئی منکا اکشا دھاری سے
کوئی ایسا بول سکھا مجھ کو
وہ
سمجھے خوش گفتار ہوں میں
کوئی ایسا عمل کرا مجھ سے
وہ جانے، جان نثار ہوں میں
کوئی ڈھونڈھ کے وہ کستوری لا
اسے لگے میں چاند کے جیسا ہوں
جو مرضی میرے یار کی ہے
اسے لگے میں بالکل ویسا ہوں
36
Page 37
کوئی ایسا اسم اعظم پڑھ
جو اشک بہا دے سجدوں میں
اور جیسے تیرا دعوی ہے
محبوب ہو میرے قدموں میں
پر عامل رُک، اک بات کہوں
یہ قدموں والی بات ہے کیا؟
آنکھوں پر
محبوب تو ہے سر
مجھ پتھر کی اوقات ہے کیا
اور عامل سن یہ کام بدل
یہ کام بہت نقصان کا ہے
سب دھاگے اس کے ہاتھ میں ہیں
جو مالک گل جہان کا ہے
37
(1990)
Page 38
کوئی درد ہے جو ابھی دوا نہیں ہوسکا
کوئی درد ہے جو ابھی دوا نہیں ہو سکا
مگر
وہ بچھڑ گیا
جدا نہیں ہو سکا
ہے
کوئی ہے خلش جو کھٹک رہی ہے ابھی مجھے
کوئی شعر ہے جو ابھی بپا نہیں ہو سکا
وہ ملے اگر تو اسے کہوں اے گلاب شخص
کوئی تجھ سا کیا تری خاک پا نہیں ہو سکا
ترے بعد پھر میری موسموں سے بنی نہیں
ترے بعد میں کبھی پھر ہرا نہیں
ہو سکا
38
Page 39
سرِ بزم ہیں یہی تذکرے کہ بڑا ہوں میں
مرا جرم ہے کہ میں بے وفا نہیں ہو سکا
کسی اور شب میں سناؤں گا یہ غزل تمہیں
ابھی آنکھ نم، ابھی دل دعا نہیں ہو سکا
ترے عشق میں کوئی جاں بھی لے، تو بھی جانِ جاں
میں یہی کہوں گا کہ حق ادا نہیں ہو سکا
39
(2009)
Page 40
وہ
وہ شاعری ہے
وہ بات جس سے دُکھا ہوا دل قرار پائے، وہ شاعری ہے
جو ہجرتوں میں وصال رُت کی خبر سنائے، وہ شاعری ہے
جس کوشن کر اُداس بلبل کی زندگی میں ترنگ جاگے
وہ جس کو پڑھ کر اُجاڑ آنکھوں میں خواب آئے ، وہ شاعری ہے
شکست جس سے خدا ہو راضی، ہزار بہتر ہے جیتنے سے
سو چال ایسی جو خود ہی اپنوں سے ہار جائے ، وہ شاعری ہے
دُعا کی لو سے گداز ہو کر، وہ آگہی کا امر سا لمحہ
جو اشک بن کر اُداس آنکھوں میں جگمگائے ، وہ شاعری ہے
وہ جس کے ہاتھوں کے لمس سے خود گلاب خوشبو ادھار مانگیں
وہ اپنے ہاتھوں سے جو بنا کر پلائے چائے ، وہ شاعری ہے
40
Page 41
وہ سبز موسم جو شہر دل کے تمام رستوں میں رنگ بھر دے
وہ خواب جس میں کہ جانِ جاناں گلے لگائے ، وہ شاعری ہے
وہ ایک صورت جو دکھ کے دریا میں غم کی لہروں سے لڑ رہی ہو
تو اس کو ناؤ مدد کو آتی نظر جو آئے، وہ شاعری ہے
جو کوئے دلبر کو جانے والے قدم قدم پر دئے جلائے
جو بزمِ جاناں میں بیٹھنے کا ادب سکھائے، وہ شاعری ہے
یہ ہجر یاراں کے تذکرے بھی تو شاعری ہیں، مگر مبارک
جو تپتے صحرا میں بارشوں کی نوید لائے، وہ شاعری ہے
41
Page 42
ستارہ بن کے رہو یا کسی دیئے میں رہو
ستارہ بن کے رہو یا کسی دیئے میں رہو
کسی بھی رنگ میں جگمگ سے سلسلے میں رہو
ہر ایک عزت و رفعت ہے خاکساری میں
سو چاند چھو کے بھی مٹی سے رابطے میں رہو
کسی کو دشت میں دریا کے روپ میں ملنا
کسی کی یاد کے شیریں سے ذائقے میں رہو
کسی کی آنکھ میں اُمید کا دیا بن کر
کسی اُداس سے چہرے کے قہقہے میں رہو
انا کی آگ میں کاٹو نہ قید تنہائی
حصار توڑ دو یا پھر محاصرے میں رہو
42
Page 43
نظام شمس و قمر دیکھ کر یہ جانا ہے
محبتوں میں بھی مخصوص دائرے میں رہو
ہزار بھیڑیے پھرتے ہیں کاٹ کھانے کو
سو عافیت ہے اسی میں، کہ قافلے میں رہو
نشاط وصل کے بس دو ہی تو ٹھکانے ہیں
خدا کے گھر میں رہو یا مشاعرے میں رہو
تو کیا عجب ہے کہ اسکی نگاہ پڑ جائے
سو دل بچھائے ہوئے اُسکے راستے میں رہو
یہ زندگی بھی مصائب سے جنگ ہے صاحب
سولشکری کی طرح تم بھی حوصلے میں رہو
وہ شخص جس سے ملے، مسکرا کے ملتا ہے
سو تم یونہی نہ مبارک مغالطے میں رہو
43
Page 44
اُداس کیوں ہو
تمہیں زمانے نے سکھ کے بدلے میں دُکھ دیا ہے ، اُداس کیوں ہو
یہ مسئلہ تو بہت سے لوگوں کا مسئلہ ہے، اُداس کیوں ہو
تمہیں بھی کانٹوں سے پیار کرنا نہ راس آیا تو کیا بنے گا
یہ راستہ تو گلاب لوگوں کا راستہ ہے، اُداس کیوں ہو
یہ کیا کہ ہر شام ریل گاڑی کو دیکھ کر سوگوار ہونا
وہی ہے منزل بچھڑنے والا جدھر گیا ہے، اُداس کیوں ہو
یہ میر، غالب، فراز، محسن، منیر، مضطر، فرید، وارث
ادب فروشوں نے ان نگینوں کو دُکھ دیا ہے، اُداس کیوں ہو
44
Page 45
تم اپنے دل کے لہو سے روشن محبتوں کے چراغ رکھنا
فصیل شب سے اُٹھیں گے سورج ، یہ طے شدہ ہے، اُداس کیوں ہو
وہ جس نے دل کے ہزار ٹکڑے کئے رقیبوں سے بات کر کے
بڑی محبت سے آ کے مجھ سے وہ پوچھتا ہے، اُداس کیوں ہو
جو دُکھ اُٹھا کے بھی مسکرائے گا، ایک دن کامیاب ہوگا
کتاب ہستی میں لکھنے والے نے لکھ دیا ہے، اُداس کیوں ہو
وکیل اُن کے، گواہ ان کے، یہ شہر ان کا، سپاہ ان کی
مگر مبارک یقین رکھنا، ابھی خدا ہے، اُداس کیوں ہو
45
45
Page 46
لوگ سب مل کے اگر دیپ جلانے لگ جائیں
لوگ سب مل کے اگر دیپ جلانے لگ جائیں
اے سیاہ رات ترے ہوش ٹھکانے لگ جائیں
ہم تو ہر دور میں خوشبو کے پیمبر ٹھہرے
ہم تو صحرا میں رہیں، پھول اُگانے لگ جائیں
