Page 9
فرضی کتاب کے نام پر جعلی حوالہ کی اختراع اور اس کی تشہیر
پاکستان کے احراری اور دیوبندی علماء نے بریلوی الزامات سے عوام کی توجہ ہٹانے
اور بانی سلسلہ احمدیہ کے عیسائیت کے خلاف عدیم المثال جہاد پر پردہ ڈالنے کے لئے ایک
فرضی حوالہ اختراع کیا اور مئی ۱۹۴۷ء میں اسے ایک انگریزی پمفلٹ کی صورت میں شائع
کیا گیا.یہ پمفلٹ جمعیۃ العلماء اسلام سرگودھا کی طرف سے خالد پر لیس سرگودھا میں
چھپوایا گیا.سرگودھا کا انگریزی پمفلٹ
SOME THING TO PONDER OVER KHALID PRESS
SARGODHA
The Year 1857 was the turbulent period when the
English swept away the last vestiges of the Muslim regine in
India.The Muslims started a Holy war (Jehad), All the people
rigent from Bahadur Shah Zafar to a commoner took an active
part under the leader ship of the Ulema.Had the tractors not
been exploited by persons like Sadiq from the Deccan, Jafar
from Bengal and Mirza Murteza from the Punjab the Muslim
world would have been a different shape As, out of all the
nations, Only the Muslims were in the foremost ranks to fight off
4
Page 10
////////////
the English,so, after 12 Years when the English Govt.had firmly
established itself through treachery, treason and cruelty a
commission from England was sent to India in 1869 to study the
Muslim mind towards the English and work out plans to bring
them round.The commission stayed for full one year in India to
have firsi hand knowledge about them.In 1870 a Conference was hald in London in which,
besides the representatives of the commission the missionary
digiritories working in India were especially invited to
particicpate.Both the parties submitted separate reports which
were published under the title of, arrival of the British Empire in
India? an extract of it is given below:-
Sir William Hunter's Report:-
It is an artiol of faith with the Muslims that they can
never accept a heretic foreign rule and it is their religious duty to
wage a war (Jehad) to rid the country of it.This Conception of
the Holy war is the basis of their enthusiasm, fanaticism and will
to secrifice and for this they are ever ready for Jehad.This type
of belief can always array them against the Govt.5
Page 31
/////////
ساتواں جھوٹ
لکھا ہے کہ
۱۸۶۹ء میں انگریزوں نے ایک کمشن لندن سے ہندوستان بھیجا تا کہ وہ
انگریز کے متعلق مسلمان کا مزاج معلوم کرے اور آئندہ کے لئے مسلمانوں
کو رام کرنے کے لئے تجاویز مرتب کرے.اس کمشن نے ایک سال
ہندوستان میں رہ کر مسلمانوں کے حالات معلوم کئے.“
پمفلٹ میں اس کمشن کا سر براہ سر ولیم ہنٹر (Sir William Hunter) کو
قرار دیا گیا ہے.یہ سارا بیان محض ذہنی تخیل کی ایجاد ہے.انگلستان اور برطانوی ہندوستان کی تاریخ
میں اس نوع کے کسی کمشن کا نام ونشان نہیں ملتا اور دلچسپ بات یہ ہے کہ سرولیم ہنٹر ( ولادت
۱۵ جولائی ۱۸۴۰ء وفات ۶ فروری ۱۹۰۰ء ) جنہیں اس فرضی کمشن کا سر براہ بتایا جاتا ہے.۱۸۶۲ء میں انگلینڈ سے ہندوستان پہنچے اور بنگال سول سروس سے منسلک ہوئے اور ۱۸۸۷ء
تک ہندوستان ہی میں رہے اور اسی سال ریٹائر ہوکر انگلینڈ واپس گئے.چنانچہ کتاب
"THE NEW CENTURY CYCLOPEDIA OF NAMES"
میں لکھا ہے."Hunter, Sir William Wilson, b at Glasgow, July 15, 1840:d.at
Oxford, England, Feb.6,1900.British civil servent and author.He entered the Bengal civil service in 1862, holding various
26
Page 35
/////////
*GA Kahlon
27 Pack Axenc
Deversedge
THE BRITISH LIBRARY
AREA AND OPÍA BANNED
COLLECTION
1
7807
De Mr Kahlon
WW.HUNTER THE ARRIVAL OF THE DRITISIF EMPIRE IN INDIA.Your letter of September in has been passed to us by the foreign as Consinalin Offic
Ebay The India Office Library and Record, moved us the above address in 1957, bucur pat
of the British Cory in 1943, Alternating with her institution's Depasiment of
Onebial Printed Books siul Manuscripts to Sing the Oriental and India Office Collections.We can trace no record of the late you require in any of the British Library's catalogues, vor in a
Large American database to which we have access The
probably
Sa William Wilson Hunter but you gain poolishing details - could in perhaps he a periodical
and her than a book.If with can supply publishing details ached my the infe of the periodicé
same from and the date, we may be able to made at for you, but withoum diis infororation we cas
de nothing, as periodical arises are nos indeed separately.Yan soiry weanmet beide more liep
Yours sucesiv
Miss Marns
European Printed Books
30
0
Page 36
/////////
A
M
PARIAS ONIVERSITY LIBRARY
LAHORE
312276
Dated 13-9-62
Syed Zunur Ahmed Shah,
Retired Professor,
College of Antal Husbandary
C/o zart islah--Irshad,
Sud
Rabwah.Anjuman Ahendiya Pakistang
Dear Sir,
Please refer to your lotted No.649
dated 22 August 1967.We regret to have to inform you that the
book entitled "The arrival of British Rapire in
India by VW.Hunter is not available in our
library fo reference of this title could be found
In the catalogres of the U.S.Library of Congress
* the British Museu
The following booke by the same author
dealing with the history of India are, however,
available with a
1.History of British India.
Page 37
دسواں جھوٹ /////////
کہانی تخلیق کرنے والوں نے پادری صاحبان کی طرف جو دلفریب رپورٹ ایجاد
فرمائی ہے وہ خود اپنے اندر اس کے فرضی ہونے کی متعدد اندرونی شہادتیں رکھتی ہے جن
سے صاف کھل جاتا ہے کہ رپورٹ کے الفاظ کسی انگریز پادری کے نہیں احراری پادری
کے قلم سے نکلے ہیں.کیونکہ ایک تو اس میں برطانوی استعمار کومستحکم کرنے والوں کے لئے
بار بار غدار کا لفظ استعمال کیا گیا ہے جو کوئی انگریز استعمال نہیں کر سکتا.دوسرے انگریز
اور عیسائی پادریوں کے ہاں اپاٹل (APOSTLE) کا لفظ حضرت مسیح کے حواریوں
کے لئے مستعمل ہے جنہیں وہ رسول کے نام سے بھی پکارتے ہیں لیکن اپاسٹلک پرافٹ“
(APOSTOLIC PROPHET) کی کوئی اصطلاح ان میں موجود نہیں.ملاحظہ
ہو.(The New Lexicon Webster's Dictionary p.43 Lexicon
Publication, INC, New York 1991)
تیسرے مبینہ رپورٹ میں ظلی نبوت کی اصطلاح استعمال کر کے سارا بھانڈا ہی پھوڑ
دیا گیا ہے کیونکہ ۱۸۷۰ء تک برٹش انڈیا میں یہ اصطلاح سرے سے مروج ہی نہیں تھی.اس کا
تصور انیسویں صدی کے آخر میں بانی دارالعلوم دیو بند حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی ( متوفی
۱۴ را پریل ۱۸۸۰ء) نے اپنی معرکۃ الاراء تالیف ” تحذیر الناس“ میں پیش فرمایا جو پہلی بار
۱۲۹۱ھ /۱۸۷۸ء میں مطبع صدیقی بریلی سے باہتمام مولوی محمد منیر صاحب نانوتوی شائع
ہوئی اور دوبارہ آپ کی وفات کے بعد ۱۳۰۹ھ مطابق ۱۸۹۲ء خیر خواہ سرکار پریس
۳۷
32
Page 38
سہارنپور سے باہتمام منشی سید حشمت حسین صاحب چھپی.حضرت مولا نا محمد قاسم صاحب نے اس کتاب میں تحریر فر مایا:.7////////
جیسے آئینہ آفتاب اور اس دھوپ میں واسطہ ہوتا ہے جو اس کے وسیلہ
سے ان مواضع میں پیدا ہوتی ہے جو خود مقابل آفتاب نہیں ہوتی پر آئینہ
مقابل آفتاب کے مقابل ہوتی ہیں.ایسے ہی انبیاء باقی بھی مثل آئینہ بیچ
میں واسطہ فیض ہیں.غرض اور انبیاء میں جو کچھ ہے وہ ظل اور عکس محمدی
ہے.کوئی کمال ذاتی نہیں پر کسی نبی میں وہ عکس اسی تناسب پر ہے جو
نیز فرمایا:.جمال کمال محمدی میں تھا.۳۸
اگر بالفرض بعد زمانہ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم بھی کوئی نبی پیدا ہوتو پھر بھی خاتمیت محمد
ی میں کچھ فرق نہ آئے گا ۳۹۷ے
حضرت بانی سلسلہ احمدیہ نے اپنی کتاب حقیقت الوحی مطبوعہ ۱۵ رمئی ۱۹۰۷ء کے
صفحه ۲۸ پر ظلی نبی کا یہ مفہوم بیان فرمایا.محض فیض محمدی سے وحی پانا“.بار یک نظری سے مطالعہ کرنے سے معلوم ہو گا کہ یہ اصطلاح تمام غیر مذاہب
بالخصوص صلیب پرستوں کے لئے ایک کھلے چیلنج کی حیثیت رکھتی ہے لہذا اس کے معرض
وجود میں لانے کا کوئی منصوبہ پادریوں کی طرف سے کیسے بنایا جا سکتا تھا.خصوصاً جب کہ
اسلام کی تیرہ سو سالہ تاریخ جھوٹے مدعیان نبوت کے قتل کے واقعات سے رنگین ہے اور آج
تک مسلمان علماء مدعی نبوت کو واجب القتل قرار دیتے ہیں.اس صورت میں انگریز پادری
اس وہم میں کیسے مبتلا ہو سکتے تھے کہ ادھر ظلی نبوت کا مدعی کھڑا ہوگا ادھر اس کے حلقہ نبوت
33
Page 39
میں ہزاروں لوگ جوق در جوق شامل ہو جائیں گے.پھر جیسا کہ گزشتہ صفحات کے مطالعہ سے یہ ثابت شدہ حقیقت سورج کی طرح روشن
ہو کر سامنے آچکی ہے کہ مفروضہ کمشن سے قبل ہی انگریزی حکومت ملک کے طول وعرض
میں ایک مثالی امن و امان قائم کر چکی تھی اور پورا عالم اسلام برٹش انڈیا کے دار الاسلام
ہونے اور انگریزی حکمرانوں کی شرعی اطاعت پر متحد ہو چکا تھا اور ان کے خلاف جہاد کو حرام
تصور کرتا تھا.لہذا سوچنے کی بات SOME THING TO PONDER)
المسلمين
(OVER یہ ہے کہ برطانوی حکومت کو استحکام بخشنے کا جو دینی فریضہ خلیفہ
تر کی مرکز اسلام مکہ معظمہ کے مفتیان عظام امیر افغانستان برطانوی ہند کے چوٹی کے
دیو بندی اہل حدیث اور حنفی علماء کرام بہاولپور بھوپال رام پور اور حیدر آباد دکن کے وفادار
مسلم حکمران اور پنجاب کے بہت سے نامور اور ممتاز مسلمان خاندان کمال خوبی اور کامیابی
سے انجام دے چکے تھے.اس کے لئے برسوں بعد کسی شخص کو ظلی نبی بنا کر کھڑا کرنے کی
ضرورت ہی کیا تھی.؟؟؟
گیارہواں جھوٹ
پادری صاحبان کی مفروضہ رپورٹ کے آخری الفاظ یہ بتائے گئے ہیں.اب جب کہ ہم برصغیر کے چپہ چپہ پر حکمران ہو چکے ہیں اور ہر طرف
امن و امان بھی بحال ہو گیا ہے تو ان حالات میں ہمیں کسی ایسے منصوبہ
پر عمل کرنا چاہئے جو یہاں کے باشندوں کے داخلی انتشار کا باعث
ہو.66
34
Page 40
/// برصغیر کے طول و عرض پر انگریزوں کی حکمرانی اور امن و امان کی بحالی کے بعد
انگریز پادری بھلا برطانوی حکومت کو یہ کیونکر مشورہ دے سکتے تھے کہ ملکی امن و امان جس
کے لئے اس نے مسلسل بارہ سال تک رات دن کوشش کی اور لاکھوں بلکہ اربوں پاؤنڈ
خرچ کئے اسے داخلی انتشار کے ذریعہ تباہ و برباد کر دیا جائے یقیناًیہ سراسر غلط اور سرتا پا
جھوٹ ہے.اس دور میں برطانوی حکومت تو ہندوستان کے دلوں کو جیتنے اور ان کو رام کرنے
کے لئے تجاویز سوچ رہی تھی جیسا کہ اس پمفلٹ میں اعتراف کیا گیا ہے.اسے اپنی
مسلم رعایا کی دلجوئی اور ان کا داخلی اتحاد اس حد تک محبوب تھا کہ اس نے اپنے
وائسرائے سر جان لارنس کو اوائل ۱۸۶۸ء میں ہندوستان بھیجا تا کہ افغانستان کی ہمسایہ
مسلم مملکت سے گہرے مراسم قائم کریں چنانچہ امیر شیر علی خان والی افغانستان کو ملاقات
کے لئے دعوت دی گئی اور ۲۹ / مارچ ۱۸۶۸ء کو بڑی شان وشوکت کے ساتھ انبالہ میں
ان کا خیر مقدم کیا گیا.سرجان لارنس نے نہ صرف انہیں فرمانروائے افغانستان تسلیم کیا
بلکہ ان کے لئے بارہ لاکھ سالانہ وظیفہ اور ایک معقول تعداد سالانہ آلات حرب مقرر کئے
جانے کا اعلان عام کیا.ہیں کہ :.امیر عبد الرحمن خان بادشاہ افغانستان اپنی خود نوشت سوانح عمری میں لکھتے
سلطنتیں
ایک عرصہ دراز سے برطانیہ اعظم کی عام پالیسی یہ ہے کہ اسلامی ما
جو ہندوستان اور ایشیائی روس کے درمیان مثل دیوار کے حائل ہیں باقی
رہیں اور ان کی خود مختاری بخوبی قائم رہے تا کہ روس کی راہ میں ایک اپنی
35
35
Page 41
دیوار بن جائیں.بخلاف اس کے روس کی پالیسی بالکل اس کے برعکس
ہے نہ صرف اس وجہ سے کہ اس کے ملک کے حدود ہندوستان کی سرحد سے
مل جائیں بلکہ اسے ہمیشہ اس بات کا اندیشہ ہے کہ اگر ٹر کی یا ایران یا
افغانستان یا ہندوستان کے ساتھ جنگ ہوئی تو اس کی مسلمان رعایا میں
عام غدر ہو جائے گا.اس میں شک نہیں کہ تمام دنیا کے مسلمان سلطنت برطانیہ کی دوستی کو
روس کی دوستی پر ترجیح دیتے ہیں اس لئے کہ وہ سمجھتے ہیں کہ ان کی باہمی
دوستی اور صلح برطانیہ عظم کی دوستی پر منحصر ہے."