وہ گلابوں سے ڈھلا شخص جو مل جائے مجھے
ساری دنیا کے میرے ہاتھ خزانے لگ جائیں
میں ہوں برباد مگر اس لئے چپ رہتا ہوں
یہ نہ ہو لوگ تیرا نام لگانے لگ جائیں
46
Page 47
حُسن دُنیا یہ تو کہہ دوں میں غزل لمحوں میں
تیری آنکھوں پہ لکھوں میں تو زمانے لگ جائیں
چاند چہرے کو نقابوں میں چھپا کر جاتا
یہ نہ ہو راہ میں دو چار ٹھکانے لگ جائیں
آج اشعار مرے، جن سے شکایت ہے انہیں
کیا خبر کل کو نصابوں میں پڑھانے لگ جائیں
ہم مبارک ہیں طبیعت کے بہت سادہ مزاج
دل جو ٹوٹے بھی تو بس شعر سنانے لگ جائیں
47
Page 48
غزل
میرے لئے جو آج سے تو غیر ہے تو خیر ہے
تیری خوشی اگر میرے بغیر ہے تو خیر ہے
میں تیرے بعد دُکھ کی کال کوٹھڑی میں قید ہوں
تو چاہتا ہے میں کہوں کہ خیر ہے تو خیر ہے
میں گھر چکا ہوں دشمنوں کی فوج میں تو کیا ہوا
مجھے خبر ملے کہ تو بخیر ہے تو خیر ہے
میں تجھ سے قتل ہو کے اس کو لکھ رہا ہوں خود کشی
تجھے زمانے پھر بھی مجھ سے بیر ہے تو خیر ہے
یہ اور بات ہے میں اس سے دُور جا کے رو پڑا
اُسے مگر کہا تھا یونہی خیر ہے تو خیر ہے
جو تو نہیں تو یار پھر بہشت کی کشش نہیں
جو تیرے ساتھ دشت کی بھی سیر ہے تو خیر ہے
یہ کم ہے کیا کہ لڑ رہا ہوں جنگ تیرے نام پر
لہو لہو بدن جو سر تا پیر ہے تو خیر ہے
48
Page 49
بہت بڑے ہو
ہزار سجدوں کے بعد بھی گھر جلا رہے ہو بہت بڑے ہو
کسی کے دل کو بنام مذہب دُکھا رہے ہو بہت بڑے ہو
وہی ہے رستم وہی ولی ہے جو نفس اپنے سے جیت جائے
شکست اپنے وجود سے ہی جو کھا رہے ہو بہت بڑے ہو
یہ خواب رنگت گلاب صورت ثواب باتیں شراب آنکھیں
یہ روز سڑکوں پہ حادثے جو کرا رہے ہو بہت بڑے ہو
سُنا ہے میں نے کہ جا کے حوروں کے کان بھرتے ہو میرے بارے
مری گزشتہ محبتوں کا بتا رہے ہو بہت بڑے ہو
49
Page 50
میں چاہتا ہوں وطن کے لوگوں کے نام خط میں پیام لکھوں
وطن فروشوں کو پھر سے رہبر بنا رہے ہو بہت بڑے ہو
وہی پٹاری وہی سپیرے وہی مداری وہی تماشے
تماش بینوں میں تم بھی تالی بجا رہے ہو بہت بُرے ہو
جھوٹ غیبت ہیں زہر قاتل یہ راستے ہیں ہلاکتوں کے
یہ زہر بچوں کو اپنے ہاتھوں سے کھلا رہے ہو بہت بڑے ہو
کہو مبارک یہ اہلِ شب سے کسی فسانے کسی غزل میں
یہ تم جو صبح ازل کی کرنیں چھپا رہے ہو بہت بڑے ہو
50
Page 51
کچھ دل کو ہیں آزار، ذرا اور طرح کے
کچھ دل کو ہیں آزار، ذرا اور طرح کے
کچھ وہ بھی ہیں غمخوار، ذرا اور طرح کے
کچھ حُسن مسیحا بھی زمانے سے الگ ہے
کچھ ہم بھی ہیں بیمار، ذرا اور طرح کے
ہم لوگ محبت میں سیاست نہیں کرتے
ہم لوگ ہیں دو چار، ذرا اور طرح کے
یوں خواب نہ بیچو کہ یہاں شہر جفا میں
بیٹھے ہیں خریدار، ذرا اور طرح کے
51
Page 52
انصاف تو کہتا ہے کہ قاتل کو سزا ہو
منصف ہیں مجھدار، ذرا اور طرح کے
محشر میں ہمیں بخش دیا اُس نے یہ کہہ کر
ہوتے ہیں گناہ گار، ذرا اور طرح کے
سنتے ہیں مبارک کو کوئی چوٹ لگی ہے
کہتا ہے وہ اشعار، ذرا اور طرح کے
52
52
Page 53
کوئی غیبی ہاتھ سہارا ہو گیا تو
کوئی غیبی ہاتھ سہارا ہو گیا تو
زرے جیسا شخص ستارہ ہو گیا تو
میں تو تیری آنکھیں دیکھ کے ڈولتا ہوں
سوچ اگر تو میرا سارا ہو گیا تو
اتنے پیار سے مت دیکھو اے جانِ جاں
میں اللہ کو یونہی پیارا ہو گیا تو
یوں بھی اب آنکھوں کا
پرده
ایسی عمر میں عشق دوبارہ ہو گیا تو
دہ لازم ہے
53
Page 54
میں دریا سے لگ کر رونا چاہتا ہوں
اشکوں
سے دریا انگارا ہو
گیا تو
دنیا داری کی سڑکوں پر گم لوگو
چلتے چلتے سُرخ اشارہ ہو گیا تو
ممکن
ہے میں اس حیرت سے مر جاؤں
میرا تیرے بعد گزارہ ہو گیا تو
دنیا میں نقصان مبارک ہوتے ہیں
روز محشر سوچ خسارہ ہو گیا تو
54
54
Page 55
کبھی یقیں یہاں وہاں
کبھی یقیں یہاں وہاں کبھی گماں اِدھر اُدھر
نہ یوں کروں محبتوں کو رائیگاں اِدھر اُدھر
سنا ہے وہ بچھڑ کے بھی نہال ہے، کمال ہے
میرے لئے تو ہو گئے ہیں دو جہاں اِدھر اُدھر
اُسے خبر تھی اُس کے ساتھ میرا نام آئے گا
سو کر گیا وہ درمیاں سے داستاں اِدھر اُدھر
میں اس لئے بھی عمر بھر نہ دل کی بات کہہ سکا
کھڑے ہوئے تھے راہ میں فلاں فلاں اِدھر اُدھر
میں چشم نم فگار پا، شکستہ دل دُعا دُعا
وہیں کھڑا ہوں مڑ گیا تھا وہ جہاں اِدھر اُدھر
55
Page 56
جانتا نہیں ہے اس کے بعد کی قیامتیں
کہ اس کے بعد ہو چکی ہے کہکشاں اِدھر اُدھر
میں کامیاب تھا تو یار لوگ میرے ساتھ تھے
میں لٹ گیا تو ہو گئے وہ مہرباں اِدھر اُدھر
لہو لہو سہی مگر میں بزم یار میں تو ہوں
گزر گئے جو راہ میں تھے امتحاں اِدھر اُدھر
خدا کو مانتے نہیں جو لوگ کون لوگ ہیں
کہ اس کی ذات کے ہزار ہیں نشاں اِدھر اُدھر
56
Page 57
تم سے
کیا چھپانا ہے
دولت قناعت ہے
عشق کا خزانہ ہے
ان گنت سی خوشیاں ہیں
دل بھی شاعرانہ ہے
دُکھ بھی کم نہیں لیکن
انکا کیا بتانا
ہے
تم
کیا چھپانا ہے
دل کو بزمِ جاناں میں
بیٹھنے
مطلب ہے
ایک چاند چہرے کو
دیکھنے