انیسویں صدی کا ایک مشہور انگریز مورخ سر آلفر ڈ لائل پی سی.کے سی.بی.ڈی سی ال
۱۸۵۷ء کے غدر کا ذکر کرنے کے بعد لکھتا ہے:.تمام مملکت ہند کی بلا واسطہ حکمرانی کمپنی کے قبضے سے منتقل ہو کر
۱۸۵۸ء میں تاج برطانیہ سے متعلق کر دی گئی.اب اس سلطنت کی فوقیت
ایسی مسلم ہو چکی ہے کہ تمام قلمروئے ہند میں کوئی رائے یا کوئی احساس ایسا
نہیں ہے جو اس کو تسلیم کرنے میں تامل کر سکے.خاندانی تنازعوں اور ہم
چشمیوں کے
فنا ہو جانے سے سیاسی زندگی کا ایک عصر جدید شروع ہو گیا.سلطنت ہند کی تکمیل کو تسلیم کر لیا گیا اور اگر چہ نئے نئے سیاسی معیار کی نئی
نئی جماعتیں اندرون سلطنت میں پیدا ہوگئی ہیں جو بلحاظ اپنے انتظامی نقطہ
نظر و بلحاظ اپنی حوصلہ مندیوں اور بلحاظ اپنی غایت مقصود کے مختلف الخیال
ہیں مگر وہ سب تاج برطانیہ کے ساتھ غیر متزلزل وفاداری رکھنے میں بالکل
36
Page 42
66
متحد القلوب ہیں.‘، ۴۲
ملک گیر امن و آشتی کے اس ماحول میں برطانوی حکومت کے لئے انتشار کا
منصوبہ بنانے والے انگریز اور عیسائی پادری ہر گز نہیں ہو سکتے.لہذا مزعومہ رپورٹ بدیہی
طور پر وضعی اور جعلی ہے.بارہواں جھوٹ
۱۸۷۰ء میں متحدہ ہندوستان کے لئے پادریوں کو کسی نئی سکیم کے تجویز کرنے اور
اس پر غور کرنے کے لئے انہیں لنڈن بلانے کا خیال بھی مجسم جھوٹ ہے.کیونکہ عیسائی
مشنری پہلے دن سے ایک ہی بنیادی منصوبہ لے کر ہندوستان کے کونے کونے میں جال
پھیلا رہے تھے اور وہ منصوبہ تھا پورے ہندوستان خصوصاً مسلمانوں کو حلقہ بگوش عیسائیت
کرنا اور پادری ای ایڈ منڈ کی طرف سے ۱۸۵۷ء کے دوران ملک بھر میں جو چٹھی شائع
ہوئی اس میں کھلے لفظوں میں اس کا ذکر موجود تھا.چٹھی کے اختتام میں لکھا تھا.”ہماری تمنا ہے کہ اس ملک میں گر جاؤں کو ہندوستانیوں سے بھرا ہوا
دیکھیں جہاں نہ صرف غیر ملک کے لوگ بلکہ تمہارے ہم وطن بھی انجیل کی
خوشخبری کی باقاعدہ طور سے منادی کریں...ہم اس وقت کے آنے
کی خواہش کرتے ہیں جب کہ لوگ بخوبی اس کو سمجھ جائیں گے.کیوں نہ
اسی نسل میں یہ بات ہو.“
سرسید احمد خاں نے اپنی کتاب ” اسباب بغاوت ہند کے آخر میں پوری چٹھی کا
ترجمہ شائع کر دیا تھا.یہ وہی رسالہ ہے جس کا ذکر کرتے ہوئے سید طفیل احمد منگلوری
37
Page 43
نے لکھا ہے کہ
///////////// سرسید احمد خان اس وقت سرکاری ملازم تھے انہوں نے ہنگامہ ۱۸۵۷ء
میں نہ صرف مسلمانوں کی بلکہ کل اہل ہند کی مدافعت میں پوری جدوجہد
کی.اسباب بغاوت ہند لکھ کر بجائے ہندوستانیوں کے خود حکام وقت کو
ہنگامہ ۱۸۵۷ء کا ذمہ دار قرار دیا اور رسالہ ”وفا دار مسلمانان ہند“ لکھ کر
صد ہا مسلمانوں کی جانیں اور جائدادیں بچائیں.“ ( روح روشن مستقبل
صفحہ ے
ناشر مکتبہ شیخ الاسلام لغاری روڈ رحیم یارخان )
غدر کے چھ سال بعد
۱۸۶۲ء میں انگلستان کے وزیر اعظم لارڈ پا مرسٹن اور وزیر ہند چارلس وڈ کی
خدمت میں ایک وفد پیش ہوا جس میں دارالعوام اور دارالامراء کے رکن اور دوسرے
بڑے بڑے لوگ شامل تھے.انگلستان کے سب سے بڑے پادری آرچ بشپ آف
کنٹر بری نے اس وفد کا تعارف کرایا.وزیر ہند نے اس وفد سے خطاب کرتے ہوئے
بتایا کہ:.”میرا یہ ایمان ہے کہ ہر وہ نیا عیسائی جو ہندوستان میں عیسائیت قبول کرتا
ہے انگلستان کے ساتھ ایک نیا رابطہ اتحاد بنتا ہے اور ایمپائر کے استحکام کے
لئے ایک نیا ذریعہ ہے.“
۱۴۳ ،،
وزیر اعظم لارڈ پامرسٹن نے یہ بھی کہا کہ:.میں سمجھتا ہوں کہ ہم سب اپنے مقصد میں متحد ہیں.یہ ہمارا فرض ہی نہیں
38
Page 44
بلکہ خود ہمارا مفاد بھی اس امر سے وابستہ ہے کہ ہم عیسائیت کی تبلیغ کو جہاں
تک بھی ہو سکے فروغ دیں اور ہندوستان کے کونے کونے میں اس کو
پھیلا دیں.۲۴۳
حضرت بانی جماعت احمد یہ اس دور کے وہ مجاہد اعظم ہیں جنہوں نے پوری
عمر عیسائیت کے خلاف جہاد کیا.اور صلیبی علمبر داروں کے چھکے
چھڑا دیئے.چنانچہ مولا نا امداد صابری صاحب مجاہدین رد نصاری کے
حالات زندگی پر روشنی ڈالتے ہوئے آپ کی نسبت لکھتے ہیں کہ :.۱۸۷۶ء میں آپ نے جب اپنی آنکھوں سے یہ دیکھا کہ حکومت کے
سایہ میں نہایت پرزور مشنری کام کر رہی ہے اور صلیبی مذہب ساری دنیا
میں ایک طوفان عظیم کی طرح جوش مار رہا تھا.اس وقت مرزا جی نے
براہین احمدیہ کتاب لکھی.جس کے چار حصے ہیں.اس کتاب کا ذکر
حضرت مولانا محمد علی مونگیری رحمتہ اللہ علیہ نے رو نصاری کی فہرست میں
ان الفاظ میں کیا ہے.اس عمدہ اور مبسوط کتاب میں دو طریقے سے مذہب اسلام کی حقانیت
ނ
ثابت کی ہے اول تو تین سو دلائل عقلیہ سے دوئم ان آسمانی نشانیوں.جو نیچے دین کی سچائی ثابت کرنے کے لئے ضروری ہیں.حق تو یہ ہے کہ
66
اثبات حقیقت اسلام میں یہ عمدہ کتاب ہے.“
مولوی محمد علی صاحب مونگیری نے اپنی کتاب پیغام محمدی حصہ اول مطبوعہ ۱۳۳۱ھ
کے صفحہ ۳۰۶ پر کتاب براہین احمدیہ کی نسبت یہ بھی اعتراف کیا کہ عیسائیوں کے مقابلہ
39
Page 45
7////////
میں جو کچھ لکھا گیا.اس کا جواب کسی پادری سے نہ ہو سکا.“
مولوی سید محمد میاں صاحب ناظم جمیعت علماء ہند نے تسلیم کیا کہ
رد عیسائیت بظاہر ایک واعظانہ اور مناظرانہ چیز ہے جس کو سیاست سے
بظاہر کوئی تعلق نہیں.لیکن غور کرو جب حکومت عیسائی گر ہو جس کا نقطہ نظر ہی یہ ہو کہ سارا
ہندوستان عیسائی مذہب اختیار کرے اور اس کی تمنا دلوں کے پردوں سے
نکل کر زبانوں تک آ رہی ہو.اور بے آئین اور جابر حکومت کا فولادی پنجہ
اس کی امداد کر رہا ہو تو یہی تبلیغی اور خالص مذہبی خدمت کس قدرسیاسی اور
کتنی زیادہ سخت اور صبر آزما بن جاتی ہے.بلاشبہ ردعیسائیت کے سلسلہ
میں ہر ایک مناظرہ ہر ایک تبلیغ ، ہر ایک تصنیف اغراض حکومت سے سراسر
بغاوت تھی ، ۴۵
۱۸۹۴ء میں لندن میں پادریوں کی ایک عالمی کانفرنس منعقد ہوئی جس
میں لارڈ بشپ آف گلوسٹر ریورنڈ چارلس جان ایلی کوٹ نے احمدیت کے
متعلق نہایت درجہ تشویش و اضطراب کا اظہار کر کے دنیا بھر کے عیسائیوں
کو مطلع کیا کہ
اسلام میں ایک نئی حرکت کے آثار نمایاں ہیں مجھے ان لوگوں نے
جو صاحب تجر بہ ہیں بتایا ہے کہ ہندوستان کی برطانوی مملکت میں ایک نئی
طرز کا اسلام ہمارے سامنے آرہا ہے اور اس جزیرے میں بھی کہیں کہیں
اس کے آثار نمایاں ہو رہے ہیں.یہ ان بدعات کا سخت
40
Page 46
مخالف ہے جن کی بناء پر محمد کا مذہب ہماری نگاہ میں قابل نفرین قرار پاتا
ہے اس نئے اسلام کی وجہ سے محمد کو پھر وہی پہلی سی عظمت حاصل ہوتی
جارہی ہے.یہ نئے تغیرات باسانی شناخت کئے جاسکتے ہیں.پھر یہ نیا
اسلام اپنی نوعیت میں مدافعانہ ہی نہیں بلکہ جارہانہ حیثیت کا بھی حامل
ہے.افسوس ہے تو اس بات کا کہ ہم میں سے بعض کے ذہن اس کی
طرف مائل ہو رہے ہیں.(انگریزی سے ترجمہ ) ۴۶
مولانا نور محمد صاحب نقشبندی، چشتی ،مالک اصح المطابع دہلی تحریر فرماتے ہیں.”ولایت کے انگریزوں نے روپے کی بہت بڑی مدد کی اور آئندہ کی مدد کے
مسلسل وعدوں کا اقرار لے کر ہندوستان میں داخل ہو کر بڑا تلاطم برپا
کیا.تب مولوی غلام احمد قادیانی کھڑے ہو گئے اور پادری اور اس
کی جماعت سے کہا عیسی جس کا تم نام لیتے ہو دوسرے انسانوں کی طرح
فوت ہو چکا ہے اور جس عیسی کے آنے کی خبر ہے وہ میں ہوں.........اس
ترکیب سے اس نے نصرانیوں کو اتنا تنگ کیا کہ اس کو پیچھا چھڑانا مشکل ہو
گیا اور اس ترکیب سے اس نے ہندوستان سے لے کر ولایت تک کے
پادریوں کو شکست دے دی.“.مولانا ابوالکلام آزاد نے اخبار وکیل امرتسر میں حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کے
وصال (۲۶ مئی ۱۹۰۸ء) پر ایک نہایت موثر اور پر قوت وشوکت شذرہ سپر د قلم فرمایا جس
میں لکھا کہ:.”
وہ وقت ہر گز لوح قلب سے نسیا منسیا “ نہیں ہوسکتا.جبکہ اسلام
41
Page 47
///
مخالفین کی یورشوں میں گھر چکا تھا اور مسلمان جو حافظ حقیقی کی طرف
سے عالم اسباب و وسائط میں حفاظت کا واسطہ ہو کر اس کی حفاظت پر
مامور تھے اپنے قصوروں کی پاداش میں پڑے سسک رہے تھے اور
اسلام کے لئے کچھ نہ کرتے تھے یا نہ کر سکتے تھے.ایک طرف حملوں کے
امتداد کی یہ حالت تھی کہ ساری مسیحی دنیا اسلام کی شمع عرفان حقیقی کوسراہ
منزل مزاحمت سمجھ کر مٹا دینا چاہتی تھی اور عقل و دولت کی زبر دست
طاقتیں اس حملہ آور کی پشت گری کے لئے ٹوٹ پڑتی تھیں اور دوسری
طرف ضعف مدافعت کا یہ عالم تھا کہ تو پوں کے مقابلہ پر تیر بھی نہ تھے
اور حملہ اور مدافعت دونوں کا قطعی وجود ہی نہ تھا کہ مسلمانوں کی
طرف سے وہ مدافعت شروع ہوئی جس کا ایک حصہ مرزا صاحب کو حاصل
ہوا.اس مدافعت نے نہ صرف عیسائیت کے ابتدائی اثر کے پر نیچے
اڑائے جو سلطنت کے زیر سایہ میں ہونے کی وجہ سے حقیقت میں اس کی
جان تھا اور ہزاروں لاکھوں مسلمان اس کے اس زیادہ خطر ناک اور
مستحق کا میابی حملہ کی زد سے بچ گئے بلکہ خود عیسائیت کا طلسم دھواں ہو
کر اڑنے لگا.......غرض مرزا صاحب کی یہ خدمت آنے والی
نسلوں کو گر انبار احسان رکھے گی کہ انہوں نے قلمی جہاد کرنے والوں کی
پہلی صف میں شامل ہو کر اسلام کی طرف سے فرض مدافعت ادا کیا اور
ایسا لٹریچر یاد گار چھوڑا جو اس وقت تک کہ مسلمانوں کی رگوں میں زندہ
خون رہے اور حمایت اسلام کا جذبہ ان کے شعار قومی کا عنوان نظر
42
Page 48
آئے.قائم رہے گا.‘ ۲۸
مولانا ابوالکلام آزاد کا یہ حقیقت افروز تبصرہ زیر نظر پمفلٹ کی مفتریات سمجھنے کے
لئے کافی ہے.ختم نبوت اسلام اور اس کے مقدس جہاد سے غداری کی انتہا یہ ہے کہ
احراری اور دیو بندی ملاں حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کے عظیم الشان مجاہدانہ
کارناموں کا تو اعتراف کرنا گناہ سمجھتے ہیں مگر اسلام کے دشمن پادریوں مثلاً
مسٹرا کبر مسیح، پادری ظفر اقبال پادری کے ایل ناصر اور ایچ اے والٹر کو اس
لئے قلمی مجاہدین میں شمار کرتے ہیں کہ انہوں نے اسلام کے اس طرح
نصیب جرنیل کے خلاف زہریلا اور نا پاک لٹریچر شائع کیا.دوسری طرف پاک و ہند کے ایک مشہور پادری کے ایل ناصر ایم اے
آنرز پرنسپل فیتھ تھیولاجیکل سمیزی گوجرانوالہ نے اپنی کتاب ”حقیقت
مرزا بقلم خود ۵۰ کا انتساب مخالف احمدیت علماء کے نام سے کیا ہے
اور ان کو ز بر دست خراج تحسین ادا کرتے ہوئے لکھا ہے کہ:.میں اس مجموعہ کے مندرجہ ذیل علمائے کرام کے نام سے منسوب کرتا
ہوں جنہوں نے مرزائیت کی حقیقت کو بے نقاب کر کے ہند و پاکستان
میں مسیحیوں اور مسلمانوں کی نا قابل فراموش خدمت سر انجام دی
ہے.66
آگے پادری صاحب نے مسیحیوں کی ناقابل فراموش خدمت بجالانے والے
سات علماء کرام کے نام لکھے ہیں جو یہ ہیں.43
Page 49
مولوی ثناء اللہ صاحب امرتسری مرحوم.پروفیسر الیاس برنی صاحب حیدرآباد
دکن - منشی محمد عبد اللہ صاحب.مولوی ایم.ایس.خالد صاحب وزیر آبادی.مولانا سید
برکت علی شاہ صاحب وزیر آبادی.پروفیسر غلام جیلانی صاحب برق پی ایچ ڈی.مولانا
محمد ابراہیم صاحب سیالکوٹی.یہ ناپاک گٹھ جوڑ آج سے نہیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دعوی مسیحیت
(۱۸۹۱ء) سے چلا آرہا ہے.جس سے اس باطل خیال پر بھی ضرب کاری لگتی ہے کہ پادریوں
کی تجویز پر آپ کو معاذ اللہ ظلی نبی بنا کر کھڑا کیا گیا تھا جب کہ احمدیت کی پوری تاریخ
پادریوں کی اس کے خلاف مخالفانہ کاروائیوں سے بھری ہوئی ہے.اور کون ہے جو اس حقیقت
کا انکار کر سکے کہ ۱۹۵۳ ء اور ۱۹۷۴ء کی مخالف احمدیت تحریکوں میں احرار کو عیسائی مشنریوں کی
بھر پور حمایت حاصل تھی.اسی طرح پاکستان کے آمر جنرل ضیاء الحق نے ۲۶ را پریل ۱۹۸۴ء
کو احمدیت کے خلاف آرڈینینس جاری کیا تو عیسائی رہنماؤں نے اس کا بھی زبردست خیر
مقدم کیا.چنانچہ روز نامہ امروز ے مئی ۱۹۸۴ء صفحہ ے کالم ۳ ۴ نے اس سلسلہ میں حسب ذیل
خبر شائع کی ”پاکستان نیشنل کرسچن لیگ کے صدر جیمز صوبے خان نے قادیانیوں کے اسلامی
طرز عمل کو غیر قانونی قرار دینے پر صدر جنرل محمد ضیاء الحق اور ان کی حکومت کو خراج تحسین پیش
کیا ہے اور اپنی مسیحی برادری کے تعاون کا یقین دلاتے ہوئے مطالبہ کیا ہے کہ قادیانیوں کو
تخریب کار گروہ قرار دے کر ان کی جائیدادوں اور دولت کو ضبط کر لیا جائے.ان کی جھوٹی اور
من گھڑت تبلیغ پر مکمل پابندی لگادی جائے.انہوں نے یہ بھی مطالبہ کیا کہ عالمی سطح پر
مسیحی مسلم اتحاد کو متحکم بنانے کے لئے دنیا بھر کے تمام مسیحی ممالک اور خصوصاً سپین کے پاس
پاکستان سے مسلم علماء اور مسیحی مبلغوں کے وفد بھیجے جائیں.“
44
Page 50
/////////
/////////////////////////////////
تیر ہواں جھوٹ
احراری پمفلٹ میں وزیر اعظم انگلستان گلیڈسٹون (GLAD STONE)
سے متعلق ایک مشتبہ اور بے سند واقعہ کی بناء پر یہ تاثر دیا گیا ہے کہ گویا اس کی ذاتی پالیسی
ہندوستان کے مسلمانوں کے لئے مہلک ثابت ہوئی.یہ تاثر واقعاتی اعتبار سے بالکل غلط
ہے کیونکہ برطانوی مملکت کی اصل باگ ڈور براہِ راست قیصرہ ہند ملکہ وکٹوریہ (ولادت
۱۸۱۹ء وفات ۱۹۰۱ء) کے ہاتھ میں تھی جن کے زریں دور میں مسلمانان ہند کے ہر طبقہ اور
فرقہ کو اس درجہ مذہبی آزادی اور امن نصیب ہوا کہ ہندوستان بھر کے مسلمانوں نے فروری
۱۸۸۷ء میں نہایت درجہ عقیدت اور دھوم دھام سے ملکہ کی پچاس سالہ جو بلی کی پرشکوہ
تقریب منائی.۵۱
اس موقع پر مختلف سوسائٹیوں کی طرف سے مبارک باد کے ایڈریس بھی دیئے
گئے.فرقہ اہل حدیث نے بھی ایک خصوصی ریز ولیشن میں وائسرائے ہند ہز ایکسی لینسی
لارڈ ڈ فرن کے لیفٹنٹ گورنر پنجاب اور ہر آنر ز سر چارلس ایچیسن ۵۳ سی ایس آئی کا خصوصی
شکر یہ ادا کیا اور اپنے فرقہ کی طرف سے حسب ذیل ایڈریس پیش کیا :." بحضور فیض گنجور کوئین وکٹوریہ ملکہ گریٹ برٹن و قیصرہ ہند
بارک الله فی سلطنتها
ہم ممبران گروہ اہل حدیث اپنے گروہ کے کل اشخاص کی طرف سے حضور
والا کی خدمت عالی میں جشن جو بلی کی دلی مسرت سے مبارک باد عرض
45
کرتے ہیں.