مطلب ہے
شاعری اضافی ہے
تم
تو اک بہانہ ہے
کیا چھپانا ہے
57
Page 58
خواب سرا
دوست ہیں گلابوں سے
ہر جگہ نہیں کھیلتے
وقت
کم نہیں لیکن
نہیں ملتے
پر
وہ بھی میرے جیسے ہیں
کیا کریں زمانہ ہے
تم سے کیا چھپانا ہے
راہ میں
سمندر
ہو
یا کہ دُکھ کا صحرا ہو
برف کا جزیرہ ہو
یا لہو کا دریا ہو
تم
ے بچھڑنے والے بس
ملنے آنا ہے
تم سے کیا چھپانا ہے
58
Page 59
عارضی سرائے
ہجرتیں تو ہونی تھیں
گھر مرا تھا مٹی کا
بارشیں تو ہوئی تھیں
بات مختصر سی ہے
بات صوفیانہ
ہے
تم سے کیا چھپانا ہے
خواب ہیں جو دنیا کے
دل کے یہ دلا سے ہیں
چار اشک سجدوں کے
یہ مرے اثاثے ہیں
بس یہی کہانی تھی
بس یہی فسانہ ہے
تم سے کیا چھپانا ہے
59
Page 60
60
60 میرے پیشرو جو تھے
چھاؤں سے، شجر سے تھے
کیا خبر تھی مٹی پر
لوگ وہ گہر سے تھے
جا ملے ستاروں سے
اب
مجھے بھی جانا ہے
تم
کیا چھپانا ہے
○
Page 61
مجھے بہشت بھی جانا نہیں تمہارے بغیر
میں صاف صاف یہ کہتا ہوں استعارے بغیر
مجھے بہشت بھی جانا نہیں تمہارے بغیر
تو اُس کو چاہئے جا کر دکانداری کرے
و شخص
جو چاہتا ہو عشق بھی خسارے بغیر
سند بھی چاہتے ہو اور امتحاں سے گریز
سحر کی آرزو رکھتے ہو شب گزارے بغیر
وہ حسن ہے کہ فسانہ طلسم ہوش ربا
وہ جاں نکالتا ہے، وہ بھی جاں سے مارے بغیر
میں اس لئے بھی دُعا پر یقین رکھتا ہوں
کہ تم بھی سُنتے کہاں ہو مری، پکارے بغیر
61
Page 62
اب اس سے بڑھ کے محبت کی کیا گواہی دوں
کہ تجھ سے عشق کیا وہ بھی استخارے بغیر
تو کیا یہ کم ہے کرامت، کہ جان لیتا ہوں
رضائے یار کو میں یار کے اشارے بغیر
چلو کچھ ایسا کریں دونوں جیت جائیں ہم
یہ جنگ ختم ہو وہ بھی کسی کے ہارے بغیر
قدم قدم پہ تیری بس تیری ضرورت ہے
میں مُشتِ خاک ہوں مولا تیرے سہارے بغیر
کمال
یہ ہے مبارک کو بھی ملے اعزاز
کسی بھی اور کی دستار کو اُتارے بغیر
29
62
Page 63
سخنوروں کے شہر میں
سخنوروں کے شہر میں، وہ شاہ سخن کمال است
گلاب تو ہزار ہیں، وہ گل بدن کمال است
مرے لئے وہی تو ہے ،متاعِ جاں جمالِ زیست
سنو اگر نہیں ہے وہ، مرے لئے جہان نیست
سُنو گے اس کی گفتگو، کہو گے بات ختم شد
ملے جو آفتاب سے، کہو گے رات ختم شد
یونہی عطا نہیں ہوا، اسے مقام دلبری
دکھاؤ تو سہی مجھے، کرے جو اُس کی ہمسری
اُسی یہ جاں فریفتہ، یہ دل بصد نیاز ہے
دُعا دُعا سا شخص وہ، جو سرتا پا نماز ہے
63
Page 64
اے شاہ گل مرے لئے ، تری رضا ہے تاج و تخت
یہی ہے میری داستاں، یہی ہے میری سرگزشت
تو پیار سے جو دیکھ لے، تو ساغر و شراب کیا
ہو محو گفتگو جو تو، تو نغمہ و رُباب کیا
ہو
دلم در فراق تو، جوں طفل اشکبار
اذاں کے انتظار میں، جوں گوش روزہ دار ہو
اگر ملے نہ یار تو، گهر تمام سنگ و خشت
کہ عاشقوں کے واسطے، وصالِ یار ہے بہشت
سدا رہے تو شادماں، گلاب سے اے دلبرم
میں اپنا حال کیا کہوں، میں جان و دل سے تو شدم
64
Page 65
ہم نہیں وہ لوگ جو پتھر اٹھا کر ماردیں
ہم نہیں وہ لوگ جو پتھر اُٹھا کر مار دیں
ہیں وہ، جو رات کو سورج دکھا کر مار دیں
دشمن جاں تیری خاطر زہر کیوں لائیں گے ہم
تیرے جیسے چار ہم، غزلیں سنا کر مار دیں
آسماں سے حکم آئے تو ابابیلوں کے جھنڈ
ہاتھیوں کی فوج کو کنکر گرا کر مار دیں
آپ یوں ہی قتل کا الزام اپنے سر نہ لیں
آپ بس دیکھیں ہمیں اور مسکرا کر مار دیں
آئینے یہ بانٹتا ہے یہ بھی دہشت گرد
آؤ اس پر کفر کا فتویٰ لگا کر مار دیں
دشمنی میں بھی ادب آداب کے قائل ہیں ہم
نہیں کوفہ کے وہ، جو گھر بلا کر مار دیں
لوگ ایسے بھی مبارک آ گئے ہیں شہر میں
دھوپ سے چھاؤں میں لائیں اور لاکر مار دیں
ہے
65
Page 66
وہ خوبصورت
اُداس لوگوں کو جو خوشی کی خبر سنائے وہ خوبصورت
جو خود دُکھی ہو مگر کسی کا نہ دل دُکھائے وہ خوبصورت
یہ پیٹر اک دن کئی پرندوں مسافروں کو امان دیں گے
یہ سوچ کر جو اجاڑ رہ میں شجر لگائے وہ خوبصورت
محبتوں میں، عداوتوں میں، مقابلوں میں، عدالتوں میں
خدا کی خاطر جو دوسروں سے شکست کھائے وہ خوبصورت
میں روزِ محشر نظر جھکائے یہ منہ چھپائے لرز رہا تھا
صدا یہ آئی کہ اپنی ہستی جو یوں مٹائے وہ خوبصورت
66
60
Page 67
گلاب رنگت، شباب عارض، شراب آنکھیں، بڑی عطا ہیں
وہ ایسا جو نیکیوں میں قدم بڑھائے وہ خوبصورت
یہ کیا غضب ہے کہ سال بھر میں وہ ایک دن ہی منا رہے ہیں
ہر ایک دن کو محبتوں کا جو دن منائے وہ خوبصورت
میں مانتا ہوں میں جانتا ہوں میں کہہ رہا ہوں میں لکھ رہا ہوں
کسی کی بیٹی کا عمر بھر جو نہ دل دکھائے وہ خوبصورت
وہ جس کے آنے سے زندگی میں بہار آئے گلاب ہے وہ
گلاب لوگوں کو جو بھی اپنی غزل سنائے وہ خوبصورت
جو اپنے محسن کو یاد رکھے وہ با وفا ہے مگر مبارک
جو کر کے نیکی خدا کے بندوں سے بھول جائے وہ خوبصورت
40
67
Page 68
ابھی وہ لوگ باقی ہیں
جو اپنے حادثوں کے دُکھ چھپائے مسکراتے ہیں
جو بنجر موسموں میں بارشوں کے گیت گاتے ہیں