Page 51
(۲).برٹش رعایا سے ہند میں سے کوئی فرقہ ایسا نہ ہوگا جس کے دل میں
اس مبارک تقریب کی مسرت جوش زن نہ ہو گی اور اس کے بال بال سے
صدائے مبارک باد نہ اٹھتی ہوگی.مگر خاص کر فرقہ اہل اسلام جس کو
سلطنت کی اطاعت اور فرمانروائی وقت کی عقیدت اس کا مقدس مذہب
سکھاتا اور اس کو ایک فرض مذہبی قرار دیتا ہے اس اظہار مسرت اور ادائے
مبارک باد میں دیگر مذاہب کی رعایا سے پیشقدم ہے علی الخصوص گروہ اہل
حدیث منجملہ اہل اسلام اس اظہار مسرت وعقیدت اور دعائے برکت میں
چند قدم اور بھی سبقت رکھتا ہے جس کی وجہ یہ ہے کہ جن برکتوں اور نعمتوں
کی وجہ سے یہ ملک تاج برطانیہ کا حلقہ بگوش ہورہا ہے از آنجملہ ایک بے بہا
نعمت مذہبی آزادی سے یہ گروہ ایک خصوصیت کے ساتھ اپنا نصیبہ اٹھا رہا
ہے.(۳).وہ خصوصیت یہ ہے کہ یہ مذہبی آزادی اس گروہ کو خاص کر اسی
سلطنت میں حاصل ہے بخلاف دوسرے اسلامی فرقوں کے ان کو اسلامی
سلطنتوں میں بھی یہ آزادی حاصل ہے.اس خصوصیت سے یقین ہو سکتا
ہے کہ اس گروہ کو اس سلطنت کے قیام و استحکام سے زیادہ مسرت ہے اور
ان کے دل سے مبارک باد کی صدائیں زیادہ زور کے ساتھ نعرہ زن ہیں.ہم بڑے جوش سے دعا مانگتے ہیں کہ خدا وند تعالیٰ حضور والا کی
حکومت کو اور بڑھائے اور تا دیر حضور والا کا نگہبان رہے تا کہ حضور والا
کی رعایا کے تمام لوگ حضور کی وسیع حکومت میں امن اور تہذیب کی
////
46
Page 52
//// 66
برکتوں سے فائدہ اٹھائیں ، ۴
برصغیر کے شہرہ آفاق مسلمان شاعر جناب اکبرالہ آبادی نے جشن جو بلی پر ایک پر
خلوص قصیدہ مبارک با دلکھا جس کے آخری اشعار یہ تھے.خلوص و صدق دل سے ہے دعا ہندو مسلماں کی
کہ یارب جب تلک یہ گردش گردوں گرداں
ہے
فروغ
مهر دمہ جب
متلک
ہے زینت عالم
۵۵
نشاط انگیز جب تک انتظام باد و باراں ہے
دل اہل جہاں ہے جب تلک مرکز تمنا کا
ہوائے آرزو جب تک محیط قلب انساں ہے
خدا کے نام کی عزت ہے جب تک اہل دانش میں
تجلی علم کی جب تک چراغ راہ عرفاں ہے
ہماری حضرت قیصر رہیں اقبال و صحت سے
کہ جن کا آفتاب عدل اس کشور پہ تاباں ہے
اسی زمانہ میں اہل حدیثوں کے وکیل ابوسعید محمد حسین ایڈیٹر رسالہ اشاعت السنه
نے رسالہ الاقتصاد فی مسائل الجہاد شائع کیا جس میں قرآن وحدیث اور کتب فقہ سے
ثابت کیا کہ انگریزی حکومت کے خلاف لڑنا یا ان سے لڑنے والوں کی (ان کے بھائی
مسلمان کیوں نہ ہوں ) کسی نوع سے مدد کر نا صریح غدر اور حرام ہے.“ نیز لکھا
مفسدہ ۱۸۵۷ء میں جو مسلمان شریک ہوئے تھے وہ سخت گناہگار اور بحکم
قرآن و حدیث وہ مفسد و باغی بد کردار تھے.اکثر ان میں عوام کا لا نعام
47
Page 53
///////
تھے.بعض جو خواص و علماء کہلاتے تھے وہ بھی اصل علوم دین ( قرآن و
حدیث) سے بے بہرہ تھے یا نا فہم و بے سمجھ.باخبر و سمجھ دار علماء اس میں
ہرگز شریک نہیں ہوئے اور نہ اس فتویٰ پر جو اس غدر کو جہاد بنانے کے لئے
66
مفسد لئے پھرتے تھے انہوں نے خوشی سے دستخط کئے ، ۵۶
اس رسالے کو مختلف فرقہائے اہل اسلام کے خواص و عام نے پسند کیا اور پنجاب
کے لیفٹنٹ گورنر سر چارلس ایچیسن نے اپنے نام نامی سے اس کا ڈیڈیکیٹ ہو نا منظور فرمایا
اور سر کا رانگریزی سے اس کے معاوضہ میں جا گیر بھی ملی.“
۵۷
66
ملکہ وکٹوریہ کا انتقال ۲۲ جنوری ۱۹۰۱ء کوعید الفطر کے روز بوقت شام ہوا.جس پر
برٹش انڈیا کے باشندوں خصوصاً مسلمانوں پر غم والم کی رات چھا گئی.اور ہر طرف صف ماتم
بچھ گئی اور بقول مولوی بشیر الدین دہلوی' ایسا ماتم ہوا جیسے اپنے کسی عزیز قریب کا ہو نامور
مسلم مفکر اور شاعر علامہ الطاف حسین حالی نے ان کی یاد میں ایک طویل مرثیہ لکھا جو بہت
دردانگیز تھا چند اشعار ملاحظہ ہوں.ہے تیری نیکی سے امید اے زمیں کے بادشا
آسمانی بادشاہت میں خدا دے تجھ کو جا
کر لئے تھے سب بیگانوں اور بے گانوں کے دل
نیکیوں سے تو نے اپنی فتح اے وکٹوریا
جس قدر علمی فتوحات اس زمانے میں ہوئیں
دہر کی تاریخ میں ملتا نہیں ان کا پتا
تو مبارک تھی کہ تجھ کو صلح تھی دل سے پسند
48
Page 54
دے گا فرزندی کا اب اپنی خدا خلعت تجھے
برکتیں دنیا میں پھیلیں تیرے دم سے جس طرح
بس یوں ہی کنج لحد میں دے خدا برکت تجھے ۵۸
ملکہ کی وفات پر لاہور میں ایک ماتمی جلسہ منعقد ہوا جس میں شاعر مشرق ڈاکٹر سرمحمد
اقبال نے ایک سو دس شعر کا ترکیب بند پڑھا جسے مطبع خادم العلیم میں چھاپ کر کتابچے کی
شکل میں بھی شائع کیا گیا.جناب محمد عبد اللہ صاحب قریشی نے ”باقیات اقبال، ۵۹ کے
صفحہ ۷۲ تا ۸۱ میں اسے دوبارہ ریکارڈ کر دیا ہے.پورا مرثیہ پڑھنے کے لائق ہے.ہر شعر سے
ملکہ وکٹوریہ کی عظمت اور جلالت مرتبت کا پتہ چلتا ہے اور ہر شعر
غم واندوہ میں ڈوبا ہوا ہے.فرماتے ہیں.آئی ادھر نشاط ادھر غم بھی آگیا
کل عید تھی تو آج محرم بھی آگیا
اقلیم دل کی آہ شہنشاہ چل بسی
ماتم کدہ بنا ہے دل داغدار آج
تو جس کی تخت گاہ تھی اے تخت گاہ دل
رخصت ہوئی جہان سے وہ تاجدار آج
اے ہند تیری چاہنے والی گزر گئی
میں ترے کراہنے والی گزر گئی
اے ہند تیرے سر سے اٹھا سایہ خدا
اک غم گسار تیرے کمینوں کی تھی گئی
49
Page 55
/////////
/////////////////////////////////
چودہواں جھوٹ
چودھواں جھوٹ جسے چودھویں صدی کا سب سے بڑا جھوٹ کہا جائے تو مناسب
ہوگا وہ یہ ہے کہ نام نہاد محافظین ختم نبوت“ کی طرف سے اپنی تحریرات و بیانات میں کھل کر
اور اس پمفلٹ میں اشارہ اور بالواسطہ رنگ میں یہ پراپیگنڈا کیا گیا ہے کہ معاذ اللہ حضرت
بانی سلسلہ احمدیہ نے جہاد کو منسوخ قرار دے دیا ہے.یہ الزام اس بے مثال عاشق قرآن پر
شرمناک بہتان ہے جس نے نسخ فی القرآن کے ناپاک عقیدے کو باطل ثابت کرتے
ہوئے دنیا بھر میں یہ منادی کی کہ ”جو شخص اپنے نفس کے لئے خدا کے حکم کو ٹالتا ہے وہ آسمان
میں ہرگز داخل نہیں ہو گا سو تم کوشش کرو جو ایک نقطہ یا شوشہ قرآن شریف کا بھی تم پر گواہی نہ
دے تا ئم اس کے لئے پکڑے نہ جاؤ.نیز فرمایا ' قرآن مجید خاتم الکتب ہے.اس میں اب ایک شوشہ یا نفقہ کی کمی بیشی کی
گنجائش نہیں ہے.‘، ۶۳
اسی طرح فرمایا ” قرآن کا ایک نقطہ یا شوشہ بھی اولین اور آخرین کے فلسفہ کے
مجموعی حملہ سے ذرہ سے نقصان
کا اندیشہ نہیں رکھتا.وہ ایسا پتھر ہے کہ جس پر گرے گا اس کو
66
پاش پاش کرے گا اور جو اس پر گرے گا وہ خود پاش پاش ہو جائے گا.‘، ۱۴
جہاں تک آپ کے فتویٰ جہاد کا تعلق ہے بلاشبہ آپ کی ۱۸۹۸ء اور اس کے بعد کی
جملہ کتب واشتہارات میں ان سب مسلم علماء ، زعماء اور مشاہیر کے ان تمام فتاوی کی توثیق کی
گئی ہے جو ۱۸۵۷ء سے یہ واضح نظریہ پیش کر رہے تھے کہ موجودہ حالات میں اسلامی نقطہ
صلى الله
نگاہ سے حکومت وقت کے خلاف جہاد نا جائز اور حرام ہے.اور آنحضرت خاتم الانبیاء علیہ
50
Page 56
/////
کی حدیث مبارک یضع الحرب کی روشنی میں بحیثیت حکم و عدل یہ آپ کی فرائض منصبی میں
شامل تھا جسے آپ نے مجاہدانہ شان کے ساتھ انجام دیا.اور بار بار تصریح فرمائی کہ موجودہ
حالات میں جب کہ اسلامی شرائط مفقود ہیں جہاد جائز نہیں ہے.اس سلسلہ میں بطور نمونہ
آپ کی چند تصریحات درج ذیل کی جاتی ہیں.ا.” فرفعت هذه السنه برفع اسبابها في هذه الايام
بباعث شرائط کے نہ ہونے کے موجودہ ایام میں تلوار کا جہاد نہیں رہا.٢.”وامرنا ان نعد للكافرين كما يعدون لنا ولا نرفع الحسام قبل ان نقتل
بالحسام
اور ہمیں یہی حکم ہے کہ ہم کافروں کے مقابل میں اسی قسم کی تیاری کریں جیسی
وہ ہمارے مقابلہ کے لئے کرتے ہیں یا یہ کہ ہم کافروں سے ویسا ہی سلوک کریں جیسا
وہ ہم سے کرتے ہیں اور جب تک وہ ہم پر تلوار نہ اٹھائیں اس وقت تک ہم بھی ان پر
تلوار نہ اٹھائیں..’ولا شک ان وجوه الجهاد معدومه في هذا الزمن وهذه البلاد» ۲۸
اور اس میں کوئی شک نہیں کہ جہاد کی وجوہ یا شرائط اس زمانہ اور ان شہروں میں نہیں
پائی جاتیں.۴.اس زمانہ میں جہاد روحانی صورت سے رنگ پکڑ گیا ہے اور اس زمانہ میں جہاد یہی ہے
کہ اعلائے کلمہ اسلام میں کوشش کریں.مخالفوں کے الزامات کا جواب دیں.دین متین
اسلام کی خوبیاں دنیا میں پھیلائیں.آنحضرت ﷺ کی سچائی دنیا پر ظاہر کریں یہی جہاد
ہے جب تک کہ خدا تعالیٰ کوئی دوسری صورت دنیا میں ظاہر نہ کرے ، ۶۹
66
51
Page 57
/////
۵.حضرت اقدس کے شعری کلام سے بھی ثابت ہے کہ آپ کے نزدیک جہاد منسوخ نہیں
ملتوی ہوا ہے.کیوں بھولتے ہو تم يضع الحرب کی خبر
کیا یہ نہیں بخاری میں دیکھو تو کھول کر
فرما چکا سید کونین مصطفی
ہے
عیسی مسیح جنگوں کا کر دے گا التوا کے
۶.حضرت بانی سلسلہ احمدیہ نے ۲۴ فروری ۱۸۹۸ء کولیفٹنٹ گورنر کی خدمت میں
ایک میموریل بھیجا جس میں مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی اور دیگر مخالفین کی مفتریا نہ
مخبریوں کا جواب دیتے ہوئے سلسلہ احمدیہ کے پانچ بڑے اصول بیان کئے جس میں
تیسرا اصول یہ بیان کیا کہ آپ دین اسلام کی دعوت محض دلائل عقلیہ اور آسمانی نشانوں
سے کر رہے ہیں اور خیالات غازیانہ اور جہاد
نہ اور جہاد جنگجوئی کو اس زمانہ کے لئے قطعی طور پر
حرام اور ممتنع سمجھتے ہیں.اے
۲۴ فروری ۱۸۹۸ء کے اس میموریل پر زبردست تنقید کرتے ہوئے برٹش انڈیا
کے مشہور پادری ریورنڈ ایچ.ڈی گرسولڈ (REV H.D.GRISWOLD) نے
حسب ذیل تبصرہ کیا.In the five articles of faith which the Mirza Sahib
published as his five principal doctrines in a memorial to Sir
William Mackworth Young, dated March 5th 1898, the third
article reads thus: To preach Islamic truths with reasoning and
52
Page 58
heavenly signs and to regard ghaza or Jehad as prohibited
under present circumstances (italics mine) This reminds us of
the Papal attitude toward Queen Elizabeth, which is well nown
to all students of her reign.In 1569 Pope Pius V.issued a bull
against Elizabeth, absolving her Roman Catholic subjects from
their allegiance and commanding then to wage a Papal Jehad
against the protestant queen.But this absolute command was
soon qualified by the bull of Pope Gregory XIII, issued in 1580,
which released the English Catholics from the oblegation to
resist Queen Elizabeth and allowed them to continue their
allegiance to her until they should be powerful enough to rebel
openly.In other words, the bull of Pope Gregory XIII, declared a
Papal Jihad against Elizabeth to be impracticable and prohibed
under present circumstances.Likewise, according to the Mirza
Sahib's article of faith, a jihad against the non-Muslim world is
prohibited, not absolutely, but under present circumstances.(Mirza Ghulam Ahmad THE MEHDI MESSIAH OF QADIAN by
REV H.D.GRISWOLD ph.D.P 12 Published by The American
Tract society LODIANA.1902.)
53
Page 59
( ترجمہ ) پانچ ارکان ایمان جو مرزا صاحب نے پانچ بنیادی عقائد کے طور پر سرولیم میک
ورتھ بینگ کو بتاریخ ۱۵ مارچ ۱۸۹۸ء ایک یادداشت میں تحریر کئے تھے ان میں تیسرے رکن
کے الفاظ یہ ہیں.اسلامی صداقتوں کی دلائل اور آسمانی نشانات کے ساتھ تبلیغ کرنا اور جہاد
کو موجودہ حالات میں ممنوع سمجھنا.“
یہ بات ہمیں پوپ کے ملکہ الزبتھ کے ساتھ رویہ کی یاد دلاتی ہے جو کہ ملکہ کے دور
حکومت کے ہر طالب علم کے علم میں ہے.۱۵۶۹ء میں پوپ پائس (PIUS) پنجم نے
ایک فرمان الز بتھ کے خلاف جاری کیا تھا جس میں ملکہ کی رومن کیتھلک رعایا کو ملکہ کے
ساتھ وفاداری سے بری قرار دیا تھا اور انہیں حکم دیا تھا کہ پروٹسٹنٹ ملکہ کے خلاف پاپائی
جہاد کریں.لیکن یہ قطعی حکم پوپ گریگری سیز دہم کے فرمان مجریہ ۱۵۸۰ء کے ذریعے
مشروط کر دیا گیا جس میں انگریز میتھلکس کو ملکہ الزبتھ کے خلاف طاقت استعمال کرنے
کے فرض سے سبکدوش کر دیا گیا اور انہیں ملکہ کے ساتھ وفادار رہنے کی اجازت دے دی
گئی یہاں تک کہ وہ اس قدر طاقتور ہو جائیں کہ ملکہ کے خلاف کھلے بندوں بغاوت کر
سکیں.بالفاظ دیگر پوپ گریگری سیز دہم کے فرمان نے الز بتھ کے خلاف پا پائی جہاد کو
نا قابل عمل اور موجودہ حالات میں ممنوع قرار دیا.اسی طرح مرزا صاحب کے اس رکن
ایمان کے مطابق غیر مسلم دنیا کے خلاف جہاد ممنوع ہے قطعی طور پر نہیں بلکہ صرف ”موجودہ
حالات کے تحت.ریورنڈ گر سولڈ کے اس تبصرہ کو انگریزی گورنمنٹ کے نیم سرکاری اخبار سول اینڈ
ملٹری گزٹ مورخہ ۲۴ اکتوبر ۱۸۹۴ ء کے اس مخالفانہ نوٹ کی روشنی میں مطالعہ کیا جانا
54
Page 60
/////////
//////////
چاہئے.جس کا عنوان یہ تھا.A DANGEROUS FANATIC
یعنی ایک خطر ناک مذہبی دیوانہ.اس نوٹ میں حضرت بانی جماعت احمدیہ کا ذکر کرتے
ہوئے گورنمنٹ کو زبر دست اختباہ کیا گیا کہ یہ مذہبی دیوانہ پولیس کی نگرانی میں ہے اس
میں وہ تمام عناصر موجود ہیں جن کی ترکیب سے ایک خطر ناک مرکز بنا کرتا ہے اس کی
باتوں میں ایک دبی ہوئی دہشت ہے.وہ ایک سادہ آدمی نہیں ایک خطر ناک ہلالی ہے
اور روز بروز طاقت پکڑ رہا ہے لہذا ہم پر فرض عائد ہو گا کہ مستقبل قریب میں پہلے سے
زیادہ اس پر کڑی نگاہ رکھیں.اس دور میں برٹش انڈیا کے عیسائی لیڈر انگریزی حکومت کی سی آئی ڈی اور
انگریزی صحافت کے دوش بدوش جماعت احمدیہ کے مخالف علماء بھی پوری طرح سرگرم عمل
رہے چنانچہ اول المکفرین مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی نے حکومت کو مخاطب کرتے
ہوئے لکھا.گورنمنٹ کو اس کا اعتبار کرنا مناسب نہیں اور اس سے پر حذر رہنا
ضروری ہے ورنہ اس مہدی قادیانی سے اس قدر نقصان پہنچنے کا احتمال ہے
جو مہدی سوڈانی سے نہیں پہنچا.‘، ۷۲
اسی طرح مولوی محمد کرم الدین صاحب دبیر رئیس بھین ضلع جہلم نے برطانوی
حکومت کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے خلاف اکساتے ہوئے لکھا.گورنمنٹ کو اپنی وفادار مسلمان رعایا پر اطمینان ہے اور گورنمنٹ
کو خوب معلوم ہے کہ مرزا جی جیسے مہدی مسیح وغیرہ بننے والے ہی کوئی نہ
55
Page 61
کوئی آفت سلطنت میں برپا کیا کرتے ہیں.مسلمان تو یہ زمانہ مہدی و
مسیح کا قرار ہی نہیں دیتے کیوں کہ یہ امن اور انصاف و عدل کا زمانہ
ہے اور خلق خدا کو ہر طرح سے اس سلطنت کے سایہ میں امن اور
آسائش حاصل ہے.اور مہدی اور مسیح کے آنے کی جب ضرورت ہوگی
کہ عنان سلطنت سخت ظالم اور جفا پیشہ بادشاہ کے ہاتھ میں ہوگی اور
روئے زمین پر کشت و خون اور فتنہ و فساد کا طوفان برپا ہوگا.اس وقت
اس کی ضرورت ہوگی کہ الہ العالمین اپنی مخلوق کی حفاظت اور آسائش
دامن گستری کے لئے کسی انصاف مجسم امام بادشاہ اسلام (مهدی و سیح)
کو مبعوث فرمائیں لیکن مرزا جی نے تو مسلمانوں میں یہ خیال پیدا کر دیا
ہے کہ مہدی ومسیح کا یہی زمانہ ہے اور قادیاں ضلع گورداسپور میں وہ
مہدی ومسیح بیٹھا ہوا ہے.وہ کسر صلیب کے لئے مبعوث ہوا ہے تا کہ
عیسویت کو محو کر کے اسلام کو روشن کرے اور یہ بھی برملا کہتا ہے کہ خدا نے
اسے بتلا دیا ہے کہ سلطنت بھی اسی کو ملنے والی ہے چنانچہ اس نے اپنی
متعدد تصانیف میں یہ الہام و کشف سنایا ہے کہ خدا نے اسے بتلا دیا ہے
کہ بادشاہ اس کے کپڑوں سے برکت ڈھونڈیں گے.بلکہ یہ بھی لکھ دیا
ہے کہ وہ بادشاہ اسے دکھائے بھی گئے ہیں.اور یہ بھی کہتا ہے کہ اس
سے معلوم ہوتا ہے کہ بادشاہت مرزائیوں کو ملے گی کیا عجب کہ ایک
زمانہ میں مرزائیوں کو جو اس کی پیشن گوئیاں پورا کرنے کے لئے اپنی
جانیں دینے کو تیار ہیں جیسا کہ اپنے بیان میں وہ لکھ چکا ہے کہ اس کے
56
Page 62
////////
مرید جان و مال اس پر قربان کئے بیٹھے ہیں ) یہ جوش آجائے کہ اس
پیشگوئی کو پورا کیا جائے اور وہ کوئی فتنہ و بغاوت برپا کریں.اس میں
کوئی شک نہیں کہ مرزا جی نے مسلمانوں کو نصاری سے سخت بدظن اور
مشتعل کر رکھا ہے.وہ دجال سمجھتے ہیں تو نصاری کو خرد جال کہتے ہیں تو
ریلوے کو اب سوال یہ ہے کہ یہ ریلوے کس نے جاری کر رکھی ہے؟
جب یہ خرد جال ہے تو اس کے چلانے والے بادشاہ وقت کو ہی یہ دجال
کہتے ہیں اور مسلمانوں کو اس کے برخلاف سخت مشتعل کر رہے ہیں.گورنمنٹ کو ایسے اشخاص کا ہر وقت خیال رکھنا چاہئے.‘، ۷۳
آہ! یہ کتنا بڑا حادثہ ہے کہ یہ خدا نا ترس علماء انگریزی دور حکومت میں
حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کو واضح الفاظ میں باغی قرار دیتے تھے مگر اس کے
برعکس اب آپ کو برطانوی استعمار کے ایجنٹ ۴ کے اور انگریزی نبی کے نام
سے یاد کرتے ہیں.الغرض جس زاویہ نگاہ سے بھی تحقیقی نظر ڈالی جائے
اس حقیت میں کوئی شبہ نہیں رہ جا تا کہ مذکورہ پمفلٹ اکاذیب و اباطیل کا
مجموعہ اور دجل وتلبیس کا بدترین نمونہ ہے اور دل گواہی دیتا ہے کہ نبوت
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر کسر صلیب بانی سلسلہ احمدیہ پر اور جھوٹ
احراری دیو بندی ملاؤں پر ختم ہے.احرار کی اس جھوٹی کہانی نے انگریز مورخ ہالویل (HOLWELL)
کے اس افسانہ کی یاد تازہ کر دی ہے جو اس نے ۱۷۵۷ء کے شروع میں
انگلستان جاتے ہوئے تراشہ تھا اور جسے کلکتہ کے ”بلیک ہول ۵ کے کا نام
57
Page 63
دیا گیا.اس فسانہ کے زبر دست پراپیگنڈا نے انگریزی حکومت پر اتنی
دہشت طاری کر دی تھی کہ ڈاکٹر سر محمد اقبال نے اپنی تاریخ ہند میں جب
اس افسانے کی پر زور تردید فرمائی تو ان کی تصنیف شائع نہ ہو سکی.مگر اب
ہر طبقے نے ”بلیک ہول کے واقعہ کو بے اصل مان لیا ہے.یہاں تک کہ
تاریخوں میں اس کا نام تک نہیں آتا.ہالویل (HOLWELL) نے فی الحقیقت یہ فسانہ اس لئے تراشہ
تھا کہ مسلمان حکمران نواب سراج الدولہ والی بنگال پر حملہ کرنے کی وجہ
جواز پیدا کی جاسکے.لارڈ کلایو کی میر جعفر کے ساتھ سازش بھی اسی سلسلہ
کی ایک کڑی تھی.کے احرار کے فسانہ نگار کا مقصد وحید بھی اس افسانے
سے پورے ملک میں شورش بر پا کر کے ۱۹۵۳ء کی ایجی ٹیشن کو کامیابی کے
مراحل تک پہنچانا اور اسے ملت اسلامیہ سے الگ کرانا تھا اور اس پر
۱۹۷۴ء کے واقعات شاہد ناطق ہیں.58
Page 64
/////////
//////////////////////////////
حضرت امام جماعت احمدیہ کا حقیقت افروز تبصره
حضرت امام جماعت احمد یہ سید نا خلیفتہ امسیح الرابع نے یکم فروری ۱۹۸۵ء
کے خطبہ جمعہ کے دوران احرار کی فرضی کتاب اور جعلی حوالہ کا تذکرہ کرتے ہوئے
فرمایا:.ایک بھی نئی بات ایسی نہیں جو گزشتہ انبیاء کے متعلق نہ کہی گئی ہو اور
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے متعلق کہی گئی ہو.اور بسا اوقات
جو اعتراضات حضرت اقدس محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم پر کئے جاتے تھے
وہی آپ کے عاشق صادق محبت کرنے والے پاکیزہ غلام پر بھی دہرائے
جارہے ہیں.چنانچہ حکومت پاکستان نے جو مزعومہ وائیٹ پیپر شائع کیا ہے
اس میں بھی بہت زیادہ زور اس بات پر دیا گیا ہے کہ یہ انگریز کا خود کاشتہ پودا
ہے اور انگریز کا بنایا ہوا نبی ہے چنانچہ ان کے الفاظ یہ ہیں کہ جدید تحقین
نے ثابت کر دیا ہے کہ احمدیت انگریز کا خود کاشتہ پودا ہے جو برطانوی
سلطنت کے مفادات کے تحفظ کی خاطر لگایا گیا.وہ جدید تحقین کون
سے ہیں؟ ان کا کوئی ذکر نہیں، ان کی تحقیق کیا بتاتی ہے؟ اس کا بھی کوئی
ذکر نہیں بلکہ محض ایک فرضی الزام گھڑ کر پیش کر دیا گیا ہے لیکن طرز زبان
ایسی اختیار کی گئی ہے جسے مغربی دنیا یا آج کل کے تعلیم یافتہ دوسرے
لوگ عموماً قبول کر لیں کہ واقعی یہ ایک بڑی محققانہ زبان ہے کہ آج کے
59
Page 65
////////
جدید محققین نے ثابت کر دیا ہے.“
ایک تحقیق جو اس ضمن میں ان کی طرف سے شائع کی گئی تھی اس میں
ایک ایسی کتاب کا نام لیا گیا جو ان کے بیان کے مطابق انگلستان کے کسی
پریس سے شائع ہوئی.اس میں یہ اقرار کیا گیا تھا کہ انگریزوں نے اپنی
پارلیمنٹ میں یہ فیصلہ کیا تھا کہ ہندوستان کو قابو کرنے کے لئے وہاں ایک
جھوٹا نبی کھڑا کیا جائے اور اس کا نام ظلی نبی رکھا جائے.گویا ظلی نبی“
انگریزی محاورہ ہے.اور انہوں نے کہا کہ اصل علاج تو یہ ہے کہ
ہندوستان میں ایک ظلی نبی پیدا کر دیا جائے اور پھر اس کے ذریعہ سارے
مسلمانوں کو قابو کر لیا جائے.چنانچہ جب میں نے ( یہ بہت پرانی بات
ہے میں اس زمانہ میں وقف جدید میں تھا) یہاں (لنڈن) کے امام
صاحب کو لکھا کہ اگر چہ یہ واضح جھوٹی بات ہے لیکن پھر بھی آپ وہ کتاب
دیکھیں کہ اس میں کوئی ایسی بات ہے بھی کہ نہیں یا ممکن ہے کہ کسی اور قسم کا
ذکر ہوا ہو جسے توڑ مروڑ لیا گیا ہو تو امام صاحب نے جواب دیا کہ اس نام
کی تو کوئی کتاب ہی نہیں ہے.میں نے کہا پھر تحقیق کریں اور پریس
والوں سے پوچھیں تو جواب یہ ملا کہ ہم نے بہت تحقیق کی ہے کتاب تو
در کنار اس نام کا پریس ہی کوئی نہیں.“
60
60
Page 66
7////////
///////////
جھوٹی کہانی کے اٹھائیس سال
ترمیمات متضاد بیانات اور اضافے )
ہٹلر کے دست راست اور نازی حکومت کے وزیر نشر واشاعت گوبلز پاؤل