جو کر کے ہاتھ زخمی راہ سے کانٹے اٹھاتے ہیں
وہ جن کے ہاتھ میں دیپک دُعا کے جھلملاتے ہیں
جو تتلی، پھول اور خوشبو کے موسم ساتھ لاتے ہیں
ابھی وہ لوگ باقی ہیں
جو اپنی ذات کی پر چھائی سے آگے نکل جائیں
کسی کی آنکھ کے آنسو ستاروں سے بدل جائیں
وہ جن کی مسکراہٹ دیکھ کر دیپک سے جل جائیں
وہ جن کا نام سُن کر خواب جگمگ سے مچل جائیں
وہ جن کو دیکھ کے سب درد کے سورج پگھل جائیں
ابھی وہ لوگ باقی ہیں
68
Page 69
جو اپنے نام سے انسانیت کو معتبر کر دیں
کسی کی شب گزیدہ زندگی مثل سحر کر دیں
محبت سے نگاہ ڈالیں تو ذروں کو گہر کر دیں
ملائیں ہاتھ وہ ایسے کہ خوشبو ہم سفر کر دیں
جو پتھر کھائیں، دیکھیں، مسکرائیں، درگزر کر دیں
ابھی وہ لوگ باقی ہیں
جو شہر بے وفا میں بھی کیا وعدہ نبھاتے ہیں
جو خود ناکام ہو کر بھی کسی کے کام آتے ہیں
جو بچھڑی گونج کو پھر ڈار سے واپس ملاتے ہیں
جو زخمی فاختہ کو گھونسلے تک چھوڑ آتے ہیں
اُسے تنہائیوں میں موت کے دُکھ سے بچاتے ہیں
ابھی وہ لوگ باقی ہیں
69
69
Page 70
وہ جن کے اپنے دل میں درد کے سیلاب ہوتے ہیں
مگر ان کی دعا میں سو ادب آداب ہوتے ہیں
وہ جن کے اپنے پاؤں میں کئی گرداب ہوتے ہیں
مگر وہ روح کی پاتال تک شاداب ہوتے ہیں
وہ ایسے لوگ جو ہر دور میں نایاب ہوتے ہیں
ابھی وہ لوگ باقی ہیں
70
Page 71
سرمئی شام ہے موسم ہے سہانا
شرمتی شام ہے موسم ہے سُہانا آ، نا
اس سے پہلے کہ میں ہو جاؤں فسانہ آ، نا
مجھ سے پہلے ہی کئی لوگ خفا رہتے ہیں
مجھ سے جل جائے ذرا اور زمانہ آ، نا
آخری جنگ میں لڑنے کیلئے نکلا ہوں
خواب لگتا ہے میرا لوٹ کے آنا آ، نا
دشمن جان سمجھتا اکیلا ہوں میں
ہے
میں نے دشمن کو بتانا ہے کہ نہ نہ آ، نا
اک تیر الحسن گلابوں سا غزل صورت ہے
اک یہ ساون کا مہینہ ہے سُہانا آ، نا
71
Page 72
روز کہتے ہو مجھے آج تو یہ ہے وہ ہے
آج دنیا سے کوئی کرکے بہانہ آنا
مسکراتا ہوں مگر ڈر ہے کسی محفل میں
اشک ہو جائیں نہ آنکھوں سے روانہ آ، نا
یہ جو معصوم سا شاعر ہے مبارک احمد
اس کا دنیا میں فقط تو ہے خزانہ آنا
72
Page 73
وصال یار کو جانا تو ہوکر باوضو جانا
وصالِ یار کو جانا تو ہو کر باوضو جانا
مجسم با ادب رہنا سراپا آرزو جانا
نگاہِ یار وہ شئے ہے جو ذرے کو بھی ذر کر دے
اٹھائے خاک سے اور شہر بھر میں معتبر کر دے
عقیدت کے جلائے دیپ اس کے روبرو جانا
وصالِ یار کو جانا تو ہو کر باوضو جانا
جو دانہ خاک میں ملنے کو بھی تیار ہوتا ہے
وہی اک دن گلابوں کی طرح گلزار ہوتا ہے
جو عاشق جان دینے کیلئے تیار ہوتا ہے
اسی کے بخت میں لکھا وصال یار ہوتا ہے
اگر دینا پڑے جاتے ہوئے دل کا لہو جانا
وصال یار کو جانا تو ہو کر باوضو جانا
73
Page 74
میں محبت کے بارے میں ویسے تو زیادہ نہیں جانتا
میں محبت کے بارے میں ویسے تو زیادہ نہیں جانتا
ہاں تجھے دیکھ کر اب کوئی جام و بادہ نہیں جانتا
دشمن جاں تجھے لے نہ ڈو میں کہیں تیری خوش فہمیاں
مجھے جانتا صرف آدھا ہے، آدھا نہیں جانتا
اب جو شطرنج میں مات کھائی ہے تو یاد آیا مجھے
قرب جتنے بھی ہوں شاہ کے دُکھ، پیادہ نہیں جانتا
بھاگ جانے کا جو مشورہ دے رہے ہیں انہیں یہ کہو
میری مرضی تو ہے پر میں اُس کا ارادہ نہیں جانتا
بات یوں ہے کہ میں اس لئے یار لوگوں سے پیچھے رہا
کیسے کرتے ہیں اپنوں سے بھی استفادہ نہیں جانتا
74
Page 75
جس کی خاطر زمانے سے پتھر پڑے، مجھ سے کہنے لگا
میں نے تم سے کیا تھا، کبھی کوئی وعدہ؟ نہیں جانتا
اک کہانی سنا بات جس میں محبت وحبت کی ہو
دنیا داری کی باتوں کو دل کا یہ سادہ نہیں جانتا
میں یونہی کوئے جاناں میں بیٹھا نہیں دل بچھائے ہوئے
اُس کی قربت کے سکھ کو کوئی شاہزادہ نہیں جانتا
عشق یہ ہے مبارک کہ مرشد کے قدموں میں گھر کے کہو
جو سکھایا ہے تُو نے مجھے اُس سے زیادہ نہیں جانتا
75
Page 76
مانا کہ وہ بھی آج تک مانا تو ہے نہیں
مانا کہ وہ بھی آج تک مانا تو ہے نہیں
ہم نے بھی اس کے شہر سے جانا تو ہے نہیں
رکھی ہے کوئے یار کی مٹی سنبھال کے
اس سے بڑا زمیں خزانہ تو ہے نہیں
کچھ لوگ تیرے شہر کے خنجر بدست ہیں
کچھ ہم نے باز عشق سے آنا تو ہے نہیں
کہتے ہیں لوگ ان سے کہو جاکے حال دل
اب ہم نے اپنی جان سے جانا تو ہے نہیں
خانہ بدوش لوگ ہم دنیا کا کیا کریں
دنیا سے لے کے ساتھ کچھ جانا تو ہے نہیں
76
Page 77
اک زخم زخم قوم سے درویش نے کہا
تم نے کسی کی بات کو مانا تو ہے نہیں
جرم وفا پہ لائے ہیں مقتل میں وہ ہمیں
اب ان کے پاس اور بہانہ تو
پاس اور بہانہ تو ہے نہیں
ملتے ہیں جس خلوص سے ہم ہر کسی کے ساتھ
یہ اس طرح کا زمانہ تو ہے نہیں
ویسے
کچھ اس لئے بھی آج تک روٹھے نہیں ہیں ہم
آکے ہمیں کسی نے منانا تو ہے نہیں
اپنا سنا کے حال اسے کچھ نہ پوچھنا
اس کم سخن نے کچھ بھی بتانا تو ہے نہیں
77
Page 78
سند رروپ اور چاندی رنگت
شند ر روپ اور چاندی رنگت لے بیٹھے گی
لگتا ہے اس بار محبت لے بیٹھے گی