جوزف (GOEBBELS PAUL JOSEPH) کا اصول یہ تھا کہ
بڑے سے بڑے جھوٹ کو مختلف انداز میں دہراتے رہنا چاہئے تاکہ ذہنوں میں اتر
جائے اور سچ نظر آنے لگے.مگر احراری اور دیوبندی علماء کے نزدیک کیونکہ احیاء حق
کے لئے جھوٹ کو وجوب کا درجہ حاصل ہو جاتا ہے اس لئے ان کا معیار کذب و افترا
گوبلز سے بھی بہت بلند ہے.یہی وجہ ہے کہ یہ حضرات پمفلٹ میں درج شدہ جعلی
کتاب اور فرضی حوالے کو دستاویزی ثبوت کے کی حیثیت سے پیش فرمار ہے
ہیں.فانا لله وانا اليه راجعون -
ع
چه دلاور است دزدے کہ بکف چراغ دارد
اور چونکہ پوری کہانی ہی سراسر جھوٹی اور بے بنیاد ہے.اس لئے اسے اور زیادہ دلکش
اور دلفریب بنانے کے لئے اس میں اضافوں اور ترمیموں کا سلسلہ برابر جاری ہے.زیب
داستان کرنے کی مہم سر کرنے کے لئے احراری قلم نے اب تک جو ز ور تحریر کی جولانیاں
دکھائی ہیں اس کے بعض دلچسپ نمونے خاص توجہ کے لائق ہیں.ا.سات برس تک احراری مصنف یہ ڈھنڈورا پیٹتے رہے کہ ۱۸۷۰ء کی مشتر کہ برطانوی
رپورٹ میں ایک ”حواری نبی کھڑا کئے جانے کی تجویز کی گئی مگر اپریل ۱۹۷۴ء میں
یکا یک اس میں یہ اضافہ کیا گیا کہ اس رپورٹ کی روشنی میں خطرات کا حل یہ تجویز ہوا کہ
61
Page 67
کسی شخص سے محمد کا حواری نبی ہونے کا دعوی کرایا جائے، ۷۸ چودہ سو سال کی اسلامی تاریخ شاہد و ناطق ہے کہ محمد کے حواری نبی“ کی اصطلاح
کبھی استعمال نہیں کی گئی.ایسی صورت میں پادریوں کو بھلا یہ توقع ہی کیسے ہوسکتی تھی کہ
مسلمانوں کی طرف سے ایسے مدعی کا کوئی خیر مقدم کیا جائے گا؟
۲.وہ صاحب جنہوں نے مذکورہ بالا اضافہ کیا انہیں یہ اعزاز حاصل ہے کہ انہوں نے درج
ذیل بیان شائع کر کے اس شرمناک داستان کو نقطہ کمال تک پہنچادیا کہ:.ایک بزرگ خواجہ احمد صاحب کو لدھیانہ میں مہا راجہ پٹیالہ جے سنگھ نے انگریزوں کی
طرف سے پیشکش کی تھی لیکن انہوں نے یہ کہہ کر انکار کر دیا کہ میں ایمان نہیں بیچ سکتا.اس
امر کا تذکرہ مرزا غلام احمد کی موجودگی میں ہوا.مرزا صاحب نے مہاراجہ سے مل کر ایمان
کا سودا کر لیا.مہاراجہ کا نام جے سنگھ بہادر اور ان کا خطاب امین الملک جو مہاراجہ کو
وک
انگریزوں نے دیا تھا.“ کے
پٹیالہ کی سکھ ریاست کے مفصل حالات منشی دین محمد صاحب ایڈیٹر میونسپل گزٹ
لاہور نے یادگار در بار تاجپوشی میں گیانی گیان سنگھ صاحب نے ” تواریخ خالصہ میں
لالہ سوہن لال صاحب نے عمدۃ التواریخ میں اور سرلیپل گریفن اور کرنل چارلس فرانس
میسی نے دی پنجاب چیفس (THE PUNJAB CHIEFS) میں بڑی شرح بسط
سے لکھے ہیں.ان سب تواریخ سے بالا تفاق ثابت ہے کہ حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کا کوئی
ہمعصر راجہ جے سنگھ اس ریاست میں حکمران ہی نہیں رہا.نہ کسی سکھ حکمران کو انگریز نے امین
الملک کا خطاب دیا.مجلس تحفظ ختم نبوت پاکستان کی مطبوعہ روداد ۱۹۷۹ء صفحہ ۷ میں یہ انکشاف
62
62
Page 68
کیا گیا کہ پادریوں نے ظلی نبی کا نہیں بلکہ مہدی اور مسیح کو پیدا کرنے کا منصوبہ پیش کیا
تھا چنانچہ لکھا ہے.پادریوں نے انگلینڈ جا کر رپورٹ پیش کی کہ مسلمانان عالم کا جذبہ جہاد
اور اعلاء کلمۃ الحق کا جوش اسقدر ہے کہ ضروری ہے کہ اسے ختم کرنے کے
لئے کسی مہدی اور مسیح کو پیدا کیا جائے.کیونکہ مسلمانوں کا عقیدہ ہے کہ
امام مہدی قرب قیامت میں ظہور پذیر ہوں گے.مسیح ابن مریم آسمان
سے نزول فرمائیں گے.مسیح ہونے کا دعوی کرے اور جہاد کو حرام قرار
دے.اس سے مسلمانوں میں افتراق پیدا ہوگا اور ان کا جذبہ جہاد کمزور ہو
جائے گا.“
۴.حضرت بانی سلسلہ احمدیہ دعویٰ ماموریت سے قبل سیالکوٹ میں اپنی
والدہ ماجدہ کی وفات تک رہے اور پھر مستقل طور پر قادیان تشریف لے
آئے اور خاندانی روز نامچہ میں حضرت والدہ صاحب کی تاریخ وفات
۲ ذی الحج ۱۲۸۳ھ مطابق ۱۸ اپریل ۱۸۶۷ء) درج ہے مگر مدیر
صاحب لولاک فیصل آباد کی تاریخ دانی کی داد دینی چاہئے کہ انہوں
نے مفروضہ کہانی کو برحق ثابت کرنے کے لئے حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کو
۱۸۷۰ء میں قادیان کی بجائے سیالکوٹ میں مقیم بنادیا.’صاحبزادہ صاحب لکھتے ہیں.پنجاب کے گورنر نے اس کام کی ڈیوٹی ڈپٹی کمشنر سیالکوٹ کے ذمہ
لگائی.چنانچہ نبی کی تلاش کا کام شروع ہوا.آخر قرعہ فال مرزا غلام
63
Page 69
//////// احمد قادیانی کے نام نکلا جو ڈ پٹی کمشنر سیالکوٹ کی کچہری میں معمولی
신
ملازم تھا، ۵۱
۵.فیصل آباد کے ایک بریلوی عالم صاحبزادہ محمد شوکت علی چشتی نظامی
ایم اے بانی مرکزی جماعت غریب نواز پاکستان نے ۱۵ نومبر ۱۹۸۵ء کو
جامعہ مسجد تو کلیہ فیصل آباد میں مدیر لولاک کے دعوی کی تقلید کرتے ہوئے
مفروضہ کہانی کی ایک گمشدہ کڑی دریافت کی اور وہ یہ کہ انگریزی نبی کی
تلاش کا کام مولانامحمد قاسم صاحب نانوتوی کے سپر د ہوا تھا نہ کہ ڈپٹی کمشنر
سیالکوٹ کے.چنانچہ انہوں نے جلسہ عام کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا.اس رپورٹ کے مطابق انگریزوں کو یقین ہو گیا کہ جب تک کسی
شخص کو نبوت کے مقام پر فائز نہیں کر دیا جا تا ہم اپنے پروگرام میں کلی طور
پر کامیابی حاصل نہیں کر سکتے.لہذا کسی شخص کو نبوت کے مقام پر فائز
کرنے سے قبل راستہ ہموار کرنے کی ضرورت محسوس ہوئی تو اس خدمت
کو دار العلوم دیوبند انڈیا کے بانی مولوی محمد قاسم نانوتوی نے جمیع
مسلمانوں کے عقائد ونظریات کے خلاف خوب نبھایا اور اپنی تحریر سے نئی
نبوت کی داغ بیل یوں ڈالی.غرض اختتام اگر بایں معنی تجویز کیا جائے جو میں نے عرض کیا تو
آپ کا خاتم ہونا انبیاء گزشتہ ہی کی نسبت خاص نہ ہوگا بلکہ اگر بالفرض
آپ کے زمانہ میں بھی کہیں اور نبی ہو جب بھی آپ کا خاتم ہو نا بدستور
باقی رہے گا.(تحذیر الناس)
64
Page 70
بلکہ اگر بالفرض بعد زمانہ نبوی سے بھی کوئی نبی پیدا ہو تو پھر بھی خاتمیت
محمدی میں کچھ فرق نہ آئے گا.( تحذیر الناس)
بعد حمد وصلوٰۃ کے قبل عرض جواب یہ گزارش ہے کہ اول معنی خاتم النبین معلوم
کرنے چاہئیں تا کہ فہم جواب میں کچھ دقت نہ ہو.سو عوام کے خیال میں تو رسول ع
خاتم ہونا بایں معنی ہے کہ آپ کا زمانہ انبیاء سابق کے زمانہ کے بعد ہے اور آپ سب میں
آخری نبی ہیں.مگر اہل فہم پر روشن ہوگا کہ تقدم یا تاخر زمانی میں بالذات کچھ فضیلت
نہیں.پھر مقام مدح میں ولکن رسول الله و خاتم النبین.فرمانا اس صورت میں
کیونکر صحیح ہوسکتا ہے.(تحذیرالناس)
مذکورہ عبارات ثابت کر رہی ہیں.اہل فہم وہی لوگ ہیں جو خاتم النبیین کے
معنی آخری نبی نہیں کرتے ان میں صرف قاسم نانوتوی ہیں فرنگی حکومت نے
خودساختہ نبوت کا راستہ ہموار کرلیا.“
یادر ہے کہ صاحبزادہ محمد شوکت علی صاحب چشتی نظامی کو ان کے حلقہ عقیدت میں
قبلہ و کعبہ مرشد برحق اور نشینم اسلام کے نام سے یاد کیا جاتا ہے.اور یہ مقام مدیر لولاک کو
حاصل نہیں.لہذا صاحبزادہ محمد شوکت علی صاحب دیو بندی امت کو مخاطب کرتے ہوئے
کہہ سکتے ہیں.ع
مستند ہے میرا فرمایا ہوا
لیکن یہ قصہ ابھی ختم نہیں ہوا.ایک اور بریلوی عالم جناب محمد ضیاء اللہ صاحب قادری
مہتم دار العلوم قادریہ سیالکوٹ ) کی ” دور بین نگاه حضرت مولانا محمد قاسم صاحب
نانوتوی سے بھی آگے پہنچی ہے اور انہوں نے اپنی باطنی قوت سے ۱۸۷۰ء کی مزعومہ
دو
65
Page 71
رپورٹ کے ڈانڈے حضرت سید احمد بریلوی اور حضرت شاہ اسماعیل دہلوی سے ملا ڈالے
ہیں جو حضرت نانوتوی کی ولادت سے بھی دو سال پیشتر مئی ۱۸۳۱ء میں شہید ہو چکے تھے.چنانچہ قادری صاحب فرماتے ہیں.سرولیم ہنٹر کی رپورٹ اور تجویز اور پادری صاحبان کی تجویز دونوں کو
ذہن نشین رکھ کر اور بعد ازیں سید احمد بریلوی اور مولوی اسماعیل دہلوی
نے نام نہاد جوتحریک چلائی اس کا بغور مطالعہ کیا جائے تو یہ حقیقت کھل کر
سامنے آجاتی ہے کہ انگریزوں نے سب سے پہلے ان دو حضرات کو
اپنے مشن میں کامیابی کے لئے چنا.دہلی کی جامع مسجد میں انگریزوں
کے خلاف جہاد کا فتویٰ دینے والے اسماعیل دہلوی تھے.پادریوں کی
پیری مریدی کے سلسلہ والی تجویز اسی اسماعیل دہلوی نے سرانجام دینے
کا بیڑا اٹھایا کیونکہ اسماعیل دہلوی نے اپنے آپ کو سید احمد کا مرید ظاہر
کرنا شروع کر دیا.اور پیری مریدی کا چکر چلایا.اس سلسلہ میں ایک
کتاب صراط مستقیم کے نام سے بھی لکھ دی تا کہ انگریز کو پورا پورا یقین ہو
جائے.۸۳
پاپوش
ހނ
لگائی کرن آفتاب کی
جو بات کی خدا کی قسم لاجواب تھی
۶ - اگست ۱۹۹۳ء میں پاکستان کے ایک اہل قلم نے یہ گپ ہانک کر تاریخ سازی کی دنیا
میں ایک نیاریکارڈ قائم فرمایا کہ
برطانوی ہند کی سنٹرل انٹیلی جنس کی روایت کے مطابق ڈپٹی کمشنر نے
66
Page 72
////
چار اشخاص کو انٹرویو کے لئے طلب کیا.ان میں سے مرزا صاحب نبوت
کے لئے نامزد کئے گئے.“
۸۴
مؤلف کتاب نے اپنی مایہ ناز تحقیق“ کا سلسلہ اسنادان بدنام زمانہ معاندین
احمدیت تک پہنچا کر خاموشی اختیار کر لی ہے جو بیسویں صدی کی پیداوار ہیں اور جن میں
سے بعض کو شاعر مشرق نے خنزیر کا لقب بھی دے رکھا ہے.۱۵
علامہ کی یہ تشبیہ گالی نہیں ایک لطیف استعارہ ہے جس کی تہہ تک پہنچنے کے لئے
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی درج ذیل حدیث کا مطالعہ از بس ضروری ہے.تکون
في امتي فزعه فيصير الناس الى علمائهم فاذاهم قرده و خنازیر“(کنزل
العمال جلدے صفحہ ۱۹۰ از دائرة المعارف النظاميه حيدرآباد دکن مطبوعہ
۱۳۱۴ھ ) یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میری امت پر ایک زمانہ اضطراب اور
انتشار کا آئے گا.لوگ اپنے علماء کے پاس راہنمائی کی امید سے جائیں گے تو وہ انہیں
بندر اور سؤر پائیں گے.یہ جدید پاکستانی محقق ملاؤں کی مفروضہ کہانی کو سہارا دینے کے لئے پہلے تو یہ
ذکر فرماتے ہیں کہ بانی سلسلہ احمدیہ نے سیالکوٹ میں پاور یوں بالخصوص پادری بٹلر سے
بڑے تلخ و ترش مناظرے کئے.پھر اس حقیقت کو تسلیم کرنے کے بعد ( جناب آغا شورش
کاشمیری صاحب ( مدیر چٹان) کی روایت سے رقمطراز ہیں:.”مرزا نے ملازمت کے دوران سیالکوٹ کے پادری مسٹر بٹلر ایم اے
سے رابطہ قائم کیا.اس کے پاس عموماً آتا اور دونوں اندر خانہ بات چیت
کرتے.بٹلر نے وطن جانے سے پہلے آپ سے تخلیہ میں کئی طویل
67
Page 73
ملاقاتیں کیں.پھر اپنے ہم وطن ڈپٹی کمشنر کے ہاں گیا اس سے کچھ کہا اور
انگلستان چلا گیا.ادھر مرز اصاحب استعفیٰ دے کر قادیان آگئے.اس کے
تھوڑے عرصہ بعد مذکورہ وفد انگلستان پہنچا اور لوٹ کر مجوزہ رپورٹیں مرتب
کیں.ان رپورٹوں کے فوراً بعد ہی مرزا صاحب نے اپنا سلسلہ شروع
66
کر دیا.۸۶
ایک سیاسی دماغ اور سازشی ذہن جو جھوٹی کہانیاں وضع کرنے میں بھی
مشاق ہو کس طرح قلم کی خداداد طاقت وقوت کے بل بوتے پر حق کو باطل ثابت
کرنے کی ناکام کوشش کرتا ہے؟ مندرجہ بالا روایت اس کی ایک واضح مثال
ہے.کیونکہ حضرت اقدس کے سیالکوٹ میں قیام کے زمانہ کے سب سے مستند اور
سب سے بڑے عینی شاہد ڈاکٹر سر محمد اقبال کے استاد علامہ سید میرحسن صاحب
سیالکوٹی تھے.جنہیں آپ کی خدا نما جوانی ، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے عاشقانہ
تعلق اور عیسائیت کے خلاف آپ کے پر جوش جہاد کو بہت قریب سے دیکھنے کا موقع
ملا.آپ کے قلم سے اس دور کے مفصل حالات و واقعات ستمبر ۱۹۱۵ء میں آپ کی
زندگی ۱۷ میں ہی شائع ہو گئے تھے.پادری بٹلر سے مناظرات اور آخری
ملاقات کا تذکرہ آپ نے جن الفاظ میں فرمایا ہے ان سے اصل حقیقت آفتاب
صداقت بن کر سامنے آجاتی ہے.علامہ سید میر حسن صاحب تحریر فرماتے ہیں.پادری بٹلر صاحب ایم اے سے جو بڑے فاضل اور محقق تھے مرزا
صاحب کا مباحثہ بہت دفعہ ہوا.یہ صاحب موضع گوہد پور کے قریب رہتے
68
68
Page 74
تھے.ایک دفعہ پادری صاحب فرماتے تھے کہ مسیح کو بے باپ پیدا کرنے
میں یہ سر تھا کہ وہ کنواری مریم کے بطن سے پیدا ہوئے.اور آدم کی شرکت
سے جو گنہگار تھا بری رہے.مرزا صاحب نے فرمایا کہ مریم بھی تو آدم کی
نسل سے ہے.پھر آدم کی شرکت سے بریت کیسے.اور علاوہ ازیں عورت
ہی نے تو آدم کو ترغیب دی جس سے آدم نے درخت ممنوع کا پھل کھایا
اور گنہگار ہوا.پس چاہئے تھا کہ مسیح عورت کی شرکت سے بھی بری رہتے
اس پر پادری صاحب خاموش ہو گئے.پادری بٹلر صاحب مرزا صاحب کی بہت عزت کرتے تھے اور بڑے
ادب سے ان سے گفتگو کیا کرتے تھے.پادری صاحب کو مرزا صاحب
سے بہت محبت تھی.چنانچہ جب پادری صاحب ولایت جانے لگے تو
مرزا صاحب کی ملاقات کے لئے کچہری میں تشریف لائے.ڈپٹی کمشنر
صاحب نے پادری صاحب سے تشریف آوری کا سبب پوچھا تو پادری
صاحب نے جواب دیا کہ میں مرز اصاحب سے ملاقات کرنے کو آیا تھا.چونکہ میں وطن جانے والا ہوں اس واسطے ان سے آخری ملاقات کروں
گا چنانچہ جہاں مرزا صاحب بیٹھے تھے وہیں چلے گئے اور فرش پر بیٹھے رہے
اور ملاقات کر کے چلے گئے.“ ۸۸
ع
اتنی سی بات تھی جسے افسانہ کر دیا
ے.اس ضمن میں فسانہ سازی کا ایک تازہ شاہکار بھی ملاحظہ ہو جو روزنامہ ”خبریں“
مورخه ۲۷ رمئی ۱۹۹۵ء کے طفیل منظر عام پر آیا ہے.مگر اس سے لطف اندوز ہونے کے
69
Page 75
7777
لئے ذہن میں یہ رکھنا ضروری ہے کہ حضرت بانی جماعت احمدیہ کا انتقال ۱۹۳۴ء سے
چھبیس سال قبل ۲۶ مئی ۱۹۰۸ء کو ہوا مگر مجلس ختم نبوت“ کے ہمنوا اور نام نہاد مورخ
تحریر فرماتے ہیں:.۱۹۳۴ء میں انگریزوں نے غلام احمد قادیانی کو جب سیالکوٹ کی
کچہری سے اٹھا کر جھوٹی نبوت کے منصب پر فائز کر دیا تو امیر شریعت
ناموس رسول پر حملہ آور اس نئے فتنہ کی سرکوبی کے لئے میدان میں
آئے.۱۹۶۷-۸ء کے احراری پمفلٹ کے مطابق ظلی نبی کی اصطلاح کے موجد
پادری صاحبان تھے مگر مدیر صاحب لولاک نے کئی سال بعد اس میں یہ کہہ
کر ترمیم کر دی کہ ” مرزا صاحب نے ظلی و بروزی نبی کی اصطلاحات
ایجاد کیں.“
۹.احراری پمفلٹ نے پادری صاحبان کی زبان سے ۱۸۷۰ء میں
ظلی نبی کی اصطلاح استعمال کرا کے احراری سازش کو خود ہی طشت
از بام کر دیا تھا اور پہلے روز سے ہی گویا بلی تھیلے سے باہر آگئی تھی.اس لئے احرار کے نام نہاد محافظ ختم نبوت نے اپنی کتاب "تحریک ختم
نبوت، 21 صفحہ ۲۱۳ میں رپورٹ کا متن دیتے ہوئے ظلی نبی کا لفظ
حذف کر دیا.۱۰.اصل پمفلٹ میں ۱۸۶۹ء کے خیالی انگریزی وفد یا کمشن کے
ممبروں
کا کوئی ذکر نہیں تھا مگر کتاب ”بھٹو اور قادیانی مسئلہ کے فاضل“
70
Page 76
مصنف نے اپنی تازہ تصنیف میں اس راز سر بستہ سے پردہ اٹھانے کی
کوشش فرمائی اور لکھا ۹۲ کہ یہ کمشن برٹش پارلیمنٹ کے ممبروں، بعض
انگلستانی اخبار کے ایڈیٹروں اور چرچ آف انگلینڈ کے نمائندوں پر مشتمل
تھا.حیرت ہے کہ مطبوعہ رپورٹ کے مطابق جب کہ یہ بھاری وفد ایک
سال تک ہندوستان کا سروے کرتا رہا مگر کسی نے ہندوستان یا انگلستان
کے اخبارات نے اس کی کوئی خبر شائع نہ کی.کتاب کے مصنف نے
مزید لکھا:.66
یہ وفد وائسرائے کینگ (CANNING) کے مشیر کی یاد داشت
کے بعد گیا تھا.جو ملکی حالات خطرات سے متعلق تھی.اس وفد نے
۱۸۷۵ء میں حکومت کو اپنی رپورٹ پیش کی.‘ ۹۳
۱۱.احراری پمفلٹ میں یہ دعویٰ کیا گیا تھا کہ انگریزی کمیشن نے ۱۸۷۰ء
میں اپنی رپورٹ پیش کی تھی مگر یہ صاحب اس کو غلط قرار دیتے ہوئے
اصل سال ۱۸۷۵ء بتلاتے ہیں جس سے اس پر اسرار اور مفروضہ کہانی کا
سارا جال ہی بکھر جاتا ہے.دوسرے انہوں نے اپنی شان مورخانہ
کی عوام کالانعام پر دھاک بٹھانے کے لئے یہ تحقیق پیش کر کے علمی
دنیا کو چونکا دیا ہے کہ یہ وفد وائسرائے کیٹنگ (CANNING) کے
مشیر کی یادداشت کے بعد گیا تھا.“
یہ ایک انتہائی مضحکہ خیز دعوی ہے جس پر جتنا بھی ماتم کیا جائے بہت
کم ہے.وجہ یہ کہ مستند برطانوی تاریخ سے ثابت ہے کہ لارڈ کیننگ
71
Page 77
////////////
۱۸۵۶ء سے ۱۸۶۲ء تک پہلے گورنر جنرل اور پھر وائسرائے ہند رہے اور
۱۸۶۲ء میں ہی ہندوستان سے واپسی کے بعد انتقال کر گئے.۹۴
قیاس کن ز گلستان من بهار مرا
ع
فسانہ سازی کی ایک نادر مثال
عصر حاضر کے فرقہ پرست اور کانگرسی علماء کو فسانہ طرازی کے فن میں ید طولی حاصل
66
ہے جس کی ایک نادر مثال اور لا جواب نمونہ ایک عالم دین کے قلم سے ملاحظہ ہو.فرماتے ہیں.اہل تشیع ایک سراب کا تعاقب کر رہے ہیں.وہ جس امام مہدی کی آمد کی
آس لگائے بیٹھے ہیں وہ انگریز کی فکری بساط کا ایک مہرہ تھا.شیعہ مجتہد
ملا باقر مجلسی اپنی کتاب ”جلاء العیون“ میں معتبر اسناد کے ساتھ شیخ طوسی
کے حوالے سے جو دیو مالائی روایات لائے ہیں وہ روایات اسی حقیقت
کی آئینہ دار ہیں.ان روایات سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ تیسری صدی ہجری کے
دوسرے عشرے میں امام حسن عسکری انگریزوں سے روابط بڑھانے کے
لئے انگریزی زبان سیکھتے رہے اور دوسری طرف انگریز ایک حسین و جمیل
دوشیزہ کو عربی زبان سکھاتے رہے تا آنکہ امام حسن عسکری نے بشیر بن
سلیمان بردہ فروش کی خدمات حاصل کیں اور انگریزی زبان میں ایک
دوسرے بردہ فروش عمرو بن زید کو خط تحریر کیا جو بشیر بن سلیمان ، عمرو بن زید
72
Page 78
کے پاس لے کر پہنچا.اس وقت وہ عیسائی دوشیزہ مغرب سے چل کر مشرق
کے بردہ فروشوں کی منڈی میں آچکی تھی.بشیر بن سلیمان اس انگریز خاتون
کو بردہ فروش عمرو بن زید سے دوسواشرفیوں کے عوض خرید کر امام حسن
عسکری کے پاس لے آیا اور امام حسن عسکری نے اسے اپنی زوجیت میں
لے لیا.یہ خاتون قیصر روم کے فرزند یشوعا کی دختر نیک اختر تھی.روایت
میں کہا گیا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت مسیح کی مرضی سے
خواب میں حضرت حسن عسکری سے اس خاتون کا نکاح کرادیا تھا اور یہ
خاتون خواب میں ہی فاطمہ بنت محمد کے ہاتھوں مشرف بہ اسلام ہوئی تھی.امام حسن عسکری کی حبالہ عقد میں آنے کے بعد اس خاتون نے ایک بچے کو
جنم دیا.جب بچے کی عمر پانچ برس ہوئی تو وہ بچے کو لے کر غائب ہوگئی.شیعہ مومنین کو ان کے آئمہ مجتہدین نے باور کرایا کہ یہ بچہ امام مہدی
تھا، جو اپنی ماں کے ساتھ غار میں چھپ گیا ہے.پھر ایک عرصے تک یہ
عقیدہ رہا کہ یہ امام کی غیبت صغری ہے.اس اثناء میں وہ اپنے خفیہ
نقیبوں (انگریزوں) کے ذریعے امت کی رہنمائی کرتے رہے.جب وقتی
مقاصد ومصالح ختم ہو گئے تب یہ بات لوگوں کو ذہن نشین کرائی گئی کہ اب
امام غیبت کبری میں داخل ہو چکے ہیں.اب آپ نقیبوں کے ذریعے
رہنمائی کا کام انجام نہیں دیں گے بلکہ قیامت برپا ہونے سے پہلے بنفس
نفیس خود حاضر ہو کر امت کی رہنمائی فرمائیں گے.یہ ہے اہل تشیع
کے امام زمانہ کی کہانی اور ارباب کلیسا کی کارستانی...73
Page 79
سچ فرمایا مخبر صادق خاتم المؤمنین خاتم العارفین خاتم النبیین حضرت محمد مصطفی احمد مجتبی صلی اللہ
علیہ وسلم نے کہ:.يكون في اخر الزمان دجالون كذابون ياتونكم من
الاحاديث مالم تسمعوا انتم ولا اباوكم فاياكم واياهم لا
يضلو نكم ولا يفتنونكم
،،
فرمایا:.آخری زمانے میں ایسے ایسے دجال اور کذاب پیدا ہوں گے جو تمہیں ایسے
ایسے عجیب وغریب قصے اور افسانے ۱۷ سنائیں گے جو تمہارے باپ دادا نے بھی نہ
سنے ہوں گے.پس ان سے بچ کر رہنا.ایسا نہ ہو کہ وہ تم کو گمراہ کر دیں اور فتنہ میں ڈال
دیں.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اس پیشگوئی کے مطابق جماعت احمدیہ کے خلاف
دجل و تلبیس کی فتنہ سامانیاں اور مخالفانہ کا روائیاں اس کے قیام سے لے کر اب تک زور
وشور سے جاری ہیں.جھوٹی کہانی بنانے والوں کا ادعا
جھوٹی کہانی وضع کرنے والوں نے اس کی چھ سال تک تشہیر کرنے کے بعد اگست
۱۹۷۳ء میں یہ دعا کیا کہ:.(انہوں نے ) ” قادیانی امت کے سیاسی جاہ و جلال کو کرہ ارض سے
مٹانے کا تہیہ کر رکھا ہے اور ایسا ہی ہوگا.یہ اس طرح مٹ جائیں
گے جس طرح آوارہ عصمتیں مٹ جاتی ہیں.“ ۹۸
74
Page 80
/////////
//////////////
خدائے ذوالعرش کا عملی جواب
اس دعوئی پر اگست ۱۹۹۵ ء تک ۲۲ سال ہو چکے ہیں اس عرصہ میں تعلّی کرنے والوں
کی خاک تک اڑ گئی ہے اور خدا نے ان کے دعاوی کی دھجیاں بکھیر کر رکھ دی ہیں.مگر