اُس کے حسن کی لو سے دیپک جلتے ہیں
اُس کی مجھ پر خاص عنایت لے بیٹھے گی
دنیا تیسری عالمی جنگ سے خوفزدہ ہے
ہم جیسوں کو یار کی فرقت لے بیٹھے گی
اتنے وار سہوں گا اپنے دشمن کے میں
اُس کو میرے ضبط پہ حیرت لے بیٹھے گی
78
Page 79
وعدہ کرنا پھر کہنا، کیا! کون سا وعدہ؟
تیری یہ معصوم سی عادت لے بیٹھے گی
اس ڈر سے میں اچھا شعر نہیں کہتا ہوں
جانتا ہوں کہ زیادہ شہرت لے بیٹھے گی
کتنے دُکھ سے دیس مبارک چھوڑ دیا تھا
اب پردیس میں دیس کی چاہت لے بیٹھے گی
79
Page 80
مسلک کے نام پر لگی جنگوں سے تنگ ہوں
مسلک کے نام پر لگی جنگوں سے تنگ ہوں
میں مفتیوں کے روز کے فتووں سے تنگ ہوں
مولا یہ عشق وشق کے چکر سے جاں چھڑا
میں ایک چاند شخص کے خوابوں سے تنگ ہوں
اک یہ کہ اُس حسین کی آنکھیں شراب ہیں
پھر اُس کے روز روز کے وعدوں سے تنگ ہوں
بارش ہو دُکھ ہو ہجر ہو، آتے بہت ہیں یاد
میں اس لئے بھی فیض کے شعروں سے تنگ ہوں
آنکھوں میں اشک دیکھ کر پاتی ہے تو قرار
دنیا میں تیرے درد کے شوقوں تنگ
ނ
ہوں
80
Page 81
مجھے عزیز
لاہور میرا شہر ہے بے حد
لیکن میں اُس کی تنگ سی گلیوں سے تنگ ہوں
میں بادشاہ وقت کا کرتا ہوں احترام
میں بادشاہ وقت کے بندوں سے تنگ ہوں
دیکھا
ہے جب سے چاند سا چہرہ، میں کیا کہوں
دو چار دن تو کیا ، کئی ہفتوں
تنگ ہوں
کل اک شریف شخص نے روکا مجھے کہا
میں تیری ان عجیب سی غزلوں سے
تنگ ہوں
81
Page 82
اذیت ناک پنجرہ ہو چکا ہے
اذیت ناک پنجرہ ہو چکا ہے
که
اب زخمی
پرندہ ہو چکا ہے
مسلسل بارشیں بھی کیا کریں گی
کوئی اندر
سے صحرا ہو چکا ہے
میں بازاروں میں جا کر دیکھتا ہوں
بہت انسان ستا ہو چکا ہے
عیادت کو مری وہ رہے ہیں
انہیں کہہ دو
جنازه
ہو چکا ہے
محبت
دوستی
رشته
ڈھونڈو
یہاں تبدیل نقشه
ہو چکا ہے
82
Page 83
جہاں میں نے کہا تھا پھول بانٹو
وہاں مجھ پر ہی پرچہ ہو چکا ہے
مجھے جو بھی پسند آتی ہے
لڑکی
کہتی
وہ
ہے
کہ رشتہ ہو چکا ہے
کسی
کو کیا بتاؤں میں مبارک
کہ اس کے بعد کیا کیا ہو چکا ہے
(1990)
83
Page 84
دُعا کی لو سے دِیے میں جلانے والا ہوں
دُعا کی کو سے دیے میں جلانے والا ہوں
میں کوئے یار میں جاں بھی لٹانے والا ہوں
یہ پھول اُس نے مجھے بے سبب نہیں
میں اس کی راہ سے کانٹے اُٹھانے والا ہوں
مری نگاہ میں قطرہ بھی اک سمندر ہے
اے میرے دوست میں صحرا سے آنے والا ہوں
میں تیرے عشق میں دنیا تو چھوڑ دوں لیکن
میں اپنے گھر میں اکیلا کمانے والا ہوں
مرے قبیلے میں عہد و وفا ہی سب کچھ ہے
سو جان دے کے میں وعدہ نبھانے والا ہوں
84
Page 85
پھر اس سے کیا کہ مجھے کیا دیا ہے دنیا نے
مرا جو فرض ہے وہ میں نبھانے والا ہوں
نہ پوچھ مجھے.زمانے دُعا کی اُجرت کا
تری طرح میں کوئی دل دُکھانے والا ہوں
میں تیرے ہاتھ کی تحریر کیا کروں کہ تُو
مکر گیا تو میں کس کو دکھانے والا ہوں
کچھ اس لئے بھی زمانے تری مری نہ بنی
دل کا چین، میں آنسو چرانے والا ہوں
(2009)
85
Page 86
کچھ ایسے لوگ بھی دنیا میں پائے جاتے ہیں
کچھ ایسے لوگ بھی دنیا میں پائے جاتے ہیں
جو دُکھ اُٹھاتے ہیں اور مسکرائے جاتے ہیں
یہ آزمائشیں یوں ہی عطا نہیں ہوتیں
جو لوگ خاص ہوں وہ آزمائے جاتے ہیں
دعا سلام نہ حدِ ادب نہ عجز و خلوص
یہ میرے شہر میں اب کون آئے جاتے ہیں
عجیب لوگ ہیں شاعر بھی خدا جانے
کوئی سُنے نہ سُنے سنائے جاتے ہیں
86
Page 87
تو گل ملا کے مجھے بات یہ سمجھ آئی
جو دل گلاب ہوں وہ دِل دُکھائے جاتے ہیں
وہ
نکلتا
شخص صورت خورشید جب
ہے
تو رنگ و نور میں ہم بھی نہائے جاتے ہیں
اُسے بھی پیار ہے اُن سے جو دل شکستہ ہوں
سو اُس کی بزم میں ہم بھی بلائے جاتے ہیں
میرا یقین ہے یہ خامشی یہ گہرا سکوت
یہ لوگ خود نہیں آتے یہ لائے جاتے ہیں
87
Page 88
آنکھ ہے اشکبار ویسے ہی
آنکھ
دل
ہے
ہے اشکبار ویسے ہی
جانتا ہوں
کچھ بے قرار ویسے ہی
وہ آنے والا نہیں
پھر بھی ہے انتظار ویسے ہی
کوئی الزام ہو ہمیں دے
ہم
رو
ہیں بے شمار ویسے ہی
ہم بھی دشمن ضرور رکھتے ہیں
ایک
رو
تین چار ویسے ہی
88
Page 89
حال اس نے بھی یونہی پوچھا تھا
بھی روئے تھے یار ویسے ہی
ایسے دیکھا کرو نہ جانِ جاں
ایسے ہوتا ہے پیار ویسے ہی
کوئی تہوار
موقع
ہے
ہے
آ کے مل جاؤ یار ویسے ہی
آؤ کچھ دیر مسکرائیں ہم
دُکھ تو ہیں بے شمار ویسے ہی
89
Page 90
وہ اتنا پیارا ہے
اگر وہ سامنے آئے، وہ اتنا پیارا ہے
تو دل میں دیپ جلائے وہ اتنا پیارا ہے
،غزل، کہانی، گرامر، اُسے سلامی دیں
اگر
وہ اردو پڑھائے، وہ اتنا پیارا ہے
وہ لب کشا ہو تو غالب کرے قدم بوسی
گا میر بھی ”ہائے وہ اتنا پیارا ہے
فراز و فیض اُسے داد دیں مزاروں سے
وہ جب بھی شعر سنائے، وہ اتنا پیارا ہے
اُسی کے واسطے میں بن سنور کے سوتا ہوں
کہ کاش خواب میں آئے، وہ اتنا پیارا ہے
90
Page 91
گلاب اُسکے بدن سے ادھار لے خُوشبو
صبا گلے
سے لگائے وہ اتنا پیارا ہے
فلسف
وہ