احمدیت کا قافلہ جس کا آغاز ۲۳ مارچ ۱۸۸۹ء کو صرف چالیس نفوس سے ہوا تھا افق سماء پر
ستاروں کی طرح دنیا بھر میں جگمگا رہا ہے اور اس کی ضیا پاشی سے کروڑ سے زیادہ قلوب و
اذہان بقعہ نور بنے ہوئے ہیں اور ہر طلوع کرنے والا سال اس کی تابانیوں میں حیرت انگیز
اضافے کا موجب بن رہا ہے.چنانچہ اس سال جماعت احمدیہ کے سالانہ جلسہ برطانیہ کے
موقع پر ۳۰ جولائی ۱۹۹۵ء کو جو خوش نصیب افراد جماعت احمدیہ میں شامل ہوئے اور احمد یہ
ٹیلی ویژن انٹر نیشنل کی وساطت سے حضرت امام جماعت احمدیہ کے دست مبارک پر بیعت
سے مشرف ہوئے ان کی تعداد آٹھ لاکھ اکتالیس ہزار تین سو پچھیں ہے.ان نو مبائعین میں
البانیہ کے پنتالیس ہزار افراد بھی شامل ہیں جب سے دنیا بنی ہے ایسا ایمان افروز واقعہ بھی
تاریخ عالم میں رونما نہیں ہوا.برطانوی استعمار کا آفتاب تو ہمیشہ کے لئے غروب ہو گیا لیکن سلسلہ احمدیہ کا سورج
پورے جلال اور تمکنت کے ساتھ پوری دنیا پر چمک رہا ہے اور خدا کی قسم وہ کبھی غروب نہیں
ہوگا.انشاء اللہ.جماعت احمدیہ کے موجودہ امام سید نا حضرت مرزا طاہر احمد صاحب خلیفہ
المسیح الرابع نے جلسہ سالانہ ۱۹۸۲ء پر فرمایا تھا.یہ صدائے فقیرانہ حق آشنا پھیلتی جائے گی شش جہت میں سدا
تیری آواز اے دشمن بدلوا دو قدم دور دو تین پل جائے گی
75
Page 81
//////
اس خبر کے عین مطابق ایم ٹی اے کے ذریعہ کل جہان میں احمدیت کی آواز پوری قوت و
شوکت کے ساتھ گونج رہی ہے اور یہ اس عالمگیر انقلاب کا نقطہ آغاز ہے جس کے نظارے
حضرت بانی جماعت احمدیہ کو جناب الہی کی طرف سے بار بار دکھلائے گئے.چنانچہ آپ
نے بیسویں صدی کے آغاز میں فرمایا :.فليسمع من يكن له اذنان وينفخ فى الصورلا شاعة النور وينادى
الطبائع السليمة للاهتداء فيجتمع فرق الشرق و الغرب و الشمال
والجنوب بامر من حضرة الكبرياء فهناك تستيقظ القلوب
( ترجمہ ) پس سن لے جس کو دوکان دیئے گئے ہیں اور نور کی اشاعت کے لئے صور پھونکا
جائے گا.اور سلیم طبیعتیں ہدایت پانے کے لئے پکاریں گی.اس وقت مشرق اور مغرب
اور شمال اور جنوب کے فرقے خدا کے حکم سے جمع ہو جائیں گے پس اس وقت دل جاگ
اٹھیں گے.اس سلسلہ میں الاشتہار ”مستیقنا بوحى الله القهار“ میں لکھا
دو نئی زمین ہوگی اور نیا آسمان ہوگا.اب وہ دن نزدیک آتے ہیں کہ جو
سچائی کا آفتاب مغرب کی طرف سے چڑھے گا اور یورپ کو سچے خدا کا
پتہ لگے گا اور بعد اس کے تو بہ کا دروازہ بند ہوگا.کیونکہ داخل ہونے
والے بڑے زور سے داخل ہو جائیں گے اور وہی باقی رہ جائیں گے
جن کے دل پر فطرت کے دروازے بند ہیں اور نور سے نہیں بلکہ تاریکی
سے محبت رکھتے ہیں.قریب ہے کہ سب ملتیں ہلاک ہوں گی مگر اسلام.76
Page 82
////////
اور سب حربے ٹوٹ جائیں گے مگر اسلام کا آسمانی حربہ کہ وہ نہ ٹوٹے گا
نہ کند ہو گا جب تک دجالیت کو پاش پاش نہ کر دے.وہ وقت قریب ہے
کہ خدا کی کچی تو حید جس کو بیابانوں کے رہنے والے اور تمام تعلیموں
سے غافل بھی اپنے اندر محسوس کرتے ہیں.ملکوں میں پھیلے گی.اس دن
نہ کوئی مصنوعی کفارہ باقی رہے گا اور نہ کوئی مصنوعی خدا.اور خدا کا ایک
ہی ہاتھ کفر کی سب تدبیروں کو باطل کر دے گا لیکن نہ کسی تلوار سے اور نہ
کسی بندوق سے بلکہ مستعد روحوں کو روشنی عطا کرنے سے اور پاک
دلوں پر ایک نور اتارنے سے تب یہ باتیں جو میں کہتا ہوں سمجھ میں
آئیں گی ، انا
درد دل سے ایک دعوت قوم کو
اس تحقیقی مقالہ کا اختتام حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کے درد بھرے اور مبارک
کلمات پر کیا جاتا ہے.آپ نے ۲۹ دسمبر ۱۹۰۰ء کو جب کہ انیسویں صدی عیسوی ختم
ہونے کو تھی.”درد دل سے ایک دعوت قوم کو“ کے زیر عنوان اشتہار شائع فرمایا جس
میں تحریر فرمایا.دیکھوصد با دانشمند آدمی آپ لوگوں کی جماعت میں سے نکل کر ہماری
جماعت میں ملتے جاتے ہیں.آسمان پر ایک شور برپا ہے اور فرشتے
پاک دلوں
کو کھینچ کر اس طرف لا رہے ہیں.اب اس آسمانی کارروائی
کو کیا انسان روک سکتا ہے بھلا اگر کچھ طاقت ہے تو روکو.وہ تمام مکر
77
Page 83
///
وفریب جو نبیوں کے مخالف کرتے رہے ہیں وہ سب کرو اور کوئی تدبیر
اٹھا نہ رکھو.ناخنوں تک زور لگا ؤ.اتنی بد دعا ئیں کرو کہ موت تک پہنچ
جاؤ.پھر دیکھو کہ کیا بگاڑ سکتے ہو خدا کے آسمانی نشان بارش کی طرح برس
رہے ہیں مگر بد قسمت انسان دور سے اعتراض کرتے ہیں.جن دلوں پر
مہریں ہیں ان کا ہم کیا علاج کریں.اے خدا! تو اس امت پر رحم کر.آمین ، ۱۰۲
نیز فرمایا:.66
دنیا مجھ کونہیں پہچانتی لیکن وہ مجھے جانتا ہے جس نے مجھے بھیجا ہے.یہ ان
لوگوں کی غلطی ہے اور سراسر بدقسمتی ہے کہ میری تباہی چاہتے ہیں.میں وہ
درخت ہوں جس کو مالک حقیقی نے اپنے ہاتھ سے لگایا ہے اے
لوگو! تم یقینا سمجھ لو کہ میرے ساتھ وہ ہاتھ ہے جو اخیر وقت تک مجھ سے وفا
کرے گا.اگر تمہارے مرد اور تمہاری عورتیں اور تمہارے جوان اور
تمہارے بوڑھے اور تمہارے چھوٹے اور تمہارے بڑے سب مل کر
میرے ہلاک کرنے کے لئے دعائیں کریں یہاں تک کہ سجدے کرتے
کرتے ناک گل جائیں اور ہاتھ شل ہو جائیں تب بھی خدا ہر گز تمہاری دعا
نہیں سنے گا.اور نہیں رکے گا جب تک وہ اپنے کام کو پورا نہ کر لے.اور
اگر انسانوں میں سے ایک بھی میرے ساتھ نہ ہو تو خدا کے فرشتے میرے
ساتھ ہوں گے اور اگر تم گواہی کو چھپاؤ تو قریب ہے کہ پتھر میرے لئے
گواہی دیں.پس اپنی جانوں پر ظلم مت کرو کا ذبوں کے اور مونہہ ہوتے
78
لله
Page 84
ہیں اور صادقوں کے اور جس طرح خدا نے پہلے مامورین اور
مکذبین میں آخر ایک دن فیصلہ کر دیا اسی طرح وہ اس وقت بھی فیصلہ
کرے گا.خدا کے مامورین کے آنے کے لئے بھی ایک موسم ہوتے ہیں
اور پھر جانے کے لئے بھی ایک موسم.پس یقیناً سمجھو کہ میں نہ بے موسم
آیا ہوں اور نہ بے موسم جاؤں گا.خدا سے مت لڑو یہ تمہارا کام نہیں کہ
66
مجھے تباہ کر دو ، ۱۰۳
و آخر دعوانا ان الحمد لله رب العالمين
7777
79
الا
Page 85
/////////////
حواشی
- مرثیه گنگوہی صاحب تحریر کرده مولوی محمود الحسن صاحب ناشر مکتبہ قاسمیہ لا ہور./////////
۲.فتاوی رشید یہ کامل مبوب صفحه ۴۶۰ از مولوی رشید احمد صاحب گنگوہی ناشر محمد سعید اینڈ سنز مقابل
مولوی مسافرخانہ کراچی.نقش حیات صفحه ۶۲۵ مولفه مولوی حسین احمد صاحب مدنی ناشر دار الاشاعت کراچی.ماہنامہ ترجمان القرآن مئی ۱۹۵۸ء صفحه ۵۴ رسالہ رسائل و مسائل حصہ چہارم میں اس حوالہ
سے متعلق پورا مضمون ہی شامل نہیں کیا گیا )
۵.ملاحظہ ہو (i) اخبار آزاد لا ہور 11 ستمبر 1952 ء سرورق.(ii) سرورق رسالہ ” عبرتناک
موت“ شائع کرده فرزند توحید کراچی - مکتبہ رد مرزائیت آدم مارکیٹ بند روڈ کراچی
(iii) QADIANI MOVEMENT
BY
M.E
PROFEESSOR
BURNEY
نا شرکی پبلیکیشنز.100 برک فیلڈ روڈ ڈر بن جنوبی افریقہ.اکتوبر 1955ء(iv) رسالہ چٹان
لاہور 11 مارچ 1969 ، صفحہ 2(۷) رسالہ ختم نبوت کراچی 30-24 مارچ ۱۹۸۷ء جلد ۵ شماره
۴ سرورق.(vi) اشتہار انگریزی نبوت کا صد سالہ جشن منجانب ” انجمن تحفظ نظریہ پاکستان“.(vii) رسالہ ” قومی ڈائجسٹ لاہور جلد ۵ شماره ۴۱ سرورق جولائی ۱۹۸۴ء (viii) ٹو.ان.ون
از سید عبدالحفیظ شاہ.سرورق ناشر بیت المکرم گجو ضلع ٹھٹھہ سندھ.مارچ ۱۹۸۹ء..یہ خطاب ابتداء میں شورش کا شمیری صاحب ایڈیٹر چٹان اور لال حسین صاحب اختر کو دیا گیا
( رساله لولاک لائل پور ۲۷ ستمبر ۱۹۶۸ء صفحه ۲۱٬۶ / جون ۱۹۷۳ء صفحه ۸)
80
Page 86
.تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو کتاب دیوبندی مذہب کا علمی محاسبه از مولوی غلام مہر علی صاحبہ
گولڑوی صفحه ۲۳۸۶۰-۲۵۲ ناشر کتب خانہ مہر یہ چشتیاں ضلع بہاولنگر.جولائی ۱۹۵۶ء.قبل ازیں ۱۳۸۶ھ بمطابق ۱۹۸۷ء کی روداد میں اس کا ذکر اشارہ کر دیا گیا تھا..اس تحریری موقف میں یہ مبینہ حوالہ جمعیۃ علماء اسلام سرگودھا کے پمفلٹ کی بجائے عجمی اسرائیل
کے حوالہ سے درج ہوا ہے جس سے اس قیاس کو تقویت ملتی ہے کہ اس کی دریافت کا سہرا جناب
شورش صاحب کے سر ہے.ا.اسباب بغاوت ہند صفحہ ۱۰۶.ناشرار دواکیڈمی سندھ مشن روڈ کراچی ۱۹۵۷ء.لا.داستان غدر صفحہ ۷۹.مصنفہ راقم الدولہ سید ظہیر الدین ظہیر دہلوی ناشر اکادمی پنجاب ادبی دنیا
منزل لا ہور جون ۱۹۵۵ء.۱۲.ایضا صفحہ ۱۰۸.۱۰۹.۱۳.بہادر شاہ کا مقدمہ صفحہ ۱۶۱.مولفه خواجہ حسن نظامی دہلوی اشاعت جولائی ۱۹۲۰ء.یہ کتاب
الفیصل اردو بازارلا ہور نے اپریل ۱۹۹۰ء میں دوبارہ شائع کی ہے.۱۴.ایضا مقدمہ بہادر شاہ ظفر ۹۶-۹۷-
۱۵.اسباب بغاوت ہند صفحہ ۱۰۷.۱۶.مولوی محمد ایوب صاحب قادری نے لکھا ہے کہ ۲۲ مئی ۱۸۵۷ء کو نماز جمعہ کے بعد مولا نا محمد
احسن صاحب ( نانوتوی) نے بریلی کی مسجد نو محلہ میں مسلمانوں کے سامنے ایک تقریر کی اور اس میں
بتایا کہ حکومت سے بغاوت کرنا خلاف قانون ہے.( مولا نا محمد احسن نانوتوی صفحه ۴۹ ناشر مکتبه
عثانیہ پیر الہی بخش کالونی کراچی نمبر ۵ مطبوعہ ۱۹۶۶ء)
کا.حاجی امداداللہ کی مراد ہیں.81
Page 87
////////
۱۸.تذکرۃ الرشید ص ۷۳ ۷۹ ( مولفہ الحاج محمد عاشق الہی صاحب ناشر مکتبہ عاشقیہ میرٹھ طبع دوم )
ان تاریخی حقائق کے برعکس "مجلس تحفظ ختم نبوت کے رہنماؤں کی غدر ۱۸۵۷ء کے تعلق میں ان
بزرگوں کی قلمی تصویر ملاحظہ ہو.لکھا ہے ” ۱۸۵۷ء کا معرکہ کارزار گرم ہوا.فکر ولی اللہ کے عملی
وارث علماء دیوبند کے موسس اعلیٰ قطب الاقطاب حضرت حاجی امداد اللہ صاحب، حضرت مولانا
قاسم نانوتوی اور حضرت مولانا گنگوہی کی قیادت میں مسلمانان ہند نے انگریز کے توپ و تفنگ کا
مقابلہ کیا اور اکثر بزرگوں نے جام شہادت نوش کیا رو داد مجلس تحفظ ختم نبوت پاکستان ۱۳۹۹ھ.۱۹۷۹ء.صفحہج.طالع و ناشر شعبہ نشر و اشاعت مجلس تحفظ ختم نبوت پاکستان ).۱۹.مولا نا محمد احسن نانوتوی صفحه ۲۱۷ مولفه محمد ایوب صاحب قادری ایم اے ناشر مکتبہ عثمانیہ کہ
١٩٦٦ء.۲۰ - صفحہ ۷۶.ناشر المكتبه العصریۃ جامع اہل حدیث سانگلہ ہل.۲۱- ترجمان وہابیہ صفحه ۵۴ - ۵۵ تصنیف نواب صدیق حسن خان صاحب مطبع محمدی لا ہو ر ۱۳۱۲ ھ.۲۲ نقش حیات جلد دوم صفحه ۶۳۱ از مولوی سید حسین احمد صاحب مدنی ناشر دار الاشاعت مقابل