جو بولے تو فرط حیرت سے
ارسطو سر کو کھجائے، وہ اتنا پیارا ہے
میں چاہتا ہوں کسی روز وہ خفا ہوکر
مجھے بھی چار ”سنائے“ وہ اتنا پیارا ہے
اسی کی بات کو میں آخری سند سمجھوں
اُسی کی ” رائے ہے رائے، وہ اتنا پیارا ہے
میں بھول جاؤں گا سارے بہشت کے منظر
وہ پاس بٹھائے، وہ اتنا پیارا ہے
اگر
میں چاہتا ہوں کسی روز برف باری ہو
اسے پلاؤں میں چائے وہ اتنا پیارا ہے
91
Page 92
وہ مسکرائے تو آداب" نظم کہتی ہے
غزل بھی پیر دبائے وہ اتنا پیارا ہے
وہ سنگ راہ بھی گوہر مثال ہوتا ہے
جسے وہ
ہاتھ لگائے
وہ اتنا پیارا ہے
وہ سامنے ہو تو پھر جی حضور، وہ، میں، نا
سمجھ میں کچھ بھی نہ آئے وہ اتنا پیارا ہے
92
Page 93
اُسے کچھ نہ ہو
اے میرے خدا مرے چارہ گر، اُسے کچھ نہ ہو
مجھے جاں سے ہے وہ عزیز تر ، اُسے کچھ نہ ہو
تیرے پاؤں پڑ کے دعا کروں سر دشت میں
جرے سر پہ ہے وہی اک شجر، اُسے کچھ نہ ہو
تیرے ایک گن سے ہیں موسموں کی یہ گردشیں
سو یہ حکم دے انہیں خاص کر، اُسے کچھ نہ ہو
وہ جو ایک پل تھا قبولیت کا مجھے ملا
تو کہا تھا خالق بحر و بر، اُسے کچھ نہ ہو
اے غنیم جاں چلو آج تجھ سے یہ طے ہوا
مجھے زخم دے بھلے عمر بھر، اُسے کچھ نہ ہو
یونہی بے سبب میں اُداس ہوں کئی روز سے
سو غزل کہی ہے یہ چشم تر، اُسے کچھ نہ ہو
○
93
Page 94
کسے ہجرتوں کا ملال ہے
کسے
ہجرتوں کا ملال
ہے
کے فرقتوں کا خیال ہے
جو گزر گئی تری یاد میں
شام وصال ہے
وہی
شام
میرا خواب تھا کسی روز تو
مری منتظر یوں
بہار
ہو
جو
اُٹھے
نگاہ جھکی ہوئی
میرے
روبرو رُخ یار
ہو
وہی یار کہ
وہ
جدھر چلے
وہاں روشنی کا
کا نزول
ہو
جو لکھے وہ حرف مجیب ہو
جو کرے دُعا
وہ
قبول
ہو
94
Page 95
وہ
شگفته گل کہ جسے چھوٹے
وہی
شاخ
سبز گلاب ہو
جسے سوچنے
کی جزا
ملے
دیکھنا
بھی ثواب
ہو
سے ہو گر شغف
اُسے شاعری سے
میرا
لہجہ مثل فراز
ہو
اُسے عابدوں سے ہو پیار تو
میری ہر قدم نماز
ہو
کبھی یوں بھی
یوں بھی ہو وہ مجھے کہے
تری سب دعائیں قبول ہیں
ترے رت جگے ہیں سنے گئے
ترے خار آج پھول ہیں
95
95
Page 96
کبھی یوں بھی ہو سر بزم وہ
کہے کہ غزل سنا
مجھے
میں غزل غزل میں اُسے کہوں
میرا کچھ نہیں
ہے
تیرے سوا
کوئی دم درود
وہ کر کے جو
مرے قلب و جاں کو نکھار دے
وہ دعا بھی دے مجھے پیار سے
مرے دو جہاں جو سنوار دے
96
Page 97
یہ دنیا ہے، یہاں پر داستانیں مار دیتی ہیں
یہ دُنیا ہے، یہاں پہ داستانیں مار دیتی ہیں
یہاں رسموں رواجوں کی چٹانیں مار دیتی ہیں
یونہی پردیس میں بیٹھے ہوئے اک دن خیال آیا
پرندوں کو بہت لمبی اُڑانیں مار دیتی ہیں
کئی غیروں کے میٹھے بول سُن کر جان پڑتی ہے
کئی اپنوں کی زہریلی زبانیں مار دیتی ہیں
تمہیں محبوب کی زلفوں کے بل جینے نہیں دیتے
ہمیں غالب کے مصرعوں کی اُٹھا نہیں مار دیتی ہیں
تری آنکھوں کی مستی دیکھ کر واعظ کی یاد آئی
وہ کہتا تھا شرابوں کی دکانیں مار دیتی ہیں
97
Page 98
یہاں پردیس میں بچے عجب سی کشمکش میں ہیں
یہاں جذبات کو دو دو زبانیں مار دیتی ہیں
مجھے مرتے ہوئے کہنے لگی حوا کی اک بیٹی
یہاں رشتے نبھانے کی تھکا نہیں مار دیتی ہیں
یہاں بیٹے ہی ہوتے ہیں حقیقی پیار کے وارث
اگرچہ بیٹیاں خدمت میں جانیں مار دیتی ہیں
مبارک ایک تو موضوع تمہارے جان لیوا ہیں
پھر اس پہ درد سے لبریز تانیں مار دیتی ہیں
98
Page 99
وہ بھی دشمن داری کل پر رکھنے والا نئیں
وہ بھی دشمن داری کل پہ رکھنے والا نہیں
میں بھی قول قرار سے پیچھے ہٹنے والا نئیں
دنیا تو بھی زخم لگانے میں ہے پختہ کار
میں بھی پتھر نیزے چھریاں گننے والا نئیں
تونے مجھ سے جیتنا ہے تو میٹھا بول کے جیت
تو نے خنجر پکڑا تو میں ہارنے والا نئیں
دنیا والے مجھے سے یوں بھی رہتے ہیں ناراض
میں لوگوں کو جھوٹے سپنے بیچنے والا نئیں
99
Page 100
کاش مجھے وہ چاند کہے، آمیرے پاس بھی بیٹھ
ویسے میں جو بیٹھ گیا تو اُٹھنے والا نہیں
اپنے رب سے کہتا ہوں میں اپنے سارے غم
میں لوگوں میں بیٹھ کے آنسو بیچنے والا نئیں
میں ہوں عشق قبیلے سے اور دُکھ میری میراث
مر سکتا ہوں، عشق مرا یہ مرنے والا نئیں
100
Page 101
دس ہیں میں مل جاتی ہے بازار سے خُوشبو
دس میں میں مل جاتی ہے بازار سے خُوشبو
بہتر ہے مگر آئے جو کردار سے خُوشبو
یہ دل تو عقیدت کے گلابوں سے دُھلا ہے
ہے اسے خاک رہ یار سے ، خُوشبو
آتی
وہ آنکھ جو دیکھے تو شرابوں کو نشہ ہو
ہاتھ جو چھو لے تو گنہ گار سے خوشبو
وہ
یہ کون گلابوں سا گزرتا ہے گلی سے
آئی ہے در و بام سے دیوار سے
خُوشبو
اک بار مجھے خواب میں وہ شخص ملا تھا
آتی ہے میرے آج بھی اشعار سے خوشبو
101
Page 102
عاشق کے لئے ہجر کا دریا ہو یا صحرا
جس پار ہے محبوب، اُسی پار سے خُوشبو
قاتل نے مٹائے ہیں نشاں میرے لہو کے
روتا ہے کہ جاتی نہیں تلوار سے خُوشبو
عطار سے قربت کا کرشمہ ہے مبارک
مٹی پہ بھی لکھتے ہو تو اشعار سے خُوشبو
102
Page 103
تو غم کیا ہے!
رضائے یار ہے جب انتہا تو غم کیا ہے
اگر جدائی ہے اُس کی رضا تو غم کیا ہے
مرا یہ دل یہ مری جان، سب اسی کا ہے
جو ایک زخم ہے اُس کی عطا تو غم کیا ہے
وصال یار کا رستہ ہے قتل گاہوں سے
تو آ گیا ہے اگر کر ہلا تو غم کیا ہے
پھر اس سے کیا کہ مقابل ہے کون صف آراء
جو میرے ساتھ ہے تیری دُعا تو غم کیا ہے
انہیں بھی شوق ہے کچھ دشمنی نبھانے کا
مجھے بھی ناز میں اہل وفا تو غم کیا ہے
103
Page 104
(2009) ابھی ہیں لوگ کچھ سقراط کے قبیلے
جو زہر خند ہے ظالم ہوا تو غم کیا ہے
یہ اور بات ہے یہ لکھ کے میں بہت رویا
وہ ہو گیا ہے اگر بے وفا تو غم کیا ہے
یہ بات طے ہے، امانت پہ حق نہیں ہوتا
خدا کی چیز خدا لے گیا تو غم کیا ہے
میں اس کے نام کی قسمیں اُٹھا کے کہتا ہوں
یہ امتحان ہے اس کی رضا تو غم کیا ہے
گلاب شخص وہ ملتا ہے مسکرا کے مجھے
جو سارا شہر ہے مجھ سے خفا تو غم کیا ہے
104
Page 105
دیپ بن کر جلو آخری سانس تک
دیپ بن کر جلو آخری سانس تک
مسکرا کر جیو آخری سانس تک
آج ہے
گر خزاں کل بہار آئے گی
قرض جتنے ہیں سارے اتار آئے گی
اس
یقیں
سے جیو آخری سانس تک
مسکرا کر جیو آخری سانس تک
زندگی
ہے پہاڑوں میں رستہ کڑا
ایک کو سر کرو دوسرا ہے
کھڑا
منزلوں کو چلو آخری سانس تک
مسکرا کر جیو آخری سانس تک
105
Page 106
موت اک راہگزر ہے در یار تک
ایک ابدی سے شاداب گلزار تک
موت سے نہ ڈرو آخری سانس تک
مسکرا کر جیو آخری سانس تک
زندگی کچھ نہیں ہے بجه امتحاں
یاں جو کوشش نہیں ہے تو سب رائیگاں
اپنی کوشش کرو آخری سانس تک
مسکرا کر جیو آخری سانس تک
عشق اور انکساری ہیں
وہ
کیمیا
جس سے مٹی کے سادھو بنے اولیاء
دعائیں کرو آخری سانس تک
سو
مسکرا کر جیو آخری سانس تک
○
106
Page 107
زندگی کم ہے
الفتوں کیلئے
عزتوں کیلئے چاہتوں کیلئے
سو محبت کرو آخری سانس تک
مسکرا کر جیو آخری سانس تک
107
Page 108
ڈوبتا جا رہا ہے دل میرا
آج پھر چال لڑکھڑائی ہے
میں گیا تھا طبیب
ملنے
اُس نے تیری کمی بتائی ہے
108
Page 109
غزل
عداوت میں خسارہ ہو گیا تو
اگر طوفاں کنارہ
ر گیا تو
اُسے جزوی ضرورت ہے کسی کی
اگر میں اس کا سارا ہو گیا تو
ضرورت ہے اسے یکجائیوں کی
میرا دل پارہ پارہ ہو گیا تو
میں پہلے عشق سے نالاں بہت ہوں
اگر مجھ کو دوبارہ ہو گیا تو
مجھے ملنا نہیں ہے دشمنوں سے
انہیں میں جاں سے پیارا ہو گیا تو
مجھے خیرات میں بخشش ملے گی
کوئی آنسو ستارہ ہو گیا تو
109
Page 110
کہہ نہیں
سکے مگر
بات صاف صاف ہے
آپ
ہمیں
حضور
عین شین قاف
ہے
110
Page 111
خواب سرا
نیا کی دل دُکھانے کی عادت نہیں گئی
اپنی بھی مسکرانے کی عادت نہیں گئی
ناراض ہو گئے ہیں کئی شب مزاج لوگ
میری دئے جلانے کی عادت نہیں گئی
اک میں کہ اس کے عشق میں دنیا کا نہ رہا
اک وہ کہ آزمانے کی عادت نہیں گئی
کچھ وہ غنیم جان بھی ہے مستقل مزاج
کچھ میری جاں سے جانے کی عادت نہیں گئی
آیا ہوں اپنے شہر کے لوگوں سے مل کے میں
اُن کی وہ دل چرانے کی عادت نہیں گئی
کانٹوں پہ چل کے بانٹتا رہتا تھا جو گلاب
کہتے ہیں اُس دِوانے کی عادت نہیں گئی
111
Page 112
وہ جسے میں نے دل و جان سے چاہا، آہا
وہ جسے میں نے دل و جان سے چاہا، آبا
اُس نے بھی ایک میرا شعر سراہا، آہا
کوچه یار کے آزار بھی سکھ ہوتے ہیں
اُس نے رکھا جو میرے زخم پہ پھاہا، آبا
کون ساقی ہے سرِ بزم شرابوں جیسا
میکده بول اُٹھا جھوم کے، آہا، آہا
وہ مجھے پھول اگر دے تو کدھر جاؤں گا
جسکا پتھر بھی پڑا تو میں کراہا، آہا
کل وہ کہتا تھا مجھے شعر بُرے لگتے ہیں
آج جوشن کے غزل کہتا ہے آہا، آہا
112
Page 113
اپنے اعمال جو دیکھوں تو تہی دامن ہوں
تیری بخشش کو جو دیکھوں تو الہا، آبا
مجھ سے پتھر کو بھی اک روز ستارہ کر دے
خاک سے پھول اُگاتا ہے تو شاہا، آہا
یار نے جو بھی کہا، دل نے کہا بسم اللہ
اس طرح عشق مبارک نے نباہا، آہا
113
Page 114
اچھا ہے سو وہ تنہا ہے
اچھا ہے سو وہ
سو وہ تنہا ہے، نئیں سمجھے؟
بھائی صاحب یہ دنیا ہے، نئیں سمجھے؟
منصف نے مقتول کو قاتل لکھا ہے
آج کے دور میں کیا مہنگا ہے؟ نئیں سمجھے؟
جس کے سامنے چاند بھی مدھم پڑ جائے
آپ کے سامنے وہ بیٹھا ہے نہیں سمجھے؟
اُس کے دشمن یونہی بڑھتے جاتے ہیں
آدمی شاید وہ سچا ہے، نہیں سمجھے؟
سورج سے بھی شاید رشتے داری ہے
تین
سو پینسٹھ دن جلتا ہے، نئیں سمجھے؟
114
Page 115
میرے دیس کو میلی آنکھ سے مت دیکھو
ہر بندہ لشکر جیسا ہے، نہیں سمجھے؟
اُس نے میری بات کو ہنس کر ٹال دیا
میں سمجھا تھا وہ سمجھا ہے، نہیں سمجھے؟
اُس کے بعد مسلسل موسم پت جھڑ ہے
بخت ڈھلیں سب ڈھل جاتا ہے، نہیں سمجھے؟
آخری سانس سے پہلے میں نے یہ جانا
ہر رشتہ سونے جیسا ہے، نئیں سمجھے؟
بچھڑے لوگ مبارک ڈھونڈتے پھرتے ہو
بھول بھلیاں اور صحرا ہے، نئیں سمجھے؟
115
Page 116
تو نہیں تو زندگی میں
تو نہیں تو زندگی میں اک کمی رہ جائے گی
اب جو دریا بھی ملا تو تشنگی رہ جائے گی
وقت بھر دے گا بظاہر زخم تیرے ہجر کے
عمر بھر آنکھوں میں لیکن اک نمی رہ جائے گی
ہم لہو کی آنچ پر جلتے ہوئے ایسے چراغ
بجھ گئے تب بھی ہماری روشنی رہ جائے گی
ہم اتر جائیں گے نیلے آسماں کی گود میں
زندگی اک دن ہمیں تو ڈھونڈتی رہ جائے گی
کوئے جاناں سے رہے گی اپنی نسبت عمر بھر
ہم نہیں ہوں گے ہماری شاعری رہ جائے گی
116
Page 117
مجھ سے پتھر نے بھی اک دن
مجھ سے پتھر نے بھی اک دن کیمیا ہونا ہی تھا
مل گیا تھا وہ مجھے، سو معجزہ ہونا ہی تھا