مولوی مسافرخانہ کراچی.۲۳.تاریخ سلطنت خدا داد (میسور ) صفحه ۳۸۲ - تالیف محمود خان محمود بنگلوری پبلیشر ز یونائیٹڈ
لاہور بار چہارم ۱۹۴۷ء.۲۴.اردو جامع انسائیکلو پیڈیا جلد ۲ صفحہ ۱۶۶۶ مدیر اعلیٰ مولانا حامد علی خان ناشر شیخ غلام علی اینڈ سنز
لاہور ۱۹۸۸ء.۲۶-۲۵.تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو.The Punjab Chiefs Vol.1-2 By: Sir Lepel II griffin, k.c.s.i,
82
Page 88
/////////////////////////
//////////
colonel charles francis massy, Printed At The Civil and Military
Gazette-Press 1909.یادگار در بار تاجپوشی ۱۹۱۱ ء حصہ اول و دوم مولفه منشی دین محمد صاحب ایڈیٹر میونسپل گزٹ
لاہور.مطبوعہ یادگار پریس لاہور.۲۷ - جلد ۲ صفحہ ۴۰.۲۸.جاگیر حضرت مرزا گل محمد صاحب کو نہیں خاندان کے مورث اعلی حضرت مرزا ہادی بیگ
صاحب کو با بر بادشاہ کے عہد میں دی گئی تھی.( ناقل )
۲۹.حیات احمد جلد اصفحہ ۴۵.مرتبہ حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی مطبوعہ نومبر ۱۹۲۸ء.۳۰.بہاولپور کی سیاسی تاریخ صفحہ ۲۷ از مسعود حسن شہاب - ناشر مکتبہ الہام بہاولپور.طبع اول
۱۹۷۷ء.۳۱.یادگار در بار تاجپوشی جلد اول صفحه ۲۴۹.۳۲.یادگار تاجپوشی حصہ دوم صفحہ ۶۶۵ -
۳۳.جلد اول صفحہ ۱.مرتبہ ایڈیٹر سالار بمبئی مطبوعہ اعظم اسٹیم پر لیس حیدر آباد دکن دسمبر ۱۹۳۶ء.۳۴
Edited By: Clarence L.Barnhart, Vol.2, P2085.New York
1954.ایضًا انسائیکلو پیڈیا برٹینیکا جلد ۱۳ صفحہ ۹۴۵ - ۹۴۶ گیارہواں ایڈیشن.مطبوعہ یونیورسٹی پریس
کیمبرج ۱۹۱۰ ء.۳۵ - کتاب انڈین مسلمان ( The Indian Musalmans ) طبع دوم صفحه ۲۱۷ تا ۲۱۹ -
83
Page 89
//// /////
۳۶.اردو جامع انسائیکلو پیڈیا جلد ۲ صفحہ ۱۷۹.انسائیکلو پیڈیا برٹینیکا جلد ۲۳ صفحه ۳۹۵ مطبوعہ
انگلستان ۱۹۵۱ء.۳۷.مولانا محمد احسن نانوتوی صفحه ۲۳۲.مولفه محمد ایوب صاحب قادری ایم.اے ناشر مکتبہ عثمانیہ
کراچی نمبر ۵ طبع اول ۱۹۶۶ء.۳۸.تحذیر الناس صفحه ۳۳ مطبوعہ خیر خواہ سرکار پر لیں سہارنپور.۳۹.ایضاً صفحہ ۲۸..تاریخ ہند عہد برطانیہ صفحہ ۶۵۵.مولفہ ہے.سی.مارشیمن اسکوائری.ایس.آئی.مترجم منشی
فاضل حکیم سید محمد عبد السلام صاحب ایم.اے ( علیگ ) دار الطبع جامعہ عثمانیہ سرکار عالی حیدرآباد
دکن ۱۹۲۳ء.دبد به امیری صفحہ ۲۱۸ متر جم سید محمدحسن بلگرامی.مطبوعہ مطبع سخسی آگرہ طبع دوم ۱۹۰۹ء.۲۲.ہندی مملکت برطانیہ کا عروج اور وسعت صفحہ ۳۶۹.مترجم مولوی سید محمد عبد السلام صاحب
ایم.اے ایچ.پی دار الطبع جامعہ عثمانیہ سر کار عالی حیدر آباد دکن ۱۹۲۲ء.۴۳.(ترجمہ)The Mission By: Clark London صفحه ۲۳۴.مطبوعہ ۱۹۰۴ء.بحوالہ انگریز اور بانی سلسلہ احمدیہ مولفہ مولانا عبدالرحیم صاحب درد.۴۴.فرنگیوں کا جال صفحه ۴۳۱ - ۴۳۲ طبع دوم از مولا نا امداد صابری صاحب کتاب کا یہ نسخہ انڈیا
آفس لائبریری میں موجود ہے.جسے مولف نے خود مطالعہ کیا ہے.۲۵.علماء حق اور ان کے مجاہدانہ کا رنا ہے.صفحہ ۲۶ مولفہ سید محمد میاں صاحب ناظم جمیعت
علماء ہند.ناشر مقصود احمد جالندھری.مکتبہ شیخ الاسلام لغاری روڈ رحیم یار خان ستمبر
١٩٤٦ء.84
Page 90
The official Report of The Missionary Conference Of The
Anglican Commision 1894, _ P.64.۴۷.دیباچه صفحه ۳۰ بر ترجمه مولوی اشرف علی صاحب تھانوی مطبوعہ دہلی.بحواله بدر ۱۸ جون ۱۹۰۸ء صفحه ۲-۳ ایضاً اخبار ملت لاہورے جنوری ۱۹۱۱ء صفحه ۱۳ تا ۱۵ بحواله
اخبار الحکم جلد ۱۵ نمبرا.۴۹.قادیانیت کے خلاف قلمی جہاد کی سرگزشت صفحه ۴۲٬۳۰٬۱۲٬۱۰ از اللہ وسایا نا شر عالمی مجلس تحفظ
ختم نبوت ملتان جولائی ۱۹۹۰ء.۵۰.اشاعت سوم اکتوبر ۱۹۷۴ء.۵۱.یادر ہے یہ جماعت احمدیہ کے قیام سے دو سال قبل کا واقعہ ہے.۵۲.قبل ازیں کینیڈا کے گورنر جنرل تھے ۱۸۸۴ء سے ۱۸۸۸ء تک وائسرائے ہند رہے بعد
ازاں اٹلی اور بعض دوسرے ممالک کے سفیر کے فرائض انجام دیئے.۵۳.ولادت ۱۸۳۲ء وفات ۱۸۹۶ ء لاہور کا ایچی سن کالج انہی کا یادگار ہے.۱۸۸۲ء سے
۱۸۸۷ء تک لیفٹیننٹ گورنر پنجاب کے عہدہ پر رہے.آپ کی کوشش سے سرکاری کاغذات میں
وھابیوں کو اہل حدیث لکھا جانے لگا اور دل آزار لفظ ”وھابی کے استعمال سے ممانعت کی گئی
(رسالہ اشاعۃ السنہ “ لاہور جلد ۷ صفحہ ۲۰۸ تا ۲۰۹)
۵۴.رسالہ اشاعۃ السنہ جلد ۹ نمبرے صفحہ ۲۰۴ تا ۲۰۹ ایڈیٹر مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی.۵۵- کلیات اکبر حصہ اول صفحہ ۷۴ ۷۵ مرتبہ محمد یونس حسرت ایم اے از مطبوعات شیخ غلام علی اینڈ
سنز.85
Page 91
////// ۵۶- رساله الاقتصاد فی مسائل الجہاد حصّہ اوّل مؤلفہ محمد حسین بٹالوی صفحه ۴۹ مطبع وکٹوریہ پریس
۵۷.ہندوستان کی پہلی اسلامی تحریک صفحه ۲۹ - تالیف مسعود عالم صاحب ندوی ناشر مکتبہ نشاة ثانیہ
حیدر آباد دکن.۵۸.واقعات دار الحکومت دہلی.حصہ اول صفحہ ۷۸۱.مصنفہ بشیر الدین احمد دہلوی مطبع تشسی مشین
پرلیس آگرہ ۱۹۱۹ء.۵۹ ناشر آئینہ ادب چوک مینار انارکلی لاہور.۲۰.ایضاً سرود رفته مرتبه مولانا غلام رسول صاحب مہر و صادق علی صاحب دلاوری صفحه ۱۸۱ تا ۱۹۱
نا شر شیخ غلام علی اینڈ سنز.ا.لکھا ہے ” مرزا صاحب نے زبانی و الہامی سند کے مفروضے پر جہاد کو منسوخ
کر ڈالا ( قادیانیت کا سیاسی تجزیه صفحه ۱۳ از طارق محمود صاحب ایڈیٹر ہفت روزہ لولاک ناشر شعبہ
نشر واشاعت عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت شاہ کوٹ.۶۲- کشتی نوح صفحہ ۲۳ طبع اول..ملفوظات جلد ۸ صفحه ۲۴۵ ناشر الشركة الاسلامیہ ربوہ جون ۱۹۶۵ء.۶۴.آئینہ کمالات اسلام صفحہ ۷ ۲۵ حاشیہ مطبوعہ فروری ۱۸۹۳ء.۶۵.بخاری صفحہ ۴۹.باب نزول عیسلی صلی اللہ علیہ وسلم مطبوعہ مطبع ہاشمی میرٹھ ۱۳۲۸ھ.-۶- حقیقت المهدی صفحہ ۲۸.۲۸ - ضمیمہ تحفہ گولڑویہ صفحہ ۳۰.۳۱ طبع اول
۶۹.مکتوب حضرت مسیح موعود بنام میر ناصر نواب صاحب مندرجہ رساله در و دشریف صفحه ۲۶.ضمیمہ تحفہ گولڑویہ صفحہ ۲۶ مطبوعہ ۱۹۰۲ء.968
Page 92
/////////
////////////
اے.مجموعہ اشتہارات جلد سوم صفحہ ۱۹.۲.اشاعۃ السنہ جلد ۶ انمبر ۶ حاشیه صفحه ۱۶۸ ۱۸۹۳ء.ے تازیانہ عبرت مولفہ مولوی محمد کرم الدین صاحب دبیر صفحه ۹۳-۹۴ مطبوعہ مسلم پرنٹنگ ”
پریس لاہور طبع دوم.۴ ہے.یادر ہے کہ حضرت اقدس علیہ السلام نے ۲۴ فروری ۱۸۹۸ء کو لیفٹیننٹ گورنر پنجاب
کے نام جو میموریل شائع کیا اس میں اپنے والد ماجد اور بڑے بھائی کے لئے جنہوں نے ہنگامہ
غدر میں مدددی خود کاشتہ کا لفظ استعمال فرمایا ہے نہ کہ اپنے دعوی کے متعلق.پس جو لوگ اپنی
مطلب براری کے لئے اس کو نئے معنی پہناتے ہیں انہیں عوام کو فریب دیتے ہوئے شرم آنی
چاہئے.Black Hole-
کے.اردو جامع انسائیکلو پیڈیا جلد اول صفحہ ۲۵۹٬۲۵۸ مدیر اعلیٰ مولانا حامد علی خان ناشر غلام علی اینڈ
سنز ۱۹۸۷ ء فیروز سنزار دو انسائیکلو پیڈیا صفحه ۲۲۹ ناشر فیروز سنز لاہور طبع سوم طباعت دوم جولائی
۱۹۷۹ء.ے.قادیانیت کا سیاسی تجزیہ صفحہ ۱ از صاحبزادہ طارق محمود.ایڈیٹر ہفت روزہ لولاک فیصل آباد.ناشر شعبہ نشر واشاعت عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت.۷۸.خاتم النبین جلد اول صفحہ ۴۸ - مولفہ مصباح الدین صاحب ای بلاک نمبر ۰۴ اسیٹیلائیٹ ٹاؤن
راولپنڈی.تاریخ تالیف اکتوبر ۱۹۷۳ء نظر ثانی اپریل ۱۹۷۴ء.۷۹.ایضاً ” خاتم النہین حصہ اول صفحہ ۴۸ - ۴۹.۱۰.ناشر نشر واشاعت مجلس تحفظ ختم نبوت پاکستان ملتان شہر.87
Page 93
۵۱.قادیانیت کا سیاسی تجزیہ صفحہ ۱۲.۱۲ مدلل تقریر ص ۵۶ - ۵۷ مولفہ الحاج میاں محمد شوکت علی چشتی نظامی ناشر شعبہ نشر و اشاعت
مرکزی جماعت رضائے غریب نواز فیصل آباد.۱۳.نجد سے قادیان براستہ دیو بند صفحه ۶۲ از مولوی محمد ضیاء اللہ صاحب قادری.ناشر قادری
کتب خانہ سیالکوٹ.۵۴ ” بھٹو اور قادیانی مسئله صفحه ۴۳-۴۲ از سید محمد سلطان شاه صاحب اشاعت اول اگست
۱۹۹۳ء ناشر میر شکیل الرحمن.جنگ پبلشرز لا ہور.۸۵.” بوئے گل نالہ دل دود چراغ محفل ، صفحہ ۱۷۱ مولفہ شورش کاشمیری.مطبوعات چٹان لاہور
طبع اول جولائی ۱۹۷۲ء.بھٹو اور قادیانی مسئلہ صفحہ ۴۲ ۴۳
۸۷.علامہ نے ۲۵ ستمبر ۱۹۲۹ء کو وفات پائی.علامہ اقبال نے مادہ تاریخ نکالا.”ما ارسلنک
الا رحمة للعالمین “.۳۴۷ ھ ( ذکر اقبال صفحه ۲۸۹ از مولانا عبدالمجید سالک.ناشر بزم
اقبال لاہور طبع دوم مئی ۱۹۸۳ء.حیات النبی جلد اول صفحه ۲۰ از شیخ یعقوب علی تراب ایڈیٹر الحکم مطبوعہ ہند وستان سٹیم پریس
لا ہور ستمبر ۱۹۱۵ء.۸۹.اشاعت خاص ۲۷ مئی ۱۹۹۵ء صفحہ ۲.۹.قادیانیت کا سیاسی تجزیہ صفحہ ۱۳.۹۱ از مطبوعات چٹان میکلوڈ روڈ لاہور.۹۲.بالفاظ جناب شورش صاحب کشمیری.88
Page 94
۹۳.بھٹو اور قادیانی مسئله صفحه ۴۱ - ۱۴۲ از سید محمد سلطان شاہ صاحب ناشر جنگ پبلیشر ز -
The New Caxton Encyclopedia Vol.4, P.1036-1037, The Caxton
Publishing Company Ltd.London, 1977.۹۵- " نظر یہ انتظار مهدی صفحه ۱۳ ۱۴ ناشر ندیم بک ہاؤس انار کلی لاہور کتاب کا دیباچہ ڈاکٹر
اسرار احمد امیر تنظیم اسلامی پاکستان کے قلم سے ہے اور نظر ثانی کرنے والے ”مولانا‘ جناب عبد
الرشید صاحب ترابی ہیں.۹۶ - مقدمه صحیح مسلم باب في الضعفاء والكذابين و من يرغب عن حديث صفر ۳۰ ناشر
خالد احسان پبلشرز لا ہورا پریل ۱۹۸۱ء.۹۷.کلام نبوی کے علاوہ حدیث کے یہ لغوی معنے بھی مسلم ہیں ( معجم الاعظم جز ثانی ۵۶۲ از مولانا
حسن الاعظم از هری).چٹان ۲۷ اگست ۱۹۷۳ء صفحہ ۴.99 الفضل ۳۱ جولائی و یکم اگست ۱۹۹۵ء صفحہ ا.ا خطبہ الہامیہ بحوالہ روحانی خزائن جلد ۶ صفحه ۲۸۵ - ۶ ۲۸ ( تالیف ۱۹۰۰ دا ۱۹۰ء) ۲۸۵.۲۸۶
اما مجموعہ اشتہارات حضرت مسیح موعود علیہ السلام جلد دوم صفحه ۳۰۴ - ۳۰۵ اشتہار ۱۴ جنوری
۱۸۹۷ء.۱۰۲.ضمیمه اربعین نمبر ۳ ۴ طبع اول صفحه ۷ (۲۹ دسمبر ۱۹۰۰ء)
۱۰۳.اربعین نمبر ۳ صفحه ۱۴.۱۵ طبع اول.89