میں نے اس کی راہ میں رکھے تھے خوشبو کے چراغ
مرا اُس گلبدن
سے رابطہ ہونا ہی تھا
موسم پت جھڑ مجھے ایسے نہ حیرانی سے دیکھ
اُس نے دیکھا تھا مجھے، میں نے ہرا ہونا ہی تھا
وہ دعا کرتے ہوئے تھکتا نہ تھا، تھکتا نہ تھا
آسماں سے اُس کے حق میں فیصلہ ہونا ہی تھا
کل کوئی لفظ محبت سُن کے دُکھ سے رو پڑا
اور بھی دنیا میں مجھ سا دل دُکھا ہونا ہی تھا
117
Page 118
ایک دریا دشت کے اُس پار تھا ایسا کہ بس
دل کسی کے پیار میں سرشار تھا ایسا کہ بس
اور پھر وہ بھی گل و گلزار تھا ایسا کہ بس
ایک تو اُس قافلے میں لوگ تھے مہتاب سے
اور پھر وہ قافلہ سالار تھا ایسا کہ بس
آئینے رکھے ہوں جیسے چاندنی کے شہر میں
روبرو میرے وہ حسن یار تھا ایسا کہ بس
پوچھتے ہو دوست کیا احوال وصل یار کا
ایک دریا دشت کے اُس پار تھا ایسا کہ بس
وہ نظارہ تھا کہ آنکھیں روشنی سے ڈھل گئیں
صورت خورشید وہ دلدار تھا ایسا کہ بس
118
Page 119
مینڈھی گل گل پھل گلاب اے
سمینڈھی گل گل پھل گلاب اے، سمینڈھا مکھڑا دلنواز
میکوں جد جد سنیدھی یاد آوے، میں بھیج بھیج پڑہاں نماز
حمینڈھائسن وی قتل و غارت تے مینڈھا عشق وی حدوں پار
میں صدقے تھیواں سوہنیاں، تینڈے ملکھ توں سو سو وار
مینڈھی سوچاں سوچدے سوچدے انج کھلے میکوں راہ
میں چلیا ول بازار گوں تے پجیا وچ درگاہ
توں ٹوٹا چن دا سوہنٹریاں، میں گلی دا رُلدا لکھ
میکوں پچھن والا کائی نئیں، تینڈ ھے حُسن دے عاشق لکھ
کھلو
تینڈھی جگ مگ دیکھ کے ہک واری تے تارے جان
خورشید وی لگ لگ ویندا اے، تینڈ ھے مکھ دی چھل مِل لو
119
Page 120
تمینڈھی گل ہے امرت ایویں جیویں ٹپکے ٹپ ٹپ رس
بہن عناں ہزار میں بانسریاں، میکوں آندا کائی نیں چس
مینڈے سامنے بے پروائی نل جد ہس ہس گل کریناں
اس حدوں ودھ نمانے نوں سوؤں رب دی مار سٹیناں
اے دنیا چوکھی ڈاڈی
چوکھی ڈاڈی اے، اتھاں پل پل اے دشوار
بک دل ہے مینڈھا شیشے دا، اُتوں لوک نہیں وانگ لوہار
مینڈھے کھوٹے سکے رُل رل کے ہک روز کھرے ہو ویسن
توں ملیا میکوں جس دن، مینڈے بخت ہرے ہو ویسن
بک سکھی عشق صحیفے چوں میں سو گلاں دی گل
پئی دنیا لکھ تکلیفاں دے، رکھ قبلہ یار دے ول
120
Page 121
ریت پر نقش بناتے ہوئے تھک جاتے ہیں
ریت پہ نقش بناتے ہوئے تھک جاتے ہیں
خواب آنکھوں میں سجاتے ہوئے تھک جاتے ہیں
مہرباں کوئی نہیں شہر میں اک تیرے سوا
یوں تو ہم ہاتھ ملاتے ہوئے تھک جاتے ہیں
یوں ہی قبروں میں نہیں سوئے تھکے ہارے بدن
لوگ رشتوں کو نبھاتے ہوئے تھک جاتے ہیں
زندگی پیاس کا صحرا ہے، جہاں قید ہیں ہم
اور ہم پیاس بجھاتے ہوئے تھک جاتے ہیں
اُن کے سینوں میں بھی ہوتے ہیں تلاطم غم کے
وہ جو اوروں کو ہنساتے ہوئے تھک جاتے ہیں
زندگی اور تیرا قرض چکائیں کب تک
اب تو ہم شعر سناتے ہوئے تھک جاتے ہیں
محسن نقوی کے خوبصورت مصرعے ہاتھ ہاتھوں سے ملاتے ہوئے تھک جاتا ہوں“
کو لے کر یہ غزل
لکھی ہے.121
Page 122
دشمنوں سے بات ہم سے یاریاں
دشمنوں سے بات ہم سے یاریاں
چھوڑ دے اے دوست یہ فنکاریاں
میرے پاؤں میں تھے مجبوری کے جال
وہ سمجھتا تھا میں لارے لاریاں
وہ جو میک اپ میں مجھے پیرس لگی
جب ہوئی بارش تو نکلی کھاریاں
مجھ سے پتھر کو گہر سمجھے ہیں لوگ
اے مرے مولا ترکی ستاریاں
ایک باجی کو تھا آنٹی کہہ دیا
آج تک وہ کیس میں بھگتا ریاں
122
Page 123
دشمن جاں سوچ لے پھر سوچ لے
ایک دن آنی ہیں میری واریاں
چھو رہی ہے زلف اُنکی گال کو
چل رہی ہیں میرے دل پر آریاں
اتنی بھی سادہ میری صورت نہ
صورت نہ تھی
جتنی اُس ظالم نے چیکاں ماریاں
آج بھی تو نے اگر نہ داد دی
میں تری محفل سے اٹھ کے جاریاں
123
Page 124
دل کر داسی یوروپ جائیے
دل کردا سی یوروپ جائیے
ہیٹ تے کالی عینک پائیے
پیزے برگر ڈونر کھائیے
پیٹر رابرٹ
یار بنائیے
ایتھے جان پھسا بیٹھے آں
اتی کتھے آ بیٹھے آں
گڑی ٹھیک کران سی جانا
پنج
چھ بل پیکان سی جانا
کم تے شکل وکھان سی جانا
پیسے چار کمان سی جانا
دی ٹکٹ لوا بیٹھے آں
اسی کتھے آ بیٹھے آں
124
Page 125
پنجرے دے وچ پھڑک گئے آں
ٹیکسی کر کر کھڑک گئے آں
پائلٹ بنن دا شوق سی لیکن
ہر تھاں سڑکوں سڑک گئے آں
سارے جوڑ ہلا بیٹھے آں
اسی کتھے آ بیٹھے آں
رعب ذراسی وی پانئیں سکدے
بچیاں نوں دو لا نئیں سکدے
ایتھے کن پھڑا نئیں سکدے
بیگم نوں دھمکا نئیں سکدے
مچھ نیویں کروا بیٹھے آں
اسی کتھے آ بیٹھے آں
125
Page 126
ایم او ٹی کروان دے رولے
کونسل ٹیکس پیکان دے رولے
گھر دیاں قسطاں لان دے رولے
اتوں پاکستان دے رولے
سوچاں نل چکرا بیٹھے آں
اسی کتھے آ بیٹھے آں
خط اے اپنے سٹ جاندے نیں
پڑھ کے دل ای ٹمٹ جاندے نیں
گورے ہس کے لٹ جاندے نیں
کالے ایویں کٹ جاندے نیں
لگدا پنگا ای پا بیٹھے آں
اسی کتھے آ بیٹھے آں
126
Page 127
ہن تے گان نوں دل نئیں کردا
پیزے کھان نوں دل نئیں کردا
باقی سب سج دل کردا اے
کم تے جان نوں دل نہیں کردا
دل نوں لگھ سمجھا بیٹھے آں
اسی کتھے آ بیٹھے آں
ایتھے بوڑ دی چھاں نئیں لبھدی
پنڈ جئی سچی تھاں نئیں لبھدی
مدت بعد وطن جے جائیے
کیاں نوں فیر ماں نئیں لبھدی
دو تھاں پیچے پا بیٹھے آں
اسی کتھے آ بیٹھے آں
127
Page 128
پچھلے سال بہانہ لا کے
اک پردیسی دیس نوں جا کے
کلیاں بہہ اک قبر سرہانے
رویا میٹی سینے لا کے
ہیرے لوگ گوا بیٹھے آں
اسی رکتھے آ بیٹھے آں
128
Page 129
دنیا دے وِچ غم نئیں مکدے
بندہ ملک جائے کم نئیں ملدے
سردی گرمی لنگ جاندی اے
یاداں دے موسم نئیں مکدے
اسی چن تے کی جاناں اے
ساڈے گھر دے کم نئیں مکدے
129